(اداریہ) دنیا کو ہے پھر معرکۂ رُوح و بدن پیش - رضا ء الحق

11 /

اداریہ

رضاء الحق

دنیا کو ہے پھر معرکۂ رُوح و بدن پیش

اسرائیل کیا چاہتا ہے؟

یقیناً یہ اس دور کا اہم ترین سوال بن چکا ہے۔ امریکہ اور مغربی یورپ کے اکثر ممالک اسرائیل کی غیر مشروط حمایت کرتے ہیں، لیکن کسی اصول کی بنیاد پر نہیں بلکہ اِسےصہیونی لابی کی غلامی کہا جائے تو زیادہ مناسب ہے۔ مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک بھی اسرائیل کو اپنے اقتدار اور دولت کی بچت کے لیے (امریکہ کے ذریعے) سلامی پیش کرتے رہتے ہیں۔ پھر یہ کہ بھارت اور اسرائیل فطری اتحادی ہیں جسے قرآن پاک نے واشگاف الفاظ میں 14 صدیاں قبل ہی واضح کر دیا تھا: ’’تم لازماً پاؤ گے اہلِ ایمان کے حق میں شدید ترین دشمن یہود کو اور اُن کو جو مشرک ہیں اور تم لازماً پاؤ گے مودّت کے اعتبار سے قریب ترین اہلِ ایمان کے حق میں ان لوگوں کو جنہوں نے کہا کہ ہم نصاریٰ ہیں یہ اس لیے کہ ان (عیسائیوں) میں عالم بھی موجود ہیں اور درویش بھی اور (اس لیے بھی کہ) وہ تکبر نہیں کرتے۔‘‘ (المائدۃ : 82)
آیت مبارکہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہاں نہ صرف 14صدیوں قبل کے مشرکین مکہ اور مدینہ میں آباد یہود کے قبائل کی اسلام اور مسلم دشمنی کا تذکرہ ہے بلکہ آنے والے دور کے حوالے سے بھی مسلمانوں کو بین الاقوامی تعلقات کے حوالے سے ایک سنہری پالیسی دے دی گئی ہے۔ آج یہودی اسرائیل میں اور مشرک بھارت میں مسلمانوں پر ظلم اور درندگی کی نئی داستان رقم کر رہے ہیں۔ افسوس کہ ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل کے بعض ہمسائے مسلم ممالک ہی اس کی چاکری کر رہے ہیں۔ مذکورہ بالا آیت کے دوسرے حصّہ میں فرمایا گیا ہے کہ مسلمانوں کے حق میں نرم گوشہ رکھنے والے وہ ہیں جو عیسائی کہلاتے ہیں اور اس کی وجہ یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ ان میں عالم اور درویش بھی ہیں اور وہ تکبر نہیں کرتے۔
حقیقت یہ ہے کہ مدینہ کے تینوںیہودی قبائل نبی اکرمﷺ کو اللہ کےآخری رسول کےطور پر واضح دلائل کی روشنی میں اچھی طرح پہچان چکے تھے، لیکن انہوں نے بھی وہی شیوہ اپنایا جو شیطانِ لعین نےحضرت آدم ؑ کو سجدہ کرنے سے انکار کرنے پراختیار کیا تھا، یعنی تکبر اور حسد۔ آج بھی یہودی خود کو تحریف شدہ تورات اورتا لمود کی روشنی میں مکمل اور بہترین انسان گردانتے ہیں اور باقی سب کو کیڑے مکوڑے، جنہیں جب چاہے مسل دو۔ دوسری طرف عیسائیوں کا معاملہ دورِ حاضر میں خاصہ پیچیدہ ہے۔ امریکہ اور برطانیہ جیسے ممالک میں تو پروٹیسٹنٹ عیسائیت جڑ پکڑ چکی ہے اور جو نشانیاں درج بالاآیت میں عیسائیوں کی بتائی گئی ہیں وہ اس پر کسی طرح پورا نہیں اترتے۔ دوسرا بڑا گروہ رومن کیتھولکس کا ہے اور وہ آج سے تقریبا ًصدی بھر پہلے یہود کو حضرت عیسیٰ ؑ کے خلاف بغاوت اور (اپنے تئیں) سولی چڑھانے کے جرم سے بری الذمہ قرار دے چکے ہیں۔ وہ اپنی تحریف شدہ انجیل میں اس حد تک تبدیلی کر چکے ہیں کہ گویا حضرت عیسیٰ ؑ کو سولی چڑھانے کی سازش کرنے والے درحقیقت مشرک رومی تھے، یہود نہیں! ان کی اکثر باتوں کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ۔ہر مسلمان جانتا ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ کو اللہ تعالی نے معجزانہ طور پہ جسم و روح سمیت پورا پورا آسمانوں پر اٹھا لیا تھا اور وہ قیامت سے قبل تشریف لائیں گے۔ اس کی مزید تفصیل میں ہم نہیں جاتے۔ لہٰذا رومن کیتھلک عیسائی بھی درج بالاآیت میں بتائی گئی نشانیوں پر پورا نہیں اُترتے۔ البتہ عیسائیوں کی ایک تیسری قسم بھی ہے جو ایسٹرن آرتھوڈوکس چرچ کہلاتی ہے۔ آج کی دنیا میں روس (سوویت یونین نہیں) عیسائیت کی اس شاخ کا مرکز و محور ہے۔ اگرچہ یونان اور مشرقی یورپ کے بعض ممالک نیز وسطی ایشیا میں آرمینیا بھی اسی پر عمل کرتے ہیں۔ تثلیث کے یہ بھی قائل ہیں لیکن عیسائیوں کی دوسری دو بڑی شاخوںسے قدرے مختلف ہیں ۔ یہ کرسمس 25دسمبر کی
بجائے 7 جنوری کو مناتے ہیں ۔صدر پیوٹن کی بطور روسی صدر پانچوں بارتقاریبِ حلف برداری میںایسٹرن آرتھوڈوکس
چرچ (جو روسی آرتھوڈوکس چرچ بھی کہلاتی ہے) کے علماء و راہب بڑی تعداد میں موجود تھے۔ ان کے عمومی عاجزانہ روئیے اور مسلمانوں کے لیے قدرے نرم گوشہ رکھنے کے باعث وہ سورۃ المائدۃ کی آیت 82 میں بتائی گئی نشانیوں پر کسی درجہ میں پورا اُترتے ہیں۔ زمینی حقائق سے بات اور واضح ہو جاتی ہے کہ اس وقت ساری دنیا اسرائیل کا ساتھ دے رہی ہے لیکن وہ چند ملک جو اسرائیل کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں ان میں روس بھی شامل ہے۔ عین ممکن ہے کہ احادیث مبارکہ میں مسلمانوں اور رومیوں کے جس اتحاد کا تذکرہ آیا ہے، اس سے مراد روس یعنی بازنطین کے رومی ہوں۔ واللہ اعلم!
اب ذرا اسرائیل اور یہود کے عزائم کا بھی جائزہ لے لیں۔ یہود کے نزدیک مسیح ؑکی سیٹ ابھی خالی ہے کیونکہ انہوں نے حضرت عیسیٰ ؑ کو مسیح (مسایاح) ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ شیطان نے انہیں ایسی پٹی پڑھائی کہ اُنہوں نے اپنی مذہبی کتب میں یہ بات واضح طور پرلکھ دی کہ ارضِ مقدس یعنی فلسطین کا علاقہ یہود کی میراث ہے اور 1917 ءکے بالفورڈیکلریشن کےبعد ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل قائم ہونے تک یہودی دنیا بھر سے مقبوضہ فلسطین میں بستے چلے گئے اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ ان کے مطابق مسیح [جسے وہ موشائکخ (Mashiach) کہتے ہیں اور ہمارے نزدیک یہی مسیح الدجال ہوگا] کے خروج کے لیے ایک بہت بڑی عالمی جنگ کا ہونا ناگزیر ہے۔ یہ جنگ جو کہ عیسائی مذہبی لٹریچر میں آرمیگڈون کہلاتی ہے اور احادیث مبارکہ میں اس کا تذکرہ الملحمۃ العظمٰی اور الملحمۃ الکبریٰ کے طور پر آیا ہے، اس کے ذریعے اسرائیل اپنی سرحدیں وسیع کر کے گریٹر اسرائیل قائم کرنا چاہتا ہے۔ اس گریٹر اسرائیل کو دنیا بھر کے فیصلے کرنے کا اختیار ہوگا ۔ یہود اپنا تھرڈ ٹیمپل تعمیر کرنے کے لیےمسجدِ اقصیٰ اورقبة الصخرة بلکہ پورے ٹیمپل ماؤنٹ کو ایک مرتبہ چٹیل میدان بنائیں گے اور پھر وہاں اپنی اس عبادت گاہ کو تعمیر کریں گے جسے وہ تھرڈ ٹیمپل کہتے ہیں۔ وہاں تختِ داؤدی لا کر نسب کیا جائے گا،جس پر بیٹھا کر دجال (جو ان کے نزدیک مسیح ہوگا) کی تاجپوشی کی جائے گی، دجال کی عالمی حکومت قائم ہو گی اور یوں یہودیوں کا سنہری دور شروع ہو جائے گا ۔ یہاں انتہائی اہم بات سمجھنے کی یہ ہے کہ معین شخصِ دجال سیکولر، لبرل صورت میں ظاہر نہیں ہوگا بلکہ مسیح ابن مریم ؑ ہونے کا جھوٹا دعویٰ کرے گا۔ (معاذ اللہ) اور اُس کی شعبدہ بازیاں بھی حضرت مسیح ابن مریم ؑ کے معجزات سے کسی درجہ میں نسبت رکھتی ہوں گی۔ لہٰذا مسیح الدجال ایک مذہبی شخصیت کا روپ دھارے گا۔وہ سائنس اور ٹیکنالوجی کو بھی اس طور پر استعمال کرے گا کہ دنیا کی عظیم اکثریت اس بات کی قائل ہو جائے گی کہ یہی اصل مسیح ہے۔ حدیث مبارکہ میں فرمایا کہ دنیا کے آغاز سے لے کر تا قیامِ قیامت انسانیت کے لیےیہ سب سے بڑا فتنہ ہوگا۔ دجال کے فریب کو صرف اہلِ ایمان ہی پہچان سکیں گے، چاہے وہ پڑھے لکھے ہوں یا ان پڑھ!
اپنے اسی باطل ایجنڈا کو پورا کرنے کے لیے اسرائیل تگ و دو میں مصروف ہے۔ شرک میں مبتلا ہندو (بھارت) اور مسیح ؑ کی واپسی کے قائل پروٹیسٹنٹ اور رومن کیتھولک عیسائی صہیونی ریاست کا دست و بازو بنے ہوئے ہیں۔ اسرائیل نے ایران پر کیوں حملہ کیا؟ اس کا اگلاہدف کیا ہے؟ کم و بیش پانچ سال قبل ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے کہا تھا: ’’ہمیں دو چیزوں کو روکنا ہے۔ ایک یہ کہ کوئی انتہا پسند مسلم حکومت ایٹمی ٹیکنالوجی کی حامل نہ بن جائے، یعنی ایران، اور ایک ملک جو ایٹمی قوت ہے اُس پر انتہا پسند مسلمانوں کا قبضہ نہ ہو جائے، میری مراد پاکستان ہے۔‘‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایران نے ماضی میں بہت سی غلطیاں کیں۔ بھارت کو چابہار کی بندرگاہ کی مکمل رسائی دے دی، جس کے ذریعے اسرائیل جاسوسی کرتا رہا۔ پاکستان سے خفیہ طور حاصل کیے ہوئے جوہری سینٹری فیوج کا دنیا بھرمیں ڈھنڈورا پیٹا۔ بھارت کے حاضر سروس فوجی کلبھوشن جادھو کو پاکستان میں داخلے کا موقع دیاجس کے نیٹ ورک نے پاکستان میں خوب دہشت گردی پھیلائی۔ مشرقِ وسطیٰ میں
اپنی پراکسیز کے ذریعہ فساد مچایا۔پھر سال کے شروع میں پاکستان پر ہی میزائل اور ڈرون داغ ڈالے جس پر مجبوراً پاکستان کو انتہائی تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے مختصر جوابی کارروائی کرنا پڑی۔ لیکن حالیہ اسرائیلی حملوں کے دوران اُس کی انٹیلیجنس سروس ناکارہ ثابت ہوئی ۔ اپنی فضائیہ اور دفاعی نظام کو دشمن سے نبٹنے کے لیے تیار نہ کیا۔ سب غلطیاں اور کوتاہیاں اپنی جگہ لیکن اس وقت ایران خطرے میں ہے اور اُس کی عملی مدد کرنا تمام مسلم ممالک کی دینی ذمہ داری ہے۔ انتہائی خوشگوار بات یہ ہے کہ سعودی عرب نے ایران کا مکمل ساتھ دینے کا اعلان کیا اور ایرانی حجاج کو سرکاری مہمان قرار دیا۔ مگر اسرائیل امریکہ کے ساتھ مل کر اُسے شدید ترین نقصان پہنچا سکتا ہے۔ جی ہاں نیتن یاہو امریکہ کو اس جنگ میں گھسیٹنا چاہتا ہے۔ ٹرمپ نے حال ہی میں تہران خالی کرنے کا مطالبہ کیا ہے جس کا اصل مطلب یہ ہے کہ مکمل سرنڈر کر دو ورنہ ... پھر یہ کہ رضاء شاہ پہلوی کے بیٹے رضاء شاہ کو رجیم چینج کے بعد ایرانی صدر بنانے کی تیاری ہے۔ G-7 کانفرنس میں شرمناکی کی انتہا دیکھنے کو آئی کہ سارا الزام ایران پر ڈال دیا گیا اور اسرائیل کی کھل کر حمایت کی گئی۔ دوسری طرف ٹرمپ امریکی صدر کے طور پر اسرائیل کے تمام مفادات کو پورا کررہا ہے۔ لیکن اگر اسرائیل خدانخواستہ ایران کو زیر کر لیتا ہے تو پھر اس کے اور پاکستان کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں رہے گی۔ بعض مسلم ممالک کا تو یہ حال ہے کہ ایران سے اسرائیل کی طرف جاتے ہوئے بہت سے ڈرونز اور میزائلوں کو روک رہے ہیں۔ کچھ اسی نوعیت کا معاملہ متحدہ عرب امارات کا بھی ہے۔ لیکن اس میں شک نہیں کہ ایران نے اسرائیل کے کئی شہروں میں کامیاب حملے کیے ہیں اور غزہ میں بمباری کر کے مسلمانوں کے چیتھڑے اُڑتے دیکھ کر خوشیاں منانے والے صہیونیوں کی آہ و بکا دیکھ کر دل میں ایک ٹھنڈک سی محسوس ہوئی۔
بہرحال اصل سوال یہ ہے کہ پاکستان کو آئندہ کیا لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے۔ سیاسی، معاشی، آئینی و قانونی اور دفاعی معاملات میں بہتر سے بہتر کارکردگی دکھانا توناگزیر ہے ہی۔ جنگی ساز و سامان اور جذبۂ ایمان کو ساتھ ملا کر چلنا ہوگا۔ صرف چین پر تکیہ کرنا ہی کافی نہیں، ایک مسلمان کا حقیقی توکل تو اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہوتا ہے۔ مرحوم ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ایک انٹرویو میں ایک بڑے صحافی کو بتایا تھا کہ جب انہوں نے پانچ ہزار کلومیٹر تک کے ہدف کو نشانہ بنانے والے میزائل کا منصوبہ پیش کیا تو صدر مشرف غصے سے لال پیلے ہو گئے اور کہنے لگےکہ کیا تم اسرائیل کو ہدف بنانا چاہتے ہو۔ پھر پوری قوم نے دیکھا کہ محسنِ پاکستان کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا۔ بعض میڈیا اطلاعات کے مطابق ٹرمپ نے فیلڈ مارشل سے ملاقات کے دوران لڑاکا طیاروں، فوجی سازو سامان اور معاشی امداد کے بدلے میں پاکستان سے فوجی اڈے مانگے ہیں۔ ہمارا پُرزور مطالبہ ہے کہ صدر پرویز مشرف کی نائن الیون کے بعد کی گئی حماقت کو نہ دہرایا جائے اور امریکہ کو واشگاف الفاظ میں ’’ایبسولیوٹلی ناٹ‘‘ کہا جائے۔ یقیناً ہمیں اسرائیل کو ہدف بنانا ہوگا۔ جن جنگوں کا آغاز ہو چکا ہے اس میں پاکستان کو ابھی مزید گھسیٹا جائے گا۔ پاک فوج کے موٹو’’ ایمان، تقویٰ،جہاد فی سبیل اللہ‘‘ کا عملی مظاہرہ کرنا ہو گا۔ ہماری اب بھی یہی دعا ہے کہ مسلم ممالک خواب خرگوش سے جاگیں اور اس بات کو سمجھیں کہ اسرائیل کا اصل ہدف مسلمان ممالک ہی ہوں گے۔ لہٰذا دین کو دانتوں سے پکڑ لیں اور اپنی تمام توانائیاں ملتِ اسلامیہ کی نشاۃ ثانیہ کے لیے صرف کر دیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے حکمرانوں اور مقتدر حلقوں کو اس اہم ترین دینی ذمہ داری کوادا کرنے میں مقدمۃ الجیش بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین!
بقول اقبال ؎
دنیا کو ہے پھر معرکۂ روح و بدن پیشاللہ کو پامردی ٔمومن پر بھروسہ

تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو ابھاراابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا