فلسطینیوں کی پکار کا کم سے کم احساس
قاری محمد اسحاق، ملتان
مؤمن سر سے پائوں تک دوسرے کے لیے امن کا ضامن ہوتا ہے۔ وہ دنیا میں روشنی کی کرن ہوتا ہے ۔ ہدایت کا مینار ہوتا ہے۔ احساس کا نشان ہوتا ہے۔ پوری دُنیا کے ہر انسان اور خصوصاً مسلمان کی راحت کے لیے بے قرار ہوتا ہے۔ دوسروں کی خوشی میں خوش اور پریشانی میں تڑپ اٹھتا ہے۔
افسوس اس بات کا ہے کہ اب ہم میں یہ تمام نشانیاں دم توڑ رہی ہیںبجائے اس کے کہ ہم اپنے فلسطینی بھائیوں کے دکھوں کا آگے بڑھ کر مداوا کرتے۔
ان کے آنسوئوں کو پونچھتے لیکن کئی پھٹی لاشوں، ننھے منے بچوں کے چیتھڑوں ، عورتوں کے دل دہلا دینے والی آہوں، مردوں کے خون کے فواروں اور اس پر ظالموں کے قہقہوں، نوجوانوں پر خونخوار کتوں کے حملوں، انسانوں کے ہوائوں میں اڑتے ہوئے ٹکڑوں، ملبے تلے دھنسی ہوئی دم توڑتی انسانیت کی آخری سانسوں پر بھی ہم ٹس سے مس نہ ہوئے۔
کیا یہی قرآن کی صدا ہے؟ قرآن میں تو ہے کہ’’ایک انسان کا(نا حق) قتل پوری انسانیت کا قتل ہے اور ایک انسان کی زندگی پوری انسانیت کی زندگی ہے۔‘‘
آقائے دو جہاں ﷺ کا فرمان ہے: ’’تمام مسلمان ایک جسم کی طرح ہیں۔ اگر اس کی آنکھ میں درد ہو تو پورے جسم میں درد ہوتا ہے۔
اگر اس کے سر میں درد ہو تو پورے جسم میں درد ہوتا ہے۔ مگر ہماری بے حسی کے کیا کہنے کہ ہم اُلٹا یہ کہتے ہیں کہ جی! ہم تو کچھ کر ہی نہیں سکتے۔‘‘
رسول مقبول ﷺ نے فرمایا:
’’مسلمان مسلمان کا آئینہ ہوتا ہے۔‘‘
مسلمان مسلمان کا بھائی ہوتا ہے۔ جو کہ اس سے نقصان کو دُور کرتا ہے اور اس کی غیر حاضری میں اس کے گھر کی حفاظت کرتا ہے۔ لیکن ہم تو ان کے نقصان کے لیے خودراہ ہموار کر رہے ہیں۔
اب ایک اہم سوال یہ رہ جاتا ہے کہ ہم کریں تو کریں کیا؟ اس حوالے سے عرض ہے کہ اگر ہم صرف ان کا پختہ ترین (معاشی) بائیکاٹ ہی کر دیں جو کہ ہمارے اختیار میں بھی ہے اور وہ بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔ تو ان کی کمر توڑنے کے لیے ان شاء اللہ یہی کافی ہے اور ایسا تاریخ میں ہوا بھی ہے۔
ٹیپو سلطانؒ کے زمانے میں انگریز کی نفرت لوگوں کے دلوں میں بہت سخت تھی۔ اسی لیے ہندوستان کے علاقے مدراس میں انگریز کا نمک کا بہت بڑا کاروبار تھا۔ ٹیپو ؒ نے ان سے خریداری کا بائیکاٹ کا اعلان کر دیا تو انہوں نے عربوں کے بھیس میں دوبارہ نمک بیچنا شروع کر دیا۔ تو کچھ سادہ لوگوں نے بھی انجانے میں خریداری کر لی۔
لیکن جب اس سازش کا علم ٹیپو کو ہوا تو انہوں نے اپنی سلطنت میں انگریزوں کا بغیر ویزہ داخلہ بند کر دیا۔ تو اس وقت مسلمانوں کے اس بائیکاٹ سے انگریز کفار کو سخت نقصان پہنچا۔(حوالہ: سلطنت خداداد)
(بشکریہ ماہنامہ ’’محاسنِ اسلام‘‘، ملتان)