(اداریہ) یہود اورمشرکین کا گٹھ جوڑ: نشانہ پاکستان! - رضا ء الحق

11 /

اداریہ

رضاء الحق

یہود اورمشرکین کا گٹھ جوڑ: نشانہ پاکستان!


اگرچہ خیر و شر کی قوتوں کی باہمی کشاکش اُس وقت سے جاری ہے جب عزازیل نامی جن نے اللہ تبارک و تعالیٰ کے حکم کو ماننے سے صاف انکار کر دیا اور حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے اور ان کی خلافت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ۔ حسد اور تکبر میں وہ اس بری طرح جل رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کرنے کی بجائے حجتیں اور عبث دلائل پیش کرنے لگا، جس کے باعث ابلیس ’’لعین‘‘ قرار پایا۔ بنی اسرائیل کے انحطاطی دور میںوہ اسے ایک منظم گروہ کی صورت میں دست و بازو کے طور پر میسر آ گئے۔ بنی اسرائیل اللہ تعالیٰ کی چہیتی قوم رہی ہے اور خود قرآن پاک اس بات پر گواہ ہے کہ انہیں تمام جہان والوں پر فضیلت دی گئی تھی ( سورۃ البقرۃ: 47، 286، سورۃ الدخان:24) ۔ لیکن ان کی نافرمانیاں بڑھتی ہی چلی گئیں۔سورۃ البقرہ کے تقریباً 10 رکوع بنی اسرائیل یعنی یہود کے اُسی دور سے متعلق ہیں اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہود پر ایک ضخیم فرد جرم عائد کی ہے۔ سورۃ بنی اسرائیل کےپہلے رکوع میں بھی یہودکے ایسے ہی کالے کرتوتوں کے باعث اللہ تعالیٰ کی طرف سے پوری قوم پر دو مرتبہ اجتماعی عذاب کا تذکرہ ہے، جس میں گیہوں کے ساتھ بہت سارا گھن بھی پس گیا ۔(سورۃ بنی اسرائیل: 4-7) پھر یہ کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کے خلاف بغاوت کی روش اختیارکر نا اور ہر معاملے میں اپنے فرضِ منصبی کو ادا کرنے میں لیت و لعل سے کام لینا اُن کا وطیرہ بن گیا۔ یہاں تک کہ جب حضرت مسیح علیہ السلام کو بنی اسرائیل میں مبعوث فرمایا گیا تو نہ صرف یہ کہ یہود اُن کے خلاف ڈٹ گئے بلکہ اللہ کے برگزیدہ رسول علیہ السلام کی اہانت کی، ان کو ولد الزنا قرار دیا ( معاذ اللہ ثم معاذ اللہ)، انہیں دین کا باغی کہا اور اپنے بس پڑتے انہیں سولی پر چڑھا دیا۔ یہ دوسری بات ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے انہیں زندہ جسم اور روح سمیت (پورا، پورا) آسمانوں پر اٹھا لیا۔ یہود کو اُن کی اِس سازش کی سزا یہ ملی کہ 70ء عیسوی میں رومی جرنیل ٹائٹس نے یروشلم پر حملہ کر کے اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور یہودی جہاں اُن کے سینگ سمائے بھاگ کھڑے ہوئے۔ اسے وہ اپنے منتشر ہونے (diaspora) کا دور قرار دیتے ہیں۔ اس وقت سے لے کر آج تک بیت المقدس اور حضرت سلیمان علیہ السلام کا قائم کردہ سیکنڈ ٹیمپل (مسجد) کی صرف ایک دیوار باقی ہے(دیوارِ گریہ) ۔ یہودیوں کی دیرینہ خواہش ہے کہ اب تھرڈ ٹیمپل تعمیر کریں۔ کیونکہ انہوں نے حقیقی مسیح علیہ السلام کوتو سرے سے ما ننے سے ہی انکار کر دیا تھا لہٰذا ان کے نزدیک یہ ’’سیٹ‘‘(seat) ابھی خالی ہے۔ وہ ٹیمپل ماؤنٹ پر موجود تمام آثار کو مٹا کر اور مسجد اقصیٰ ور قبۃ الصخرہ کو شہید کر کے تھرڈ ٹیمپل تعمیر کرنا چاہتے ہیں، جہاں اُن کا مسایاح جو حقیقت میں مسیح الدجال ہوگا، کی تاج پوشی کی جائے گی اور پھر وہ پوری دنیا پر حکمرانی کریں گے۔ یہ اُن کا پروگرام ہے البتہ ہو گا وہی جو اللہ تعالیٰ چاہے گا۔ اگرچہ یہود جڑ سے کاٹ دینے والے عذاب کے مستحق ہو چکے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک اور مہلت دی ۔
نبی کریمﷺ کی بعثت کے بعد انہیں ایک اور موقع فراہم کیاگیا کہ اگر ان نبی امّیﷺ پر ایمان لے آئیں تو ان پر سے عذاب ٹل جائے گا۔ لیکن یہود نے شیطان لعین کا راستہ اپنایا اور اپنی الہامی کتابوں میں موجود آخری نبی و رسول محمد ﷺ کی تمام نشانیاں دیکھنے اور پہچاننے کے باوجود حسد و تکبر میں مبتلا ہو کر آپ ﷺکی مخالفت پر کمر کس لی۔ قارئین کے ذہن میں یقیناً یہ سوال آئے گا کہ اس تاریخی پس منظر کو آج کے حالات ،جس میں امریکہ اور بھارت جیسے ملک اسرائیل کے ساتھ مل کر دنیا میں فساد مچا رہے ہیں، کے تناظر میں آخر کیوں پیش کیا جا رہا ہے۔ سمجھنے کی بنیادی بات یہ ہے کہ یہودی گزشتہ ایک صدی سے ایک خالص مذہبی مقصد کے تحت فلسطین پر قابض ہیں، اور اس معاملے میں انہیں فرنگ جس کا امام پہلے برطانیہ تھا اور آج امریکہ ہے، کی مکمل معاونت حاصل رہی ہے۔ پھر یہ کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے قران پاک میں ارشاد فرمایا: لَـتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّـلَّذِيْنَ اٰمَنُوا اليَهُوْدَ وَالَّذِيْنَ اَشْرَكُوْا‌ ۚ (سورۃ المائدۃ : 82)’’تم لازماً پاؤ گے اہل ایمان کے حق میں شدید ترین دشمن یہود کو اور ان کو جو مشرک ہیں۔‘‘ یہ بات اوّلاً تو دورِ نبوی ﷺ پر منطبق ہوتی ہے اور مدینہ میں بسے ہوئے تین یہودی قبائل اپنے شر اور فساد سے مسلمانوں کا نقصان کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ یہی وہ لوگ تھے جو مشرکین کو سبق پڑھا کر نبی کریم ﷺسے سوالات کرواتے اور انہی کی عیارانہ چالوں کا شاخسانہ تھا کہ غزوہ احزاب کے موقع پر نہ صرف مشرکین مکہ بلکہ ارد گرد کے قبائل کو بھی مسلمانوں پر فیصلہ کن ہلہ بولنے پر راضی کر لیا اور خود فاصلے پر بیٹھ کر تماشا دیکھتے رہے۔ بہرحال جب اسلام کو اللہ کی نصرت اور قوت نصیب ہوئی اور اللہ کا حکم بھی آگیا تو نبی کریمﷺ نے یہود کے ان تین قبائل کو پہلے مدینہ سے خیبر اور بعد ازاں خیبر سے بھی نکال باہر کیا۔ لہٰذا یہود کے دلوں میں آج تک مسلمانوں سے بدلہ لینے کی خواہش موجود ہے۔ 1099ء میں جب صلیبی فوجوں نے بیت المقدس کو فتح کر لیا تو اس کے پیچھے بھی یہود کی سازش ہی کارفرما تھی۔ بہرحال اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے کرم فرمایا اور 1187ء میں صلاح الدین ایوبی ؒ نے یورپی صلیبیوں کو فیصلہ کن شکست دے کر بیت المقدس واپس حاصل کر لیا۔پھر 1916ء تک بیت المقدس مسلمانوں کے زیرِ تولیت رہا۔ اس دوران یہود بھی اپنی شر انگیزی اور ریشہ دوانیوں میں مصروف رہے اور پہلے یورپ کے عیسائیوں پر کاری وار کیا، پروٹیسٹنٹ عیسائیت کےذریعے یورپ میں بادشاہت اور پاپائیت کے خلاف انقلاب برپا کروایا، سیکولرازم اور جمہوریت کو فروغ دیا اور دنیا بھر میں سودی نظام کو رائج کر دیا۔سود کی بنیاد پر سرمایہ دارانہ نظام کی بنیارکھی اورآج دنیا بھر میں بنکاری سمیت تمام سودی معیشت مکمل طور پر یہود کے قبضے میں ہے ۔ اس حقیقت کا ادراک علامہ اقبال کو اس وقت ہی ہو چکا تھا جب وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے یورپ میں موجود تھے اور یہ شعر کہہ کر پورے معاملے کو واضح کر دیا :
تری دوا نہ جنیوا میں ہے، نہ لندن میںفرنگ کی رگ جاں پنجۂ یہود میں ہےدوسری طرف تقریباً ایک ہزار سال تک برصغیر میں مسلمانوں کی حکومت رہی اور ہندو اُن کے تابع تھے۔ لیکن جیسے جیسے مغربی دنیا خصوصاً یورپ نے نہ صرف سرمایہ بلکہ ٹیکنالوجی پر بھی قابو پا لیا اور سلطنت عثمانیہ کو بھی سودی قرضوں میں جکڑ لیا تو یہودیوں نے جانا کہ اب لوہا گرم ہے لہٰذا بھرپور چوٹ لگائی جائے۔ 19 ویں صدی کے اواخر میں عالمی صہیونی تنظیم نے سوئٹزرلینڈ کے شہر بیسل (Basel)میں ایک اجلاس طلب کیا جس میں مستقبل کا روڈ میپ ایک کتاب کی صورت میں پیش کیا گیا جو "Protocols of the elders of Zion" صہیونیت کے دانا بزرگوں کی دستاویزات: تسخیر عالم کا یہودی منصوبہ کے نام سے جانی جاتی ہے اور اس کا انگریزی متن و اردو ترجمہ عام دستیاب ہے۔ اسی دوران یہودیوں نےعیسائیوں کے پوپ سے بھی خلاف حقیقت حضرت عیسیd کو اپنے بس پڑھتے سولی چڑھانے کے جرم سے بریت حاصل کر لی اور پوپ نے یہ فیصلہ صادر فرمایا کہ یہ حرکت رومیوں کی اپنی تھی اور اس میں یہود کا کوئی عمل دخل نہ تھا۔
پہلی جنگ عظیم کو برپا کرنے کے دو بنیادی مقاصد تھے۔ ایک تو یہ کہ خلافت جیسی بھی کمزور اور ناتواں ہی سہی، اگر خلیفہ وقت نے جہاد کا اعلان کر دیا تو دنیا کے ہر کونے سے مسلمان اس حکم پر لبیک کہیں گے۔ پھر یہ کہ یہودی اپنی بھرپور کوشش کے باوجود کمزورترین حالت میں بھی عثمانی خلیفہ سے فلسطین میں آباد ہونے کا فیصلہ حاصل کرنے میں ناکام رہے۔چنانچہ پہلی جنگ عظیم برپا کی جس میں خلافتِ عثمانیہ کو شکست ہوئی۔ برطانیہ نے فلسطین پر قبضہ جما لیا اور 1917ء میں برطانوی وزیر خارجہ لارڈ بالفور نے فلسطین میں یہودیوں کی ریاست قائم کرنے کا اعلان کر دیا اور یہودیوں کے سرپرست لارڈ روتھشیلڈ کو یقین دہانی کرائی گئی کہ تاج برطانیہ یہودیوں کو دنیا بھر سے فلسطین میں آباد ہونے کی نہ صرف اجازت دے گا بلکہ معاونت بھی کرے گا۔ مسلمان ایک طرف تو نوآبادیاتی دور کے عذاب سے گزر رہے تھے لہٰذا فلسطینیوں کی مدد کے لیے کوئی عملی قدم نہ اٹھا سکے۔ دوسری طرف خلافت کے خاتمے کے ساتھ ہی نیشن سٹیٹس کا تصور دے دیا گیا اور اس کے بعد سے لے کے آج تک ہر مسلم ملک بس اپنے ہی وطن کی فکر میں مگن ہے۔ گویا 57 مسلم ممالک جن میں دو ارب کے قریب مسلمان بستے ہیں، وہ دوبارہ اُمتِ واحدہ کی شکل اختیار نہ کر سکے۔
المیہ تو یہ ہے کہ مسلم ملک آپس میں لڑتے رہے جب کہ کفر کی دنیا نے ملتِ واحدہ کی شکل اختیار کر لی۔ یورپی یونین ہو یا نیٹو یہ سب اسی کی مثالیں ہیں۔ پھر 14 مئی 1948ء کو ریاست اسرائیل کے قیام کا باقاعدہ اعلان کر دیا گیا۔ فلسطینی آج بھی نکبہ کو یاد کرتے ہیں کہ کیسے ان کا قتل عام کر کے اور ان پر قیامت صغریٰ ڈھا کر صہیونیوں نے فلسطینیوں کے علاقوں پر ناجائز قبضہ جما لیا۔ اگرچہ 1948ء میں عرب ممالک نے اسرائیل کے خلاف بھرپور جنگ لڑی اور وہ خاصی کامیابی بھی حاصل کر رہے تھے کہ نہ جانے کیوں یک دم عربوں کی طرف سے جنگ بندی کا اعلان ہو گیا اور یوں ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل معرض وجود میں آگئی جس کے بارے میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا تھا کہ اسرائیل مغرب کا ناجائز بچہ ہے۔ اسی دوران دوسری جنگ عظیم وقوع پذیر ہوئی جس کے نتیجے میں امریکہ نے برطانیہ کی جگہ فرنگ کے امام کا منصب سنبھالا اور ہرموقع پر یہود اور ریاست اسرائیل کا ساتھ دیا۔
حقیقت یہ ہے کہ یہودیوں نے اس دوران تمام بڑے مغربی ممالک کی معیشت، میڈیا، نظام تعلیم، سیاست اور پالیسی سازی کے تمام اداروں پر قبضہ جما لیا۔ آج بھی امریکی صدر وہی بنتا ہے جس کے حق میں AIPAC سرٹیفکیٹ جاری کرتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ مسلمان ممالک کے حکمران اور مقتدر طبقات وہن کی بیماری کا شکار ہوتے چلے گئے، دنیا کی محبت اور موت سے نفرت یا خوف ان کے اندر سرایت کر گیا۔ پھر یہ ہے کہ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، اقوام متحدہ اور اس کی جنرل اسمبلی، عالمی عدالت انصاف، عالمی فوجداری عدالت الغرض تمام بین الاقوامی ادارے امریکہ کے سامنے پانی بھرتے نظر آتے ہیں اور ان کی حیثیت امریکہ کے غلام یا کنیز سے بڑھ کر نہیں رہی۔
اگر سرسری طور پر بھی جائزہ لیا جائے تو آج اسرائیل اور بھارت میں بڑی مماثلت نظر آتی ہے۔ دونوں میں انتہا پسند مذہبی گروہوں کی حکومت ہے۔ بھارت نے کشمیر پر قبضہ کر کے وہاں ہندو بسانے کا معاملہ اسی طرح کیا ہے جیسے اسرائیل نے دنیا بھر سے یہودی آباد کاروں کو لا کر فلسطینیوں کی سر زمین پر بسایا۔ اسرائیل اپنے توسیعی منصوبے یعنی گریٹر اسرائیل کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے اور مودی بھی اکھنڈ بھارت کے خواب دیکھ رہا ہے۔7 اکتوبر 2023ءکے بعد غزہ پر اسرائیل مسلسل ڈیڑھ سال سے شدید ترین وحشیانہ بمباری کر رہا ہے۔ میڈیا میں بتائے جانے والے اعداد و شمار کے مطابق اس ڈیڑھ برس میں بچوں اور عورتوں سمیت 60 ہزار سے زائد مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا جبکہ ہم سمجھتے ہیں کہ شہدا کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ غزہ کا تقریباً 90 فیصد علاقہ مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔ سکول ہوں یا ہسپتال، عام شہریوں کے گھر ہوں یا پناہ گزین کیمپ حتیٰ کہ اقوام متحدہ کے زیر انتظام چلنے والے اداروں کو بھی ملیہ میٹ کر دیا گیا لیکن امریکہ نے اسرائیل کے خلاف سیکیورٹی کونسل میں پیش ہونے والی ہر قرارداد کو ویٹو کر دیا۔ عالمی عدالت انصاف کا فیصلہ جس نے واشگاف الفاظ میں اسرائیل کو فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی کا مرتکب قرار دیا تھا وہ تو قصہ پارینہ بن چکا ہے۔ امریکہ اور مغربی یورپ نے تو اسرائیل کی مدد کرنی ہی تھی، بھارت کی جانب سے اسلحہ اور فوجیوں کی صورت میں اسرائیل کی باقاعدہ مدد کی گئی اور وہ غزہ کے مسلمانوں کے قتل عام میں شریک ہیں۔ اگر یہود و ہنود کا گٹھ جوڑ آج بھی کسی پر واضح نہیں تو ہم دعا ہی دے سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ دل کی آنکھ بھی کھولے تاکہ اشیاء اپنی اصل حقیقت کے مطابق دکھائی دیں۔
ہمارے نزدیک پہلگام کا واقعہ درحقیقت ایک فالس فلیگ آپریشن تھا، جس کو امریکہ اور اسرائیل کی نہ صرف تائید حاصل تھی بلکہ وہ اس کی منصوبہ بندی میں باقاعدہ شریک رہے۔ مقصد بڑا واضح ہے کہ پاکستان کو مصروف رکھا جائے اور اسے اسرائیل کے آئندہ کے پروگرام کے راستے کی رکاوٹ بننے کے قابل نہ چھوڑا جائے۔ 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ میں فتح کے بعد اسرائیل کے پہلے وزیراعظم بن گوریان نے پیرس میں جشن منایا اور اپنی تقریر میں کہا کہ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہمارا اصل دشمن عرب ممالک نہیں پاکستان ہے۔ اس وقت تو پاکستان کے پاس ایٹمی صلاحیت بھی نہ تھی مگر اسرائیل جانتا ہے کہ پاکستان اسلام کی بنیاد پر قائم ہوا ہے۔ آج نہیں تو کل جب حقیقی ایمان کے حامل افراد ملک کا نظم و نسق سنبھالیں گےتو اسرائیل کے لیے بہت سی مشکلات کھڑی ہو سکتی ہیں۔ پاکستان ایک معجزے کے طور پر رمضان المبارک کی 27 ویں شب کو معرض وجود میں آیا تھا۔ گویا اسرائیل نامی بیماری کے قائم ہونے سے کم و بیش نو ماہ قبل اس کا علاج ’’پاکستان‘‘ کی صورت میں سے خصوصی مشیت ایزدی کے تحت قائم ہو گیا۔ لیکن افسوس کہ ملک کی اشرافیہ اس پر قابض ہو کر بیٹھ گئی اور ابتدائی چند سالوں کے علاوہ جن میں قرارداد مقاصد بھی پاس کی گئی اور تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے 31 جید علماء نے پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے 22 متفقہ نکات بھی پیش کر دئیے تاکہ اتمام حجت ہو جائے۔ لیکن پھر سازشوں کا سلسلہ شروع ہوا ، مارشل لاء لگ گیا اور چند برس بعد ملک دو لخت ہو گیا۔ اشرافیہ جس کا جاگیردار ،سرمایہ دار، سیاستدان، فوجی جرنیل، بیوروکریسی، اور عدلیہ سب حصہ ہیں، نے سبق نہ سیکھا اور آج ملک کی سیاسی ،معاشی اور معاشرتی حالت انتہائی دگرگوں ہے ۔
معیشت کا یہ حال ہے کہ پاکستان کا کل واجب الادا قرضہ بمعہ سود تقریباً 73 کھرب روپے ہے جس میں اندرونی قرض تقریباً 66 فیصد ہے۔ بیرونی قرضہ تقریباً 131 ارب ڈالر ہے اور حکمران و مقتدر حلقے کشکول اٹھائے پوری دنیا میں پھرتے ہیں کہ جو دے اس کا بھلا۔ سیاسی سطح پرقوم بدترین انتشار و افتراق کا شکار ہے۔ لسانیت، صوبائیت، رنگ و نسل کی بنیاد پر تقسیم در تقسیم ہے۔ سیاسی پارٹی بازی میں بھی مرنے مارنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ایک جماعت کا سربراہ دو قومی نظریہ کی صریحاً نفی کرتے ہوئے مشرقی بارڈر کو زمین میں کھینچی ہوئی ایک لکیر سے تشبیہ دیتا ہے تو دوسری سیاسی جماعت کے بانی کے حوالے سے سابق صدر یہ ارشاد فرماتے ہیں کہ ان کی مقبولیت تو بعض انبیاء کرام سے بھی زیادہ ہے (معاذ اللہ ثم معاذ اللہ)۔ ایک تیسری بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سب پر بھاری ہیں اور حالت یہ ہے کہ وعدہ کر کے اسے پورا نہیں کرتے اور فرماتے ہیں کہ یہ کوئی قرآن و حدیث تو نہیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون! اداروں کی یہ حالت ہے کہ جن کے ذمہ ملک کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت ہے وہ سیاست اور کاروبار میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں اور ماضی و حال میں ان کے سربراہان اپنی ہی عوام پر ہتھیار تان کر ُان کے خلاف آپریشن کر کے بدترین ظلم کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ آئین و عدالت کی تو وقعت ہی کوئی نہیں رہ گئی۔ مفقود الخبر افراد کی تعداد بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ پھر یہ کہ اپنے اصل دشمنوں کو پہچاننے اور ان کے مذموم عزائم کے خلاف پیش بندی کرنے کی بجائے 20 سال تک امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی مدد کرتے رہے اور پڑوسی برادر مسلم ملک کے لاکھوں مسلمانوں کے قتل عام میں بالواسطہ اور بلاواسطہ حصہ دار بن گئے۔ اقتدار کے کھیل کو اپنی انگلی کے اشارے سے چلاتے ہیں۔ خصوصاً بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے عوام میں اپنی ساکھ کو مکمل طور پر کھو بیٹھے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ فوجیں عوام کی مدد اور پشت پناہی کے بغیر ملکوں کی بقاء و سلامتی کی ضامن نہیں ہو سکتیں۔ سابق امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے ٹھیک ہی کہا تھا کہ امریکہ کا دشمن تو بچ سکتا ہے اس کا دوست اس کے شر سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔ بھارت نے پہلگام میں ایک ڈراما رچایا جو مشرق وسطیٰ میں اسرائیلی مقاصد کے حصول کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ دشمن چاہتا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی دانت توڑ دئیے جائیں اور اس کا اظہار اسرائیل اور بھارت دونوں کے وزراء اعظم کُھلم کُھلا کر چکے ہیں۔ پہلگام کے ڈرامے پر بھارتی حکومت اور میڈیا کے رد عمل اور اس کے اتحادیوں خصوصاً امریکہ اور اسرائیل کا اس کے پلڑے میں اپنا مکمل وزن ڈال دینا اس بات کا غماز ہے کہ یہ ایک بین الاقوامی سازش کا حصہ ہے ۔یہ وہی سازش ہے جس کے تحت مشرق وسطیٰ میں اسرائیل اپنے مذموم توسیعی منصوبے یعنی گریٹر اسرائیل کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کی طرف گامزن ہے۔ بہرحال اس حوالے سے خوش آئند بات یہ ہے کہ اگرچہ بھارت نے اس ڈرامے کے بعد پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کے علاوہ جو عملی اقدامات کیے ہیں، جن میں یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدہ کو منسوخ کرنے کا اعلان بھی شامل ہے، کے خلاف حکومت پاکستان نے انتہائی چابک دستی کے ساتھ سفارتی مہم چلائی ہے۔ بھارت کی خواہشات کے برعکس اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل نے صرف واقعہ کی مذمت تک محدود ایک قرارداد منظور کی اور کشمیر کو متنازع علاقہ قرار دیا۔ پھر یہ کہ پاکستان نے اپنی فضائی حدود بھارت سے آنے جانے والی ہر قسم کی پروازوں کے لیے بند کر دی ہیں۔ افواج پاکستان نے تمام مشرقی بارڈرز پر تعیناتی مکمل کر لی ہے۔ پاکستان نے بھارت کو شملہ معاہدہ سمیت تمام دو طرفہ معاہدوں کو منسوخ کرنے کی دھمکی بھی دی ہے۔ بحیرہ عرب میں کھڑے بھارتی طیارہ بردار بحری جہاز کو بھی پاکستان نیوی نے پسپا ہونے پر مجبور کر دیا ہے۔ لائن آف کنٹرول پر جھڑپیں جاری ہیں لیکن یہ کوئی نئی بات نہیں۔ پھر یہ ہے کہ چین نے اپنا وزن پاکستان کے پلڑے میں ڈال دیا ہے اور پاکستان کو پی ایل- 15 میزائل فراہم کیے ہیں تاکہ بھارت کے رفائیل جنگی طیاروں کا مقابلہ ممکن ہو۔یہ سب خوش آئند باتیں ہیںالبتہ ابلیسی اتحادِ ثلاثہ کی جانب سے خطرہ اپنی جگہ موجود ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ بھارت پاکستان کے خلاف فوری طور پر تو شاید کوئی بڑی جنگ نہ چھیڑے، لیکن چھوٹی جھڑپوں کے ذریعے پاکستان کو مصروف رکھے گا تاکہ مشرق وسطیٰ میں ہونے والے واقعات پر پاکستان کوئی عملی رد عمل نہ دے سکے۔ پھر یہ ہے کہ بھارت کی بھرپور کوشش ہو گی کہ پانی کی جنگ میں پاکستان کو الجھائے رکھے۔ اگرچہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ دریاؤں کےپانی کو پاکستان میں داخل ہونے سے روکنا بھارت کے بس کی بات نہیں البتہ یہ ممکن ہے کہ وہ وقتاً فوقتاً اتنا پانی چھوڑ دے کہ پاکستان کو سیلاب کی سی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے۔
اِس گھمبیر صورتحال کے باوجود بہرحال اب بھی وقت ہے، پانی ابھی سر سے نہیں گزرا۔ امریکہ کو خوش کرنے کے لیے چین اور امارتِ اسلامیہ افغانستان سے تعلقات مزید نہ بگاڑے جائیں بلکہ ان کو بہتر کیا جائے۔ دشمن انتہائی عیار ہے۔ ہمارے نزدیک تمام سازشوں اور خطرات سے نبرد آزما ہونے کا اصل اور واحد حل یہ ہے کہ ملک کو جس بنیاد یعنی نظریہ اسلام پر قائم کیا گیا تھا، اس نظام کو باقاعدہ اور بالفعل قائم اور نافذ کیا جائے۔ پاکستان کا قیام بھی اسلام سے وابستہ تھا اور اس کی بقاء اور سلامتی میں بھی اسلامی نظام کے نفاذ کو فیصلہ کن حیثیت حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ پاکستان کے حکمرانوں اور مقتدر حلقوں کو ہدایت عطا فرمائے اور ملک و ملت کی حفاظت فرمائے۔ آمین!