سوچئے تو!
عامرہ احسان
جس کی لاٹھی اُس کی بھینس کا محاورہ بچپن سے سنتے آئے مگر بین الاقوامی سطح پر اس کا اطلاق اب تسلسل سے دیکھا۔ جب تک دنیا دو قطبی رہی، روس کی قوت امریکہ کے لیے لگام بنی رہی۔ مگر بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا کے مصداق، افغانستان سے شکست کھا کر ٹکڑے ٹکڑے ہو جانے والے روس نے امریکہ کو بلا شرکت غیرے شہنشاہ عالم کا خود ساختہ زغم دے دیا۔
یادر ہے کہ 1920 ء کی دہائی میں روایتی، قدیمی افغان معاشرے میں بدترین مغربیت کا دور جبراً نافذ کیا گیا۔ اگرچہ یہ کابل شہرمیں( ایک جزیرے کی مانند) حکمرانوں اور اشرافیہ کی حد تک محدود ،یورپ کا ایک مکمل مظہر بن چکا تھا۔ باقی ملک قصباتی تھا۔ کابل شہر خواتین کی مکمل بے پردگی، سکرٹوں، سینما، ناچ گھروں، شراب خانوں پر مبنی تھا۔ مخلوط یونیورسٹیاں مزید بگاڑ کا باعث تھیں۔ بعدازاں اس کلچر پر کریلا نیم چڑھا کے مصداق بادشاہت کے ساتھ کمیونسٹ پارٹیوں نے مزید بڑھاوا دیا۔
یہی کابلی مغربیت زدہ طبقہ ملا عمرؒ کے دور میں وہاں سے بھاگ نکلا(پاکستان و مغربی ممالک) اور یہی امریکی قبضے کے دوران لوٹ آیا اور ان کا مددگار و ترجمان بن کر ڈالر کماتا رہا۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ، دینی ذہن رکھنے والے نوجوانوں کی تحریک چلی اور مزاحمت بھی ہوئی مگر اسے بالخصوص ظاہر شاہ دور میں آہنی ہاتھ سے کچلا گیا۔ گرفتاریاں، شہادتیں، ظلم و تشدد اُن کا مقدر ٹھہرا۔ تاہم داؤد اور بعد ازاں کمیونسٹوں کا افغانستان پر مکمل قبضہ ہو گیا جو کفر میں بدترین تھے۔ اس پر افغانوں کا پیمانۂ صبر لبریز ہوتے دیکھ کر روس نے 90 دن کے لیے کمیونسٹ اقتدار بچانے کے لیے ابتدائی مداخلت کی۔ مگر وہ اس میں دھنس گیا۔ مسلم دنیا کی غیرت بھی جہاد بن کر افغانستان میں (انفرادی سطح پر نوجوان ) آن کو دی۔ 10 سال کے اندر روس مکمل ناکامی سے دوچار ہو گیا اور’ USSR‘ کا خاتمہ ہوا۔ دیوارِ برلن ٹوٹ گری۔ لینن کا مجسمہ خود روسیوں نے توڑا۔وسط ایشیائی (مسلم) ریاستیں آزاد ہوئیں۔ امریکہ نے روس کی شکست کی چاہ میں پاکستان اور ’مجاہدین‘ سے محبت جتائی۔ جھوٹا پراپیگنڈا کیا کہ یہ سی آئی اے کی جنگ تھی۔ حقیقتاً مجاہدین نے امریکہ کی چشم پوشی (جہاد کو قبول کر لینا) سے تو فائدہ اُٹھایا۔ (پاکستان نے مہاجرین کو پناہ دی)۔مگر امریکہ سے عملی مدد قبول کرنا انھیں کبھی گوارا نہ ہوا۔ یہ سرتا سر ایمانی بنیاد پرمالی کسمپرسی، صبر و استغناء، ثابت قدمی اور نصرت الٰہی کا کرشمہ تھا۔ یوں بھی جہادِ افغانستان کی بنیاد بیرونی امداد کے بغیر، کافی پہلے قائم ہو چکی تھی۔ ضیاء الحق دور میں یو این کے اداروں، مدد دینے والی این جی اوز، ملنے والاامریکی اسلحہ (جو ہمارے بازاروں میں بکا اور افغانوں نے خریدا)، امریکی قرب اور خوشنودی کے پس پردہ ایٹمی پروگرام کی زیر زمین تکمیل ہم کر پائے۔
افغانستان میںروس کے اترنے کے مقاصد میں سے ایک گرم پانیوں (ہمارے سمندر) تک رسائی تھا۔ اسے ہم سے چھیننے کی چاہ بھی تھی۔ گویا افغانوں نے اپنے خون سے اس کے ان مذموم عزائم کو روکا۔ وہ ذلیل و حقیر ہو کر انخلاء پر مجبور ہوا۔ اب امریکہ کے لیے جہادی ایک ہوا بن گئے۔ سو ان سے نمٹنے کی حکمت عملی میں چھوٹی بڑی جماعتوں کو باہم الجھانے کی سیاست مچائی گئی۔ جہاد کے ثمرات بکھرتے اور ملک خانہ جنگی کی عفریت کے پنجوں میں جاتا دیکھ کر ملا عمر کی قیادت میں قندھار میں ان کے ساتھیوں نے امن قائم کرنے کے لیے شروعات کی جو پھرملک بھر میں پھیل گئی۔ مضبوط ہاتھوں سے یہ الجھاؤ ختم کیا۔ مثالی امن قائم کیا۔ امارات اسلامیہ افغانستان شریعت کے مکمل نفاذ کے ساتھ وجود میں آئی۔ قرآن و سنت کی حکمرانی کا باب کھلا۔ وہ حکومت جس میں ایک ہی دسترخوان پر (گورنر ہاؤس، وزارتوں میں) ڈرائیور، چوکیدار، وزراء یا امیر المومنین کھانا کھاتے تھے۔ ہیروئن، اسلحے، کرپشن کا خاتمہ ہوا۔ وار لارڈ (مسلح جتھے ) ختم ہوئے۔ انصاف کی شرعی بنیادوں پر بلا امتیاز دو چار قاتلوں کو پھانسی کی سزادی گئی۔ قانون کی بے لاگ حکمرانی سے جرائم کا خاتمہ ہوا۔ مثالی امن و عافیت اور حکومتی اہل کار حقیقی خادمِ قوم (سول سرونٹ) بن گئے۔ کفریہ مغربیت (کمیونسٹ نظریات پر مبنی) جڑ سے اکھاڑ پھینکی گئی۔
جنگِ خلیج کے بعد امریکہ کو اب افغانستان کی طرف آنا ہی آنا تھا۔ شریعت کی بڑھتی پھیلتی شہرت، ہر دلعزیز سادہ کرپشن سے پاک اجلی حکمرانی اسلام کا خوبصورت چہرہ تھا۔ (ڈاکٹر جاوید اقبال (پسرِ اقبال) نے جیسا اپنا تجربہ بیان کیا۔)امریکہ کے سر پر یک قطبی دنیا کے بادشاہ کا تاج رکھا جا چکا تھا۔ ایک صدی میں ایک کروڑ مسلمانوں کے قتل، وسائل کی لوٹ مار اس کے بے شمار جرائم میں شامل تھی۔ نائن الیون میںامریکہ کی معاشی شہ رگ پر ہاتھ ڈالا گیا جہاں نہ بچے تھے نہ حاملہ عورتیں، نہ ہسپتال یا تعلیمی ادارے! اس حملے میں کوئی افغان شریک نہ تھا۔ صرف 3ہزار کا مرنا تھا کہ قیامت ٹوٹ پڑی ۔ یہ نزلہ سارا پہلے افغانستان اور پھر پے در پے کئی مسلمان ممالک پر گرا، جو نہ لینے میں تھے نہ دینے میں ۔ افغانستان کا اصل جرم انسانیت کو ایک سادہ عوام دوست، قابل ِعمل اسلامی نظام حکمرانی دکھانے کا جرم تھا۔ جس آئینے میں نام نہاد امریکی جمہوریت کا کریہہ استبدادی دیو چہرہ کھل گیا۔ 20 سال دنیا کی سبھی بڑی طاقتوں بشمول ہماری فرنٹ لائن معاونت آزما د یکھی گئی مگر بالآ خر15 اگست 2021 ء کو ملا عمر کی حکومت والا طالبان کا تسلسل بحال ہو گیا۔ اس دوران امریکہ نے عراق، شام، لیبیا، سوڈان، غرض سبھی مسلم ممالک درجہ بدرجہ اجاڑ ے۔ شام کی بربادی میں امریکہ، روس، ایران، لبنان، عراق، سبھی بشار الاسد کے مدد گار رہے۔اپنی معیشت سے کھربوں ڈالر ضائع کر ڈالے۔ لاکھوں انسانی جانوں کے اتلاف سے خون کی ندیاں بہیں۔ نام نہاد افغان جمہوریت حامد کرزئی اور اشرف غنی حکومتوں کا اضحو کہ رہا۔ وار لارڈز دو ستم جیسے سفاک تھے۔ طالبان اور دیگر مجاہدین کو ہوا بند کنٹینروں میں اجتماعی قبروں میں زندہ لاشیں بنا کر اتارنے اور نجی خوفناک جیلوں میں جنگی جرائم کے مرتکب ہوئے۔ کوئی احتساب نہ ہوا۔ بین الا قوامی قوانین سے ماوراء باگرام، ابوغریب (عراق) اور گوانتا مو عقوبت خانوں میں مسلمانوں پر خونخوار تعذیبیں ہو گزریں۔
افغانستان سے بے آبرو ہو کر نکلنے میں بھی پاکستان پر بائیڈن حکومت نے غصہ اتارا۔ اور پھر عین دوستم کی یاد تازہ کرتا نیتن یاہو غزہ پر چڑھ دوڑا۔ بہانہ امریکہ، مغربی دنیا اور اسرائیل کو مطلوب تھا۔ اس دوران بین الاقوامی قوانین توڑ کر یروشلم پہ قبضہ اور اسے اسرائیلی دارالحکومت قرار دینے کا (امریکی شہ پر) اسرائیل مرتکب ہو چکا تھا۔ خلیجی مسلم ممالک رام کیے جاچکے تھے۔ انسانی تاریخ کا المناک ترین باب امریکی وار لارڈ اسرائیل نے ایسا اہل غزہ کے خون سے لکھا کہ پتھروں کو بھی زبان عطا ہوئی۔ کل عالم رو دیا۔ دو سال تقریباً مظاہروں سے زمین تھراتے ہو گئے ہیں۔ اس مرتبہ تو یو این، ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسی تنظیموں نے اپنی غیر جاندرانہ حیثیت سے ہٹ کر غزہ پر احتجاج بار بار کیے۔ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے جاری تو ہوئے مگر بے اثر۔ ایران پر حملہ بھی انوکھی عجب داستان رہی۔ ٹرمپ کی بڑھکیں اور ’دی ٹرتھ سوشل‘ نامی اس کے اکائونٹ پر متضاد قلابازیاں جاری رہیں!’ہم نے سب کچھ تباہ کر ڈالا‘۔ پھر CNN پر سینئر ترین امریکی جرنیل نے اصفہان کی سب سے بڑی تنصیب کا مکمل بچ رہنے کا بیان دیا کہ وہ بہت گہرائی میں تھی، ہم نے نشانہ نہ بنایا۔
بہر طور یہ دنیا نہایت خطر ناک موڑ مڑ چکی ہے، جن راہوں پر گامزن ہے۔( اسی دوران کشمیری، بھارتی مسلمان، روہنگیا نے بے یار و مددگار ہر دکھ جھیلا۔) یہ لاٹھی بھینس کا قانون ہے۔ سارے بین الاقوامی قوانین کے پلندے، گندے انڈوں کی طرح، امریکہ، اسرائیل ، بھارت، اٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں، کا منظر دکھا چکا۔ سفید فام ، صیہونیت، عیسائیت حکمرانی یا جینے کے ویزے پائیں گے۔ مسلمان ہونا جرم رہے گا جب تک اربوں کھربوں میں ان عالمی غنڈوں (وار لارڈز) کوٹرمپ کی طرح بھتہ نہ دیں۔ دل لرزتا ہے کہ اگلی باری خدا نخواستہ …کس کی ہے؟ پاکستان تو اسرائیل کی شان میں گستاخی بھی نہیں کرتا۔ مگر ہیکل سلیمانی کی تعمیر اور خاکم بدہن مسجد ِاقصٰی اور قبۃ الصخرۃ کی طرف بڑھتے ناپاک قدم اور جنونی ہاتھ؟
بند کون باندھے گا؟
سوچئے تو!