اب وقت آگیا ہے کہ مسلک اور فرقہ سے بالاتر ہو کر اُمت
کی سطح پر سوچا جائے : رضاء الحق
ایران پر اسرائیلی حملے دراصل رجیم چینج منصوبے کا
حصہ ہیں جن کا مقصد رضاشاہ پہلوی کے بیٹے کو تخت
پر بٹھانا ہے :ڈاکٹر فرید احمد پراچہ
اُمت کو ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو اُمت کے
اجتماعی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے لیڈ کر
سکے : ڈاکٹر محمد عارف صدیقی
’’ایران پر اسرائیلی حملے ‘‘
پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف تجزیہ نگاروں اور دانشوروں کا اظہار خیال
میز بان : وسیم احمد
مرتب : محمد رفیق چودھری
سوال: امریکہ کی پشت پناہی میں اسرائیل نے ایران پر جوحالیہ حملہ کیا ہے، اِس کا مقصد ایران کی جوہری صلاحیت کو سبو تاژ کرناہے یا پس پردہ کچھ اور مقاصد بھی ہیں ؟
رضاء الحق: ہٹلر کا نائب، جنرل جوزف گوئبلز اس کے ڈیپارٹمنٹ آف پروپیگنڈا کا چیف بھی تھا ،اس نے کہا تھا کہ جھوٹ اتنا زیادہ بولوکہ وہ سچ لگنے لگے اور یہ پھر صرف ہٹلر اور اس کی افواج نے ہی نہیں کیا بلکہ ان کے مخالف اتحادیوں نے بھی یہی کیا۔ امریکہ کا ڈیپارٹمنٹ آف انفارمیشن اُس وقت ڈیپارٹمنٹ آف پروپیگنڈا کہلاتا تھا۔ پروپیگنڈا کا مقصد جھوٹ کی بنیاد پر عوام کی ذہن سازی کرنا ہے اور آج کل پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر یہی کچھ ہورہا ہے ۔بالخصوص سوشل میڈیا تو پروپیگنڈا ٹول بن چکا ہے ۔ آج کل AIکی مدد سے جعلی ویڈیوز اور آڈیوز بھی بن رہی ہیں ۔ امریکی صدر ٹرمپ تو جب سے حکومت میں آئے ہیں وہ دکھاتے کچھ اور ہیں اور کرتے کچھ اور ہیں ۔ ایران پر اسرائیلی حملہ سے قبل یہی کہا تھا کہ ہم ایران کے ساتھ مذاکرات کرنے جارہے ہیں، گویا خود کو امن کا داعی ثابت کر رہے تھے لیکن پھر اچانک اسرائیل نے ایران پر حملہ کر دیا گیا۔ حالانکہ ایران نے انٹرنیشنل اٹامک انرجی کمیشن کو اپنے جوہری پلانٹس تک باقاعدہ رسائی دی ہوئی تھی اور وہ تحقیقات کے بعد بار بار یہ کہہ چکا تھا کہ ایران جوہری ہتھیار بنانے کی طرف نہیں جارہا ، امریکہ نے خود بھی چند دن پہلے اپنے اداروں کی رپورٹ شائع کی ہے کہ ایران جوہری ہتھیار بنانے سے بہت دور تھا ۔ پھر تو ایران پر حملے کا جواز ہی نہیں تھا ۔پھر یہ کہ خمینی اور آیت اللہ خامنہ ای کا باقاعدہ فتویٰ بھی موجود ہے ، انہوں نے کہا تھا کہ جوہری ہتھیار وں کی وجہ سے عام لوگ ہلاک ہوتے ہیں ، لہٰذا یہ غیر شرعی ہے اور ہم اس کا استعمال نہیں کریں گے ۔ البتہ ایران صرف اپنے دفاع کے لیے جوہری سہولت حاصل کرنا چاہتا تھا تاکہ دشمن کو باز رکھا جاسکے ۔ دوسرا یہ کہ وہ جوہری توانائی کو بجلی کی پیداوار کے لیے استعمال کرنا چاہتے تھے ۔اسرائیل کے ایران پر حملہ کے پس پردہ مقاصد کچھ اور ہیں ۔ غزہ ، لبنان اور اُردن اسرائیل کے ہاتھ میںہیں ، اُردن کے شاہ عبداللہ کا حالیہ بیان تھا کہ ہم نے اسرائیل کی جانب جانے والے ایرانی میزائلوں کو روکا ہے۔ شاہ عبداللہ اور اس کے والد شاہ حسین غدار ابن غدار ہیں ، ان کے دادا شریف مکہ کو ٹرانس اُ ردن کی بادشاہت اسی لیے سونپی گئی تھی کہ اس نے خلافت عثمانیہ کے خلاف برطانیہ کا ساتھ دیا تھا ۔ عراق کو امریکہ اور برطانیہ پہلے ہی تباہ کر چکے ہیں ۔ اگر خدانخواستہ ایران کو بھی وہ زیر کر لیتے ہیں تو پاکستان اور اسرائیل کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں رہے گی۔ اسرائیل سے پاکستان کا فاصلہ تقریباً3400 کلو میٹر کے قریب ہے ۔ حامد میر نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے 5 ہزار کلو میٹر کی رینج کے میزائل بنانے کا منصوبہ پیش کیا تو پرویزمشرف بہت غصے ہوئے کہ تم اسرائیل کو ٹارگٹ کرنا چاہتے ہو؟ حالانکہ اسرائیل کے وزیراعظم کا چند سال قبل انٹرویو ایک انٹرنیشنل چینل پر کیا گیا جس میں اس سے سوال پوچھا گیا کہ اسرائیل کو کس ملک سے خطر ہ ہے ، اُس نے کہا کہ دو ایسے ملک ہیں جن سے ہمیں خطرہ ہے ، ایک وہ ہے جو اسلامی لحاظ سے انتہا پسند ہے اور ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کی کوشش کررہا ہے(یعنی ایران ) اور دوسرا وہ ہے جس کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں (یعنی پاکستان)اور ہمیں خدشہ ہے کہ وہ اسلام پسندوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں ۔
سوال: غزہ میں اسرائیل مظالم کی مکمل پشت پناہی امریکہ کر رہا ہے اور جب بھی جنگ بندی کی قرارداد پیش ہوتی ہے تو امریکہ اسے ویٹو کر دیتاہے اور اب ایران پر اسرائیلی حملہ کے بعد پہلے تو امریکہ کہتا رہا ہےکہ ہمارا اس جنگ سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن اب ٹرمپ کے بیانات سے لگ رہا ہے کہ وہ اس جنگ میں باقاعدہ شامل ہونا چاہتا ہے ، امریکی بحری بیڑا 60 جنگی جہازوں اور 5 ہزار فوجیوں کے ہمراہ خلیج فارس میں پہنچ چکا ہے اور ٹرمپ دھمکی دے رہا ہے کہ تہران کو فی الفور خالی کر دیا جائے ۔ آپ کے خیال میں کیا ہونے جارہا ہے ؟
ڈاکٹر محمد عارف صدیقی: یہ عالم اسلام کی خوش قسمتی ہے کہ امریکہ کا صدر ڈونلڈ ٹرمپ جیسا شخص ہے جو اپنے تکبر کی وجہ سے بعض اوقات وہ باتیں بھی کہہ جاتاہے جو چھپانے والی ہوتی ہیں ۔ یعنی وہ عالم اسلام کے خلاف بنائے گئے منصوبے ظاہر کردیتاہے ۔ اب تک امریکہ اسرائیل کو ہر قسم کی مدد فراہم کرتا رہا ہے لیکن وہ براہِ راست اس کی جنگ میں کودنے سے گریز کرتا رہا ہے کیونکہ ایران کی پراکسیز مشرق وسطیٰ میں ہر جگہ موجود ہیں ۔ اگرچہ یہ کافی حد تک غیر فعال ہو چکی ہیں لیکن موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے ان لوگوں کے دلوں میں بھی ایران سے ہمدردیاں پیدا ہورہی ہیں جو ایرانی پراکسیز کے ظلم و ستم کی وجہ سے نفرت کرنے لگے تھے ۔ اُمت مسلمہ کے دیگر ممالک بھی ایران کے حالیہ کردار کو دیکھتے ہوئے اس کے لیے نرم گوشہ محسوس کر رہے ہیں ۔ لہٰذا ہو سکتا ہے ایران کی جو پراکسیز غیر فعال ہو چکی تھیں ان کو اب مقامی لوگوں کی حمایت حاصل ہو جائے اور وہ دوبارہ فعال ہو جائیں ۔ جہاں جہاں بھی امریکی اڈے موجود ہیں وہاں ایرانی پراکسیز اس کو نقصان پہنچا سکتی ہیں اور یہ امریکہ کے لیے بہت بڑا دھچکا ہوگا کیونکہ اب تک امریکہ کے بارے میں یہی گمان کیا جارہا ہے اس کی طاقت کو کوئی چیلنج نہیں کر سکتا ۔ جیسا کہ اسرائیل کا یہی دعویٰ حماس نے خاک میں ملا دیا ۔ اسی طرح امریکہ کا گھمنڈ بھی خاک میں مل سکتاہے ۔ لہٰذا امریکہ اور اسرائیل دونوں یہی چاہتے ہیں کہ امریکہ فرنٹ پر آنے کی بجائے قرب وجوار کی عرب ریاستوں کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرے تاکہ ہمیشہ کی طرح اس کی فیس سیونگ بھی رہے اور مقاصد بھی حاصل ہو جائیں ۔ پھر یہ کہ اسرائیلی عوام بھی جنگ سے تنگ آچکے ہیں ، وہ تب تک ہی جنگ کے حق میں رہتے ہیں جب ان کی جنگ کوئی اور لڑ رہا ہو لیکن خود اسرائیلیوں کو اگر جنگ لڑنی پڑ جائے تو وہ زیادہ دیر تک برداشت نہیں کرسکتے ۔ اس لیے اب ان کی کوشش ہو گی کہ مسلمانوں کو ہی مسلمانوں کے خلاف لڑایا جائے تاکہ نقصان بھی مسلمانوں کا ہو اور اسرائیل کا مقصد بھی حل ہو جائے ۔ پھر یہ کہ روس ، چین ، پاکستان اور عراق مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کے دل ہیں۔ اگر امریکہ براہِ راست جنگ میں ملوث ہوتاہے تو چین برداشت نہیں کرے گا۔ چین کا حالیہ بیان ہے کہ دنیا امریکہ کے بغیر بھی آگے بڑھ سکتی ہے ۔ اس سے پہلے چین نے ایسا سخت بیان نہیں دیا ۔ اگر چین اور روس بھی مداخلت کرتے ہیں تو پھر امریکہ اور یورپ کے لیے کئی مسائل پیدا ہو جائیں گے کیونکہ تیل کی سب سے بڑے ذخائر ایران اور روس کے پاس ہیں ۔ راہداری پاکستان کے پاس ہے ۔ چین اس کا سب سے بڑا خریدار ہے ۔ لہٰذا یہ ممکن نہیں ہے کہ چین اور روس اپنے مفادات سے پیچھے ہٹ جائیں ۔اس لیے چین نے پہلے سے ہی دفاعی اتحاد بنانے شروع کر دیے ہیں ۔ چین اور روس نے متبادل کرنسی کا نظام بھی تشکیل دے لیا ہے ۔ یہ ساری چیزیں بتا رہی ہیں کہ اب جنگیں اتنی آسان نہیں رہیں جیسی جنگیں امریکہ پہلے لڑ چکا ہے ۔ لہٰذا اگر امریکہ جنگ میں کودتا ہے تو آبیل مجھے مار والی بات ہوگی اور یہ پوری دنیا کو آگ میں دھکیلنے کے مترادف ہوگا ۔
سوال: ایک رائے یہ ہے کہ ایران پر صہیونی جارحیت کا ایک مقصد رجیم چینج کے بعد ایران پر رضا شاہ پہلوی کے بیٹے کو مسلط کرنا ہے ، کیا آپ اس رائے سے اتفاق کرتے ہیں ؟
ڈاکٹر فرید احمد پراچہ: امریکہ اور مغرب کا خیال ہے کہ ایران میں لوگ انقلاب سے تنگ آگئے ہیں اور وہ مغرب کی طرح کی آزادی اور معاشرت چاہتے ہیں ۔ رضاشاہ کے بیٹے کی شادی بھی یہودی خاندان میں ہوئی ہے اور اس کو بھی شاید اسی مقصد کے لیے تیار کیا گیا ہے ۔ لیکن میرا خیال ہے کہ مغربی تہذیب کے تسلط کی یہ کوشش ناکام ہوگی کیونکہ ایران میں انقلاب کی جڑیں بہت گہری ہیں ۔ اس میں شک نہیں کہ سیکولر طبقہ بھی متحرک ہے اور شاید رجیم چینج کے ا س منصوبے میں شامل ہے ۔ اسی وجہ سے جنگ کے پہلے مرحلے میں بہت نقصان ہوا ہے کیونکہ اندر سے لوگوں نے ساتھ دیا ہے ۔ لیکن اس سب کے باوجود رجیم چینج کرنا آسان نہیں ہوگا ۔
سوال: اسرائیل نے ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کو ٹارگٹ کیا ، اسی طرح حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو بھی ایران میں شہید کیا گیا ، پھر ایرانی صدر ہیلی کاپٹر حادثہ میں جاں بحق ہوئے اور اب اسرائیلی حملے میں ایران کی ساری فوجی قیادت پہلے مرحلے میں ہی ٹارگٹ کر دی گئی ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران کا سکیورٹی نظام اتنا مستحکم نہیں ہے ۔ کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ ایران پہلے اپنی اندرونی کمزوریوں پر قابو پالے ؟
رضاء الحق: ایران کو دو چیزوں سے زیادہ خطرہ ہے ۔ ایک تو یہ کہ امریکہ بھی اسرائیل کے ساتھ مل کر ایران پر حملہ کرے تو ایران مقابلہ نہیں کر پائے گا ۔ دوسرا یہ کہ اندرونی طور پر سیکولر طبقہ ایرانی انقلاب کو پسند نہیں کرتا ۔ کچھ عرصہ قبل حجاب کے معاملے پر ایران میں بہت بڑے مظاہرے ہوئے تھے، ان کے پس پردہ مغربی ہاتھ تھا جو یونیورسٹیوں کے نیٹ ورک کے ذریعے پھیل رہا ہے ۔ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ امریکہ اور اسرائیل ایرانی رجیم کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں ، اس مقصد کے لیے وہ رضاشاہ پہلوی کے بیٹے رضا شاہ کو اسرائیل میں مدعو کرکے مذاکرات بھی کر رہے ہیں ۔ لہٰذا ایران کو سب سے پہلے اپنے اندرونی معاملات کو حل کرنا چاہیے۔ حالیہ ٹارگٹ کلنگ میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ گھروں کے اندر بم نصب کرکے یا فائرنگ کرکے بڑے عہدیداروں کو ٹارگٹ کیا گیا ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ اند ر ایسے لوگ موجود ہیں جو بیرونی دشمنوں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں ۔پاکستان میں بھی BLAجیسے گروہ موجود ہیں ، غزہ میں بلیک واٹر جیسے گروہ سمگلرز کے ساتھ مل کر امداد کی تقسیم کی آڑ میں جاسوسی کرتے ہیں اور ان کی مخبری پر اسرائیلی فوجی حماس کےمجاہدین اور عام شہریوں کو ٹارگٹ کر رہے ہیں ۔ ایسے لوگوں کو شناخت کرکے انہیں سزا دینا سب سے پہلا کام ہونا چاہیے ۔ اس کے بعد جدید ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کرنا بھی ضروری ہے ۔
سوال: کچھ عرصہ قبل سعودی عرب میں 34 مسلم ممالک کا ایک فوجی اتحاد بنا تھا جس کی سربراہی ہمارے جنرل راحیل شریف کر رہے ہیں۔ وہ اتحاد کہاں ہے؟ کس حال میں ہے اور کب تک اس قابل ہو جائے گا کہ وہ اسرائیل کی غنڈا گردی جو وہ کبھی غزہ میں کر رہا ہے ، کبھی لبنان میں ، کبھی شام اور اب ایران میں کررہا ہے ، اس کو روک سکے ؟
ڈاکٹر محمد عارف صدیقی:یہ اتحاد موجود ہے اور جس مقصد کے لیے بنایا گیا ہے وہ پورا کر رہا ہے۔ 2015 ء میں جب یہ اتحاد بنا تھا تو اس وقت ایران نے اس میں شرکت کرنے سے انکار کر دیا تھا ۔ ایران کا موقف تھا کہ یہ سنی اتحاد ہے ۔ ایران کو ڈر تھا کہ یہ اتحاد ایرانی پراکسیز پر حملہ کرے گا اور یہ ہوا بھی کہ یمن میں حوثی باغیوں پر اس فوج نے حملے کیے۔ اس فوجی اتحاد کے مقاصد میں اسرائیل کے خلاف لڑنا شامل ہی نہیں تھا یہی وجہ ہے کہ 2015ء سے لے کر اب تک ان کے کسی اجلاس میں اسرائیل کے خلاف کوئی بات نہیں کی گئی ۔ اسرائیل اس اتحاد سے بالکل محفوظ ہے گویا اسے حفاظتی حصار میں لیا ہوا ہو ۔ عرب عوام کے سروے دیکھیں تو وہ بھی اس فوجی اتحاد کو مغربی مفادات کا محافظ سمجھتے ہیں ۔ درحقیقت یہ اتحاد مشرق وسطیٰ کے مخصوص ممالک کے اقتصادی ، عسکری اور سیاسی مفادات کے تحفظ کے لیے بنایا گیا تھا ۔ اس کا تعلق عالم اسلام کی بقا یاالقدس کی حفاظت سے ہرگز نہیں ہے۔ البتہ اس وقت اس کو سنی اتحاد قراردے کر اس میں شامل نہ ہونا ایران کی بہت بڑی غلطی تھی ، وہ اس میں شامل ہوکر القدس کے لیے آواز اُٹھا سکتا تھا اور آج اپنی مدد کے لیے بھی کہہ سکتا تھا ۔ اب ایران کو سمجھنا چاہیے کہ ہمیں امت بن کے سوچنا ہوگا۔
سوال: تہران اور تل ابیب کے درمیان فاصلہ تقریباً 2ہزار کلو میٹر ہے ۔ عرب ممالک نے کہیں اسرائیلی میزائلوں کو روکنے کی کوشش کی اور نہ ہی فضائی حدود کی خلاف ورزی پر احتجاج کیا ۔ دوسری طرف ٹرمپ نے واشگاف انداز میں کہا ہے کہ امریکہ اسرائیل کی اس جنگ میں مدد کرے گا ۔ عرب ممالک کی مجرمانہ خاموشی کیا معنی رکھتی ہے ؟
ڈاکٹر فرید احمد پراچہ: ایران اور اسرائیل کے درمیان کئی مسلم ممالک ہیں لیکن انہوں نے ایران کا ساتھ دینے کی بجائے اسرائیل کا ساتھ دیا ۔ انہوں نے ایران کے میزائلوں کو روکا ہے لیکن اسرائیل کے میزائلوں کو نہیں روکا ۔ شاید مسلم حکمران سمجھتے ہیں کہ وہ امریکہ اور اسرائیل کا ساتھ دے کر اپنا اقتدار بچا لیں گے۔ لیکن تاریخ کی صداقتیں اپنی جگہ موجود ہیں، یہ کبھی نہیں ہوا کہ آپ کفر کا ساتھ دیں اور جب کفار غلبہ پالیں تو وہ آپ کو شاباش دیں اور تحفظ دیں بلکہ تاریخ کی سچائی یہ ہے کہ پھر ان کا ساتھ دینے والوں کو بھی کچل دیا جاتاہے ۔ یہ ہمیشہ ہوتا چلا آیا ہے اور یہی ہوگا۔ گریٹر اسرائیل کے نقشے میں وہ تمام ممالک شامل ہیں جو اس وقت اسرائیل کا ساتھ دے رہے ہیں۔ کل اُن کی باری بھی آئے گی۔ اس لیے مسلمانوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ آج ٹرمپ کی قیادت میں عالم کفر الکفر ملۃ واحدہ کی شکل اختیار کرکے عالم اسلام پر یلغار کر رہی ہے ، اگر اس کا راستہ ہم نے متحد ہو کر نہ روکا تو کوئی بھی بچ نہیں سکے اور نہ ہی کوئی آپ کی مدد کرے گا ۔اگر متحد ہوں گے تو پھر آپ مسجد اقصیٰ کو بھی بچا پائیں گے اور قبلہ اول کو بھی آزاد کروائیں گے ۔ لیکن اگر آج متحد نہیں ہوں گے تو ایک ایک کرکے سارے نشانہ بنیں گے ۔ اسرائیلی وزیر دفاع کا بیان آچکا ہے کہ جہاں جہاں آمریتیں ہیں ہم سب کا خاتمہ کریں گے ۔گویا طبل جنگ تو بج چکا ہے مگر غافل حکمرانوں کو سنائی نہیں دے رہا ۔
سوال: اس خبر میںکتنی سچائی ہے کہ پاکستان نے ایران کے ساتھ اپنا بارڈر بند کیا ہوا ہے کیونکہ بھارتی سپانسرڈ دہشت گرد (BLAوغیرہ)اسرائیل کے لیے ایران کی جاسوسی کر رہے ہیں ؟
رضاء الحق:بالکل یہ بات تصدیق شدہ ہے۔ BLA کا ٹارگٹ شروع سے ہی پاکستانی فوج رہی ہے ، اگرچہ سویلین کو بھی انہوں نے ٹارگٹ کیا ہے۔ ان کی فنڈنگ اور تربیت بھارت سے ہوتی ہے ، اس سے قبل جب افغانستان میں کٹھ پتلی حکومت تھی تو اس وقت افغانستان میں بھارت کے 18 قونصل خانے تھے جہاں دہشت گردوں کو ٹریننگ دی جارہی تھی ۔ انڈیا اور اسرائیل کے مفادات سانجھے ہیں ۔ یہ بات قرآن بھی بتا رہا ہے :
{لَـتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَۃً لِّـلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الْیَہُوْدَ وَالَّذِیْنَ اَشْرَکُوْاج }المائدئہ:82) ’’تم لازماًپائو گے اہل ِایمان کے حق میں شدید ترین دشمن یہود کو اور ان کو جو مشرک ہیں۔‘‘
ایک گریٹر اسرائیل کا منصوبہ رکھتا ہے تو دوسرا اکھنڈ بھارت کا خواب دیکھ رہا ہے ۔ دونوں مسلمانوں کا قتل عام کرکے آبادی کا تناسب بدل رہے ہیں ۔ اسرائیل یہودیوں کو لا کر فلسطین میں بسا رہا ہے اور بھارت کشمیر میں ہندوؤں کو بسا رہا ہے ۔ دونوں کے خلاف دنیا میں نفرت بھی پھیل رہی ہے ۔ حالیہ دنوں میں ایک اسرائیلی خاتون اسرائیل کا جھنڈا لے کر فرانس کے ایئر پورٹ پر پہنچی تو فرانسیسی عوام نے اسے روک لیا کہ تم لوگ نسل کشی کر رہے ہو ، یہاں کیا کرنے آئی ہو ؟جہاں تک جاسوسی کا معاملہ ہے تو BLA جیسے گروہ جو بھارتی مفادات کے لیے کام کررہے ہیں ان کو ختم کرنے کے لیے صرف فوجی آپریشن کافی نہیں ہے بلکہ عوام کےسامنے ان کو بے نقاب کرنا بھی ضروری ہے ۔ پاکستان کے عوام محب وطن ہیں ، اسلام کے ساتھ بھی ان کی محبت ہے ۔ اگر عوام کو اعتماد میں لے کر ایسے گروہوں کی شناخت کی جائے تو انہیں آسانی سے ختم کیا جا سکتا ہے ۔
سوال: عالم عرب کو صہیونی مظالم سے بچانے اور اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم کو خاک میں ملانے کے لیے مسلم ممالک کو کیا اقدامات کرنے چاہئیں ؟
ڈاکٹر محمد عارف صدیقی:سب سے پہلے ہمیں اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ اسرائیل کی اصل طاقت کیا ہے ۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ امریکی پشت پناہی ، ٹیکنالوجی اور AIمیں برتری ، میزائل ڈیفنس سسٹم یا UNOمیں ان کےافراد صہیونیوں کی اصل طاقت ہیں۔ جبکہ حقیقت میں اسرائیل کی اصل طاقت وہ مسلم حکمران ہیں جو اس کے مظالم کو دیکھتے ہوئے بھی خاموش ہیں ۔ اس وقت اُمت کو اُمت بنانے والی کوئی چیز ہمارے پاس نہیں ہے ۔ آپ نظام تعلیم کو ہی دیکھ لیں ، تعلیم جو قلب و نظر کو بدلنے والی چیز ہے وہ بھی خالص اسلامی نہیں ہے ۔ حتیٰ کہ مدارس کی تعلیم بھی مسلکی ہے ، دین کی بات کرنے والی نہیں ہے۔ اسی طرح ہمارا میڈیا پورے کا پورا کس کا بیانیہ لے کر چل رہا ہے سب کو معلوم ہے ۔ہماری حکومتیں بھی مغربی بیانیہ اور مغربی پالیسیاں لے کر چلتی ہیں ۔ لہٰذا سب سے پہلے پُرامن اور جائز طریقے سےہمیں اپنی حکومتوں کو بدلنے کی ضرورت ہے ۔ ایسی قیادت اس وقت امت مسلمہ کی سب سے بڑی ضرورت ہے جو اُمت کے اجتماعی مفادات کو مدنظر رکھتےہوئے امت کو لیڈ کر سکے ۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں معاشی اور عسکری خود مختاری چاہیے۔ کئی مسلمان ممالک چاہتے ہوئے بھی کچھ بول نہیں پاتے کہ وہ IMF، ورلڈ بینک، امریکہ، برطانیہ کے غلام ہیں۔ کیونکہ انہیں ان سے قرضے ، عسکری امداداور سازو سامان ملتا ہے ، فاضل پرزہ جات چاہیے ہوتے ہیں ۔ انہیں پتہ ہے کہ اس کے بغیر چل نہیں سکتے ۔ ابھی تک کوئی ایسا اسلامی اتحاد موجود نہیں ہے جو اس فلسفے پر عمل کرے کہ ُامت مسلمہ جسد واحد کی مانند ہے، اس کے ایک حصہ میں اگر تکلیف ہو تو پورا جسم تکلیف محسوس کرتا ہے ۔ ایک مسلم ملک پر حملہ ہوگا تو اسے پوری امت پر حملہ تصور کیا جائے گا ۔ ہمیں ایسے اسلامی اتحاد کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے ہمیں عوامی بیداری کی مہم چلانی چاہیے، لوگوں کی قائدانہ تربیت کرنی چاہیے اور سب سے بڑھ کرجیسا کہ ڈاکٹر اسراراحمدؒ بھی کافی عرصہ تک سودی نظام کے خلاف جدوجہد کرتے رہے ، ہمیں مل کر سودی نظام کے خاتمے کے لیے جدوجہد کرنا ہوگی ۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک طرف آپ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے خلاف جنگ لڑرہے ہوں اور دوسری طرف کہیں کہ ہم اللہ کے لیے جنگ لڑ رہے ہیں ؟ اگران حقائق کو مدنظر رکھ کر آگے بڑھا جائے تو شاید ہم اپنا کھویا ہوا وقار دوبارہ سے حاصل کر سکیں۔
رضاء الحق:چاہے اسرائیل ہو یا امریکہ، دونوں مذہبی انداز میں اپنی جنگ لڑ رہے ہیں ۔ یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ یہ سیکولر جنگ نہیں ہے بلکہ یہ مذہب کی جنگ ہے۔ دجال نے بحیثیت شخصیت سیکولرازم کا لبادہ اوڑھ کر نہیں آنا ، بلکہ وہ بھی خود کو مذہبی لبادے میں ظاہر کرے گا ۔ جب اس کا خروج ہو گا تو وہ یہی کہے گا کہ میں مسیح ابن مریم ہوں ۔ اس کے لیے جو نظام تیار کیا جارہا ہے وہ بھی مذہبی بنیادوں پر تیار کیا جارہا ہے۔ وہ تھرڈ ٹیمپل اسی لیے بنا رہیں تاکہ وہاں مذہبی لحاظ سے قربانیاں پیش کر سکیں ۔ اسرائیل کے پشت پناہ نیو کونز ، پروٹیسٹنٹ ، ڈیموکریٹس اور ری پبلکنز سب کے سب مذہبی تناظر میں اسرائیل کو سپورٹ کر رہے ہیں ، ٹرمپ کا داماد کشنر یہودیت کے لیے کام کررہا ہے، بلنکن 7 اکتوبر 2023ء کےبعد جب اسرائیل گیا تو اس نے باقاعدہ کہا کہ میں سیکرٹری خارجہ کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک یہودی کی حیثیت سے آیا ہوں ۔ لہٰذا صہیونی مذہبی تناظر میں ہی یہ جنگ لڑ رہے ہیں جبکہ دوسری طرف مسلم حکمران وہن کی بیماری کا شکار ہیں جس بارے میں حدیث میں بتایا گیا ہے کہ وہ دنیا سے محبت اور موت سے نفرت ہے ۔ مسلمانوں کو بھی یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے اوراسی تناظر میں عوام کی ذہن سازی ہونی چاہیے۔ چاہے سکول ،کالج، یونیورسٹیز ہوں یا دینی مدارس،ہر جگہ ایسی تعلیم دی جائے جس سے دینی تقاضے واضح ہوں۔ ترکی، پاکستان، ایران، افغانستان اوردیگر ممالک مل کر ایک اتحاد بنائیں ۔ اب وقت آگیا ہے کہ مسلک اور فرقہ سے بالاتر ہو کر امت کی سطح پر سوچا جائے ۔ قرآن بھی ہمیں یہی تعلیم دیتاہے :
{وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْاص} (آل عمران:103)’’اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھام لو مل جل کر اور تفرقے میں نہ پڑو۔‘‘
اللہ کی رسی قرآن و سنت ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر بھی فرمایا تھا کہ میں تمہارے لیے دو چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں ، اگر انہیں تھام لوگے تو گمراہ نہیں ہوگے اور وہ دو چیزیں قرآن وسنت ہیں ۔ یہ حکم صرف دینی طبقہ کے لیے نہیں ہے کہ بلکہ ہر شعبہ اور ہر ادارے کے مسلمانوں کے لیے ہے ۔ قرآن و سنت کا نفاذ اپنی ذاتی زندگی سے لے کر ریاست کی سطح پر ہونا چاہیے ۔ اسی طرح سودی نظام کو جب تک ہم ختم نہیںکریں گے تو ہم اپنی سیاست ، معاشرت اور معیشت کو اسلامی رُخ پر نہیں لا سکتے ۔ ڈاکٹر اسراراحمدؒ کا تو پورا مشن ہی یہی تھا کہ دین کو بحیثیت مجموعی نافذ کیا جائے ۔ یہ اکیلے بندے کا کام نہیں ہے لہٰذا اس کے لیے ایک جماعت کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اگر ہم یہ کام کریں گے تو اللہ کی مدد بھی آئے گی اور ہم باطل کے خلاف فتح پائیں گے ورنہ وہی حالت ہوگی جو آج ہماری ہے ۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2025