الہدیٰ
حضرت ابراہیم ؑ کی ذریت
آیت 26 {فَاٰمَنَ لَہٗ لُوْطٌ م} ’’تو لوطؑ اُس (ابراہیم ؑ) پر ایمان لایا۔‘‘
{وَقَالَ اِنِّیْ مُہَاجِرٌ اِلٰی رَبِّیْ ط اِنَّہٗ ہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ(26)} ’’اور ابراہیم ؑ نے کہا کہ مَیں اپنے رب کی طرف ہجرت کر رہا ہوں۔ یقیناً وہ زبردست ہے ‘کمال حکمت والا۔‘‘
حضرت لوط ؑ حضرت ابراہیم ؑ کے بھتیجے تھے۔ حضرت ابراہیم ؑعراق کو چھوڑ کر شام کی طرف ہجرت کر گئے۔ آپؑ کے پیچھے آپؑ کی قوم کے ساتھ کیا معاملہ ہوا ؟ اس بارے میں قرآن سے ہمیں کوئی اشارہ نہیں ملتا۔ واللہ اعلم!
آیت 27 {وَوَہَبْنَا لَہٗٓ اِسْحٰقَ وَیَعْقُوْبَ} ’’ اور ہم نے اُسے اسحاق ؑ (جیسا بیٹا) اور یعقوبؑ (جیسا پوتا) عطا کیا‘‘
{وَجَعَلْنَا فِیْ ذُرِّیَّتِہِ النُّبُوَّۃَ وَالْکِتٰبَ} ’’اور اُس کی نسل میں ہم نے رکھ دی نبوت اور کتاب‘‘
نبوت اور کتاب کی یہ وراثت ایک طویل عرصے تک حضرت اسحاق ؑ کی نسل میں رہی اور پھر آخری نبوت اور آخری کتاب کی سعادت حضرت اسماعیل dکی اولاد کے حصّے میں آئی۔ حضرت ابراہیمdکے بعد دنیا میںکوئی نبی یا رسول آپؑ کی نسل سے باہر نہیں آیا۔ لیکن آپؑ کی نسل دنیا میں کہاں کہاں پھیلی؟ اس بارے میں ہمیں قطعی معلومات حاصل نہیں ہیں۔
{وَاٰتَیْنٰہُ اَجْرَہٗ فِی الدُّنْیَاج وَاِنَّہٗ فِی الْاٰخِرَۃِ لَمِنَ الصّٰلِحِیْنَ(27)} ’’اور ہم نے اسے دنیا میں بھی اس کا اجر عطا کیا‘ اور آخرت میں بھی وہ یقیناً ہمارے نیک بندوں میں سے ہوگا۔‘‘
درس حدیث
ہاتھ کی (حلال و طیب)کمائی سے بہتر کوئی کمائی نہیں!
عَنْ المِقْدَامِ ؓ عَنْ رَسُولِ اللّٰهِ ﷺقَالَ:(( مَا أَكَلَ أَحَدٌ طَعَامًا قَطُّ خَيْرًا مِنْ أَنْ يَأْكُلَ مِنْ عَمَلِ يَدِهِ وَإِنَّ نَبِيَّ اللَّهِ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَام كَانَ يَأْكُلُ مِنْ عَمَلِ يَدِهِ))(صحیح بخاری)
حضرت مقدام ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’کسی شخص نے اپنے ہاتھ کی(حلال وطیب) کمائی سے زیادہ پاک کھانا نہیں کھایا اور اللہ تعالیٰ کے نبی حضرت داود ؑ بھی اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھایا کرتے تھے۔ ‘‘
تشریح:اس حدیث سے واضح ہے کہ بہترین پاکیزہ کسب وہ ہے جس میں اپنے ہاتھ کو دخل زیادہ ہو۔حضرت داود ؑ بھی اپنے ہاتھ کی کمائی کھایا کرتے تھے۔ آپؑ ایک کاریگر تھے اور بہت اچھی زرہیں اور دیگر جنگی آلات بنانے کا فن جانتے تھے۔ باقی انبیاء کرام f بھی تجارت، کاریگری، کھیتی باڑی اور مویشیوں کو چرانے جیسے کام کر کے اپنے ہاتھ سے کما کر کھاتے تھے۔ اس لیے ہمیں بھی رزقِ حلال وطیب کے لیے محنت کرنی چاہیےتاکہ لوگوں کے سامنے دستِ سوال دراز کرنے سے اپنے آپ کو بچا سکیں۔