پیتے ہیں لہو دیتے ہیں تعلیم ِمساوات
عامرہ احسان
ہم تاریخ میں جنگ عظیم اول، دوئم کا تذکرہ پڑھتے رہے۔ یہی شکر کرتے تھے کہ ہم دنیا میں ذرا بعد ہی میں وارد ہوئے اور تباہ کاریاں دیکھنے سے بچ گئے۔ پھر بڑے بڑے اخلاقیات اور جنگوں کی حد بندی پر ادارے قائم ہو گئے۔ ہمیں بتایا گیا کہ دنیا اب نہایت مہذب، ترقی یافتہ، انسان دوست ہو گئی ہے۔ہمارے تعلیمی نظام نے سبھی کچھ فلٹر کر کے پڑھایا۔ یوں کہ دنیا میں مسلمان ہی قتل و غارت گری کرتے رہے اور مغرب نہایت انسانیت نواز، کتے بلی، ڈولفن، بطخ کا مرنا بھی گوارا نہیں کرتا۔ یہاں تک کہ جنگ خلیج سے ہوتے ہوئے ہم نے اُن کا حقیقی چہرہ 2001ء کے بعد افغانستان تا غزہ بے شمار محاذوں پر دیکھ لیا۔
تاریخ میں وارد ہیروشیما، ناگا ساکی کو ایک نظر دیکھ لیجیے۔ اندازاً ایک لاکھ 66 ہزار اموات ہیروشیما میں اور 80 ہزار ناگا ساکی میں پہلے چند ماہ میں ہوئیں۔ آگ کے طوفان، دھماکوں کے نتیجے میں بے پناہ اموات محض چند دنوں اور ہفتوں میں ہوئیں۔ شہروں کے مناظر عین غزہ کے ملبے والے تھے۔ یا جو شام میں ہوا۔ جبکہ غزہ میں ایک لاکھ ٹن کے بم گرائے گئے، سات نیو کلیئر بموں کے برابر۔ جاپان نے مہینہ بھر کے اندر 2 ستمبر 1945 ء کو ہتھیار ڈال دئیے۔ آنے والی نسلوں تک زمین میں تابکاری اثرات، کینسر، معذوری، پیدائشی امراض بو دئیے اس حملے نے ۔جاپان تو یوں بھی ہتھیار ڈالنے ہی والا تھا مگر امریکہ نے نو تیار شدہ ایٹم بم آزمانے کا یہ نادر موقع استعمال کرنے اور دنیا میں اپنی بڑائی کے جھنڈے گاڑنا لازم جانا! یہ بھی دیکھیے کہ دنیا میں اس قیامت پر رد عمل کیا رہا؟ تمام بڑے شہروں کی تصاویر کی قطار ہے جہاں یہ جشن منایا جا رہا ہے کہ جنگ ختم ہو گئی! نیو یارک میں جہازوں پر کھڑے گردا گرد خوشی سے اچھلتے، کوپن ہیگن میں ڈھول پیٹتے، گلے ملتے، قہقہے لگاتے، پیرس، پرتگال، غرض ہر طرف یہی مناظر تھے۔ روس نے کہا: ہیروشیما نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ حالانکہ ہلا تو صرف جوزف سٹالن خود تھا کیونکہ روس خالی ہاتھ بلا نیو کلیئر بم کھڑا رہ گیا اور امریکہ سبقت لے گیا!یہ ہے عالمی جنگی اخلاقیات کا منظر!کل اور آج یکساں۔
ہم آج اسی سے گزر رہے ہیں۔نائن الیون کے تین ہزار مرد و زن (بچے، حاملہ عورتیں، ہسپتال، تعلیمی ادارے نہیں، معاشی قوت نشانہ بنی تھی) کے عوض مسلمان ممالک خطہ در خطہ بھسم کیے گئے! غزہ سے شروع ہو کر، شام پر اسرائیل کی چڑھائی، بھارت بہانہ ساز، پاکستان پر چڑھ دوڑا۔ چھوٹے سے جنگی معرکے سے حو اس باختہ ہوکر پیچھے ہٹا۔ غزہ دوبارہ ہو لناک خوراک، ضروریاتِ زندگی کی بندش میں آگیا۔ دنیا اس اذیت پر از سر نو صف بندی کیے کھڑی تھی۔ 50 ممالک سے مصر تارفح بارڈر دباؤ ڈالنے کی مہم، تیونس کی سرکردگی میں براستہ لیبیا رفح تک پہنچنے کو قطار اندر قطار بسیں، گاڑیاں تیار لیے روانہ!’صمود‘، قافلۂ استقامت بے شمار درد سے بلکتی تنظیموں کے، شمال مغربی افریقی مسلمان مدد کو لپکے۔
مگر امریکہ، اسرائیل کا پٹھو مصر ایسا کیوں کر ہونے دیتا۔ لیبیا میں حفتربھی روکنے کی ذمہ داری پر فائز تھا۔ دنیا بھر سے اٹھنے، تڑپنے والے آئر لینڈ، برطانیہ، امریکہ، جنوبی افریقہ سے ( نیلسن منڈیلا کا پوتا) سبھی نکل کھڑے ہوئے۔ قاہرہ ایئرپورٹ پر ان مہمانوں کی درگت مصری فوج اور لیبیا میں حفتر دستوں کے ذمے تھی! (فلوٹیلا سے اسرائیل پہلے نمٹ چکا تھا۔ 12 اہم بین الاقوامی کارکنان میں سے کچھ واپس بھیج دئیے۔ باقی گرفتاری میں مزہ چکھانے کو روک لیے۔) با ضمیری کا منظر یہ تھا کہ ایک مصری فوجی دنیا کے حساس قیمتی ترین درد مند گوروں کو مسلمانوں کی مدد پر پہنچنے کی پاداش میں اپنے ہم وطنوں (دیگر مصری فوجی) کے ہاتھوں پٹتا دیکھ کر گھٹنوں میں سردئیے بے بسی سے رو رہا تھا! ادھر اہل غزہ کی مدد کو نہ پہنچ پانے کے غم میں برطانوی طبی کارکن نے انسانیت، اسلام،عربیت سبھی کے واسطے دے کر بے حس مصری مردہ ضمیروں کو جگانے کی کوشش کر دیکھی۔’میں نے فلسطین میں اپنی آنکھوں سے حاملہ ماؤں کو گولیاں کھا کر مرتے دیکھا ہے۔ میری گود میں غزہ کے بچوں نے دم توڑا ہے۔ تمہارے دل کہاں ہیں؟ بار بار پوچھتا ہے۔ خدارا ہمیں یہ مارچ کرنے دو۔ ہم انسانیت کے لیے (اتنی دور سے آکر!) یہاں کھڑے ہیں اور تم؟ تم یہاں کیوں کھڑے ہو؟ (ہم مسلمان حب دنیا، کراہیۃ الموت، وہن کے مریض، ڈالر کے پجاری ہیں! )مظلوم اہل غزہ کی ہمدردی میں یہ گورا کڑیل جوان پھوٹ پھوٹ کر رو دیتا ہے!
ساتھ ہی نیتن یا ہو ایران پر چڑھ دوڑا۔ جیٹ حملوں اورمیزائلوںکی یلغار میں اہم ترین فوجی شخصیات، سینئر ایٹمی سائنس دانوں، چیف آف آرمی سٹاف، پاسداران انقلاب کے سربراہ سمیت ہلاک کر دئیے۔ ایران کی ایٹمی، دفاعی تنصیبات، گیس کے ذخائر، دیگر درجنوں مقامات کو نشانہ بنایا۔ ایرانی سپریم لیڈر کے اہم ترین مشیر اور معتمد علی شمخانی اور بغیری جو خمینائی کے بعد دوسری اہم ترین طاقتور شخصیت تھی، کو بھی نشانے پر رکھا۔ جگہ لینے والے محمد پاک پور نے کہا کہ ہم اسرائیل پر جہنم کے دروازے کھول دیں گے۔ یمن نے بھی میزائل داغے، ایران کے کئی میزائل آئرن ڈوم اور اردن کے شاہ عبد اللہ سے بچ کر جالگے۔ سائرن، چیخیں، ہنگامہ وہی مناظر تل ابیب، یروشلم میں اسرائیل کے حصے آئے۔ ایران نے کہا: یہ جنگ انہوں نے چھیڑی ہے اب بچ کر نہیں جاسکتے۔ اسرائیل نے اپنے ہوائی جہاز یکے بعد دیگرے باہر ممالک میں تحفظ کے لیے اڑا دئیے ہیں۔ کئی سائپرس میں اترے ہیں۔ نیتن یاہو کا سرکاری جہاز بھی چلا گیا۔ ایتھنز میں دیکھا گیا۔ بن گوریان، سب سے بڑا ہوائی اڈہ خالی پڑا ہے۔ گلوبل اتحادیوں نے پروازیں روک دی ہیں۔ اسرائیلی ملک کے اندر باہر رکے ہوئے ہیں غیر یقینی حالات کی بنا پر! اسرائیل پر خوف و ہراس طاری ہے۔ سائرن کی آواز پر شیلٹر میں لپکتے ۔ روتی چیختی عورتیں۔ ڈائپر پہنے دوڑ لگاتے چھپتے مرد۔ بزدلی کی بدبو کے بھبھکے ۔ اب شاید غزہ کی شیروں، شہ بازوں جیسی بہادری و استقامت سمجھ آئے۔ یونہی تو بلجیم تک ’ہند رجب فاؤنڈیشن‘ اور کولمبیا میں اس بچی کے نام پر ہال نہیں بنائے گئے جو لاشوں سے بھری گاڑی میں تنہا مدد کے لیے پکارتی رہی۔ اور اسرائیلی سورماؤں نے قہقہے لگاتے معصوم گڑیا کے سینے میں گولیاں اتاریں۔ اب چند میزائیلوں پر اسرائیل لرزاٹھا، متعفن ہو گیاڈائپر پہن بیٹھا؟ اسرائیل کے عزائم امریکی شہ کی بنا پر حد درجہ شتر بے مہار ہو چکے ہیں۔اسرائیل نے’ آپریشن رائزنگ لائن‘ جاری رکھنے اور مشرقِ وسطیٰ کی شکل بدل دینے کا اعلان کیا۔ ساتھ ٹرمپ کی ایران کو خطرناک دھمکیاں اور امریکہ کا اس جنگ میں باضابطہ شمولیت کی تیاریاں!ان سے کچھ بھی بعید نہیں،ہمیں بھی چوکس رہنا ناگزیر ہے۔ امریکہ، اسرائیل دونوں اپنے اندرونی خلفشار سے ڈھٹائی کی حد تک بے نیاز ہیں۔ نیتن یا ہو با وجود تمام تر ملکی مخالفت کے جنگوں پر جنگیں مول لے رہا ہے تاکہ کرسی مضبوط رہے حالات کی نزاکت کی آڑ میں۔
ادھر ٹرمپ نے کئی دہائیوں کے بعد امریکی روایات سے ہٹ کر تیسری دنیا کے ممالک کی طرح (اپنی سالگرہ کے دن) شاہانہ انداز میں فوجی پریڈ کا اہتمام کیا۔ آتش بازی، ٹینک، ہوائی جہاز، فوجی قطاراندر قطار۔ ملک بھر میں ’بادشاہ منظور نہیں‘ کے نعرے بڑے شہروں میں لگے۔ احتجاج سے سڑکیں امڈ آئیں۔ امریکیوں نے ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ ایسی پیریڈیں ماسکو اور شمالی کوریا میں ہوتی رہیں، امریکہ میں نہیں۔ مواصلاتی ڈائریکٹر کا تبصرہ تھا۔ ’کوئی بادشاہ / بادشاہت نہیں، مکمل اور انتہائی ناکامی‘۔ امیگریشن کے معاملے پر شدید مظاہرے جاری ہیں۔ معیشت کے لیے دھچکا۔ ایسے میں 45 ملین ڈالر کی سالانہ پیریڈ پر شدید تنقید ہے۔
پاکستان، ایران پر غیر معمولی حملے کے بعد اور مودی کے زخم اٹھانے کے تناظر میں بھر پور تیاری پر توجہ دے۔ امریکہ اور اسرائیل کسی کے سگے نہیں۔ جہاں لاکھوں میں نوجوان ملک وقوم کی خدمت یا اللہ رسول ﷺ کے فولورز ہوتے، غزہ پر روتے برطانوی، امریکیوں کو دیکھ کر، شرمسار ہو کر اپنا قبلہ درست کرتے۔ اس کے بر عکس ثناء یوسف کے غم اور فولونگ میں مبتلا اب کسی نئی کی تلاش میں ہیں!دنیا بھر میںاہل غزہ کے فولورز اپنی ٹک ٹاکوں پر فلسطینیوں کے غم میں ادھ موئے ہوئے۔اسی ہفتے دی ہیگ میں غزہ کی ناکہ بندی کے خلاف ہالینڈ کی تاریخ کا سب سے بڑا ڈیڑھ لاکھ کا مظاہرہ ہوا۔ یورپ کے دیگر بڑے شہروں میں بھی غزہ کے حق میں بھرپور مظاہرے ہوئے۔ قیامت خیز گرمی میں برطانیہ امریکہ کی ٹھنڈی، آسائشیں چھوڑ کر مظلوموں کی مدد کو ہزاروں میل کے سفر، تیونس، الجیریا، المغرب کے مسلمان اور ادھر ہر ملک سے گورے، مصر میں پولیس کے تشدد سہہ رہے ہیں؟ اور یہاں؟ شرمناک حادثات پر المناک ردِ عمل قوم کے مستقبل کا آئینہ دار ہے! جوانوں کے مایوس کن رویوں کی بنا پر کیا کہیں!
ہاتھ بے زور ہیں، الحاد سے دل خوگر ہیں
امتی باعثِ رسوائی پیغمبرؐ ہیں