ڈاکٹر اسرار احمد ؒ کی قرآن فہمی:ایک فکری اور روحانی تحریک
علامہ عبد الستار عاصم
ڈاکٹر اسرار احمد ؒ بیسویں صدی کے اُن عظیم مفکرین اور مفسرین میں شامل ہیں جنہوں نے اُمت مسلمہ کو قرآن مجید کی طرف رجوع کرنے کی دعوت دی۔ ان کی پوری زندگی قرآن کے فہم، تدبر اور عملی نفاذ کے لیے وقف رہی۔ انہوں نے نہ صرف خود قرآن کو سمجھنے کی سعی کی بلکہ اسے عام لوگوں تک سادہ انداز میں پہنچانے کی بھی بھرپور کوشش کی۔ اُن کا پیغام ایک طرف علم و شعور پر مبنی تھا، تو دوسری جانب روحانیت اور اخلاص پر بھی قائم تھا۔
ڈاکٹر اسرار احمدؒ نے اپنی عملی زندگی کا آغاز ایک میڈیکل ڈاکٹر کے طور پر کیا، مگر ان کا دل دینی علوم کی طرف مائل تھا۔ علامہ اقبالؒ اور مولانا مودودیؒ کے افکار سے متاثر ہو کر وہ دین کی گہرائی میں اُترے اور پھر اپنی تمام تر توجہ قرآن مجید کے فہم و تدبر پر مرکوز کر دی۔ 1975ء میں انہوں نے ’’تنظیم اسلامی‘‘کی بنیاد رکھی، جس کا مرکزی مقصد قرآن حکیم کی تعلیمات کو عوام الناس میں پھیلانا تھا۔
ڈاکٹر اسرار احمدؒ نے قرآن فہمی کے حوالے سے جو طریق اپنایا، وہ نہ صرف روایتی تھا بلکہ اس میں عقلی استدلال، روحانی اثر اور عملی پہلو تینوں یکجا تھے۔ ان کے نزدیک قرآن صرف تلاوت کی کتاب نہیں بلکہ زندگی کے ہر پہلو کی رہنمائی کرنے والی جامع کتاب ہے۔ ان کی تفسیر کا انداز تجزیاتی، موضوعاتی اور سادہ زبان میں تھا تاکہ عام فرد بھی قرآن کے پیغام کو سمجھ سکے۔
ان کا یہ ماننا تھا کہ امت مسلمہ کی زوال پذیری کی بنیادی وجہ قرآن سے دوری ہے۔ انہوں نے بار بار اس بات پر زور دیا کہ اگر مسلمان قرآن کو صرف تبرکاً نہ پڑھیں بلکہ سمجھ کر اور عمل کی نیت سے پڑھیں تو حالات بدل سکتے ہیں۔ ان کا یہ مشہور جملہ بہت معروف ہے:
’’قرآن ہمارے گھروں میں تو ہے مگر ہماری زندگیوں میں نہیں!‘‘
ڈاکٹر اسرار احمدؒ کے سب سے مؤثر ذرائع میں سے ایک اُن کے ہفتہ وار درسِ قرآن تھے جو ٹی وی، آڈیو کیسٹس، اور بعد ازاں یوٹیوب جیسے پلیٹ فارمز پر وسیع پیمانے پر دستیاب ہوئے۔ ان کے خطابات میں نہ صرف آیات کی تفسیر شامل ہوتی بلکہ ان کا عملی زندگی سے تعلق بھی واضح کیا جاتا۔ ان کا یہ درس نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ملک بھی لوگوں کی دینی بیداری کا ذریعہ بنا۔
ڈاکٹر صاحب نے ’’قرآنی انقلاب‘‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے کہا کہ جب تک مسلمانوں کی زندگیوں میں قرآن کا مکمل اور شعوری نفاذ نہیں ہوگا، اس وقت تک کسی قسم کی سیاسی، معاشی یا سماجی اصلاح ممکن نہیں۔ ان کے نزدیک قرآن نہ صرف روح کی غذا ہے بلکہ ایک مکمل نظام حیات ہے جس پر عمل کیے بغیر دنیا و آخرت کی فلاح ممکن نہیں۔
تنظیم اسلامی کی بنیاد قرآن کے فہم اور اس کے عملی نفاذ پر رکھی گئی۔ ڈاکٹر اسرار احمدؒ نے اس تنظیم کو ایک ایسی دعوتی تحریک کے طور پر پیش کیا جو لوگوں کو ’’ایمان، علم اور عمل‘‘کی طرف بلاتی ہے۔ ان کے مطابق محض عبادات سے دین مکمل نہیں ہوتا، جب تک کہ قرآن کی تعلیمات کو انفرادی، اجتماعی اور حکومتی سطح پر نافذ نہ کیا جائے۔
ڈاکٹر اسرار احمدؒ کا انداز علمی ہونے کے ساتھ ساتھ روحانی بھی تھا۔ وہ قرآن کو محض ایک علمی کتاب نہیں سمجھتے تھے بلکہ اسے دل کی غذا اور روح کی روشنی مانتے تھے۔ وہ اکثر کہتے کہ اگر دل میں خشوع و خضوع ہو تو قرآن انسان کی زندگی بدل دیتا ہے۔ ان کے خطابات میں ذکر، خشیت ِ الٰہی، اور اللہ کے ساتھ تعلق کی گہرائی نمایاں تھی۔
ڈاکٹر صاحب نے خاص طور پر نوجوانوں کو قرآن کی طرف رجوع کی دعوت دی۔ ان کے خطاب کا ایک مستقل موضوع نوجوان نسل کو دین کی اصل روح سے جوڑنا تھا تاکہ وہ مغربی مادیت پرستی سے نکل کر قرآن کے نور سے اپنی راہ متعین کریں۔ وہ جدید تعلیم یافتہ طبقے کو قرآن کی سچائیوں سے روشناس کرانے کے لیے سادہ زبان اور دلائل سے بھرپور انداز اختیار کرتے تھے۔
انہوں نے اپنی زندگی میں ’’بیان القرآن‘‘ کے نام سے مکمل تفسیر بیان کی۔ یہ تفسیر نہایت سادہ، عام فہم، اور جدید ذہن کو مخاطب کرتی ہے۔ ان کا انداز یہ تھا کہ آیت کے سیاق و سباق، لغوی معنی، اور تاریخی پس منظر کے ساتھ ساتھ اس کا عملی پہلو بھی واضح کریں۔ وہ آیات کو صرف عرب کے پس منظر میں مقید نہ کرتے بلکہ جدید معاشرتی، سیاسی، اور تہذیبی حالات کے تناظر میں بھی سمجھاتے تھے۔
ڈاکٹر اسرار احمدؒ کی علمی دیانت ان کی سب سے بڑی خوبیوں میں شامل ہے۔ وہ کسی بھی موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے اختلافی مسائل میں ہمیشہ ’’واللہ اعلم‘‘کہہ کر رائے کو اللہ کی طرف لوٹا دیتے تھے۔ وہ علمی جبر کے قائل نہیں تھے بلکہ لوگوں کو دعوت دیتے تھے کہ وہ خود تحقیق کریں، قرآن کو خود پڑھیں اور غور و فکر کریں۔
ڈاکٹر اسرار احمدؒ 2010ء میں وفات پا گئے مگر ان کا علمی ترکہ آج بھی زندہ ہے۔ ان کی ویڈیوز، آڈیوز، کتابیں، اور مضامین دنیا بھر میں ہزاروں افراد کے لیے ہدایت کا ذریعہ بن چکے ہیں۔ ان کے شاگرد آج بھی ان کے مشن کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ تنظیم اسلامی آج بھی قرآن فہمی، اسلامی انقلاب، اور روحانی تطہیر کے مشن پر گامزن ہے۔
ڈاکٹر اسرار احمدؒ کا پیغام سادہ مگر انقلابی تھا: قرآن کو سمجھو، اس پر ایمان لاؤ، اور اسے اپنی زندگی کا مرکز بناؤ۔ وہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ اگر امت مسلمہ قرآن کو اپنی زندگیوں کا محور بنا لے تو دنیا میں ایک نئی روحانی اور اخلاقی بیداری کی لہر دوڑ جائے گی۔
ان کی زندگی ایک آواز تھی جو قرآن کے حق میں اُٹھی اور جس نے لاکھوں دلوں میں اللہ کی کتاب کی عظمت پیدا کی۔ آج بھی ان کی آواز گونج رہی ہے اور دلوں کو جگا رہی ہے۔ یہ ہمارے لیے ایک دعوت ہے کہ ہم بھی قرآن سے جڑیں، اسے سمجھیں، اور اس پر عمل کریں تاکہ ہماری زندگیوں میں بھی وہ روشنی آ جائے جو ڈاکٹر اسرار احمدؒ کی زندگی میں تھی۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2025