ٹرمپ کو امن کے نوبل پرائز کی سفارشاورصہیونیت کی ذلت آمیز شکست
ابو موسیٰ
مملکت ِخداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حکومت نے امریکہ کے صدر ٹرمپ کو نوبل امن پرائز کی سفارش کی ہے جبکہ صدر ٹرمپ نے اہلِ غزہ کے قتلِ عام سے مکمل طور پر فارغ ہونے سے پہلے ہی اسلامی جمہوریہ ایران پر بدترین حملہ کر دیا۔ یہ شخص ہزاروں فلسطینیوں اور ایرانیوں کا قاتل ہے مگر حکومتِ پاکستان کا تو واحد سہارا یہی ہے۔ خوشامد، چاپلوسی اور کاسہ لیسی کی بھی کوئی حد ہونا چاہیے، کس طرح ذاتی اقتدار کے لیے دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات کچلے گئے اور اُمت مسلمہ کے مفاد کا بے دریغ قتل ہوا۔ آپ اُس شخص کو عالمی سطح پر نوازنے اور امن کا اعلیٰ ترین اعزاز دینے کی سفارش کر رہے ہیں جس کے ہاتھ غزہ میں آپ کے مسلمان بھائیوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں انا للہ و انا الیہ راجعون! یہ کام نہ مصر کے حکمران جرنیلی ٹولے نے کیا، نہ سعودی عرب کے شاہی خاندان نے کیا حالانکہ اُن کی حکومتیں بھی ٹرمپ سرکار کے سہارے سے قائم ہیں لیکن وہ اِس حد تک نہیں گرے۔ اِس حوالے سے دیکھا جائے تو امریکی وزیرخارجہ مارکو روبیو کی یہ بات صد فی صد درست معلوم ہوتی ہے کہ مسلمان حکومتیں اگرچہ عوامی سطح پر ہمارے خلاف بیان دیتی ہیں لیکن حقیقت میں یعنی پالیسی کے حوالے سے ہم سے متفق ہی نہیں ہماری معاون بھی ہے گویا اِس حد تک آزادی امریکہ نے مسلمان حکومتوں کو خود ہی دی ہوئی ہے کہ وہ اسرائیل اور امریکہ کے خلاف بیان بازی کر لیا کریں۔ اللہ ہمیں ہدایت دے اور ہم منافقت سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تائب ہو جائیں۔
جہاں تک ایران اسرائیل جنگ کا تعلق ہے حقیقت یہ ہے کہ ایران یہ جنگ جیت چکا ہے۔ ایران نے اسرائیل ہی کو نہیں درحقیقت صہیونیت کو ذلت آمیز شکست سے دوچار کیا ہے۔ جنگ کے آغاز اور دوران میں ایران کو اخلاقی فتح حاصل تھی لیکن اب وہ ہر لحاظ سے فاتح ہے۔ امریکہ کا جنگ میں کودنا اِس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ایران سے لڑنا اسرائیل کے بس کی بات نہیں۔ دعویٰ یہ کیا گیا کہ اسرائیل نے امریکہ کی آشیرباد سے یہ جنگ اِس لیے چھیڑی کہ ایران کو ایٹم بم بنانے سے روکا جا سکے یہ آسمان کے نیچے اور زمین کے اوپر کم از کم اِس دور کا سب سے بڑا جھوٹ ہے۔ اوّل تو راقم یہ بات سمجھنے سے قاصر ہے کہ اگر امریکہ، برطانیہ، فرانس، چین، روس، بھارت اور پاکستان ایٹم بم بنا سکتے ہیں تو پھر یہ ایران کے لیے حرام کیوں ہے؟ یہاں یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ ایران کا دشمن اسرائیل بھی عرصہ ہوا کولڈٹیسٹ کرکے ایٹمی قوت بن چکا ہے دنیا کو دھوکہ دینے کے لیے امریکہ نے اُسے ایٹمی دھماکہ کرنے سے روکا ہوا ہے وگرنہ اسرائیل بھی مکمل طور پر ایٹمی قوت ہے۔ پھر یہ کہ ایران خود ایٹم بم بنانے سے انکاری ہے۔ کسی کو اختلاف ہو سکتا ہے لیکن دنیا جانتی ہے کہ ایران کے سپریم کمانڈر اور روحانی سربراہ خامنہ ای ایٹم بم بنانے کو غیر شرعی فعل سمجھتے ہیں۔ پھر یہ کہ تمام عالمی ایجنسیاں یہ رپورٹ کر چکی ہیں کہ ایران ایٹم بم بنانے کی پوزیشن میں ہی نہیں ہے۔ ایران ابھی تک یورنیم کو اُس سطح تک enrich ہی نہیں کر سکا کہ ایٹم بم بنایا جا سکے۔ امریکہ اور اسرائیل کا یہ اُسی طرح کا الزام ہے جیسا سابق امریکی صدر جارج بش نے عراق کے پاس WMD ہونے کا جھوٹا الزام لگا کر عراق پر حملہ کر دیا تھا اور عراق کو تباہ و برباد کر دیا گیا اور بعد میں اعتراف کر لیا کہ عراق کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار نہیں تھے۔ ایران کے حوالے سے بھی ایسا ہی مسئلہ ہے درحقیقت نادیدہ قوتوں کو ایران میں اسلام کا نام لینے والی حکومت جو مرگ بر امریکہ اور مرگ بر اسرائیل کا نعرہ لگاتی ہے اور القدس کی آزادی کا مطالبہ رکھتی ہے کسی صورت منظور نہیں ۔
درحقیقت اِن نادیدہ قوتوں کا اصل مقصد اور ایجنڈا ایران میں رجیم چینج کا ہے۔ وہ ایران میں ایک سیکولر حکومت لانا چاہتے ہیں جو امریکہ اور اسرائیل کے مقاصد کو پورا کرے۔ اسرائیل نے ایران میں جاسوسی کا ایک بہت وسیع نیٹ پھیلایا ہوا تھا یہاں اِس حقیقت کا اعتراف لازم ہے کہ اتنی زبردست جنگ لڑنے والی ایرانی حکومت انٹیلی جنس کے حوالے سے مکمل طور پر ناکام تھی۔ اسرائیل نے پہلے دن حملہ کرکے جو ایران کی صفِ اوّل کی عسکری قیادت کا صفایا کیا تھا، حیرت کی بات ہے کہ وہ ایران کے اندر سے بعض غداروں کی معاونت سے کیا گیا تھا۔ ایران جس سے ماضی میں ہمیشہ پاکستان پر بھارت کو ترجیح دی اور کلبھوشن یادیو جیسے بھارتی جاسوس ایرانی سر زمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کرتےرہے ہیں۔ ایران پر اب واضح ہوگیا کہ کون اُس کا دشمن اور کون دوست ہے۔ بھارت ایران کے سامنے بُری طرح بے نقاب ہوا۔ بھارت نے ایران میں ایسے لوگ چھوڑے ہوئے تھے جو اسرائیل کے لیے جاسوسی کرتے تھے۔ اب بھارتیوں کو ایران سے نکالا جا رہا ہے وہ چاہ بہار بندرگاہ جسے ایران نے بھارتیوں کے لیے کھلا چھوڑا ہوا تھا اب اُس بندرگارہ سے بھی بھارتیوں کو نکالا جا رہا ہے خدا جانے مسلمان حکمرانوں کو یہ بنیادی بات کیوں سمجھ نہیں آتی کہ ہندو، یہودی، عیسائی کبھی مسلمانوں کے سجن نہیں ہوسکتے۔ اب ایرانیوں کے سامنے ہندوستان کے حکمرانوں کی اصلیت آئی ہے تو پارلیمنٹ میں پاکستان کے حق میں نعرے لگائے گئے ہیں اور تشکر کا اظہار کیا گیا۔ بہرحال غلطیاں انسانوں سے سرزد ہوتی ہیں اور یہ ایرانیوں کی بڑی بنیادی غلطی تھی کہ وہ ہندوستان کو دوست سمجھ بیٹھے تھے۔
ایران اسرائیل جنگ کے حوالے سے آگے بڑھنے سے پہلے راقم اِس بات کا برملا اعتراف کرے گا کہ ایران اسرائیل جنگ کے نتیجہ کے حوالے سے دوسرے تجزیہ نگاروں کی طرح راقم کی بھی رائے یہ تھی کہ ایران اِس جنگ میں اسرائیل کا مقابلہ نہ کر سکے گا اور خدانخواستہ شکست سے دو چار ہوگا لیکن ایران نے جرأت، بہادری اور درست سٹریٹیجی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسرائیل کو ناکوں چنے چبوا دیئے۔ خود اسرائیل اور امریکہ اِس زعم میں مبتلا تھے کہ ایران تو ہمارے لیے نرم چارہ ہے جو ہم بمباری سے ایران کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے جس پر ایران کے عوام اپنی حکومت کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں گے اور ہم ایران میں ایسی حکومت لانے میں کامیاب ہو جائیں گے جو امریکہ اور اسرائیل کے حق میں ہوگی۔
یہ سطور درج ہو رہی تھیں کہ اِس خبر نے دنیا میں ہلچل مچا دی کہ امریکہ کے B-2 طیاروں نے ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کر دیا ہے گویا امریکہ اِس جنگ کا حصہ بن گیا اور شاید معاملہ تیسری عالمگیر جنگ کی طرف بڑھ جائے لیکن اِس حملہ کے بعد صدر ٹرمپ نے جو بیان دیا کہ ہم نے ایران کی ایٹمی تنصیبات کو تباہ کر دیا ہے۔ اب ایران زندگی بھر ایٹم بم نہیں بنا سکے گا لہٰذا اب مزید جنگ جاری رکھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اصل ہدف حاصل کر لیا گیا تو بات دنیا پر واضح ہوگئی کہ اسرائیل کو درحقیقت فیس سیونگ دی گئی ہے اور اب اسرائیل امریکہ کے ذریعے جنگ بندی چاہتا ہے۔ اِس لیے کہ اگر امریکی حملے اور ایٹمی تنصیبات کو تباہ کرنے کا دعویٰ کیے بغیر جنگ بندی کروا دی جاتی تو جارح اسرائیل سے دنیا اور خود اُس کے عوام پوچھتے کہ بغیر کوئی ہدف حاصل کیے یہ تباہی اور بربادی کیوں مول لی گئی۔ اگرچہ حقیقت تو دنیا جان چکی ہے لیکن امریکہ اور اسرائیل کے پاس جھوٹ سچ کچھ کہنے کو تو ہے۔
قارئین کرام یہاں دو اسلامی ممالک کے مابین فرق کو نوٹ کریں ۔ایک اسلامی ملک غزہ کے مسلمانوں کے قاتل اسرائیل اور سرپرست امریکہ سے جنگ کرتا ہے، اپنا اقتدار جان و مال اور ملک و قوم کی سلامتی اُس جنگ میں جھونک دیتا ہے اور دوسرا اسلامی ملک غزہ کے مسلمانوں کے اصل قاتل اور اُنہیں اپنے دیارِ عزیز سے ہجرت کرنے کے مشورہ دینے والے صدر ٹرمپ کو نوبل کے امن پرائز کی سفارش کر رہا ہے۔ اِس لیے کہ وہ جنگ بند کروا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر خدانخواستہ خدانخواستہ پاک بھارت جنگ میں بھارت کی فتح نظر آ رہی ہوتی اور پاکستان شکست کھا رہا ہوتا تو ٹرمپ کبھی اور کسی صورت سیز فائر کرواتا اور اب اگر اسرائیل جنگ جیت رہا ہوتا اور ایران خدانخواستہ شکست کھا رہا ہوتا تو پھر ٹرمپ کیا کر رہا ہوتا وہ تو شروع ہی میں ایران کو کہہ رہا تھا کہ ایک ہی حل ہے تم غیر مشروط طور پر سرنڈر کرو۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ذاتی مفاد اور اقتدار کی لالچ میں قومی ملی اور دینی مفادات کو تج کر دینا شرمناک فعل ہے۔ اب سیز فائر ہو چکی ہے۔ اسرائیل جنگ بندی کے لیے مرا جا رہا تھا لہٰذا امریکہ نے اپنی طرف سے اسرائیل کی عزت رکھنے کے لیے ایک ڈراما رچایا، بہرحال تاریخ ایران ہی کو اِس جنگ کا فاتح قرار دے گی۔ ایران نے ثابت کیا ہے کہ وہ مسلمان ممالک میں سے وہ واحد ملک ہے جس نے اسلام دشمنوں کے تمام عزائم کو زمین بوس کر دیا۔
اب راقم قارئین کی توجہ عالمی سیاست کے ایک ایسے پہلو کی طرف کروانا چاہتا ہے جو اکثریت کی نظروں سے اوجھل ہے اور اُس کی وجہ سے خاص طور پر عوامی سطح پر بڑی مایوسی اور بدلی محسوس کی جاتی ہے اگرچہ اُس کی تاریخی وجوہات ہیں۔ درحقیقت قریباً 2 بلکہ 3 صدیوں سے عالمی سطح پر مسلمان زوال کے شکار ہیں۔ دنیا کے سب سے بڑے برّاعظم ایشیا کے بڑے ملک ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت ختم ہوئی، فاتح انگریز حکمران بن گیا۔ دوسری طرف سلطنت عثمانیہ پہلے کمزور اور مفلوج ہوئی پھر اپنوں نے ہی خلافت کے ادارے کے خاتمے کا باقاعدہ اعلان کرکے ملت اسلامی کی کمر میں ایسا خنجر گھونپا کہ ابھی تک ملت کے جسد سے خون ر س رہا ہے اور زخم ہرا ہے۔
پاکستان ہی نہیں عالم اسلام میں عوام اور خواص اِس حقیقت کو سمجھیں کہ نظامِ خلافت کو اپنائے بغیر امت مسلمہ کے زوال کے خاتمے اور عروج کا سوچنا بھی حماقت ہے۔ البتہ یہ نظامِ خلافت ایسا ہو جس کا اگرچہ ہر پہلو، ہر زاویہ شریعتِ محمدی ﷺ کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو اور حقیقی و عملی طور پر شریعت کی بالادستی ہو لیکن عصرِحاضر کے تقاضوں سے بھی لاتعلق نہ ہو۔ حکمران صحیح معنوں میں عوام کے چنیدہ ہوں۔زبردستی اور جبر شجر ممنوعہ ہو، اِس حوالے سے خلفائے راشدین اور تابعین کے دور کی ایک ایک مثال ہی کفایت کرے گی۔ حضرت عمرؓ کو دوران حج جب یہ بتایا گیا کہ کچھ لوگ باتیں کر رہے ہیں کہ آپؓ کے بعد فلاں کو خلیفہ بنا لیں گے تو آپؓ کا برجستہ جواب تھا یہ تو عوام کا حق ہے کہ وہ اپنا خلیفہ منتخب کرے اور حضرت عمر بن عبدالعزیز کو جب خلیفہ نامزد کیا گیا تو آپؒ نے اپنی نامزدگی کا رَد کرکے ایک وسیع تر شوریٰ کا اجلاس طلب کیا جس نے اُنہیں خلیفہ منتخب کیا۔ قوم و ملت کے حوالے سے تاریخ کے تناظر میں جو مایوسی اور بدلی کا ذکر ہوا ہے تو عرض ہے کہ ہم اگر گزشتہ 5 سالوں پر نگاہ ڈالیں گے تو بڑی حوصلہ افزا خبریں بھی سامنے آئی ہیں۔ (1) افغان طالبان نے امریکہ کو شکست فاش دی اور ذلیل و خوار کرکے افغانستان سے نکلنے پر مجبور کیا۔ (2) شام میں بشار الاسد کی اسلام دشمن اور مسلمانوں کی قاتل حکومت کا خاتمہ ہوا۔ (3) پاکستان نے بھارت کو شکست فاش دے کر فتح و کامرانی حاصل کی۔ (4) آخری اور شاید سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ ایران نے بھارت، اسرائیل اور امریکہ کے اسلام دشمن اتحادِثلاثہ کے مکروہ عزائم کو زمین میں دفن کر دیا۔ لہٰذا ملت اسلامیہ اپنی حربی صلاحیتوں کے ساتھ نظامِ خلافت کی طرف بڑھے تو کفر جو اِس وقت ملت ِ واحدہ کی صورت اختیار کر چکا ہے تو جھوٹ اور فریب کی اِس بڑی سلطنت کو جس نے اِس وقت دنیا کو اپنے شکنجہ میں لیا ہوا ہے، اُسے اپنے پاؤں تلے روندا جا سکتا ہے۔
آج ہمیں اِس حکایت کو حقیقت کا روپ دینا ہوگا کہ ایک بوڑھے لکڑہارے نے مرتے وقت اپنے بیٹوں کو اپنے پاس بلایا اور کہا کہ ایک لکڑی لاؤ اور اُسے توڑو سب نے اُسے آنکھ جھپکتے توڑ دیا پھر کہا کہ بہت سی لکڑیوں کا ایک گٹھا بناؤ اور اُسے توڑو کوئی نہ توڑ سکا۔ یہ ایک اہم سبق ہے جو 60 ملکوں میں منتشر امتِ مسلمہ کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ تمہاری بقا اور سلامتی اتحاد میںہے اور نظامِ خلافت تمہارے استحکام کی ضمانت ہے۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2025