(دین و دانش) رحمی رشتہ داروں اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک - مرکزی شعبہ تعلیم و تربیت تنظیم اسلامی

11 /

رحمی رشتہ داروں اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک


مرکزی شعبہ تعلیم و تربیت تنظیم اسلامی

 

     سورۃ النساء آیت نمبر1 میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
’اے لوگو اپنے اُس رب کا تقویٰ اختیار کرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا‘اور اُسی سے اس کا جوڑا بنایا‘اور ان دونوں سے پھیلا دئیے (زمین میں) کثیر تعداد میں مرد اور عورتیں۔اور تقویٰ اختیار کرو اُس اللہ کا جس کا تم ایک دوسرے کو واسطہ دیتے ہو‘ اور رحمی رشتوں کو توڑنے سے بھی بچو!یقیناً اللہ تعالیٰ تم پر نگران ہے۔‘‘
اس آیت مبارکہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے دو مرتبہ تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔ آج ہمارے گھروں، رشتہ داروں، اور معاشرے میں بگاڑ کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ دلوں میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا خوف نہیں ہے۔ اگر اللہ کے سامنے جواب دہی کا احساس دل میں ہو، تو ہمارے معاملاتِ زندگی، بالخصوص گھریلو معاملات درست رہیں گے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :{وَاتَّقُوا اللہَ الَّذِیْ تَسَآئَ لُوْنَ بِہٖ وَالْاَرْحَامَ ط} ’’اور تقویٰ اختیار کرو اُس اللہ کا جس کا تم ایک دوسرے کو واسطہ دیتے ہو‘ اور رحمی رشتوں کو توڑنے سے بھی بچو!‘‘ 
اس گئے گزرے دور میں بھی ہمارے گھروں اور محلوں میں جن بڑوں اور بزرگوں کا ادب کیا جاتا ہےاور ان کو احترام دیا جاتا ہے،ان کے سامنے کوئی لڑائی جھگڑا ہوتا  ہے اور جب وہ بالآخر کہتے ہیں کہ’’خدا کے واسطے اب خاموش ہو جاؤ‘‘، تو لوگ نرم پڑجاتےہیں اورخاموش ہو جاتے ہیں۔
اللہ کا لحاظ ،اس کا ڈر اگر دل میں ہو تو معاملات اور رشتوں میں بگاڑ پیدا نہیں ہوتا۔پھر اس آیت میں جن رحمی رشتوں کی طرف اشارہ ہے، ان میں بعض انتہائی قریبی رشتے ہیں جیسا کہ بہن بھائی ،والدین وغیرہ ہیں۔ اس  کے بعد پھر دور کے رشتہ دار اور برادری والےہیں پھر اوپر جا کر پوری انسانیت اس دائرے کے اندر آجائےگی۔ کیونکہ سب کے والدین حضرت آدم و حواe ہیں۔
تاہم، جو جتنا زیادہ قریب ہے، اس کا اتنا زیادہ حق ہے۔ ایک مشہور حدیث میں ہے کہ ایک صحابی ؓنے نبی اکرم ﷺ  سے پوچھا: ’’میرے حسنِ سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟‘‘آپ ﷺنے فرمایا: ’’تیری ماں‘‘۔صحابی ؓ نے پھر پوچھا: ’’اس کے بعد کون؟‘‘آپ ﷺنے فرمایا: ’’تیری ماں‘‘۔پھر پوچھا: ’’اس کے بعد کون؟‘‘ آپ ﷺنے پھر فرمایا: ’’تیری ماں‘‘۔چوتھی مرتبہ پوچھنے پر فرمایا: ’’تیرا باپ۔‘‘
چنانچہ، تمام رشتہ داروں میں سب سے زیادہ مستحق ماں ہے کہ اس کے ساتھ حسنِ سلوک کیا جائے، اس کے بعد باپ کا درجہ ہے۔ چاہے والدین کتنے ہی ناراض ہوں یا کچھ برا بھلا کہیں، ہمیں ان کی ڈانٹ پر برا نہیں ماننا چاہیے اور نہ ہی آگے سے جواب دینا چاہیے۔
اس کے بعد اہل و عیال کا حق آتا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا: ((خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِاَھْلِهٖ وَأَنَا خَيْرُكُمْ لِأَهْلِيْ))
’’تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہترین ہو، اور میں تم سب سے بڑھ کر اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہوں۔‘‘
اس کے بعد اولاد آئے گی ۔ آخرت کے حوالے سے ان کی اچھے طریقہ سےتعلیم و تربیت ، معاشی حوالہ  سے ان کی تعلیم اور ہنر کا بندوبست کرنا ،یہ ان کا حق ہے۔
اس کے بعدالاقرب فالاقرب والے اصول کے تحت وہ رشتے دار جن کا وراثت میں حق ہے۔ وہ پہلے ہیں اور پھر وہ رشتہ دار جن کا وراثت میں حصہ نہیں ہے۔
صلہ رحمی کی تعلیم پچھلی شریعتوں میں بھی اہم رہی ہے۔ توریت میں بھی رشتہ داروں کے ساتھ حسنِ سلوک کی تعلیم موجود تھی۔
آپ ﷺجب پہلی وحی نازل ہونے کے بعد حضرت خدیجہkکے پاس تشریف لائے، تو اُنہوں نے آپﷺ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا: ’’آپ مہمانوں کے ساتھ بھلا سلوک کرتے ہیں، کمزوروں کا بوجھ اُٹھاتے ہیں، محتاجوں کے ساتھ بھلائی کرتے ہیں، اور صلہ رحمی فرماتے ہیں۔ اللہ آپ کو ہرگز ضائع نہیں فرمائے گا۔‘‘
حضرت انسh سے روایت ہے کہ رسول ﷺ  نے فرمایا:’’تم میں سے جو شخص چاہتا ہے کہ اس کی عمر طویل ہو اور اس کے رزق میں اضافہ ہو، تو اسے چاہیے کہ وہ صلہ رحمی کرے۔‘‘(متفق علیہ)
ایک عام تصور یہ ہے کہ فلاں اچھا سلوک کرے گا تو ہم بھی کریں گے، فلاں ملنے آئے گا تو ہم بھی جائیں گے۔
لیکن نبی اکرم ﷺنے فرمایا: ’’یہ صلہ رحمی نہیں ہے، صلہ رحمی یہ ہے کہ اگر وہ تمہارے ساتھ اچھا سلوک نہ کریں تب بھی تم اُن کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔‘‘
سب سے بڑا احسن سلوک اور سب سے بڑی  صلہ رحمی یہ ہے کہ ہم اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو جہنم کی آگ سے بچانے کی کوشش کریں۔ ان کو دین کی دعوت دینا اور انہیں اللہ سے جوڑنا ،یہ سب سے بڑا حسن سلوک ہے۔
سورۃ الشعراء آیت نمبر 214 میں اللہ تعالیٰ   نے نبی کریم ﷺکو حکم دیا:{وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ(44)}(الشعراء) ’’اور(اے نبیﷺ!) خبردار کیجیے اپنے قریبی رشتہ داروں کو۔‘‘
اللہ کے رسول ﷺنے کم از کم دو مرتبہ اور بعض روایات کے مطابق تین مرتبہ اپنے خاندان کے لوگوں کو دعوت ِ طعام دی تاکہ اُن کے سامنے دین کی دعوت پیش کی جائے۔
ہم میں کون ایسا ہوگا جو اپنے اہل و عیال دنیاوی تکلیف پر پریشان نہ ہو، لیکن اگر وہ جہنم کی آگ میں جلنے جا رہے ہوں، تو کیا ہم خاموش رہ سکتے ہیں؟
ویسے تو دعوت سب انسانوں کے لیے ہے، لیکن جو جتنا زیادہ ہمارا قریبی رشتہ دار ہے، اس کا اتنا ہی زیادہ حق ہے کہ اسے پہلے دین کی دعوت دی جائے۔اس کو اللہ سے جوڑنا اور آخرت کے عذاب سے بچانا یہ سب سے بڑا حسن سلوک اور صلہ رحمی ہے۔
تنظیم اسلامی کے رفیق کی حیثیت سے ہماری یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم رشتہ داروں کے ساتھ معاملات میں اُن سے بڑھ کر صلہ رحمی کا مظاہرہ کریں۔ ہماری جانب سے صلہ رحمی کے مظاہرہ سے ان پر تنظیم کی اہمیت بھی واضح ہوگی کہ تنظیم کے رفیق ہونے کی وجہ سے ہمارے اندر یہ تبدیلی آئی ہے۔ مزید برآں رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کا یہ تقاضا بھی ہے کہ ہم انہیں پوری دل سوزی، خیرخواہی اور ہمدردی کے جذبہ کے ساتھ تنظیم کی فکر سے آگاہ کریں، انہیں دینی فرائض یاد دلائیں اور تنظیم میں شمولیت کی دعوت دیں۔ 
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں ان ہدایات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین!