(شہدائے اسلام) شہید ِمظلوم حضرت عثمان ذُوالنورَین ؓ - ڈاکٹر اسرار احمد

11 /

شہید ِمظلومحضرت عثمان ذُوالنورَینؓ

ڈاکٹر اسرار احمدؒ

 

امیر المؤمنین سیدنا حضرت عثمان غنیؓکے فضائل کے ضمن میں سب سے زیادہ مشہور و معروف بات ان کی نبی اکرمﷺ سے دامادی کی قرابت ہے جو تقریباً ہرمسلمان کو معلوم ہے۔ اگرچہ ہمارے نزدیک نسلی تعلق اور قرابت داری اصل اساسِ فضیلت نہیں ہے۔ قرآن مجید نے تو اس تصور کی کامل نفی کی ہے‘ چنانچہ سورۃ الحجرات کی آیت13 میں فرمایا گیا ہے:
’’لوگو! ہم نے تم سب کو ایک ہی مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے اور تمہارے (جدا جدا) خاندان اور قومیں جو بنائی ہیں تو باہم شناخت کے لیے (نہ کہ تکبر و افتخار کے لیے) ۔  بے شک تم میں سب سے زیادہ عزت دار تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہی ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے۔ بے شک اللہ جاننے والا اور باخبر ہے۔‘‘
رنگ و نسل اور خون کے رشتوں کے تعلق کو‘ جنہیں عام طور پر دنیا میں شرف و فضیلت کی اساس سمجھا گیا ہے‘ قرآن مجید نے غلط قرار دیتے ہوئے رنگ و نسل کے تمام بتوں کو توڑ ڈالا ہے اور اصل بنائے شرف و عزت اور کرامت و فضیلت صرف تقویٰ کو قرار دیا ہے۔ 
حضورﷺ سے قرابت
امر واقعہ یہ ہے کہ حضرت عثمان غنیؓ کا قرابت ورشتہ داری کے لحاظ سے نبی اکرمﷺ سے تہرا رشتہ اور تعلق ہے۔ حضرت عثمان غنیؓ خاندان کے لحاظ سے نجیب الطرفین قریشی ہیں اور پانچویں پشت میں ان کا اور حضورﷺ کا نسبی تعلق یکجا ہو جاتا ہے۔ حضرت عثمان غنیؓ کی والدہ حضرت ارویٰ بنت اُمّ الحکیم بنت عبدالمطلب تھیں‘یعنی اُن کی والدہ محترمہ جناب عبدالمطلب کی نواسی تھیں اور نبی اکرمﷺ عبدالمطلب کے پوتے۔ گویا حضورﷺ اور حضرت عثمان غنیؓ کی والدہ ماجدہ کے مابین پھوپھی زاد بہن اور ماموں زاد بھائی کا رشتہ ہے۔ لہٰذا حضرت عثمان غنیؓاِس نسبت سے نبی اکرمﷺ کے بھانجے ہیں۔
شرفِ دامادی اور ذوالنورین کا لقب
دوسرا رشتہ سب کو معلوم ہے کہ حضرت عثمان غنیؓ حضورﷺ کے دوہرے داماد ہیں۔ ہجرتِ مدینہ سے بہت قبل حضورﷺ کی دوسری صاحبزادی حضرت رقیہؓ حضرت عثمانؓ کی زوجیت میں آئیں۔ ہجرت کے بعد غزوئہ بدر سے متصل ہی حضرت رقیہؓ کا انتقال ہو گیا تو حضورﷺ کی تیسری صاحبزادی حضرت اُم کلثومؓ ‘ حضرت عثمان غنیؓ کے حبالہ ٔ نکاح میں آئیں۔ اسی نسبت سے حضرت عثمان غنیؓ کا لقب ’’ذوالنورین‘‘ قرار پایا۔
جب حضرت اُم کلثومؓ بھی وفات پا گئیں تو حضورﷺ نے فرمایا کہ اگر میری چالیس بیٹیاں ہوتیں اور وہ یکے بعد دیگرے انتقال کرتی رہتیں تو بھی میں اپنی بیٹیوں کو یکے بعد دیگرے عثمانؓ کے نکاح میں دیتا رہتا۔ روایات میں تعدادمختلف ہے ‘لیکن سب میں یہ بات مشترک ہے کہ نبی اکرمﷺ حضرت عثمان غنیؓ کی دامادی اور ان کے حسن سلوک سے اس قدر راضی‘ خوش اور مطمئن تھے کہ یکے بعد دیگرے اپنی صاحبزادیوں کو ان کے نکاح میں دینے کے لیے تیار تھے۔
جود و سخا
امام الہند حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے اپنی معرکۃ الآرا ء کتاب ’’اِزَالۃُ الخِفاء عن خِلافۃِ الخُلفاء‘‘ میں محققین کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ حضرت عثمان غنیؓ کو ’’ذُوالنورین‘‘ کا جو لقب ملا تو اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ ان میں دو سخاوتیں جمع ہو گئی تھیں۔ ایک سخاوت اسلام لانے سے پہلے کی زندگی کی ہے اور دوسری سخاوت کی شان وہ ہے کہ جو اسلام لانے اور نبی اکرمﷺ کے دست مبارک پر بیعت کرنے کے بعد ظاہر ہوئی۔ اصلاً تو آپؓ کو ’’ذُوالنورین‘‘ کا لقب حضورﷺ کی دو صاحبزادیوں کا یکے بعد دیگرے آپؓ کے حبالہ ٔ عقد میں آنے کی وجہ سے ملا تھا‘ لیکن حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی ؒکے نزدیک محققین ِاُمت کا یہ قول بھی سند کا درجہ رکھتا ہے کہ اس معزز لقب کا باعث حضرت عثمان ؓ کی زندگی میں اسلام سے قبل اور قبولِ اسلام کے بعد کی جود وسخا بھی ہے۔
حضرت عثمان غنیؓ کے حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے بھی بڑے گہرے مراسم تھے۔حضرت ابوبکر صدیقؓ پیکر جود وسخا اور نوعِ انسانی کی ہمدردی سے معمور شخصیت تھے اسی کا عکس ِکامل حضرت عثمان غنیؓ بھی تھے‘ ---- اسلام لانے کے بعد جس طرح صدیق اکبرؓ نے اپنا سارا اثاثہ اور مال دین حق کی سربلندی اور غلبے کے لیے لگایا اور ان غلاموں کوجو دولت ایمان سے مشرف ہونے کے باعث اپنے آقائوں کے ہاتھوں ظلم کی چکی میں پس رہے تھے‘ اپنی جیب خاص سے خرید کر آزاد کیا‘ اور غزوئہ تبوک کے موقع پر اپنا پورا گھر کا اثاثہ سمیٹ کر نبی اکرمﷺ کے قدموں میں لاڈالا‘ کم و بیش یہی کیفیت حضرت عثمان غنیؓ کی بھی رہی ہے‘ اور انہوں نے نہایت ہی نامساعد حالات میں اپنے سرمائے سے دین کی خدمت کی ہے۔ اسی سخاوت کی وصف کے باعث ان کا دوسرا معزز لقب ’’غنی‘‘ بھی ہے۔
بئررومہ کا وقف کرنا
ہجرت کے بعد جب مدینہ میں مسلمانوں کے لیے پانی کی قلت ہوئی اور مسلمانوں کی عورتیں  بئر رومہ سے‘ جو ایک یہودی کی ملکیت تھا اور مدینہ سے تقریباً دو میل کے فاصلے پر تھا‘ پانی بھرنے جاتی تھیں تو یہودی ان پر فقرے کستے تھے اور اس طرح مسلمانوں کی عزت مجروح ہوتی تھی۔ حضرت عثمان غنیؓ نے میٹھے پانی کے اس کنویں کے مالک یہودی کو منہ مانگی بھاری قیمت ادا کر کے بئر رومہ خریدا اور اُسے مسلمانوں کے استفادہ کے لیے وقف کر دیا۔
غلاموں کو آزاد کرانا
حضرت عثمان غنیؓ جو بالکل آغاز ہی میں حضرت ابوبکر صدیقؓ کی دعوت پر ایمان لائے تھے‘ خود فرماتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ کے دست مبارک پر بیعت ایمان کرنے کے بعدمیری زندگی میں کوئی جمعہ ایسا نہیں گزرا جس میں‘ میں نے کسی نہ کسی غلام کو آزاد نہ کیا ہو۔ اگر کبھی ایسا اتفاق ہوا کہ میں کسی جمعہ کو غلام آزاد نہ کر سکا تو اگلے جمعہ کو میں نے دو غلام آزاد کیے۔
حرمِ نبویؐ کی توسیع
مسجد نبوی کی توسیع کے لیے نبی اکرمﷺ نے ایک موقع پر فرمایا کہ ’’کون ہے جو فلاں مویشی خانے کو مول لے اور ہماری مسجد کے لیے وقف کر دے تاکہ اللہ اُس کو بخش دے!‘‘ تو حضرت عثمان غنیؓ نے بیس یا پچیس ہزار دینار میں یہ قطعہ زمین خرید کر مسجد نبوی کے لیے وقف کر دیا۔
جیش عسرہ کے لیے ایثار
غزوئہ تبوک کے موقع پر حضرت عثمان غنیؓ کا جذبہ ٔانفاق فی سبیل اللہ دیدنی تھا۔ یہ وہ موقع تھا کہ صدیق اکبرؓ تو اس مقامِ بلند ترین تک پہنچے کہ کل اثاثُ البیت لا کر حضورﷺ کے قدموں میں ڈال دیا‘ گھر میں جھاڑوتک نہ چھوڑی اور جب حضورﷺ نے فرمایا کہ ’’کچھ فکر عیال بھی چاہیے‘‘ تو اس رفیق غار اور عشق و محبت کے رازدار نے کہا کہ   ؎
پروانے کو چراغ ہے بلبل کو پھول بس
صدیق ؓ کے لیے ہے خدا کا رسولؐ بس!
یہی وہ موقع تھا کہ جب فاروق اعظمؓ کے دل میں یہ خیال گزرا تھا کہ وہ اس مرتبہ انفاق میں صدیق اکبرؓ سے بازی لے جائیں گے‘ کیونکہ حسنِ اتفاق سے اس وقت‘ خود حضرت عمرفاروقؓ کے بقول‘ ان کے پاس کافی مال تھا۔ انہوں نے اپنے تمام اثاثے کے دو مساوی حصے کیے‘ ایک حصہ اہل وعیال کے لیے چھوڑا اور دوسرا حصہ نبی اکرمﷺ کی خدمت میں پیش کر دیا‘ لیکن جب جناب صدیق اکبرؓ کا یہ ایثار ان کے سامنے آیا کہ گھر میں جھاڑو پھیر کر سب کچھ خدمت ِ اقدس میں لاڈالا تو وہ بے اختیار پکار اُٹھے کہ صدیق اکبرؓ سے آگے بڑھنا کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔
مسجد نبویؐ میں نبی اکرمﷺ منبر پر تشریف فرما ہیں اور لوگوں کو بار بار ترغیب و تشویق دلا رہے ہیں کہ وہ اس غزوہ کے لیے زیادہ سے زیادہ انفاق کریں‘ آلاتِ حرب و ضرب اور سامانِ رسد و نقل و حمل مہیا کریں‘ یا اس کی فراہمی کے لیے نقد سرمایہ فراہم کریں۔ اس موقع پر حضرت عثمان غنیؓ کھڑے ہوتے ہیں اور بارگاہِ رسالت میں عرض کرتے ہیں کہ حضورؐ! میری طرف سے ایک سو اونٹ مع ساز و سامان حاضر ہیں۔ حضورﷺ کو علم ہے کہ کتنی عظیم مہم درپیش ہے اور کتنا ساز و سامان درکار ہے‘ لہٰذا حضورﷺ صحابہ کرامjکو انفاق کی مزید ترغیب دیتے ہیں۔ حضرت عثمانؓ پھر کھڑے ہوتے ہیں اور عرض کرتے ہیں کہ حضورؐ! میں دو سو اونٹ مع ساز وسامان پیش کرتا ہوں۔ حضورﷺ لوگوں کو مزید ترغیب دیتے ہیں۔ حضرت عثمانؓ تیسری بار پھر کھڑے ہوتے ہیں اور عرض کرتے ہیں کہ میں تین سو ساز و سامان سمیت فی سبیل اللہ نذر کرتا ہوں۔ یعنی اس مرد غنیؓ کی طرف سے اس غزوہ کے لیے تین سو اونٹ مع ساز وسامان پیش کیے جاتے ہیں۔ حدیث میں آتا ہے کہ اس موقع پر حضورﷺ منبر سے اترے اور دو مرتبہ فرمایا کہ اس کے بعد عثمانؓ کو کوئی بھی عمل (آخرت میں) نقصان نہیں پہنچاسکتا۔‘‘
حضرت عثمان غنیؓ کے بارے میں نبی اکرم ﷺ کی سند موجود ہے کہ ((اَشَدُّھُمْ حَیَائً عُثْمَانُ))  اور ((اَکْثَرُھُمْ حَیَائً عُثْمَانُ))جو اکثر خطیب حضرات جمعہ کے خطبوں میں بیان کرتے ہیں۔ یعنی صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین میں حیا کے باب میں حضرت عثمان غنی ؓسب سے بڑھے ہوئے ہیں۔ اور یہ متفق علیہ حدیث ہم نے ابھی پڑھی ہے کہ  : ((اَلْحَیَائُ شُعْبَۃٌ مِنَ الْاِیْمَانِ)) لہٰذا حضرت عثمانؓ کے بارے میں جو یہ کہا جاتا ہے : ’’کَامِلُ الْحَیَائِ وَالْاِیْمَانِ‘‘تو وہ صد فیصد درست ہے‘ کیونکہ جو حیا میں کامل ہو گا وہ ایمان میں بھی کامل ہو گا۔
حضرت عثمانؓ کی حیا کے بارے میں مسلم شریف میں ایک واقعہ حضرت عائشہ صدیقہؓ کی زبانی بیان ہوا ہے‘ وہ فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ حضورﷺ میرے حجرے میں تشریف فرما تھے اور آپؐ ایک گدیلے پر بے تکلفی سے استراحت فرما رہے تھے۔
وہ روایت کرتی ہیں‘ اطلاع ملی کہ حضرت ابوبکرؓ   تشریف لا ئے ہیں اور اذن باریابی کے خواہاں ہیں۔ حضورﷺ کی اجازت سے حضرت ابوبکر صدیقؓ حجرے میں تشریف لائے اور حضورؐ جس حال میں استراحت فرما رہے تھے اسی طرح لیٹے رہے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے جو بات کرنی تھی کی اور واپس تشریف لے گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد اطلاع ملی کہ عمر فاروقؓ ملاقات کے لیے حاضر ہوئے ہیں اور اِذن باریابی کے طالب ہیں۔ ان کو بھی اندر آنے کی اجازت مل گئی‘ وہ آئے اور حضورﷺ اُسی طرح لیٹے رہے (حضرت عائشہ صدیقہؓ نے اپنے اوپر چادر ڈال کر ایک طرف پیٹھ پھیر لی)۔ وہ بھی اپنی بات کر کے رخصت ہو گئے ---- تیسری مرتبہ اطلاع دی گئی کہ حضرت عثمان غنیؓ بھی ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔ اس اطلاع کے بعد حضورﷺ بستر پر اُٹھ کر بیٹھ گئے اور اپنے کپڑے درست فر مالیے (تہبند سے ساق مبارک ڈھانک لی) اور ساتھ ہی مجھے (حضرت عائشہ صدیقہؓ کو) حکم دیا کہ اپنے کپڑے خوب اچھی طرح اپنے جسم پر لپیٹ لو (اور پورا جسم ڈھانپ کر دیوار کی طرف منہ کر کے بیٹھ جائو۔ یہ اہتمام کرنے کے بعد) حضرت عثمان غنی ؓ کو اِذن باریابی ملا۔ وہ بھی حجرئہ مبارک میں حاضر ہوئے اور جو بات کرنی تھی کر کے رخصت ہوئے۔
(حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ حضرت عثمانؓ کے جانے کے بعد) میں نے حضورﷺ سے دریافت کیا کہ ابوبکر صدیق اور عمر فاروقؓ کے آنے پر تو آپؐ نے کوئی خاص اہتمام نہیں فرمایا۔ یہ کیا خاص بات تھی کہ عثمان غنیؓ کے آنے پر آپؐ نے خود بھی کپڑوں کی درستگی کا خاص اہتمام فرمایا اور مجھے بھی ہدایت فرمائی کہ میں خوب اچھی طرح کپڑے لپیٹ لوں؟ جواب میں حضورﷺ نے فرمایا : ’’اے عائشہ! عثمان انتہائی حیادار شخص ہیں۔ مجھے یہ اندیشہ ہوا کہ اگر میں اسی طرح بے تکلفی سے لیٹا رہا تو عثمانؓ اپنی فطری حیا اور حجاب کی وجہ سے وہ بات نہیں کر سکیں گے جس کے لیے وہ آئے تھے اور ویسے ہی واپس چلے جائیں گے‘‘۔ ایک روایت میں یہ الفاظ بھی آئے ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا: ’’عثمانؓ کی شخصیت تو وہ ہے کہ جس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں‘ چنانچہ میں نے بھی ان سے حیا کی ہے۔‘‘
حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والوں میں    حضرت عثمانؓ شامل تھے۔ آپؓ کے ساتھ آپؓ کی زوجہ محترمہ‘ رسول اللہﷺ کی صاحبزادی حضرت رقیہؓ بھی تھیں۔ آپؓ کی دوسری ہجرت   مدینۃ النبی کی طرف ہے۔ چنانچہ حضرت عثمان غنیؓ کو راہِ حق میں  ہِجرتَین کی سعادت نصیب ہوئی۔
شہادتِ عثمان ؓ کا تاریخی پس منظر
اسلام کی تاریخ قربانیوں اور شہادتوں سے بھری پڑی ہے‘ لیکن واقعہ یہ ہے کہ ’’شہید مظلوم‘‘ حضرت عثمان غنیؓ ہیں۔ اس سے قبل مسلمان کفار کے ہاتھوں شہید ہوئے‘ انفرادی طور پر بھی اور میدانِ قتال میں بھی‘ جہاں انہوں نے کفار کو قتل بھی کیا اور خود شہادت کے مرتبہ عالیہ سے سرفراز بھی ہوئے۔ لیکن حضرت عثمانؓ وہ پہلے  مردِ صالح ہیں جو امامِ وقت‘ خلیفہ ٔراشد اور امیر المؤمنین ہوتے ہوئے خود مسلمانوں کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ آپؓ‘ محبوبِ رسولِ خدا ہیں‘ اور محبوب بھی کیسے کہ جن   کے حبالہ ٔنکاح میں یکے بعد دیگرے حضورﷺ کی     دو صاحبزادیاں آئیں ---جن کے حسن سلوک سے     نبی اکرمﷺ اتنے خوش تھے کہ یکے بعد دیگرے اپنی چالیس بیٹیاں آپؓ کے نکاح میں دینے کے لیے راضی تھے اور جن کے متعلق حضورﷺ نے یہ بشارت دی تھی: ’’(جنت میں) ہر نبی کے ساتھ اس کی امت سے ایک رفیق ہو گا اور عثمان(ؓ ) میرے رفیق ہیں‘ وہ جنت میں میرے ساتھ ہوں گے۔‘‘ (ترمذی)
وہ بزرگ ہستی انتہائی مظلومیت کی حالت میں قتل ہوئی جو کاتب وحی تھی۔
آج ہم جس قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہیں وہ ’’مصحف عثمانی‘‘ کہلاتا ہے‘ جو اُمت تک بہ تمام وکمال صحت کے ساتھ حضرت عثمانؓ ہی کی بدولت منتقل ہوا۔چنانچہ صحیح‘بخاری میں حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ حضرت حذیفہؓ آرمینیا اور آذربائیجان کی فتح کے بعد (جو دورِ عثمانی میں ہوئی تھی) مدینہ تشریف لائے توانہوں نے حضرت عثمانؓ سے عراق وشام میں قراء تِ قرآن کے اندر مسلمانوں کے اختلاف کا ذکر بڑی تشویش کے ساتھ کیا اور کہا: ’’یا امیر المومنین! یہود و نصاریٰ کی طرح کتاب اللہ میں اختلاف ہونے سے پہلے اس کا تدارک کر لیجیے‘‘۔حضرت عثمانؓ نے اُمّ المومنین حضرت حفصہ بنت عمر فاروقؓ سے صدیق اکبر ؓ کے دور میں جمع کیا ہوا مصحف منگوا بھیجا اور آپؓ نے اس مصحف کو قریش کی زبان کے موافق لکھوایا‘ اس لیے کہ قریش کی زبان ہی میں قرآن حکیم نازل ہوا تھا ‘اور اس مصحف کی نقول تمام بلادِ اسلامیہ میں بھیج دیں۔
جنت کے بشارت یافتہ اُس امامِ وقت کا خون ناحق بہایا گیا جن سے احادیث کی معتبر کتابوں میں ایک سو چالیس حدیثیں مروی ہیں‘ جن میں وہ مشہور حدیث بھی ہے جو صحیح بخاری میں موجود ہے اور ہماری دعوت رجوع الی القرآن میں رہنما اصول کے طور پر شامل ہے کہ : ((خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَہٗ))’’تم میں بہترین وہ ہے جس نے خود قرآن سیکھا اور اسے دوسروں کو سکھایا‘‘۔ نبی اکرمﷺ نے خوشخبری دی ہے کہ جس مؤمن صالح نے چالیس حدیثیں یاد کر لیں تو وہ قیامت کے روز علماء کے زمرے میں اُٹھایا جائے گا‘ تو جن کو ایک سو چالیس احادیث نہ صرف یاد ہوں بلکہ انہوں نے آنحضورﷺ سے سن کر روایت کی ہوں‘ ان کے مرتبے اور مقامِ علوم کا کیا کہنا!
اُس عالی مقام بزرگ کو شہید کیا گیا جس سے خدا بھی راضی تھا اور رسول اللہﷺ بھی راضی تھے۔ چنانچہ مستدرک حاکم میں ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ ’’ایک دن حضرت اُمّ کلثومؓ نے آنحضورﷺ سے دریافت کیا کہ میرا شوہر بہتر ہے یا فاطمہؓ کا؟ حضورﷺ نے کچھ دیر سکوت فرمانے کے بعد ارشاد فرمایا کہ’’تمہارا شوہر ان لوگوں میں سے ہے جو خدا اور رسولؐ کو دوست رکھتے ہیں اور خدا اور رسولؐ ان کو دوست رکھتا ہے‘‘ ---- پھر حضورﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ: ’’میں تم سے اس سے بھی زیادہ بیان کرتا ہوں‘ وہ یہ کہ میں (معراج میں) جب جنت میں داخل ہوا اور عثمان کا مکان دیکھا تو اپنے صحابہ میں سے کسی کا ایسا نہیں دیکھا‘ ان کا مکان سب سے بلند تھا‘‘۔
شہادت سے قبل حضرت عثمانؓ تقریباً پچاس دن محاصرے کی حالت میں رہے اور اس دوران بلوائیوں نے پانی کا ایک مشکیزہ تک امامِ وقت کے گھر میں پہنچنے نہیں دیا۔ ان مفسدین کی شقاوتِ قلبی دیکھئے کہ اس شخص پر پانی بند کردیا گیا جس نے اپنی جیب خاص سے  بئر رومہ خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کیا تھا۔ روایات میں آتا ہے کہ دگرگوں حالات کے باعث اُمّ المؤمنین حضرت اُمّ حبیبہؓ حضرت عثمانؓ کے پاس لوگوں کی وہ امانتیں لینے جانا چاہتی تھیں جو آپ کے پاس محفوظ تھیں اور اُمّ المؤمنینؓ نے پانی کا ایک مشکیزہ بھی ساتھ لے لیا‘ لیکن باغیوں نے نیزوں کے پھلوں سے مشکیزے میں چھید کر دئیے‘اُمّ المؤمنینؓ کی شان میں گستاخی کی اور ان کو اندر نہیں جانے دیا۔ یہی واقعہ حضرت حسن اور حضرت حسینؓ کے ساتھ پیش آیا۔ حضرت علیؓ نے اپنے ان دونوں صاحبزادوں کے ہاتھ حضرت عثمانؓ کو پانی کی ایک مشک بھیجی۔ ان کا خیال تھا کہ بلوائی کم از کم حسنینؓ کا تو لحاظ کریں گے ‘ لیکن ظالموں نے ان کی بھی پروا نہیں کی اور مشک کو نیزوں سے چھید دیا۔
وقت آخر
اس کامل الحیاء والایمان کے اِعطاء اور تقویٰ کی عین شہاد ت کے دن والی شان بھی دیکھئے۔ اس وقت آپؓ کے پاس بیس غلام تھے‘ ان سب کو یہ کہہ کر آزاد کر دیا کہ میرا تو آخری وقت آ گیا ہے۔ آپؓ نے ساری عمر کبھی شلوار نہیں پہنی تھی‘ لیکن جب معلوم ہو گیا کہ وقت آخر قریب ہے تو اس خیال سے کہ مبادا اس ہنگامے میں عریاں ہو جائوں‘ شلوار منگائی اور پہنی۔ روایت میں الفاظ آئے ہیں : ’’وَشَدَّھَا‘‘ کہ اس کو خوب کس کر باندھا‘ تاکہ شہید ہونے کے بعد ستر نہ کھلنے پائے اور اس موقع پر رسول اللہ ﷺکے فرمائے ہوئے الفاظ ’’وَاَکْثَرُھُمْ حَیَائً عُثْمَانُ‘‘ کو کہیں بٹہ نہ لگ جائے۔ شلوار پہنی اور پھر قرآن مجید کی تلاوت میں مشغول ہو گئے۔ خونِ عثمانؓ کا پہلا قطرہ سورۃ البقرۃ کے ان الفاظ پر گرا {فَسَیَکْفِیْکَھُمُ اللّٰہُ ج}(آیت:137)’’ان کے مقابلے میں اللہ تمہاری حمایت کے لیے کافی ہے‘‘  ---اس طرح وہ پیشینگوئی پوری ہوئی جس کو امام حاکم نے اپنی مستدرک میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت کیا ہے کہ : ’’میں نبی اکرمﷺ کے پاس بیٹھا تھا‘ اتنے   میں عثمانؓ آ گئے۔ آپؐ نے فرمایا: اے عثمان! تم سورۃ البقرۃ پڑھتے ہوئے شہید کیے جائو گے اور تمہارے خون کا قطرہ آیت  فَسَیَکْفِیْکَھُمُ اللّٰہُ پر گرے گا۔تم پر اہل مشرق و مغرب یورش کریں گے اور ربیعہ و مضر (دو قبیلے) کے لوگوں کے برابر تمہاری شفاعت قبول ہو گی اور تم قیامت میں بے کسوں کے سردار بنا کر اٹھائے جائو گے۔‘‘
شہادت کے دن عثمان صبح اٹھے تو کہا کہ : ’’میں نے آج رات نبی اکرمﷺ کو خواب میں دیکھا‘ آپؐ نے فرمایا: ’’اے عثمان آج تم روزہ میرے ساتھ افطار کرو‘‘---چنانچہ عصر کی نماز کے بعد جمعہ کے دن روزے کی حالت میں حضرت عثمان شہید ہوئے‘ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وارضاہ!
اللہ تعالیٰ کی ہزاروں رحمتیں نازل ہوں حضرت عثمان ذوالنورینؓ پر۔
اقول قولی ھذا واستغفر اللّٰہ لی ولکم ولسائر المسلمین والمسلماتoo