(انٹریو) ’’سانحۂ کربلا اور حسینیت کے تقاضے؟ ‘‘ - محمد رفیق چودھری

10 /

حضرت حسین؄نے خلافت کو بچانے کے لیے اپنے پورے خاندان

سمیت جان کی بازی لگادی ، آج خلافت کی پوری عمارت مسمار ہوئے

100 سال بیت چکے ہیںاور ہمارا طرزعمل کیا ہے ؟: خورشید انجم

حسینیت تو یہ ہے کہ باطل کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہو جاؤ ۔ مگر آج

ہمارا پورے کا پورا نظام باطل کے سامنے سجدہ ریز ہے ،فلسطین میں 

ہماری مسلم مائیں بہنیں اور بچے شہید ہورہے ہیں ، لیکن دوسری طرف

ہمارے حکمران کس صف میں کھڑے ہیں؟: مولانا خان بہادر

’’سانحۂ کربلا اور حسینیت کے تقاضے؟ ‘‘

پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف تجزیہ نگاروں اور دانشوروں کا اظہار خیال

میز بان : وسیم احمد

مرتب : محمد رفیق چودھری

سوال: میدان کربلا میں حضرت حسین؄ اور ان کے اہل بیت کی شہادت نے اسلام کی دینی، سیاسی اور معاشرتی تاریخ پر کیا اثرات ڈالے ہیں اور اس واقعہ کا پس منظر کیاتھا؟
خورشید انجم:سانحۂ کربلا ہماری تاریخ کا بہت اہم واقعہ ہے۔ نبی اکرمﷺ کی بعثت کے وقت عرب میں دو مذاہب موجود تھے: یہودیت اور نصرانیت ،اور دنیا میں دو ہی بڑی سلطنتیں موجود تھی:روم اور فارس۔ آپﷺ کا مقصد بعثت یہ تھا کہ پوری دنیا پر اللہ کے دین کو غالب کیا جائے :
{ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَلَــوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ(9)}
(الصف)’’وہی ہے (اللہ) جس نے بھیجا اپنے رسولؐ کو الہدیٰ اور دینِ حق کے ساتھ تاکہ غالب کر دے اس کو پورے نظامِ زندگی پر اور خواہ مشرکوں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو!‘‘
لہٰذا دین کو قائم کرنا آپ ﷺکے فرائض منصبی میں شامل تھااور آپﷺ کی یہ خصوصی شان تھی کہ اللہ کا دین غالب ہوگیا اور یہ دونوں بڑی سلطنتیں مغلوب ہوگئیں اور یہودو نصاریٰ کو بھی گویا شکست ہوگئی۔جب انہوں نے دیکھا کہ اسلام کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا تو انہوںنے مختلف سازشیں شروع کردیں ۔ کہیں مرتدین کا فتنہ کھڑا ہوگیا ، کہیں مانعین زکوٰۃ کا فساد سامنے آگیا ۔ ان حالات میں خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق ؄ ایک آہنی چٹان کی طرح کھڑے ہو گئے اوران تمام فتنوں کی سرکوبی کی ، یہاں تک کہ دین پھر غالب ہوگیا ۔ لیکن یہ فتنے باطنی شکل میںپھیلتے رہے ، یہاں تک کہ خلیفۂ دوم؄ کی شہادت ایک ایرانی کے ہاتھوں ہوئی ، پھر سبائیوں  کے ایک گروہ نے حضرت عثمان ؄ کو بھی شہید کردیا ۔ اس کے بعد حضرت علی؄ کا دورِ خلافت بھی انہی فتنوں کا شکار رہا ۔ جنگ جمل اور جنگ صفین انہی فتنوں کی وجہ سے ہوئیں اور مسلمانوں کا خون بہا۔ پھر حضرت علی؄ کی شہادت بھی خارجیوں کے ہاتھوں ہوئی۔ انہوں نے اس موقع پر حضرت امیر معاویہ؄ اور حضرت عمرو بن العاصi کو بھی شہید کرنے کی کوشش کی لیکن وہ مختلف وجوہات کی بناء پر بچ گئے۔ اس کے بعد حضرت حسن؄ کی خلافت کا دور بھی انہی فتنوں کا شکار رہا ۔ دمشق سے حضرت معاویہ؄ فوجیں لے کر نکلےاور کوفہ سے حضرت حسن؄ فوجیں لے کر نکلے اور مدائن کے پاس جاکر ان کی آپس میں گفت و شنید ہوئی اور اس کے نتیجے میں حضرت حسن؄ خلافت سے دستبردار ہو گئے اور حضرت معاویہ؄ منصب خلافت پر فائز ہوئے۔ اس کے بعد تقریباً 20 سال کا عرصہ انتہائی امن اور سکون کے ساتھ گزرا۔حضرت امیر معاویہ؄ کےدور حکومت کے تقریباًاختتام کے قریب حضرت مغیرہ بن شعبہؓ نے تجویز پیش کی کہ حضرت معاویہ؄ کو اپنا جانشین مقرر کر لینا چاہیے ۔ ایسا نہ ہو کہ دوبارہ خانہ جنگی شروع ہو جائے۔ حضرت معاویہ؄ نے ان کی تجویز کو قبول کر لیا یزید کو جا نشین مقرر کردیا ۔ اس پر حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت عبداللہ بن عمر ، حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر، عبداللہ بن زبیر اور حضرت حسین؇ نے اعتراض کیا اور یزید کی بیعت کرنے سے انکار کردیا۔اسی دوران حضرت معاویہ؄ کاانتقال ہوگیا اور یزیدنے حکومت سنبھالی۔ اس نے سبسے بیعت کا تقاضا کیا۔اگرچہ اس وقت اکثریت نے بیعت کرلی تھی لیکن حضرت حسین؄ کے پاس کوفیوں کی طرف سے بوریوں کے حساب سے خطوط آنا شروع ہوگئے کہ ہم آپ کی بیعت کرنے کے لیے تیار ہیں ۔ حضرت حسین ؄ نے جب دیکھا کہ یہ لوگ اس قدر اصرار کر رہے ہیں تو انہوں نے کوفہ جانے کا ارادہ کرلیا۔ اس وقت خصوصاً حضرت عبداللہ بن عباس؄ نے ان کو روکنے کی بھرپور کوشش کی اور بتایا کہ کوفیوں پر اعتبار نہ کیا جائے ۔ حضرت حسین ؄ نے حالات کا جائزہ لینے کے لیے پہلے اپنے چچازاد بھائی مسلم بن عقیل ؓ کو کوفہ بھیجا ۔ انہوں نے جاکر حضرت حسین ؄کو خیریت کا خط لکھا ۔ حضرت حسین ؄ جانے کے لیے تیار ہوئے تو حضرت عبداللہ بن عباس ؄ نے انہیں کہا کہ اگر آپ نے جانا ہی ہے تو کم ازکم بچوں اور خواتین کو مت لے کر جائیں ۔ لیکن حضرت حسین ؄ کا ارادہ جنگ کا نہیں تھا لہٰذا وہ اہل بیت کے ہمراہ روانہ ہوئے ۔ راستے میں پتہ چلا کہ مسلم بن عقیل ؓ کو کوفیوں نے دھوکے سے قتل کردیا ہے ۔ آپ ؄ کو واپس مڑنے کا مشورہ دیا گیا لیکن عربوں کی روایت میں بدلہ لینا لازمی امر ہوتاہے ۔ لہٰذا آپ ؄ اپنےبھائی کا بدلہ لینے کی غرض سے کوفہ تشریف لے گئے ۔ وہاں کوفہ کا گورنر ابن زیاد 1000 سپائیوں پر مشتمل فوج لے کر آپ ؄ کے مقابلے پر آگیا ۔ تھوڑے عرصے بعد عمر بن سعدi بھی 4ہزار کا لشکر لے کر وہاں آگیا ۔ ابن سعد کی جانب سے مذاکرات اور صلح کی کوشش کی گئی ۔ حضرت حسین ؄ نے تین شرائط پیش کیں ۔ (1)مجھے واپس جانے دیا جائے، (2)مجھے سرحدوں پر جانے دیا جائے تاکہ میں وہاں اللہ کی راہ میں جہاد کروں ، (3)مجھے یزید سے ملنے دیا جائے تاکہ براہ راست اس کے ساتھ بیٹھ کر معاملات طے کیے جا سکیں ۔ اس دوران آپ ؄ نے کوفہ کے سرداروں کو مخاطب کرکے فرمایا کہ ان بوریوں میں تمہارے وہ خطوط ہیں جن میں تم لوگوں نے بیعت کا وعدہ کیا ہے ، اب تم لوگ مکر گئے ہو ۔ کوفہ کے ان سرداروں نے سوچا کہ سچ کھل گیا تو ہم مارے جائیں گے لہٰذا نہوں نے منافقت کی اور یزید کی فوج کے ساتھ مل کر حضرت حسین ؄ کو شہید کردیا۔ یہ وہ سانحہ تھا جس نے پوری اسلامی تاریخ کو متاثر کردیا۔ اس کے بعد مسلمانوں میں دینی اور سیاسی اعتبار سے ایک تقسیم پیدا ہو گئی ۔ بنو اُمیہ کے دور میں تو اہل بیت پر ظلم بھی بہت ہوئے اور اس کے بعد بنو عباس کی حکومت آئی تو اس وقت بھی مسلمانوں میں تقسیم باقی رہی اور یہ مسلسل بڑھتی چلی گئی ۔
سوال: پاکستان میں بدقسمتی سے عاشورہ ایک تہوار کی شکل اختیار کرگیا ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہونا چاہیے ۔ آپ یہ بتائیے کہ شہادت حسین میں  ہمارے لیے کیا سبق ہے؟
مولانا خان بہادر: ہرسال10 محرم کے بعد دوسرے دن جب ہم اخبارات پڑھتے ہیں تو لکھا ہوتا ہے کہ 10 محرم کا دن مذہبی عقیدت و احترام کے ساتھ منایا گیا لیکن دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ محرم کے ان دس دنوں میں شہریوں کا جینا حرام کر دیا جاتاہے ، سڑکیں بند کی جاتی ہیں ، موبائل نیٹ ورک اور انٹرنیٹ بھی بند کردیا جاتاہے ۔مریض ہسپتالوں میں نہیں جا سکتے ، لوگوں کا آپس میں رابطہ منقطع ہو جاتاہے ، گویا پورا نظام زندگی جام کر دیا جاتاہے ۔ اہل بیت سے محبت ہمارے ایمان کا حصہ ہے لیکن اگر اہل بیت سے محبت کے نام پر لوگوں کا جینا مشکل بنا دیا جائے ، لوگوں کو تکالیف پہنچائی جائیں تو یہ اہل بیت سے محبت کا تقاضا ہرگز نہیں ہے ۔ ایران ایک شیعہ ریاست ہے لیکن وہاں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ محرم کے دنوں میں لوگوں کے لیے مشکلات پیدا نہیں کی جاتیں، ماتم کرنے کے لیے مخصوص جگہیں ہوتی ہیں ، وہاں ان کی ساری گرمیاں ہوتی ہیں ، عام شہریوں کی زندگی اس سے متاثر نہیں ہوتی ۔ ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ نبی اکرمﷺ کی تعلیمات کیا ہیں ۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ مسلم اُمت کے تہوار دو ہی ہیں اور وہ عیدالفطر اور عیدالاضحی ہیں ۔ لیکن ان کے اندر بھی ایک تقدس ، احترام اور اللہ کی عبادت کا پہلو ہے ۔ ان میں لغویات اور خرافات کی کوئی گنجائش شریعت نے نہیں رکھی ۔ نبی اکرمﷺ ہمارے لیے اسوۂ حسنہ ہیں۔آپﷺ کی تعلیمات کو ہم نے اختیار کرنا ہے۔ نبی اکرمﷺکے دور میں یہود 10 محرم کو روزہ رکھا کرتے تھے ۔ جب ان سے اس کی وجہ پوچھی گئی تو انہوں نے کہا اس دن بنی اسرائیل کو فرعون سے نجات ملی تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایاکہ ہم زیادہ مستحق ہیں کہ اس دن روزہ رکھیں ۔ اس کے بعد حضور ﷺ ہرسال دس محرم کو روزہ رکھا کرتے ۔ وفات سے ایک سال قبل کسی نے کہا کہ یہود بھی دس محرم کو روزہ رکھتے ہیں ۔ کیا اس سے ان کے ساتھ مماثلت ظاہر نہیں ہوگی ۔ آپﷺ نے فرمایا کہ آئندہ سال تک اگر میں زندہ رہا تو 9ویں محرم کا بھی روزہ رکھوں گا ۔ محدثین نےاس کی تشریح میں لکھا کہ مسلمانوں کو 9 اور 10 محرم کا روزہ رکھنا چاہیے ۔ البتہ ان روزوں کا تعلق شہدائے کربلا کے ساتھ نہیں ہے کیونکہ وہ بہت بعد کا واقعہ ہے ۔ یہ روزے سنت رسول ﷺ کی پیروی میں رکھے جاتے ہیں لیکن ہمارے ہاں اس کے برعکس 10 محرم کو دیگیں پکا پکا کر تقسیم کی جاتی ہیں ، سبیلیں لگائی جاتی ہیں۔ یعنی سنت رسول ﷺ کی ڈٹ کر مخالفت کی جاتی ہے ۔ اسی طرح ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتاہے کہ 10 محرم کا دن اگر شہدائے کربلا کی وجہ سے منایا جاتاہے تو یکم محرم کا دن کیوں نہیں منایا جاتا جب خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق ؄ کی شہادت ہوئی تھی۔ وہ بھی بڑی عظیم شہادت ہے ۔اسی طرح 18 ذوالحجہ کو سیدنا عثمان غنی؄ کا یوم شہادت ہے ، وہ بھی مظلوم شہید ہیں جنہوںنےاپنی جان دے دی لیکن مسلمانوں پر تلوار نہیں اُٹھائی۔ ہم ان کی شہادت کا دن کیوں نہیں مناتے ؟ اسی طرح شہدائے اُحد میں حضرت امیر حمزہؓ جیسے جلیل القدر صحابہ شہید ہوئے ، ان کا دن کیوں نہیں منایا جاتا ؟اسی طرح شہدائے بدر کی یاد میں دن کیوں نہیں منایا جاتاہے ؟پوری اسلامی تاریخ شہادتوں سے بھری پڑی ہے ۔ سال کا کوئی دن ایسا نہیں جب آپ ﷺ کے صحابہ ؓمیں سے کسی صحابی کی شہادت نہ ہوئی ہو ۔ پھر تو ہر دن ہمیں چھٹی کرنی چاہیے اور کوئی کام نہیں کرنا چاہیے جس طرح محرم کے 10 دنوں میں شہریوں کا جینا مشکل بنا دیا جاتاہے ۔ ہمارے دین کی تعلیمات کا تقاضا یہ ہرگز نہیں ہے۔ شہادت کوئی منانے والی چیز نہیں ہے۔ قرآن کا فلسفۂ شہادت کچھ اور ہے ۔ سورئہ آل عمران میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے :
{وَلِیَعْلَمَ اللہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَیَتَّخِذَ مِنْکُمْ شُہَدَآئَ ط} (آل عمران) ’’اور یہ اس لیے ہوتا ہے کہ اللہ دیکھ لے کہ کون لوگ حقیقتاً مؤمن ہیں اور وہ چاہتا ہے کہ تم میں سے کچھ کو مقامِ شہادت عطا کرے۔‘‘
اللہ کی راہ میں شہادت پیش کرنا ایک اعزاز کی بات ہے اور یہ مقام اللہ اپنے پسندیدہ بندوں کو دیتاہے ۔ شہادت سے مراد اللہ کے دین کے حق میں گواہی دینا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰـکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّـتَـکُوْنُوْا شُہَدَآئَ عَلَی النَّاسِ }(البقرہ) ’’اور (اے مسلمانو!) اسی طرح تو ہم نے تمہیں ایک اُمت ِوسط بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو ۔‘‘
اس لحاظ سے اللہ کے رسول ﷺ ہم پر گواہ ہیں اور اب یہ ہمارا کام ہے کہ ہم دین کے گواہ بن کر کھڑے ہو جائیں  جیسے سورۃ النساء اور سورۃ المائدہ میں بھی حکم ہے کہ اے ایمان والو! انصاف کے علم بردار بن کر اللہ کے دین کے گواہ بن کر کھڑے ہوجاؤ ۔ سب سے پہلے جب کوئی کلمہ شہادت پڑتا ہے تو وہ گواہی دیتاہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد رسول اللہ ﷺ اللہ کے رسول ہیں ۔ یہ زبان سے گواہی ہے ، اس کے بعد اپنے عمل سے گواہی پیش کرنا دین کا تقاضا ہے ، جو ہم نے زبانی گواہی دی ہے اس کا ثبوت ہمارے کردار و عمل میں بھی ہو۔اُسوۂ رسول ﷺ ، صحابہ کرامؓ ، اہل بیت ؓ، شہدائے کربلاؓ نے دین کی خاطر جو کردار ادا کیا ، وہ ہماری زندگی کا مقصد ہو اور اسی مشن کے لیے ہم اپنی جان بھی قربان کرکے شہادت یعنی گواہی پیش کریں ۔ یہ ہے شہادت کا وہ قرآنی فلسفہ جس کا دین ہم سے تقاضا کرتا ہےاور یہی سبق ہمیں شہدائے کربلاسے بھی ملتا ہے جنہوں نے اپنا سب کچھ اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے قربان کردیا ۔
سوال: محرم الحرام میں حضرت حسین ؄ کا بہت زیادہ ذکر سننے کو ملتا ہے، بہت زیادہ مجالس منعقد کی جاتی ہیں، کانفرنسز ہوتی ہیں، کالم لکھے جاتے ہیں ، حتیٰ کہ لوگ ان کے روضہ کی زیارت کے لیے جان جوکھوں میں ڈال کر جاتے ہیں ، لیکن کیا وجہ ہے کہ حضرت حسن ؄ کی دینی خدمات اوران کی قربانیوں کا ذکر نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے؟
خورشید انجم:بالکل آپ کا تاثر ٹھیک ہے کہ حضرت حسن؄ کا ذکر بہت ہی کم ہوتا ہے یا کہہ لیجیےکہ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے حالانکہ حضرت حسن ؄وہ شخصیت ہیں جن کے بارے میں نبی کریمﷺ کی پیشن گوئی ہے کہ میرا یہ بیٹا اُمت کے دو گروہ میں صلح کرائے گا ۔ پھر واقعتاً ایسا ہی ہوا ۔ آپؓ نے حضرت معاویہ؄ سے صلح کرلی ، خانہ جنگی ختم ہوئی اور ایک بار پھر جہاد کا عمل شروع ہو ا جس کے بارے میں اقبال ؔ نے کہا ؎
مغرب کی وادیوں میں گونجی اذاں ہماریتھمتا نہ تھا کسی سے سیلِ رواں ہمارا20 سال کے اس امن کے دور میں اسلام دنیا میں مزید پھیلا ۔ جب یزید کا دور آیا تو آپؓ کا انتقال ہو چکا تھا ۔ پھر حضرت حسین ؄ نے خلافت کے لیے قربانیاں دیں ۔ جس مقصد کے لیے اتنی عظیم قربانیاں دی گئیں ، اُن کا ذکر نہیں کیا جاتا ۔ اصل میں اسلام مخالف قوتوں نے ان واقعات کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا اور بہت ہی ڈرامائی انداز میں غلط چیزیں منسوب کردیں ۔ ان کا مقصد امت کے اندر فتنہ اور فساد ڈالنا تھا اور اس میں وہ کامیاب ہوگئے ۔ لیکن جو شہادت کا اصل مقصد تھا وہ پیچھے رہ گیا ۔ ذاکرین کولاکھوں روپے جذباتی تقریریں کرنے کے ملتے ہیں اور وہ اس کمائی کے چکر میں بڑھا چڑھا کر اور جھوٹ کی چیزیں بیان کرتے ہیں ۔ اسی طرح مختلف تہواروں میں مختلف لوگوں کی کمائی کا موقع ہوتاہے اور وہ اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ لیکن اصل مقصد کی طرف کوئی نہیں جاتا ۔ اب اہل تشیع کے سنجیدہ لوگ بھی اس طرف متوجہ ہوئے ہیں کہ حسینیت کے نام پر جو کچھ ہورہا ہے وہ درست نہیں ہے ۔ حسینیت یہ نہیں ہے کہ لوگوں کو مشکلات میں ڈالا جائے اور شہریوں کی زندگی اجیرن کر دی جائے ۔
سوال: ہم ہر معاملے میں انحطاط کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ ہمارے سیاستدان جو قوم کے رہنما ہونے کے دعوے دار ہیں وہ بھی بعض اوقات مخالف پارٹی کے لوگوں کو یزیدی ٹولہ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں ۔ یہ اپنے طور پر حسینی بن جانااورجبکہ مخالفین کو یزیدی قراردینا کیسا طرزعمل ہے اور سیرت حسین ؄ سے ہمیں کیا سبق ملتا ہے ؟
مولانا خان بہادر:بدقسمتی سے یہ ایک ٹرینڈ بن چکا ہے کہ ذرا کسی سے اختلاف ہو تو اُس کو یزیدی قرار دے دیا جاتاہے اور خود کو حسینیت کااور حق کا علمبردار ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ یہاں تک کہ سیکولر اور لبرل سیاسی پارٹیوں میں بھی ایک دوسرے کو بدنام کرنے کے لیے یہ حربے استعمال کیے جاتے ہیں ۔ سب سے پہلے تو ہمیں دیکھنا چاہیے کہ حق کیا ہے۔حق تو وہ ہے جو قرآن و سنت کی صورت میں محفوظ ہے ۔کیا آج ہمارے معاملات، ہماری سیاست ، معیشت ، معاشرت ، ہمارا پورا نظام قرآن و سنت کے مطابق ہے ؟ اگر ہم اپنی عملی زندگی کا جائزہ لیں تو اس کا دور دور تک قرآن و سنت سے کوئی واسطہ ہی نہیں ہے ۔ کیا صرف یہ کہہ دینے سے کہ ہم حسینی ہیں دین کے تقاضے پورے ہو جائیں گے ؟ کوئی بھی سیاسی پارٹی جو خود کو حسینی کہتی ہے جب اس کو اقتدار مل جاتاہے تو ان کا طرزعمل فرعونوں سے بھی بڑھ کر ظالمانہ اور غیر منصفانہ ہو جاتاہے ۔ 77 سال میں عوام کا کس کس طرح استحصال کیا گیا ؟ ہر آنے والا حکمران پہلے سے بڑھ کر ظالم ہوتاہے اور پہلے سے زیادہ عوام کو مشکلات میں ڈال دیتاہے ۔اس ظالمانہ ، استحصالی نظام کو پروموٹ کرتے ہوئے یہ کہنا ہم حسینی ہیں ، یہ بذات خود گستاخی اور توہین ہے ، یہ تو حسینیت کو بدنام کرنے والی بات ہے ۔ حسینیت تو یہ ہے کہ باطل کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہو جاؤ ۔ مگر آج ہمارا پورے کا پورا نظام باطل کے سامنے سجدہ ریز ہے ، ہر پارٹی طاغوتی قوتوں کو راضی کرنے کے لیے اپنے عوام کو کہیں نہ کہیں فریب دے رہی ہوتی ہے ۔ آج غزہ میں مسلم بچے شہید ہورہے ہیں ، مائیں بہنیں شہید ہورہی ہیں لیکن دوسری طرف ہمارے حکمران کس صف میں کھڑے ہیں؟ اگر کوئی فلسطینیوں کی حمایت میں کھڑا ہو تو اس کو بھی کچل دیا جاتاہے ۔یزید کے دور میں تو صرف خلافت میں صرف ایک دراڑ پڑی تھی ، اُس کو ٹھیک کرنے کے لیے حضرت حسین؄ نے اپنے پورے خاندان سمیت قربانیاں پیش کیں ، آج خلافت کو ختم ہوئے 100 سال ہوگئے ہیں ، کیا ہمارے ماتھے پر بل بھی آیا ہے ؟ کیا ہم خلافت کے لیے کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں ؟اس سب کے باوجود ہمیں کیسے زیب دیتاہے کہ ہم خود کو حسینی کہیں ؟
سوال: رجب ،ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم ، یہ چار مہینے حرمت والے ہیں ۔ ان حرمت والے مہینوں میں بھی ہمارے فلسطینی مسلمان بھائیوں ، بہنوں اور معصوم بچوں پر مظالم جاری ہیں ، صہیونی فوج گاجر مولی کی طرح ان کو کاٹ رہی ہے ۔ ان حالات میں حسینیت کا درس ہمارے لیے کیا ہے اور ہم کہاں کھڑے ہیں ؟
خورشید انجم: حضرت حسین ؄کے دور میں تو اسلامی نظام قائم تھا ، اس میں صرف ایک دراڑ آئی تھی کہ شورائیت کی بجائے موروثیت نے جگہ لے لی تھی تو آپؓ نے اس کے خلاف جہاد کیا اور شہادت پیش کردی لیکن آج اسلامی نظام کی پوری عمارت گر چکی ہے جبکہ دوسری جانب عالم کفر متحد ہو کر عالم اسلام کے خلاف سرگرم ہے ، فلسطین ، کشمیر ، برما ، بھارت ، جگہ جگہ مسلمانوں کا لہو بہا رہا ہےلیکن57 مسلم ممالک کچھ نہیں کر رہے ۔ حسینیت کا درس یہ نہیں ہے ۔ حسینیت تو یہ ہے کہ ہم باطل کے خلاف میدان میں نکلیں اور ڈٹ کر مقابلہ کریں ۔
سوال: سیرت حسن و حسین i میں وہ کونسے دروس و اسباق ہیں جو آج ہم بھلا بیٹھے ہیںاور جن کی از سر نو یاددہانی کی ضرورت ہے ؟
مولانا خان بہادر:حضرت حسن ؄ کا نمایاں  کردار یہ تھا کہ انہوںنے خانہ جنگیوں اور تفرقوں میں بٹی ہوئی مسلم قوم کو متحد اور منظم کیا جس کے بعد مسلمان متحد ہو کر دوبارہ کفار کے خلاف لڑے ۔ آج اگر دیکھا جائے تو امت ٹکڑوں میں بٹی ہوئی ہے ۔ لہٰذا حضرت حسن ؄ کی سیرت سے ہمیں جو درس ملتا ہے وہ یہ ہے کہ ہم اُمت کو متحد ومنظم کرنے کی کوشش کریں ۔ اُمت کے اندر نسلی ، لسانی ، علاقائی ، فرقہ وارانہ اور مسلکی بنیادوں پر جو تقسیم ہے اس کو ختم کرنے کی کوشش کریں ۔ جب تک اُمت متحد نہیں ہوگی تو ہم اسی طرح مار کھاتے رہیں گے ، نہ فلسطینیوں کی مدد کر سکیں گے اور نہ ہی حسینیت کا کردار ادا کر سکیں گے کیونکہ حسینیت یہ ہے کہ ہم باطل اور ظالم کے خلاف کھڑے ہوجائیں گے ۔ لیکن جب تک ہم متحد نہیں ہوں گے تو باطل اور ظالم کے خلاف کھڑے نہیں ہو سکیں گے ۔ اسی طرح حسینیت کا تقاضا ہے کہ ہم اللہ کے دین کو غالب و نافذ کرنے کے لیے اپنے مال ، اپنی جان اور اپنی صلاحیتوں کو پیش کردیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت حسن اور حسین iکے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین !