(درحقیقت) ایران اہم ہے لیکن اسلام اہم تر ہے - خالد نجیب خان

11 /

ایران اہم ہے لیکن اسلام اہم تر ہے

خالد نجیب خان

13 جون 2025 ءکی صبح خلاف معمول جمعہ مبارک کےپیغامات تقریباً نہ ہونے کے برابر موصول ہوئے تو ماتھا ٹھنکا کہ ایسا کیوں ہوا ہے؟
دن چڑھے جب خبریں سنیں تو معلوم ہوا کہ اسرائیل نے ایک مرتبہ پھر وہ کردیا جس کااُس نے کہا تھا۔ جو کچھ بھی گزری رات میں ہوا، اس کا تو اسرائیل نے صرف ایک دن پہلے ہی کہا تھا، جبکہ ہمارا خیال تھا کہ بھارت کی طرح یہ بھی چند ہفتے تو لے گا ہی جبکہ ایران تو گزشتہ کئی دنوں سے کہہ رہا تھا کہ اسرائیل نے اگر ایران کی طرف میلی نگاہ سے دیکھا تو وہ اُس کو ملیا میٹ کردے گا۔ ایران کے ایسے بیانات سے دنیا بھر کے مسلمان مطمئن تھے کہ اسرائیل ایران کی طرف نہیں دیکھے گا بلکہ بعض مسلمان تو یہ بھی سوچ رہے تھے کہ اسرائیل نے اگر ایران کی طرف قدم بڑھایا تو پاکستان اپنے ایٹم بم کے ساتھ اُس کے دفاع کے لیے موقع پر پہنچ جائے گا۔بہرحال سادہ لوح مسلم اُمّہ کو یہ تو معلوم ہی نہیں ہوا کہ ایران کو اسرائیل سے زیادہ ایران میں موجود اسرائیلی جاسوسوں نے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ایران کو جس قدر نقصان پہنچا ہے یقیناً اس کا ادراک ایران کو بھی نہیں تھا اور اگر تھا تو اُن کے پاس متبادل پلان نہیں تھا۔بہرحال ایک مسلم ملک میں معصوم شہریوں کو براہ راست ٹارگٹ کرکے انتہا پسند صہیونیوں کے سوا تو کسی کو خوشی نہیں ہوئی ۔
حقیقت یہ ہے کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان باضابطہ سفارتی تعلقات ایک عرصے سے نہیں ہیں، بلکہ 1979ء میں ایرانی انقلاب کے بعد سے تو خراب سے خراب تر ہو گئے اور 1991ء میں خلیجی جنگ کے خاتمے کے بعد تو کھلم کھلا دشمنی کا مظاہرہ شروع ہوگیا۔اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ انقلاب کے بعد کا ایران اسرائیل کی قانونی حیثیت کو بطور ریاست تسلیم ہی نہیں کرتا اور فلسطین کو تاریخی فلسطینی علاقوں کی واحد قانونی حکومت کے طور پر دیکھتا ہےجبکہ دوسری طرف اسرائیل ایران کو مشرق وسطیٰ کے استحکام کے لیے خطرہ سمجھتا ہے اور اُس نے وقتاً فوقتاً مختلف فضائی حملوں میں ایرانی اثاثوں کو نشانہ بنایا ہے۔
ایران میں یہودی تاریخ کا آغاز بائبل کے آخری دور سے ہوتا ہے۔ یسعیاہ، ڈینیل، عزرا، نحمیاہ، کرانیکلز اور ایستھر کی بائبل کی کتابیں فارس میں یہودیوں کی زندگی اور تجربات کے حوالے پر مشتمل ہیں۔ عزرا کی کتاب میں، فارس کے بادشاہ سائرس عظیم کو یہودیوں کو یروشلم واپس آنے اور اپنے ہیکل کو دوبارہ تعمیر کرنے کی اجازت دینے اور قابل بنانے کا سہرا دیا گیا ہے۔ اس کی تعمیر نو ’’سائرس، دارا، اور فارس کے بادشاہ ارتخششتا کے فرمان کے مطابق‘‘ کی گئی تھی ، اس وقت تک فارس میں ایک اچھی طرح سے قائم اور بااثر یہودی کمیونٹی موجود تھی۔ فارسی یہودی آج کے ایرانی علاقوں میں2700 سال سے زیادہ عرصے سے مقیم ہیں۔
1947 ءمیں ایران اُن 13 ممالک میں شامل تھا، جنہوں نے اقوام متحدہ میں فلسطین کی تقسیم کے منصوبے کے خلاف ووٹ دیا تھا پھر دو سال بعد اقوام متحدہ میں اسرائیل کے داخلے کے خلاف ووٹ دیا ۔تاہم،ترکی کے بعد یہ دوسرا مسلم اکثریتی ملک تھا جس نے اسرائیل کو ایک خودمختار ریاست کے طور پر تسلیم کرلیاتھا۔ایرانی انقلاب جس میں مغرب نواز بادشاہ محمد رضا شاہ پہلوی کو معزول کر کے اسلامی جمہوریہ ایران وجود میں آیا تو ایران نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی اور تجارتی تعلقات منقطع کر لیے۔ ایرانی انقلاب اور 1979ء میں پہلوی خاندان کے زوال کے بعد، ایران نے شدید اسرائیل مخالف موقف اپنایا۔ ایران نے اسرائیل کے ساتھ تمام سرکاری تعلقات منقطع کر دئیے، ایران نے اسرائیلی پاسپورٹ قبول کرنا بند کر دیا، اور ایرانی پاسپورٹ رکھنے والوں پر مقبوضہ فلسطین کا سفر کرنے پر پابندی لگا دی۔تہران میں اسرائیلی سفارت خانے کو بند کر کے PLO کے حوالے کر دیا گیا تھا۔آیت اللہ خمینی نے امریکہ کو ’’عظیم شیطان‘‘ جبکہ اسرائیل کو ’’اسلام کا دشمن‘‘ اور ’’چھوٹا شیطان‘‘ جبکہ سوویت یونین کو ’’کم شیطان‘‘ قرار دیا۔اِس سب کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ 1980-88ء کے دوران ایران عراق جنگ کے دوران کئی قسم کی سٹریٹیجک ضروریات نے خمینی حکومت کو اسرائیل کے ساتھ خفیہ تعلقات برقرار رکھنے پر مجبورکئے رکھا ۔اسرائیل نے 1981ء میں اپنے آپریشن سیشیل میں اسرائیل ملٹری انڈسٹریز، اسرائیل ایئر کرافٹ انڈسٹریز اور اسرائیل ڈیفنس فورسز کے ذخیرے سے ایران کو 75 ملین امریکی ڈالر مالیت کا اسلحہ فروخت کیا۔جن میں ٹینک شکن توپیں اور اُن کے گولے ، ہوائی جہاز کے انجن کے اسپیئر پارٹس اور TOW میزائل شامل تھے ۔
1990ء کی دہائی کے اوائل میں سوویت یونین کے خاتمے اور خلیجی جنگ میں عراق کی شکست کے فوراً بعد اسرائیلی وزیر اعظم نے ایران پر زیادہ جارحانہ رویہ اپنایا اور ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے اسرائیل کے خلاف خاصے اشتعال انگیز بیانات بھی دئیے ،پھر 1992ء میں بیونس آئرس میں اسرائیلی سفارت خانے پر بمباری کا الزام اسرائیل نے ایران پر عائد کیا،اِس کے علاوہ ایران کی طرف سے حزب اللہ، فلسطینی اسلامی جہاد، حماس، اور حوثیوں جیسے گروپوں کی فنڈنگ اور ایرانی جوہری پروگرام کے حوالے سے بھی ایران پر فرد جرم عائد رہی جس سے معاملات خراب سے خراب ترہوتے چلے گئے۔
1997 ءمیں منتخب ہونے والے اصلاح پسند ایرانی صدر محمد خاتمی کے دور میںخیال تھا کہ ایران اسرائیل تعلقات بہتر ہوں گے مگر صدر خاتمی نے بھی اسرائیل کو ایک ’’غیر قانونی ریاست‘‘ اور ایک ’’طفیلی‘‘ قرار دیا، اِس کے ساتھ ساتھ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ 1999ءمیں یہودی ’’ایران میں محفوظ‘‘ ہوں گے اور تمام مذہبی اقلیتوں کو تحفظ فراہم کیا جائے گا۔دسمبر 2000ء میں، آیت اللہ علی خامنہ ای نے اسرائیل کو ایک ’’کینسر کی رسولی‘‘ قرار دیا، جسے خطے سے ہٹا دیا جانا چاہیے۔ 2003 ء میں ایران نے اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرتے ہوئے اُس کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی کوشش کی مگر اِس امن تجویز کو امریکہ نے قبول نہیں کیا۔ جنوری 2004ء میں خاتمی نے ایک اسرائیلی رپورٹر سے بات کی، جس نے اُن سے پوچھا کہ ایران کن بنیادوں پر اسرائیل کو تسلیم کرے گا۔ یہ پہلا موقع تھا جب کسی ایرانی صدر نے کسی اسرائیلی کے ساتھ عوامی سطح پر بات کی تھی۔2005ء میں اُنہوں نے اِس بات پر زور دیا کہ ’’فلسطین فلسطینیوں کا ہے اور فلسطین کی تقدیر کا تعین بھی فلسطینی عوام کو کرنا چاہیے۔‘‘ 2005ء میں خامنہ ای نے صدر احمدی نژاد سے منسوب ایک تبصرے کہ ’’ اسرائیل کو نقشے سے مٹا دینا چاہیے‘‘ بین الاقوامی ہنگامہ آرائی کے بعد ایران کی پوزیشن واضح کرتے ہوئے کہا کہ ’’اسلامی جمہوریہ ایران نے کبھی کسی ملک کو دھمکی نہیں دی اور نہ ہی کبھی دھمکی دے گا۔2006ء کی لبنان جنگ کے دوران، خیال کیا جاتا تھا کہ ایرانی پاسداران انقلاب (IRGC) نے اسرائیل پر حملوں میں حزب اللہ کے جنگجوؤں کی براہ راست مدد کی تھی۔‘‘
2010ء میں ایرانی جوہری سائنسدانوں کو نشانہ بنانے کے لیے قتل و غارت کی ایک لہر شروع ہوئی۔ بڑے پیمانے پر یہ خیال کیا جاتا تھا کہ یہ قتل اسرائیل کی انٹیلی جنس سروس موساد کا کام ہے۔ ایران اور عالمی میڈیا ذرائع کے مطابق سائنسدانوں کو قتل کرنے کے لیے جو طریقے استعمال کیے گئے وہ اس کی یاد تازہ کر رہے ہیں جس طرح موساد نے پہلے اہداف کو نشانہ بنایا تھا۔ یہ قتل ایران کے جوہری پروگرام کو روکنے کی کوشش کے طور پر، یا اس بات کو یقینی بنانے کے لیے تھے کہ ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے کے بعد وہ بحال نہ ہو سکے۔
پہلے حملے میں، 12 جنوری 2010ء کو ذرہ طبیعیات کے ماہر مسعود علی محمدی اُس وقت مارے گئے جب ان کی کار کے قریب کھڑی ایک موٹر سائیکل دھماکے سےپھٹ گئی۔جون 2010ء میں، Stuxnet،نامی کمپیوٹر کاوائرس دریافت ہوا جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اُسے امریکہ اور اسرائیل نے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرنے کے لیے تیار کیا تھا۔ انسٹی ٹیوٹ فار سائنس اینڈ انٹرنیشنل سیکیورٹی کی طرف سے کی گئی ایک تحقیق میں یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ Stuxnet نے نتنز افزودگی پلانٹ میں تمام نصب شدہ سینٹری فیوجز کے 10% یعنی 1000 کو نقصان پہنچایا۔ایران کا دعویٰ ہے کہ اُس کے مخالفین اُس کے جوہری پروگرام کو سبوتاژ کرنے کے لیے باقاعدگی سے ناقص آلات کی فروخت اور کمپیوٹر وائرس کے ذریعے حملے کرتے ہیں۔
اسرائیلی خفیہ کارروائیوں کے جواب میں، ایرانی ایجنٹوں نے مبینہ طور پر اسرائیلی اور یہودی اہداف کو نشانہ بنانے کی کوشش شروع کردی۔ اِس کے بعد ممکنہ اہداف کو ہائی الرٹ پر رکھا گیا۔ 11اکتوبر 2011 ءکو، امریکہ نے ایک مبینہ ایرانی سازش کو ناکام بنانے کا دعویٰ کیا جس میں واشنگٹن ڈی سی اور بیونس آئرس میں اسرائیلی اور سعودی سفارت خانوں پر بمباری شامل تھی۔
فروری 2012ء کے اواخر میں، Stratfor ای میل لیک میں یہ دعویٰ بھی شامل تھا کہ اسرائیلی کمانڈوز نے کرد جنگجوؤں کے ساتھ مل کر، جوہری اور دفاعی تحقیقی منصوبوں کے لیے استعمال ہونے والی کئی زیر زمین ایرانی تنصیبات کو تباہ کر دیا۔
2013ء تا2021ء کے دوران جبکہ شام میں خانہ جنگی ہورہی تھی اسرائیلی فوج مبینہ طور پر اپنے آپ کو ممکنہ خطرات کے لیے تیار کر رہی تھی اور شام میں طاقت کا خلا پیدا ہونے کی منتظر تھی ۔ ایک اسرائیلی اہلکار نے جنوری 2014ءکو دی ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ ’’اسد کے بعد اور شام میں اپنے قدم جمانے یا مضبوط کرنے کے بعد وہ حرکت میں آ جائیں گے اور اسرائیل پر حملہ کردیںگے ۔‘‘ 6مئی 2014 ءکو اطلاع ملی تھی کہ ایرانی شہر قزوین کو ایک دھماکے نے ہلا کر رکھ دیا جبکہ لاس اینجلس ٹائمز نے اطلاع دی تھی کہ یہ شہر خفیہ جوہری تنصیب کا گھر ہو سکتاہے۔ایرانی سرکاری میڈیا کے مطابق 24 اگست 2014 ءکو آئی آر جی سی نے نتنز ایندھن کی افزودگی کے پلانٹ کے قریب ایک اسرائیلی ڈرون مار گرایا تھا جبکہ اسرائیلی فوج نے اِس خبر پر کوئی تبصرہ نہیں کیا تھا۔
مئی 2022ء میں، کرنل صیاد خدائی کو تہران میں ان کے گھر کے باہر موٹر سائیکلوں پر سوار دو مسلح افراد نے قتل کر دیا۔ ایران نے اِس کا الزام اسرائیل پر عائد کیا۔اسرائیلی وزیر اعظم کے ترجمان نے ’قتل پر تبصرہ‘ کرنے سے انکار کر دیا تھاجبکہ اسرائیل کے ایک انٹیلی جنس اہلکار نےNYTکواطلاع دی تھی کہ اس قتل کا ذمہ دار اسرائیل ہے۔پھرNYT نے اسرائیل پر دو ایرانی سائنسدانوں ایوب انٹیزاری اور کامران آغامولائی کو ’’اُن کے کھانے میں زہر ملا کر‘‘ قتل کرنے کا الزام لگایا۔
5 اگست 2024ء کو ایرانی وزیر خارجہ علی باقری نے اسرائیل میں اپنے ہم منصب اسرائیل کاٹز کو ہنگری کے وزیر خارجہ کی وساطت سے فلسطینی اتھارٹی کے مذاکرات کار اسماعیل ہنیہ کے قتل کا بدلہ لینے کے ارادے سے آگاہ کیا۔یکم اکتوبر 2024ء کو ایران نے ہانیہ، حسن نصر اللہ اور عباس نیلفروشان کے قتل کے بدلے میں اسرائیل پر تقریباً 180 بیلسٹک میزائل داغے۔ 27 اکتوبر کو ، اسرائیل نے اصفہان کے ایرانی علاقے میں میزائل ڈیفنس سسٹم پر حملے کے ذریعے اِس حملے کا جواب دیا۔
13 جون 2025ء کو اسرائیل نے ایرانی جوہری اور فوجی اہداف پر حملے کیے تو یوں لگا کہ جیسے ایران ختم ہو گیا ہے اور اسرائیل پاکستان کی سرحد پر پہنچ چکا ہے ۔مگر ذرا دم لینے کے بعد جب ایران نے اسرائیل پر جوابی حملہ کیا تو پورے کا پورا سرائیل دم بخود رہ گیا۔ اسرائیل کے عوام کو وہ تمام مناظر لائیو دیکھنے کو ملے جو چند روز پہلے تک صرف غزہ کے لوگوں کو ہی ہر روز دن میں کئی مرتبہ دیکھنے کو ملتے تھے۔پھر پاکستان ، ترکی اور سعودی عرب سمیت تقریباً 16 مسلم ممالک ایران کے پیچھے کھڑے ہو گئے جس سے اسرائیل کو احساس ہوا کہ یہ جنگ چھیڑنا اُس کےلئے اچھا نہیں تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل نے اپنی دانست میں ایران کا ایٹمی پروگرام اور ٹاپ لیڈر شپ کو تو ختم کردیا ہے مگر ایران کی طرف سے اسرائیل پر نیوکلیر حملے کا خطرہ بدستور موجود ہے۔دوسری طرف امریکہ اسرائیل کی مدد کے لئے ہر ممکن کوشش کررہا ہے ،اس نے اپنے 30 طیارے یورپ میں شمالی اٹلی ، بیلجیئم ،جرمنی ،اسکاٹ لینڈ، اسپین اور یونان کے ائیر بیسز پر تعینات کر دئیے ہیں جو بظاہر تو ایران کے خلاف استعمال ہوتے ہوئے دکھائی نہیں دیتے مگر یہاں صدر ٹرمپ کی فطرت کو ملحوظ خاطر رکھیں کہ وہ جو نہیں کہتے، کرتے ہیں اور جو کہتے ہیں ،اس کے برعکس کرتے ہیں ۔امریکہ کی جنگ بندی اور مذاکرات کے لئے دعوت کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جانا چائیے اور یہ بات بھی مد نظر رکھنی چاہیے کہ اسرائیل نے ایران میں جواہداف مقرر کررکھے ہیں اُن کے حصول تک امریکہ جنگ بندی کے نعرے لگانے سے زیادہ کچھ نہیں کرے گا اور اہداف مکمل ہوتے ہی ایران اور اسرائیل کو مذاکرات کی میز پر لانے میں کامیاب ہو جائے گا۔اگر خدانخواستہ ایسا ہوتا ہے تو یقین کیجئے دنیااسرائیل کو پاکستان کی عین سرحد پر کھڑا ہوا دیکھے گی اور یہ منظر امریکہ ، بھارت اور اسرائیل کے سوا کسی بھی ملک کے لئے قابل قبول نہیں ہو گا۔یہ الگ بات ہے کہ جنگ زدہ خطے میں کئی مسلم ملک ابھی بھی اسرائیل کے مددگار کا کام کررہے ہیں۔سوال یہ ہے کہ یہ ممالک ایسا کیوں کررہے ہیں؟ اس سوال کا جواب تو یقیناً اُن کے پاس ہو گا مگر حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی مسلمان کے لئے ایران زیادہ اہم ہو یا نہ ہو مگر اسلام کی اہمیت مسلم ہونی چاہیے اور اب مسلم ممالک کو اسلام کی خاطر یہود کے خلاف ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوجانا چاہیے۔