(امیر سے ملاقات ) خصوصی پروگرام’’ امیر سے ملاقات‘‘ میں - محمد رفیق چودھری

10 /

اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا کہ بہترین جہاد جابر سلطان کے

سامنے کلمۂ حق کہنا ہے ۔ یہ کیفیت آج منبروں پر ہمیں دکھائی

نہیں دیتی ، ڈاکٹر اسراراحمدؒنے جو پیش گوئی کی تھی کہ مشرق

وسطیٰ تیسری عالمی جنگ کا میدان بنے گا ،و ہ آج پوری ہوتی

دکھائی دے رہی ہے ، عرب ممالک امریکہ اور اسرائیل کو خوش

کرنے میں لگے ہوئے ہیں حالانکہ گریٹر اسرائیل کا منصوبہ آگے

بڑھے گا تو وہ بھی نہیں بچیں گے ، حکمران ٹرمپ کو نوبل انعام

کے لیے نامزد کر رہے ہیں حالانکہ وہی ٹرمپ غزہ میں فلسطینیوں

کی نسل کُشی میں اسرائیل کا مکمل ساتھ دے رہا ہے ،

بھارت اگر حجاج کرام کو سہولتیں دے رہا ہے تو پاکستان کو

اس سے بڑھ کر انہیں کو سہولتیں دینی چاہئیں ۔

خصوصی پروگرام’’ امیر سے ملاقات‘‘ میں

امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ کے رفقائے تنظیم و احباب کے سوالوں کے جوابات

میزبان :آصف حمید

مرتب : محمد رفیق چودھری

سوال:آپ کو اللہ تعالیٰ نے حج کرنے کی توفیق عطا فرمائی، اللہ قبول فرمائے۔ آپ نے ہم سب کو دعاؤں میں یاد رکھا ہوگا۔ کیا اس دفعہ کچھ اضافی دعاؤں کا بھی اہتمام ہوا؟
امیر تنظیم اسلامی:الحمدللہ جتنے ہمارے رفقائے تنظیم اور ذمہ داران ہیں ، جن کے نام مجھے یاد ہیں ، اُن سب کے لیے ناموں کےساتھ اور باقی سب کے لیے اجتماعی دعا کا اہتمام ہوا۔ اللہ تعالیٰ اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے۔ اس کے علاوہ فلسطین میں پچھلےپونے دو سال سے مظالم کا جو سلسلہ جاری ہے اور مجموعی طور پر اُمت جن بدترین حالات سے دوچار ہے ، اس حوالے سے جہاں  موقع ملا گفتگو بھی کی اور اہل غزہ کے لیے ، پوری اُمت کے لیے خصوصی دعاؤں کا اہتمام بھی ہوا اور اللہ کے حضوراپنی گزارشات کو پیش کیا ۔
سوال: حج کے دوران وہاں کے حکمرانوں کے لیے دعا کی جاتی ہے ۔ کیا ہمارے حکمران چاہے کسی بھی مسلم ملک کے ہوں ، ان کے لیے ایسی دعاؤں کو معمول بنایا جا سکتا ہے ، جس طرح نبی اکرم ﷺ نے حضرت عمر ؄اور ابوجہل کے بارے میں دعا کی تھی کہ یارب ! ان میں سے کسی ایک کو ہدایت عطا فرما اور ان کے ذریعے اسلام کو تقویت دے ؟
امیر تنظیم اسلامی:ہم سب ہی ہدایت کے محتاج ہیں، چاہےحکمران ہوں یا عوام ہوں ۔ البتہ حکمرانوں کا کردار بہت بڑا ہوتاہے ، ان کے فیصلوں اور پالیسیوں کا بہت بڑا اثر ہوتا ہے ۔ اس لحاظ سے ان کے لیے دعاؤں کی بھی زیادہ ضرورت ہوتی ہے ۔ حرمین شریفین میں جو دعا کی جاتی ہے ، اس میں اکثر اپنے حکمرانوں کے لیے ہدایت مانگی جاتی ہے ۔ اس کے بعد ان کے لیے رحمتوں اور برکتوں کی دعا مانگی جاتی ہے ۔ حکمرانوں کے لیے ہدایت کی دعا کرنا اوران کو ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلاتے رہنادین کا تقاضا ہے ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :
((الدین النصیحہ)) دین تو نصیحت و خیر خواہی/ وفاداری کا نام ہے۔ پوچھا گیا کہ یارسول اللہ ﷺ ! کس کی خیرخواہی ؟ آپﷺ نے فرمایا : ’’اللہ کی، اس کی کتاب کی، اس کے رسولؑ کی(وفادای)، مسلمانوں کے امیروں کی اور عام مسلمانوں کی خیر خواہی ۔‘‘ (صحیح مسلم) یہ طرزعمل ہمارے اسلاف میں بھی رہا ہے ۔ بہت مشہور واقعہ ہے کہ شاہ فیصل شہید مرحوم کے دورِ حکومت میں  سید ابو الحسن علی ندویؒ ان سے ملاقات کے لیے گئے ۔ شاہ فیصل کی درخواست پر سید صاحب ؒ نے فکر انگیز وعظ و نصیحت کا فریضہ اداکیا کہ شاہ فیصل کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ اسلاف نے ہمیں یہ بھی سکھایا ہے کہ اگر حکمران استفادہ نہ بھی کریں تب بھی منبر و محراب سے وعظ ونصیحت کا عمل جاری رہنا چاہیے ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ بہترین جہاد جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنا ہے ۔ یہ کیفیت آج منبروں پر ہمیں دکھائی نہیں دیتی ۔ حالانکہ ہمارے پاس منبر و محراب بھی موجود ہیں ، میڈیا بھی موجود ہے ،ہم ہر طرح سے اپنی بات حکمرانوں تک پہنچا سکتے ہیں۔ خیر خواہی کے جذبہ کے ساتھ ان کے سامنے حق بات بیان کر سکتے ہیں ، ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلا سکتے ہیں ۔ ہدایت دینا اللہ کا کام ہے اور ہو سکتا ہے وہ کسی وقت کسی کے دل میں بات ڈال دے۔ یہ امت کے اسلاف کا طریقہ رہا ہے اور کتاب و سنت سے بھی ہمیں یہی تعلیم ملتی ہے ۔
سوال: اس وقت دنیا کو ہے پھر معرکہ روح و بدن پیش۔ 1990ء کی خلیجی جنگ کو صدام حسین نے اُم المحارب قراردیتے ہوئے کہا تھا مسلم ممالک تماشا نہ دیکھیں ، اُن کی باری بھی آئے گی ۔ جب امریکی افواج افغانستان میں تھیں تو اس وقت CIAکے ایک آفیسر نے 7 مسلم ممالک کے بارے میں کہا تھا ایک ایک کرکے ان سب کو تباہ کیا جائے گا ۔ ان میں ساتواں نام ایران تھا اور آج ایران پر بھی جنگ مسلط ہو چکی ہے ۔ کیا مسلم ممالک کی حالت ایسی نہیں ہوگئی جیسے مرغیوں کے ڈربے میں سے ایک مرغی کو نکال کر ذبح کیا جاتاہے تو باقی مرغیاں سمجھتی ہیں کہ ہم محفوظ ہیں لیکن ایک ایک کرکے سب مرغیوں کو ذبح کر دیا جاتا ہے ؟
امیر تنظیم اسلامی: رسول اللہ ﷺ کی حدیث ہے کہ عنقریب دیگر قومیں تم پر ایسے ہی ٹوٹ پڑیں جیسے لوگ کھانےپر ٹوٹ پڑتے ہیں۔پوچھا گیا کیا ہم اس وقت تعداد میں کم ہوں گے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں، بلکہ تم اس وقت بہت ہو گے، لیکن تم سیلاب کی جھاگ کی مانند ہو گے، اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں کے سینوں سے تمہارا خوف نکال دے گا، اور تمہارے دلوں میں ’’وہن‘‘ڈال دے گا۔ پوچھا گیا :یا رسول اللہ ﷺ ! وہن کیا چیز ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ دنیا کی محبت اور موت کا ڈر ہے۔‘‘
1990ء کی خلیجی جنگ میں تقریباً 30 ممالک نے متحد ہو کر عراق پر حملہ کیا تھا ۔ پھر افغانستان پر 50 سے زائد ممالک نے متحد ہو کر چڑھائی کی ۔ اسی طرح دیگر کئی مسلم ممالک پر غیر مسلموں نے مل کر حملے کیے اور انہیں برباد کیا ۔ حالانکہ دنیا میں اِس وقت 57مسلم ممالک ہیں اوردنیا کا ہر پانچواں شخص مسلمان ہے لیکن اِس کے باوجود کفار کے دلوں میں مسلمانوں کا کوئی رعب نہیں ہے ۔ وجہ دنیا کی محبت اور موت کا ڈر ہے ۔ آج دنیا ہمارے فیصلے کرتی ہے ، کبھی ہمارے ایٹمی دانت توڑنے کی بات کرتی ہے ۔ عراق، شام ، لیبیا ، لبنان کو تباہ کردیا ۔ اب ایران تک نوبت جا پہنچی۔ خلیجی جنگ کے دوران بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسراراحمد ؒ نے اپنےخطبات جمعہ میں اس موضوع پر تفصیلی کلام کیا تھا جوکہ آج ’’سابقہ اور موجودہ مسلمان امتوں کا ماضی، حال اور مستقبل‘‘ کے عنوان سے کتابی شکل میں بھی موجود ہے ۔ ڈاکٹر صاحبؒ نے فرمایا تھا کہ مشرق وسطیٰ ہی اس بڑی جنگ کا میدان بننے والا ہے جس کا ذکر احادیث میں الملحمۃ العظمیٰ کے نام سے کیا گیا ہے ۔ آج ساری دنیا کہہ رہی ہے کہ مشرق وسطیٰ ہی تیسری عالمی جنگ کا میدان بنے گا ۔ حدیث میں ہے کہ اس بڑی جنگ میں اتنا خون بہے گا کہ ایک شخص کے 100 بیٹے ہوں گے تو 99 قتل ہو جائیں گے ۔ ہوا میں اُڑتا ہوا پرندہ زمین پر بیٹھنا چاہے گا مگر اس کو بیٹھے کے لیے جگہ نہیں ملے گی کیونکہ لاشیں ہی لاشیں ہوں گی ، آخر تھک کر لاشوں پر ہی گرے گا۔ غزہ سے جو جنگ شروع ہوئی وہ اب رکنے کا نام نہیں لے رہی ۔ ٹرمپ نے ایران کے ساتھ مذاکرات کا اعلان کیا لیکن اس سے پہلے ہی اسرائیل نے ایران پر حملہ کردیا اور امریکہ اسرائیل کا پشت پناہ بلکہ مکمل معاون بن گیا ۔ ایک طرف ٹرمپ دنیا میں امن کے دعوے کرتاہے اور دوسری طرف جنگوں میں شریک بھی ہورہا ہے ۔ دوسری طرف عرب ممالک کا حال یہ ہےکہ وہ ٹرمپ کو خوش کرنے کے لیے کروڑوں ڈالرز کے تحائف دے رہے ہیں ، کھربوں  ڈالرز کے معاہدے کر رہے ہیں لیکن غزہ میں بھوک اور پیاس سے شہید ہوتے بچوں کے لیے پانی کی بوتل تک نہیں دے رہے ۔ مسجداقصیٰ کی حرمت پامال ہوتی رہی لیکن یہ خاموش بیٹھ کر دیکھتے رہے ۔ حالانکہ ان کو معلوم بھی ہے کہ صہیونی اپنے گریٹر اسرائیل کے منصوبے سے کسی صورت پیچھے نہیں ہٹیں گے اور یہ منصوبہ آگے بڑھے گا تو وہ بھی نہیں بچ سکیں گے ۔ اسی طرح پاکستان کے مقتدر حلقوں کو بھی سمجھنا چاہیے کہ اسرائیل پاکستان کو اپنا نظریاتی دشمن سمجھتا ہے ،نیتن یا ہو نے کہا:’’ ہماری خواہش ہے کہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت ختم ہو جائے۔‘‘ مگر ہمارے حکمران ٹرمپ کو نوبل پرائز دلوانے کے لیے نامز کر رہے ہیں حالانکہ وہی ٹرمپ غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی میں اسرائیل کا ساتھ دے رہا ہے ۔
سوال: امریکہ وغیرہ ایران میں رجیم چینج کرنا چاہتے ہیں لیکن نیتن یاہو اور نریندر مودی اس قدر مظالم کررہے ہیں ، کیا اسرائیل اور بھارت میں رجیم چینج نہیں ہونی چاہیے ؟
امیر تنظیم اسلامی:سورۃالمائدۃمیںاللہ تعالیٰ  فرماتاہے :
{لَـتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَۃً لِّـلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الْیَہُوْدَ وَالَّذِیْنَ اَشْرَکُوْاج}’’تم لازماًپائوگے اہل ِایمان کے حق میں شدید ترین دشمن یہود کو اور ان کو جو مشرک ہیں۔‘‘(آیت: 82 )
آج یہود و ہنود کا گٹھ جوڑ کھل کر سامنے آگیا ہے ۔ ان کی پشت پر امریکہ ہےاور یہ ابلیسی اتحاد ثلاثہ مسلمانوں کے خلاف ہے ۔ UNOصہیونیوں کی کنیز بنی ہوئی ہے، سلامتی کونسل میں 15 میں سے 14 ممالک غزہ میں جنگ بندی کی قرارداد منظور کرتے ہیں لیکن اکیلا امریکہ اس کو ویٹو کر دیتاہے ۔ لہٰذا مسلمانوں کو متحد ہو کر اپنی آرگنائزیشن بنانی چاہیے ۔ تیل کی دولت مسلم ممالک کےپاس موجود ہے ، عسکری قوت ہے ، میزائل ٹیکنالوجی ہے ، ایٹمی صلاحیت ہے ، ہر طرح کے وسائل موجود ہیں ۔ ان صلاحیتوں کو متحد ہو کر اُمت کے مفادات کے دفاع کے لیے استعمال کرنا چاہیے ورنہ ایک ایک کرکے سارے مسلم ممالک نشانہ بنتے رہیں گے ۔ ہنری کسنجر نے کہا تھا کہ امریکہ کا دشمن تو شاید بچ سکتا ہے دوست کبھی نہیں بچ سکتا ۔ آج جو مسلم ممالک امریکہ کو اپنا جگری دوست سمجھتے ہیں، کل وہی اس کی جارحیت کا نشانہ بنیں گے ۔ آج تک امریکہ نے جس کو بھی استعمال کیا ہے، اُسی کو ڈسا ہے ، جنرل ضیاء الحق اور پرویز مشرف کا انجام ہمارے لیے عبرت کا باعث ہونا چاہیے ۔
سوال: پہلگام واقعہ کے بعد بھارتی حملے کا جواب دیتے ہوئے پاکستان نے ثابت کیا کہ وہ پہلے سے تیاری میں  تھا۔ اگر امریکہ کبھی پاکستان پر حملہ کرتا ہے تو کیا ہم امید کر سکتے ہیں کہ ہماری عسکری طاقت اس حوالے سے بھی تیار ی میں ہوگی ؟
امیر تنظیم اسلامی:جب امریکہ نے نیٹو فورسز کے ساتھ مل کر افغانستان پر حملہ کیا تھا تو کہا گیا تھا کہ افغانستان بہانہ ہے ،پاکستان نشانہ ہے۔ ان کی نگاہوں میں ہم مجرم ہیں کہ ایٹم بم اور میزائل ٹیکنالوجی بنا کر بیٹھے ہوئے ہیں۔دنیا ہماری عسکری صلاحیت کو مانتی ہے اور اس مملکت کی جڑ اور بنیاد میں اسلام موجود ہے۔ عوام کی بہت بڑی تعداد دین سے محبت کے جذبات سے لبریز ہے ۔ دین کا کام تعلیمی و تدریسی انداز میں گزشتہ صدی میں جتنا یہاں ہوا ہے اس کی مثال بہت کم ملتی ہے ۔ ڈاکٹر اسرار احمدؒ فرماتے تھے کہ مختلف نوعیت کی تحریکوں کا چار صدیوں کا ورثہ ہمارے پاس ہے۔دین کا انقلابی تصور دنیا میں علامہ اقبالؒ ، مولاناابوالکلام آزادؒ ، مولانا مودودیؒ اور ڈاکٹر اسراراحمدؒ  کے ذریعے ہوا ہے تو اسی خطے سے عام ہوا ہے۔ یہ وہ چند باتیں ہیں جو دشمنوں کو کھٹکتی ہیں ۔ پورا عالم کفر الکفر ملۃ الواحدہ کی مانند متحد ہو چکا ہے ۔ خاص طور پر امریکہ سے اس کے دوستوں کو ہی خطرہ ہوتاہے ۔ اس وقت جس طرح اسرائیل دنیا میں بے نقاب ہو چکا ہے، اسی طرح  امریکہ کے چہرے سے بھی نقاب اُتر چکا ہے اور یہ بہترین موقع ہے کہ امریکہ سے جان چھڑا لی جائے ۔ ایک طرف مسلم بلاک بنانے کی کوشش کی جائے اور دوسری جانب چین اور روس کےساتھ اتحاد کو مضبوط بنایا جائے ۔ ڈاکٹر اسراراحمدؒ PIAکا ذکر کرتے تھے کہ پاکستان ، ایران اور افغانستان مل کر اس نام سے ایک بلاک بنائیں کیونکہ احادیث کے مطابق اسی خطے میں وہ علاقہ موجود ہے جسے خراسان کہا گیا ہے اور وہاں سے فوجیں دجال کے لشکر کے خلاف جہاد کریں گی اور پھر عالمی سطح پر اسلام کا غلبہ ہوگا ۔ اسلام کے اس عالمگیر غلبے میں پاکستان کا بہت بڑا رول ہوگا ان شاء اللہ۔ مستقبل کے اس منظرنامہ کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں اپنی تیاری کرنی چاہیے۔ قرآن میں اللہ حکم دیتاہے :
{وَاَعِدُّوْا لَہُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَّمِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ}’’اور تیار رکھو اُن کے (مقابلے کے ) لیے اپنی استطاعت کی حد تک طاقت اور بندھے ہوئے گھوڑے۔‘‘(الانفال :60)
یہ ہمارے لیے حکم ہے کہ ہم عسکری سطح پر بھرپور تیاری کرکے رکھیں اور زیادہ سے زیادہ طاقت کے حصول کی کوشش کریں ۔
سوال: ایک مسلمان کا اخلاق یہ گوارا نہیں کرتا کہ اس کے منہ سے کوئی جھوٹی بات نکل جائے لیکن آج کل سوشل میڈیا پر بلا تحقیق اور خدا کا خوف رکھے بغیر جب کوئی چاہتاہے کسی پر تنقید شروع کر دیتاہے ۔ شاید مونیٹائزیشن کی وجہ سے ، زیادہ ویوز کے چکر میں کسی کی بھی کردار کشی شروع کردی جاتی ہے ۔ آپ کے حوالے سے بھی کچھ چیزیں سامنے آئی ہیں ، اس طرح کے فتنوں کے خلاف ہمارا طرزعمل کیسا ہونا چاہیے ؟
امیر تنظیم اسلامی: اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائے ۔ ہمارے دین میں بہت بنیادی تعلیم ہے کہ جب بھی کوئی کام شروع کیا جائے تو بسم اللہ پڑھ کر شروع کیا جائے۔ سابق امیر تنظیم اسلامی کے دور میں سوشل میڈیا کے استعمال کے بارے میں ہماری مشاورت ہوئی اورایک ہدایت نامہ جاری کیا گیا۔ پہلا اصول یہ تھا کہ باوضوہو کر اور بسم اللہ پڑھ کر سوشل میڈیا کا استعمال کیا جائے ۔بظاہر یہ بات عجیب معلوم ہوتی ہے لیکن جب اس پر غور کیا جائے تو سمجھ میں آجاتی ہے ۔اللہ کے رسول ﷺ کی حدیث ہے کہ جس کام میں بھی اللہ کا نام لیا جائے اس میں اللہ کی تائید اور برکت شامل ہو جاتی ہے ۔ یقیناً بندہ جب اللہ کا نام لے گا تو حلال اور جائز کام پر ہی لے گا، پھر غلط کام کرنے سے پہلے 100 مرتبہ سوچے گا ۔ جب بندہ باوضو ہو کر کوئی کام شروع کرتاہے تو فرشتے اس کے قریب ہوتےہیںاوربندے کو غلط کام سے روکتے ہیں۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ بعض لوگ سوشل میڈیا پر آکر بلا سوچے سمجھے اور بلا تحقیق دوسروں پر تنقید اور کردار کشی کرتے ہیں تو وہ دراصل اپنی آخرت کا نقصان خود کر رہے ہیں۔ اللہ کے رسولﷺ نے اپنی ایک حدیث  میں جنت میں لے جانے والے اعمال کا ذکرکیا اور پھر اپنی زبان مبارک کو اپنی انگلیوں سے پکڑ کر دکھایا کہ یہ زبان انسا ن کو جنت میں بھی لے جاتی ہے اور جہنم میں بھی۔ لہٰذا جو جنت میں جانا چاہتاہے، وہ اپنی زبان کو کنٹرول میں رکھے۔ پھر ایک حدیث میں حضور ﷺ نے فرمایا : سب سے زیادہ لوگوں کو جہنم میں لے جانے والی جو چیز ہوگی وہ زبان کا غلط استعمال ہے ۔ زبان کے غلط استعمال میں جھوٹ ، غیبت ، بہتان لگانا ، الزام تراشی کرنا ، کردار کشی کرنا وغیرہ بہت کچھ شامل ہے۔اللہ تعالیٰ نے سورۃ الحجرات میں بہت واضح اصول دے دیا ہے :
{یٰٓـاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ جَآئَ کُمْ فَاسِقٌ م بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْٓااَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًا م بِجَہَالَۃٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰی مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ(6)}’’اے اہل ِایمان! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق شخص کوئی بڑی خبر لے کر آئے تو تم تحقیق کر لیا کرو مبادا کہ تم جا پڑو کسی قوم پر نادانی میں اور پھر تمہیں اپنے کیے پر نادم ہونا پڑے۔‘‘
جب بھی کوئی خبر موصول ہو تو ایک مسلمان کا کام ہے کہ سب سے پہلے اس کی تحقیق کرلے کیونکہ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ مومن کے جان و مال اور عزت و آبرو کی حرمت اللہ کے نزدیک خانہ کعبہ کی حرمت سے زیادہ ہے۔ لہٰذا کسی مسلمان پر بلا تحقیق الزام لگانا ، اس کی کردار کشی کرنا کتنا بڑا گناہ ہے اس کا اندازہ اس حدیث سے لگایا جا سکتاہے۔ سورۃ النور میں واقعہ افک کے ذیل میں سمجھایا گیا کہ اگر کسی مسلمان کے متعلق کوئی الزام سنو تو سب سے پہلے ثبوت طلب کرو۔ پھر اللہ کے رسول ﷺ کی حدیث مسلم شریف میں بھی ہے کہ بندے کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ سنی سنائی بات کو بلا تحقیق آگے بیان کردے ۔ آج بلا تحقیق مواد کو شیئر کرنا کتنا آسان ہو گیا ہے، ایسی لچھے دار گفتگو اورپُرفریب انداز میں الزام تراشیاں کی جاتی ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لائکس ملیں اور زیادہ سے زیادہ پیسے ملیں ۔ باقی لوگوں کوتو چھوڑ ئیے ، دینی طبقہ سے وابستہ لوگ بھی قرآن و حدیث  میں دئیے گئے ان رہنمااُصولوں کو فراموش کر چکے ہیں ۔ جب چاہا کسی پر مالی بدعنوانی کا الزام لگایا ، جب چاہا مفادات کے حصول کا الزام لگا دیا ۔ مجھ پر جو بہتان لگا اس کو سن کر میرے دل میں قرآن کے یہ الفاظ آگئے :
{اِشْتَرَوْا بِاٰیٰتِ اللہِ ثَمَنًا قَلِیْلًا} ’’انہوں نے اللہ کی آیات کوفروخت کیا حقیر سی قیمت کےعو ض‘‘ (التوبۃ:9)
ان آیات کے پس منظر میں یہود کا ذکر ہے مگر سبق ہمارے لیے بھی ہے ۔ چند ٹکوں کی خاطر اللہ کی آیات کو فراموش کردینا ، ان کے خلاف عمل کرنا ، بلا تحقیق کسی پر الزام تراشی کرنا اسی زمرے میں آتاہے ۔ حجۃ الوداع کے موقع پر اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :جیسے یہ دن ، یہ مہینہ ، یہ سرزمین ِمقدس حرمت والی ہے ، اسی طرح تم پر ایک دوسرے کی جان ، مال اور آبرو حرام ہے ۔ بہتان لگانے اور بغیر کسی ثبوت کے دوسروں کی کردار کشی کرنے والے اللہ کو کیا جواب دیں گے ۔ اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائے اور ہمیں ہدایت دے۔دین کی تعلیم تو یہ ہے کہ کسی کا عیب علم میں آجائے تو مسلمان اس پر پردہ ڈالتا ہے ۔ اللہ کے رسول ﷺ فرماتے ہیں :تم آج لوگوں کے عیوب پر پردہ ڈالو، اللہ روزِ قیامت تمہارے عیوب پر پردہ ڈالے گا۔ خیر خواہی کا تقاضا تو یہ ہے کہ کسی کی غلطی علم میں ہے تو تنہائی میں بیٹھ کر اُس کی اصلاح کی کوشش کرو ، نہ کہ یوٹیوب ، فیس بک وغیرہ پر اُس کو بدنام کرنا شروع کردو ۔ حدیث کا مفہوم تو یہ ہے کہ تم پردہ رکھو گے تو روز قیامت اللہ بھی پردہ رکھے گا اور اگر تم کسی کے راز کھولو گے تو روزقیامت اللہ بھی تمہیں بے نقاب کر دے گا ۔ جب اہل دین کا یہ طرز عمل ہوگا تو پھر لوگ دین سے قریب ہونے کی بجائے دور ہوں گے ۔ دین تو برحق ہے لیکن اہلِ دین اس کے نمائندے ہیں ۔لوگ اگر ان حرکتوں کی وجہ سے دین سے متنفر ہوں گے تو اس کی وجہ بلا تحقیق بہتان تراشی کرنے والے بنیں گے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایسے طرزعمل سے بچائے ۔ آمین !
سوال: بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسراراحمدؒ نے اپنی معاش اور ذرائع آمدن کو واضح کرنے کے لیے دو کتابیں لکھیں ۔ آپ کی بھی کوئی کتاب آرہی ہے یا نہیں ؟
امیر تنظیم اسلامی: ڈاکٹر اسراراحمدؒ نے حساب کم و بیش کے عنوان سے کتاب لکھی تھی اور اس میں اپنے ذریعہ معاش سمیت تمام تر مالی صورتِ حال کو قلمبند کیا تھا ۔ یہ ایک بہترین مثال تھی ۔ بہت کم ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ دین کا کام کرنے والوں ، یا کسی دینی جماعت کی قیادت کرنے والوں میں سے کسی نے اپنے مالی معاملات کو اس طرح کھول کر لوگوں کے سامنے پیش کیا ہو ۔ یہ کتاب آج بھی تنظیم اسلامی اور انجمن خدام القرآن کے مکتبوں پر موجود ہے ۔ تنظیم کی ویب سائٹ سے بھی حاصل کی جا سکتی ہے ۔ ڈاکٹر صاحبؒ کے بعد حافظ عاکف سعید صاحب تنظیم اسلامی کے امیر بنے ، اُن کے معاشی کوائف بھی اس کتاب میں مل جائیں گے ۔ اس کے بعد امارت کی ذمہ داری میرے کندھوں پر آگئی تو میں نے بھی اپنے مالی کوائف کو تفصیلاً لکھ کر 2022ء میں تنظیم کے مرکز اور ذمہ داران کو پیش کر دئیے ۔ اگر کسی کو وہ تفصیل درکار ہو تو اپنے علاقائی نظم کے ذریعے یا براہ راست مرکز سے منگوا کر پڑھ سکتا ہے ۔
سوال: سعودی عرب بڑی ہوشیاری سے حج کے اخراجات کو بڑھا رہا ہے، اس پر تنظیم اسلامی کی کیا رائے ہے؟ ( چودھری خالد )
امیر تنظیم اسلامی: ایک تو مہنگائی پوری دنیا میں بڑھی ہے اور پھر ہمارے روپے کی ویلیو بھی کم ہوئی ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ سعودی عرب کی حالیہ پالیسیوں کی وجہ سے وہ کافی حد تک کمرشلائزیشن کی طرف جارہا ہے ۔ حج اور عمرے کے ذریعے بھی بڑا ریونیو جنریٹ ہو رہا ہے۔ اگر ہم پاکستان کے اعتبار سے بات کریں تو سابق حکومت کے دور میں تو حج کا خرچہ 13 لاکھ تک بڑھ گیا تھا لیکن موجودہ وزیر مذہبی امور کی کوششوں سے کم ہو کر 11 لاکھ تک آگیا ہے ۔ جبکہ پرائیویٹ سیکٹر میں یہ خرچہ 18 سے 20 لاکھ تک چلا گیا ہے ۔ گویا سرکاری انتظام سے 50 فیصد زیادہ ہے ۔ یہ حکومت بہتر جانتی ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر کو کتنے مارجن کی اجازت دی گئی ہے ۔ ان کے مختلف پیکجز بھی حکومت منظور کرتی ہے ۔ اس میں چیک اینڈ بیلنس کے معاملات کو دیکھنا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ ہم سمجھتے ہیںکہ حکومت کو اس دینی فریضہ کی ادائیگی کے سلسلے میں لوگوں کو رعایتیں دینی چاہئیں ۔ بھارت باقاعدہ حاجیوں کو ہوائی سفر کے دوران رعایت دے رہا ہے ، اگر ایک مشرک ملک اتنی ڈسکاؤنٹ دے رہا ہے تو پاکستان کو حجاج کے لیے اس سے زیادہ سہولیات فراہم کرنی چاہئیں ۔ اگر پاکستان کی حکومت کوشش کرے تو حج کے اخراجات میں مزید کمی آسکتی ہے ۔گزشتہ سال ڈیڑھ کروڑ لوگوں نے عمرہ کیا ہے ، کسی نے کہا کہ سعودی عرب اگر نفل عبادت سے اتنا کما رہا ہےتو اُسے فرض عبادت میں لوگوں کو رعایت دینی چاہیے ۔ کئی فورمز ایسے ہیں جن کے ذریعے یہ بات سعودی حکومت تک پہنچائی جا سکتی ہے ۔ تنظیم اسلامی اس حوالے سے اپنی حکومت کو توجہ دلا سکتی ہے اور فی الوقت یہی ہمارے اختیار میں ہے ۔
سوال: ہمارے جو لوگ اس ظلم اوربہیمیت کے دور میں بھی امریکہ یا دوسرے یورپی ممالک یا آج کے مسلم ممالک (جو اسرائیل کے آگے سرنڈر کر رہے ہیں) میں مقیم ہیں، ان کے لیے کیا ہدایات ہیں؟ (نذیر آغا، ناظم آباد کراچی)
امیر تنظیم اسلامی: غیر مسلم ممالک میں رہنے کا معاملہ اپنی جگہ ایک مسئلہ ہے لیکن موجودہ صورت حال میں جبکہ اسرائیل مسلمانوں کا خون بہا رہا ہے اور امریکہ اُس کی پشت پناہی کر رہا ہے ۔کئی مسلم ممالک بھی اس کا ساتھ دے رہے ہیں ، ایسی صورت حال میں یہ مسئلہ اور بھی سنگین صورت حال اختیار کر چکا ہے ۔ اصولی بات یہ ہے کہ جو بھی مسلم ممالک اسرائیل یا امریکہ کی مدد کر رہے ہیں، ان کی ہم مذمت بھی کریں اور جس قدرممکن ہو حق بات کو پہنچانے کی کوشش کریں ، اپنے حکمرانوں کو ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلانے کی کوشش کریں اور اللہ کے حضور دعائیں بھی کریں ۔ یہ چیزیں ہمارے بس میں ہیں جوکہ ہم کر سکتے ہیں ۔ خاص طور پر فلسطینی مسلمانوں کے لیے دعائیں کریں ، قنوت نازلہ کا اہتمام کریں ۔ مگر بدقسمتی کی بات ہے کہ دینی جماعتیں بھی اب اس معاملے کو فراموش کرتی جا رہی ہیں جبکہ فلسطینی بچے ، بچیاں اور مرد و خواتین شہادتیں پیش کرتے ہوئے نہیں تھکتے ۔ ہم اپنی اولاد اور نوجوان نسل کی ذہن سازی او رتربیت کر سکتے ہیں ، یہ ذہن سازی ہمارے مستقبل پر مثبت طریقے سے اثر انداز ہو سکتی ہے ۔ کیونکہ اللہ کا وعدہ ہے کہ اس کا دین غالب ہوکر رہے گا ۔شاید ہماری زندگیوں میں یہ نہ ہو لیکن اگر آج ہم اپنی دینی ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں اور اپنی اولادوں کی اس تناظر میں تربیت اور ذہن سازی کر رہے ہیں تو ہم اپنا فرض ادا کر جائیں گے۔ اسی طرح ہم اسرائیل نواز کمپنیوں کی مصنوعات کا بائیکاٹ کر سکتے ہیں اور اس حوالے سے مہم میں حصہ لے کر اس کو تیز تر کر سکتے ہیں ۔ اس کے علاوہ جس قدر مالی تعاون ہو سکتا ہے ، ہم فلسطینیوں  کے ساتھ مالی تعاون بھی کر سکتے ہیں ۔ یہ سب ذمہ داریاں ادا کرنے کے بعد ہم کم ازکم روز محشر اللہ کے سامنے معذرت تو پیش کر سکیں گے کہ اے اللہ ! جو ہماری بساط میں تھا ہم نے کیا ۔ تنظیم اسلامی کے پلیٹ فارم سے ان سارے کاموں کو کرنے کی ہم نے کوشش کی ہے اور دیگر دینی جماعتوں نے بھی کی ہے ۔ اس کام کو مستقل جاری رکھنا چاہیے تاکہ کل اللہ کے سامنے کھڑے ہو کر ہم یہ کہیں کہ ہم نے ظلم پر خاموشی اختیار کر کے ظلم کا ساتھ نہیں دیا ہے بلکہ ظالم کے ظلم کے خلاف ہم نے آواز کو بلند کیا ۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے :
{وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(139)} ’’اور تم ہی سربلند رہو گے اگر تم مؤمن ہوئے۔‘‘(آل عمران) آج ہمارا ایمان، اگر ہمیں نماز کے لیے کھڑا نہیں کررہا تو پھر اللہ کی مدد کیسے آئے گی اور ہم کیسے غالب ہوں گے ؟لہٰذا سب سے بڑھ کر ہمیں اپنے ایمان کو مضبوط کرنا ہے۔ ایمان کی مضبوطی کے لیے ہمیں قرآن سے جڑنا ہوگا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((اِنَّ اللہَ یَرْفَعُ بِھٰذَا الْکِتَابِ اَقْوَامًا وَیَضَعُ بِہٖ آخَرِیْنَ)) (صحیح مسلم) کہ اللہ تعالیٰ اسی کتاب کی بدولت بہت سی اقوام کو بلندی عطا کرے گا اور اس کے ترک کرنے کی پاداش میں بہت سی قوموں کو زوال سے دوچار کرے گا۔
پھر سورۃ محمد میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے :
{اِنْ تَنْصُرُوا اللہَ یَنْصُرْکُمْ وَیُثَبِّتْ اَقْدَامَکُمْ(7)} ’’اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا اور وہ تمہارے قدموں کو جما دے گا۔‘‘
اللہ کی مدد سے مراد اللہ کے دین کے لیے جدوجہد کرنا ہے ۔ یہی تنظیم اسلامی کی مستقل دعوت ہے۔یہ کام مستقل بنیادوں پر کرنے کے ہیں ۔ اس کے نتیجے میں اللہ کی مدد ہمارے شامل حال ہوگی ، آج نہیں توکل حالات بہتر ہوں گے ان شاء اللہ۔ ان ذمہ داریوں کو ادا کیے بغیر اگر ہم مر گئے تو اللہ کو کیا جواب دیں گے ۔ اللہ اپنی پناہ میں رکھے ۔آمین !