یہود وہنو د کی مسلم دشمنی
اورپاکستان کے لیے چیلنجز
مسجد جامع القرآن، قرآن اکیڈمی ڈیفنس کراچی میں امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ حفظ اللہ کے25اپریل 2025ء کے خطاب جمعہ کی تلخیص
خطبہ ٔمسنونہ اور تلاوتِ آیاتِ قرآنی کے بعد!
اس وقت جو عالمی اور ملکی حالات ہیں وہ ہم سب کے سامنے ہیں ۔ گزشتہ ڈیڑھ برس سے اسرائیل مسلسل غزہ پر بمباری کر رہا ہے ۔ اس حوالے سے بہت کلام ہو چکا ہے ، بحیثیت مسلم ، بحیثیت پاکستانی ہماری جو ذمہ داریاں ہیں، ان کو بار بار ہم اُجاگر کرتے رہے ہیں کہ پاکستان کواُمتِ مسلمہ کے مسائل کے حل کے لیے ایک لیڈنگ رول ادا کرنا چاہیے ۔ خاص طور پر غزہ کے حوالے سے امت کو متحرک کرنا ،اسرائیل نواز کمپنیوں اور اُن کی مصنوعات کابائیکاٹ کرنا اور عملی اقدامات اُٹھانا ،یہ سب پاکستان کی بھی ذمہ داری ہے لیکن ہمارے حکمرانوں اور مقتدر طبقات کی ترجیحات میں شاید یہ سب شامل نہیں ہے تو اللہ تعالیٰ نے وہ حقیقت اب ظاہر کرکے دکھادی ہے جس کو قرآن مجید میں آج سے کم وبیش 14 صدیاں پہلے بیان کیا گیا تھا لیکن شاید اب بھی ہمارے کچھ لوگ اس کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں تھے ۔
یہود و ہنود کی مسلم دشمنی
سورۃ المائدہ کی آیت 82 میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
{لَـتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَۃً لِّـلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الْیَہُوْدَ وَالَّذِیْنَ اَشْرَکُوْاج} ’’تم لازماًپائو گے اہل ِایمان کے حق میں شدید ترین دشمن یہود کو اور ان کو جو مشرک ہیں۔‘‘
اگر ہم نبی اکرمﷺ کے دور کا مطالعہ کریں تو ہمارے سامنے واضح طور پر یہ بات آ جاتی ہے کہ اس دور میں بھی مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن یہوداور مشرکین تھے۔ مشرکین نے سامنے آکرمسلمانوں پر مظالم بھی کیے ، جنگیں بھی لڑیں ، جنگ بدر و اُحد سمیت کئی جنگیں مشرکین کے ساتھ ہوئیں۔ جبکہ یہود کاکام مسلمانوں کے خلاف جنگیں بھڑکانہ اور سازشیں کرنا رہا ۔یہود عربوں کو جنگوں کے لیے سودی قرضے دیا کرتے تھے۔ظاہر ہے جنگوں کے لیے اسلحہ اور سرمایہ کی ضرورت ہوتی ہے ، مشرکین کو یہ سرمایہ یہود فراہم کیا کرتے تھے ۔ غزوۂ احزاب کا اگر مطالعہ کریں تو اس کے پیچھے یہود کا ہی ہاتھ تھا ۔ وہ تمام غیر مسلم عرب قبائل کے پاس گئے ، انہیں مسلمانوں کے خلاف اُکسایا اور 12 ہزار کا لشکر جمع کرکے لے آئے ۔ پھر یہ کہ یہود نے نبی اکرمﷺ کو شہید کرنے کی بھی کوشش کی!
آج بھی اگر ہم دیکھیں تو مسلمانوں سے دشمنی میں سب سے بڑھ کر یہود اور مشرکین نظر آئیں گے ۔ آج اسرائیل اور بھارت کا گٹھ جوڑ کھل کر سامنے آچکا ہے ۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں جو ڈراما رچایا ہے ، یہ عالمی سطح کا ایک پورامنصوبہ نظر آتا ہے جس کا مقصد پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کرنا ہے اور اس پورے ڈرامے میں اسرائیل کا کردار بھی کھل کر سامنے آگیا ہے۔ اسی طرح صہیونی گریٹر اسرائیل کا منصوبہ رکھتے ہیں جس کے تحت وہ دریائے نیل سے دریائے فرات تک کے سارے علاقے پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں جس میں اُردن ، شام ، لبنان ، عراق اورمصر کازرخیز مشرقی ڈیلٹا شامل ہے ۔ وہ مدینہ منورہ سمیت سعودی عرب کے بڑے حصے پر قبضے کابھی خواب دیکھ رہے ہیں ۔دوسری طرف مودی اور اس کے پشت پناہ ہندوانتہا پسند جتھے اکھنڈ بھارت کا خواب دیکھ رہے ہیں ۔ اُدھر نتن یاہو کہتا ہے کہ میری شدید خواہش ہے کہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت ختم ہو جائے ، اِدھر نریندر مودی بھی یہی خواہش رکھتا ہے ۔
ہمارے استاد ڈاکٹر اسراراحمد ؒ کہتے چلے آئے ہیں کہ امریکہ کو خدشہ ہے کہ اسرائیل کے خلاف اگرکوئی کھڑا ہو سکتا ہے تو وہ پاکستان ہے ۔آج نتن یاہو بھی یہی کہہ رہا ہے ۔ یعنی اسلام دشمن قوتیں تو کھل کر ہمارے خلاف دشمنی پر اُتر آئی ہیں لیکن افسوس ہوتاہے کہ ہمارے حکمرانوں اور مقتدر حلقوں کو یہ بات سمجھ میں کیوں نہیں آرہی۔ آج بھی ہمارے مقتدر حلقے چاہتے ہیں کہ ہم امریکہ کے ساتھ بنا کر رکھیں ، خوش ہوتے ہیں کہ امریکی کانگریس کے نمائندے پاکستان آگئے۔
اسرائیل، امریکہ اور بھارت پر مشتمل ابلیسی اتحادِثلاثہ کا مقصد پاکستان کو کمزور کرنا ہے۔ ہمارے مقتدر طبقات کی مت ماری گئی ہے کہ ان کویہ بات سمجھ نہیں آ رہی۔ ہم نے امریکہ کو خوش کرنے کے لیے افغانستان کو بھی ناراض کرلیا ، چین کو بھی ناراض کرلیا ۔ ادھر بھارت حملے کے لیے تیار کھڑا ہے اور امریکہ اس کی پشت پر ہے اور ہم اپنے دوستوں کو بھی دشمن بنانے پر تُلے ہوئے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہمارے مقتدر لوگوں کو سمجھ اور ہدایت عطا فرمائے۔ آمین !
دنیا پرستی اور تکبر ہدایت کی ضد
زیر مطالعہ آیت میں آگے فرمایا :
{وَلَتَجِدَنَّ اَقْرَبَہُمْ مَّوَدَّۃً لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّا نَصٰرٰی ط}’’اور تم لازماًپائو گے مودّت کے اعتبار سے قریب ترین اہل ِایمان کے حق میں اُن لوگوں کو جنہوں نے کہا کہ ہم نصاریٰ ہیں۔‘‘
تیسرا گروہ نصاریٰ کا ہے ۔ اس کے بارے میں اللہ نے فرمایا کہ یہ اہل ایمان کے حق میں قریب ترین ہوں گے۔ حضور ﷺکے زمانے میں اگر دیکھیں تو اس وقت نصاریٰ میں سے نجاشی ؒ بھی تھے ۔ حبشہ میں ہجرت کے دوران جب حضرت جعفر نے سورہ مریم کی تلاوت کی تو نجاشی کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور دعوت ِ حق کو قبول کیا ۔ اسی طرح حضور ﷺ 12 سال کی عمر میں جب اپنے چچا حضرت ابو طالب کے ہمراہ شام کے سفر پر گئے تو راستے میں بحیرا راہب نے آپ ﷺ کو پہچان لیا اورنیک مشورہ دیا ۔ اسی طرح جب آپ ﷺ پر پہلی وحی نازل ہوئی تو حضرت خدیجہ آپ ﷺ کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے کر گئیں ۔ انہوں نے بھی حضور ﷺ کی تصدیق کی ۔ لہٰذا جو عیسائی مذہب کے راہب اور عالم ہیں، ان میں سے کئی حق کو پہچانتے ہیں کیونکہ اُن کی کتابوں میں اللہ کے آخری نبی ﷺ کی پیشین گوئی موجود ہے ۔ آگے فرمایا :
{ذٰلِکَ بِاَنَّ مِنْہُمْ قِسِّیْسِیْنَ وَرُہْبَانًا وَّاَنَّـہُمْ لَا یَسْتَـکْبِرُوْنَ(82)} ’’یہ اس لیے کہ ان (عیسائیوں) میں عالم بھی موجود ہیں اور درویش بھی اور(اس لیے بھی کہ) وہ تکبر نہیں کرتے۔‘‘
یہاں ایک وجہ یہ بتائی کہ ان کا معاملہ دنیا کی محبت میں ڈوب جانے والا نہیںہے جبکہ یہود کے بارے میں فرمایا :
{یَوَدُّ اَحَدُہُمْ لَوْ یُعَمَّرُ اَلْفَ سَنَۃٍج} (البقرۃ:96) ’’ان میں سے ہر ایک کی یہ خواہش ہے کہ کسی طرح اس کی عمر ہزار برس ہو جائے۔‘‘ یعنی یہود میں دنیا پرستی بہت زیادہ ہے ۔ اس وجہ سے بھی وہ حق سے دور ہوگئے اور اہل ایمان کے دشمن بن گئے ۔ نصاریٰ کے عالموں اور راہبوں کے بارے میں تیسری بات یہ بتائی کہ وہ تکبر نہیں کرتے ۔ ہدایت کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ تکبر بھی ہوتاہے ۔ یہاں اس بات کا خیال رہے کہ یہ معاملہ تثلیث کے قائل اور حضرت عیسیٰ ؑ کو خدا کا بیٹا (معاذ اللہ)) ماننے والوں کا نہیں۔ ایسے عیسائی مشرکین کو قرآن پاک میں جا بجا برے انجام سے ڈرایا گیا ہے۔ ابوجہل کا بھی یہی مسئلہ تھا ۔ وہ کہتا تھا کہ محمد ﷺ جو کچھ فرما رہے ہیں وہ بالکل درست ہے لیکن میں سردار ہوں ۔ اگر محمد ﷺ کی اطاعت کروں گا تو سرداری چلی جائےگی ۔ حدیث میں ہے :
((اَلْکِبْرُ بَطَرُالْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ))’’جانتے بوجھتے حق کو رد کرنا اور لوگوں کو حقیر سمجھنا تکبر ہے ۔‘‘
تکبر کے ساتھ ہدایت نہیں ملتی ۔ آج یہ ہم سب کا مسئلہ ہے۔ الا ماشاء اللہ ۔ کئی لوگ اپنے جونیئر کو ، ملازم کو ، ڈرائیور کو سلام نہیں کرتے کہ قد چھوٹا ہو جائے گا ۔جبکہ حضور ﷺ نے فرمایا : جو سلام میں پہل کرتا ہے وہ تکبر سے بچا لیا جاتا ہے ۔ اللہ کے رسول ﷺ خود آگے بڑھ کر بچوں کو بھی سلام کرتے تھے ۔ فتح مکہ کے موقع پر آپﷺ کی مبارک پیشانی اونٹ کے کجاوے پر جھکی ہوئی تھی کہ مجھے ایک فاتح کی حیثیت سے نہیںبلکہ اللہ کے ایک عاجز اور شکر گزار بندے کی حیثیت سے مکہ مکرمہ میں داخل ہونا ہے ۔ ع
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصراگر آپ ﷺ کی عاجزی کا یہ عالم ہے تو ہم میں سے کسی کی کیا اوقات ہے ۔
رسول اللہ ﷺنے فرمایا:’’ جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہوگا، وہ کبھی جنت میں داخل نہیں ہوگا۔‘‘ یہ بہت اہم مسئلہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بار بار تکبر کو ہم سے دور کرنا چاہتاہے ۔ اذان میں بار بار اللہ اکبر کی صدائیں گونجتی ہیں ۔ اگرہم لبیک کہتے ہیں تو گویا ہم اپنے تکبر کو ختم کرکے اللہ کو بڑا مانتے ہیں ۔لیکن اگر لبیک نہیں کہتے تو معاملہ برعکس ہے ۔ حدیث قدسی ہے ۔ حضور ﷺ نے فرمایا :’’ اللہ فرماتا ہے کہ تکبر میری چادر ہے جو اسے مجھ سے چھیننا چاہے گا میں اس کو توڑ کر رکھ دوں گا۔‘‘ سورہ مومن میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے :
’’اور تمہارا رب کہتا ہے کہ مجھے پکارو میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔یقیناً وہ لوگ جو میری عبادت سے تکبر کی بنا پر اعراض کرتے ہیں وہ داخل ہوں گے جہنم میں ذلیل و خوار ہو کر۔‘‘(آیت:60)
زیر مطالعہ آیات میں نصاریٰ کے بارے میں ہم نے پڑھا البتہ ذہن میں رہے کہ یہ تمام نصاریٰ کے بارے میں نہیں ہے ورنہ آج نصاریٰ اسلام دشمنی پر بھی کھڑے ہیں ۔ اسرائیل کا ساتھ دینے والے بھی ہیں ، صلیبی جنگوں میں بھی شامل رہے ۔ البتہ جن نصاریٰ کو کتاب کا علم ہوگا اور ان میں تکبر اور دنیا پرستی نہیں ہوگی وہ حق کو قبول کر لیں گے ۔ احادیث میں بشارات موجود ہیں کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی واپسی ہوگی اور دجال کو شکست ہوگی تو عیسائی اسلام قبول کرلیں گے ۔ قیامت سے پہلے یہ معاملہ بھی پیش آنے والا ہے۔
مسیحی بھائی کا قبول اسلام
نماز کے بعد ہمارے ایک مسیح بھائی اسلام قبول کریں گے ان شاءاللہ۔ نماز جمعہ کے بعد چھوٹی سی نشست ہوگی ۔ حدیث میں ہے کہ جو سابقہ رسولوں کو مانتا ہو اور اب آخری نبی ﷺ پر بھی ایمان لے آئے تو اس کے لیے دہرا اجر ہے ۔ اگر کوئی عیسائیت کو ماننے والا ہے اور آخری رسول ﷺ پر بھی ایمان لے آئے تو گویا وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیم پر عمل کر رہا ہے اس لیے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اس کی تعلیم دی ہے کہ جب آخری رسول ﷺ آئیں گے توان کی رسالت پوری انسانیت کے لیے ہوگی ۔ اسی طرح اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا :’’جو اسلام میں داخل ہو جائے تو اس کے پچھلے سارے گناہ یوں مٹا دیئے جاتے ہیں جیسے کوئی نومولود ہو ۔ گویا اس کی زندگی کا نئے سرے سے آغاز ہو رہا ہے ۔
قومی یکجہتی و اتحاد کی ضرورت
یہ ہماری مستقل گزارش رہی ہے کہ یہ ملک اسلام کی بنیاد پر بنا ہے اور اسلام کے نفاذ سے ہی اس کی بقا ، سلامتی اور استحکام ممکن ہے ۔ ہم مختلف زبانوں ، نسلوں ، قومیتوں ، علاقوں کے لوگ تھے ۔ ہمیں جوڑنے والا واحد رشتہ اسلام کا ہے لیکن جب اسلام سے ہم نے بے وفائی کی تو اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نسلی ، لسانی ، علاقائی اور قبائلی تعصبات پھر اُبھر آئے ، قومی مفاد کی بجائے دیگر مفادات کو ترجیح حاصل ہونے لگی ، ملک میں انتشار اور افتراق پھیلا ۔ ہمارے تمام مسائل کا حل یہی ہے کہ ہم اسلام کے رشتہ کو دوبارہ مضبوط کریں ۔ ہم سب ایک اللہ ، ایک رسول ﷺ اور ایک قرآن کو ماننے والے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ، ہمارے حکمرانوں کو بھی اور ہمارے مقتدر حلقوں کو بھی ہدایت دے کہ وہ ہوش کے ناخن لیں ۔ اس قوم کو متحد کرنے کی ضرورت ہے۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں اگر محرومیاں ہیں تو انہیں دور کریں ۔ وہ بھی ہمارے مسلمان بھائی ہیں ۔ ہمیں صوبائی ، لسانی ، علاقائی تعصب کی نفی کرنی چاہیے ۔ ہمیں جوڑنے والی چیز صرف کلمہ طیبہ ہے ۔ ہم آج بھی رجوع الی اللہ کی دعوت دے رہے ہیں ۔ جس طرح نماز میں سندھی ، بلوچی ، پٹھان ، پنجابی سب ایک صف میں کھڑے ہوتے ہیں اسی طرح ہمیں مسجد سے باہر بھی ایک ہو جانا چاہیے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم مسجد سے باہر بھی اسلام کو زندہ کریں ۔ اسلام ہی ہمیں متحد کر سکتاہے ۔ آج انڈیا ، اسرائیل اور امریکہ متحد ہو کر پاکستان کو مٹانا چاہتے ہیں ۔ کیا ہم آپس کے ان تعصبات کے ساتھ دشمنوں کا مقابلہ کر پائیں گے ؟لہٰذا نفرتوں اور تعصبات کو ختم کرنے کے لیے ہمیں دوبارہ اسلام کے نفاذ کی طرف آنا ہوگا ۔
نہروں کا مسئلہ
ایک بڑا مسئلہ جو اس وقت مملکت میں پیش آیا ہے وہ نہروں کے معاملے پر قوم کی تقسیم ہے ۔ وفاقی حکومت چولستان کے علاقے میں نئی نہریں نکالنا چاہتی ہے اور کارپوریٹ فارمنگ کا منصوبہ شروع کرنا چاہتی ہے لیکن سندھ اور پنجاب میں اس کی مخالفت میں مظاہرے ہورہے ہیں ۔
ہماری گزارش یہ ہے کہ ہمیں اس مسئلہ کو پنجابی یا سندھی بن کر نہیں بلکہ ایک پاکستانی اور مسلم کی حیثیت سے دیکھنا چاہیے اور مشترکہ مفادات کونسل میں اس مسئلہ پر غوروفکر کرنا چاہیے جیسا کہ وزیراعظم نے اعلان بھی کیا ہے ۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ ماہرین کو بٹھائیں اور اس مسئلہ کے تکنیکی پہلوؤں پر بھی غور کریں ۔ اگر نئی نہریں اور کارپوریٹ فارمنگ قوم کے اجتماعی مفاد میں ہے تو اس پر عمل ہونا چاہیے لیکن اگر اس طرح قومی مفادات کو نقصان پہنچتاہے اور فائدہ صرف مخصوص طبقہ اشرافیہ کا ہو گاتو اس سے گریز کرنا چاہیے ۔ اپنی لاکھوں ایکڑ زمین کو آباد کرکے ہم دوسروں کو دے دیں تو ا س میں کئی تحفظات بھی ہیں ۔ اسی طرح بارش اور سیلاب کے پانی کو محفوظ کرنے کے معاملے پر بھی مشاورت ہونی چاہیے ۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ اصول بتایا ہے :
{وَاَمْرُہُمْ شُوْرٰی بَیْنَہُمْ ص}(الشوریٰ:38 ) ’’اور ان کا کام آپس میں مشورے سے ہوتا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ یہ بھی حکم دیتاہے :
اور ہم نے تم سے پہلے مرد ہی بھیجے جن کی طرف ہم وحی کرتے تھے اے لوگو!اگر تم نہیں جانتے تو علم والوں سے پوچھو ۔(النحل :43)
ہمیں قومی سطح پر مشاورت بھی کرنی چاہیے اور ماہرین سے بھی مشورہ کرنا چاہیے اور اس کے بعد جو قومی مفاد میں ہو وہ فیصلہ کرنا چاہیے ۔ مگر ہمارا مسئلہ تویہ ہے کہ ہمارے مقتدر لوگوں کے غلط فیصلوں اور امریکہ نوازی نے ہمیں یہاں تک پہنچا دیا ہے ۔ ہنری کسنجر نے کہا تھا : امریکہ کا دشمن امریکہ سے بچ سکتا ہے مگر دوست کبھی بچ نہیں سکتا۔ امریکہ کو خوش کرنے کے لیے ہم نے اپنے ہی لوگوں پر مظالم کیے اور انہیں ناراض کیا جس کی وجہ سے ان کا اعتماد اُٹھ گیا ۔ اس اعتماد کو دوبارہ بحال کرنا پڑے گا ۔ ورنہ ہم کیسے بھارت اور اسرائیل کا مقابلہ کریں گے ؟ ہمارے پاس ایٹمی صلاحیت ہے مگر اس کو استعمال کرنے کے لیے بھی جرأت ایمانی چاہیے ۔ ہماری افواج کے موٹو میں لکھا ہے: ایمان ،تقوی ،جہاد فی سبیل اللہ۔ اس پر عمل ہوگا تو اللہ ہمارے ساتھ ہوگا۔ ان شاء اللہ ۔ صرف عسکری قوت کافی نہیں ہے ، اللہ کا ساتھ بھی چاہیے۔ اللہ کی نافرمانیاں کرکے ، اپنوں پر ظلم کرکے ہم اللہ کا ساتھ حاصل نہیں کر سکتے ۔ اس ظلم کا ازالہ ہوگا تو قوم بھی ساتھ کھڑی ہوگی ۔ ہمارے دشمن بھی یہی چاہتے ہیں کہ قوم کے اندر انتشار اور پھوٹ پڑے ۔ ہم ایک دوسرے کے خلاف سڑکوں پر نکل آئیں ۔ اللہ ہمارے حکمرانوں اور مقتدر لوگوں کو ہدایت دے ۔ قوم کو متحد کرنے کا واحد فارمولا یہی ہے کہ ہم نے اسلام سے جو بے وفائی کی ہے اس پر سچی توبہ کرلیں اور اسلامی بھائی چارہ کو دوبارہ قائم کرنے کی کوشش کریں ۔ جب ہم اللہ کے ساتھ وفا کا معاملہ کریں گےتو اللہ بھی ہمارے ساتھ ہوگا ۔ ؎
یہ ایک سجدہ جس سے تو گراں سمجھتا ہےہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات!اللہ ہمارے حکمرانوں کو، ہمارے مقتدر طبقات کو بھی اس قوم کے مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلے کرنے کی توفیق دے ، اللہ ہم سب کو جرأت ایمانی بھی عطا کرے کہ ہم اللہ کی خشیت اور خوف کو دل میں رکھ کر فیصلے کریں نہ کہ امریکہ اور اس کے ساتھیوں کو راضی کرنے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اہل ِغزہ کی پکار پر بھی لبیک کہتے ہوئے جو کرنے کے کام ہیں اس کی توفیق عطا کرے ۔گزشتہ جمعہ کے خطاب میں ہم نے اہلِ غزہ کی مدد کے حوالے سے 13 نکات اس حوالے سے پیش کیے تھے ۔ یہ سب کرنے کے کام ہیں اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے۔ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: جس کو مسلمانوں کے معاملات سے دلچسپی نہ ہو وہ ہم میں سے نہیںہے ۔ آج اگر ہم اپنے آپ کو محدود کرکے بیٹھ جائیں کہ میرا پیٹ بھرا ہوا ہے ، میرے بچوں کا پیٹ بھرا ہوا ہے ، میری نوکری چل رہی ہے ، میرے بچوں کا مستقبل محفوظ ہے باقی اُمت جو مرضی ہوتا ہے تو یہ اسلامی طرزعمل نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سچا اُمتی بننے اور اُمتیوں والے کام کرنے کی توفیق عطافرمائے ۔ آمین !
tanzeemdigitallibrary.com © 2025