(اداریہ) کربلا سے غزہ تک … - رضا ء الحق

10 /

اداریہ


رضاء الحق


کربلا سے غزہ تک …


شہادتِ حضرت حسین ؓ اسلامی تاریخ کاایک ایسا باب ہے جس پر ہر مکتب فکر کے مسلمان تاسف اورغم کااظہار کسی نہ کسی انداز میں ضرور کرتے ہیں۔ لیکن وہ اہم ترین مقصد جس کے لیے اسلام کی عظیم ترین ہستیوں میں سے ایک ہستی جو حضورﷺ کے صحابی ہونے کے ساتھ ساتھ نواسۂ رسولﷺ بھی ہیں،نے تاریخ اسلام کی عظیم ترین قربانی پیش کی،اُسے سمجھنے اور اسے پورا کرنے کے لیے ہم میں سے کوئی بھی سنجیدہ نہیں ہے۔حقیقت یہ ہے کہ آغاز میں اسلام کو قائم کرنے کے لیے نبی اکرم ﷺ اور صحابہ کرام ؓ نے جو قربانیاں پیش کیں وہ باطل ، کفر اور شرک کے خلاف تھیں ۔ لیکن حضرت حسین ؓ کی شہادت تو ایک اسلامی مملکت میں ہوئی جس میں نماز ، روزہ ، زکوٰۃ ، حج سمیت تمام اسلامی عبادات و رسومات پر کوئی پابندی نہیں تھی ۔ اگر حضرت حسین ؓ چاہتے تو حرمین شریفین میں بیٹھ کر عبادت کر سکتے تھے اور اللہ اللہ کرتے زندگی کزار دیتے۔ آخر نواسہ ٔ رسول ﷺ کو ایسی بے مثل قربانی پیش کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی ۔اگر اس معاملے پر کوئی عام شخص بھی غور کرے تو اس پر یہ حقیقت واضح ہو جائے گی کہ یہ صرف اسلام کا سیاسی نظام تھا جس کے لیے تاریخ کی اتنی بڑی قربانی پیش کی گئی۔افسوس کی بات یہ ہے کہ آج بھی معاشرے میں ایسے لوگ موجود ہیں جوسانحہ ٔکربلا پر اظہار افسوس کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ سیاست یا سیاسی نظام کا اسلام سے کیا تعلق ؟
آج مسلمانوں کی اکثریت نے اسلام کو محض عقائد، عبادات و رسومات کا ایک مجموعہ سمجھ رکھا ہے ۔ حالانکہ اسلام تو ایک مکمل نظام حیات ہے جو زندگی کے تمام انفرادی اور اجتماعی گوشوں پر محیط ہے ۔جس طرح انفرادی سطح پرعقائد، عبادات و رسومات کی دین میں اہمیت ہے اتنی ہی اہمیت اجتماعی سطح پر اسلام کے معاشی ، سیاسی اور معاشرتی نظام کی بھی ہے ۔یزید کے دور میںبھی اسلام زندگی کے تمام بقیہ انفرادی و اجتماعی گوشوں میں زندہ تھا، لیکن صرف سیاسی گوشے میں تبدیلی لائی گئی تھی کہ نظامِ خلافت کو ملوکیت میں بدل دیا گیا تھا ۔ وقت کے حکمران کا فسق و فجور میں مبتلا ہونا اپنی جگہ، لیکن اسلام کے سیاسی گوشے یعنی نظام ِخلافت کی اہمیت کا اندازہ واقعہ کربلا سے ہوتاہے کہ اس کے لیے اسلامی تاریخ کی بڑی قربانی دی گئی ۔آج ہم شہادت حضرت حسین ؓ کے غم میں آنسو تو بہت بہاتے ہیں اور آپ ؓ سے محبت اور ہمدردی کا اظہار مختلف طور طریقوں سے ہر سطح پر کرتے ہیں لیکن نظام خلافت کی اہمیت اور ضرورت کو سمجھنے اور اُسے نافذ کرنے کے لیے تیار نہیں ۔ آج پوری دنیا میں 57مسلم ممالک ہیں لیکن کسی ایک میں بھی مکمل طور پر اسلامی نظام قائم و نافذ نہیں۔ اسلام کو اگر ایک سات منزلہ عمارت سے تعبیر کیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ یزید کے دور میں اس عمارت کی ایک منزل گر گئی جسے حضرت حسین ؓ اور انہی کی طرح حضرت عبد اللہ بن زبیرiنے برداشت نہ کیا۔حضرت حسین ؓ نے تو بمع اہل وعیال جان قربان کر دی ۔
آج دین کی عمارت مکمل طور پر گر کر ڈھیر ہو چکی ہے مگر اس پر دنیا کے کم و بیش دوارب مسلمانوں کو کوئی فکر نہیں ہے ۔ الاماشاءاللہ۔ حضرت حسین ؓ سے عقیدت اور ہمدردی کے اظہار کا اصل تقاضا تو یہ ہے کہ جس مقصد کے لیے انہوں نے شہادت پیش کی ہم اس مقصد کو پورا کریں۔ لیکن عملاً صورت حال یہ ہے کہ آج نظام خلافت کا نام لینا بھی جرم بنا دیا گیا۔ اگر دنیا میں چند لوگ اس نظام کے قیام کے لیے جدوجہد کر بھی رہے تھے تو ماضی میںمسلم ممالک نے ہی عالمی طاقتوں کے ساتھ مل کرانہیں کچل ڈالنے کی پالیسی اپنائے رکھی ۔ ان اسلام دشمن عالمی قوتوں نے داعش جیسی تنظیمیں قائم کیںاور ان کے ذریعے ہر وہ کام کروایا گیا جس سے خلافت کا نام بدنام ہو ۔ گویا ہم نے حضرت حسین ؓ کے اس اعلیٰ و ارفع مشن کو ہی بدنام کر دیا جس کے لیے انہوں نے قربانی پیش کی۔ آج وہ بھی حضرت حسین ؓ کی محبت کے سب سے بڑے داعی ہیں جو کہتے ہیں کہ آج کے جدید دور میں 14سو سال ’’پرانے‘‘ نظام کی بات کرنا احمقوں کی جنت میں رہناہے ۔گویا مثبت اور منفی کو ایک مقام پر اکٹھا کرنے کی ناکام اور باطل کوشش کرتے ہیں۔ حالانکہ وہ نظام خلافت ہی تھا جس کے
لیے حضرت حسین ؓ نے اتنی بڑی قربانیاں اور شہادتیں پیش کیں ۔ لہٰذا اگر ہم حضرت حسین ؓ سے محبت اور عقیدت میں مخلص ہیں تو ہمیں اُن کے اُس مشن کو سچے دل سے اپنا لینا چاہیے جس کے لیے آپ ؓ نے اپنا سب کچھ اللہ کی راہ میں لٹا دیا ۔ جس طرح آپ ؓ نے کربلا میں نظامِ خلافت کے لیے قربانیاں پیش کرکے ایک مثال قائم کر دی اسی طرح آپؓ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہمیں بھی نظامِ خلافت کے قیام کے لیے قربانیاں پیش کرنی چاہئیں یا کم از کم جو لوگ اسلام کے نظام ِعدل و اجتماعی کو شریعت کی بنیادوں پر قائم کر نے کی جدوجہد کررہے ہیں ، اُن کی راہ میں روڑے اٹکانے کی بجائے اُن کی مدد کرنی چاہیے ۔
ہم نے یہ ملک حاصل ہی اس لیے کیا تھا کہ ہم یہاں پر اسلام کا نظام ِ عدلِ اجتماعی قائم کریں گے ۔ ’’ پاکستان کا مطلب کیا:لاالٰہ الا اللہ ۔‘‘ اسی مقصد کے لیے لاکھوں لوگوں نے قربانیاں دیں ، سب کچھ چھوڑ ا ، ہجرت کی اور دوران ہجرت تاریخ کے بدترین مصائب اُٹھائے اور عظیم ترین قربانیاں پیش کیں ۔ ان سب لوگوں کے سامنے صرف ایک ہی مقصد تھا کہ وہ خلافت علی منہاج النبوۃ کے قیامِ کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے اور ان کا یہی خواب تھا کہ ان کی نسلیں اسلام کے نظام عدل اجتماعی کے اندر رہتے ہوئے زندگیاں گزاریں گی ۔ لیکن جب پاکستان بن گیا تو اس نظام کی جانب بڑھنے کی بجائے اس جانب اُٹھنے والے ہر قدم کو ہم نے روکنے کی کوشش کی ۔ اگرچہ مذہبی طبقہ نے ابتدا میں دبائو ڈال کر قرار داد مقاصد آئین ساز اسمبلی سے منظور کروائی، تمام مسالک سے تعلق رکھنے والے 31 جید علماء نے ملک میں نفاذِ اسلام کے لیے 22 نکات پر اتفاق کر کے اتمامِ حجت کر دی۔ لیکن بعد ازاں اس کو آئین پاکستان کا باقاعدہ حصہ بنانے کی بجائے تمام تر کوششیں اُسے غیر مؤثر کرنے میں صرف کی گئیں۔ ملک مارشل لاء اور سیکولرازم کی راہ پر چل پڑا۔ 77سال سے ہمارا معاشی نظام سود کی بنیاد پر کھڑا ہے ، معاشرتی سطح پر بھی ہمارا نظام مغربی تہذیب کے گرداب میں دھنستا چلا جارہا ہے ، عریانی ، فحاشی ، بے حیائی اپنے عروج پر ہے۔ اسی طرح سیاسی نظام میں سے بھی اسلام اور دین کو نکال باہر کر دیا گیا ۔ ہمارا عدالتی نظام بھی انگریزکا بنایا ہوا نظام ہے جس میں غریب پھنس جاتاہے جبکہ امیر کو ہر طرح سے چھوٹ مل جاتی ہے ۔ اگرچہ اسلامی نظریاتی کونسل اور شریعت کورٹ بنائی گئیں لیکن ان کا دائرہ کار اس قدر محدود کر دیا گیا کہ وہ باطل نظام پر کسی طرح سے بھی اثر انداز نہ ہونے پائیں ۔ مذہبی جماعتوں نے بھی جمہوریت کے لیے تو تحاریک چلائیں لیکن اسلامی نظام کے قیام و نفاذ کے لیے تحریک چلانے سے گریز کیا۔ جب کبھی بھی مذہبی جماعتوں نے اسلام کے کسی متفق علیہ منکر کے خلاف پُرخلوص تحریک چلائی تو کامیابی نے اُن کے قدم چومے، جس کی سب سے بڑی مثال قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی تحریک تھی۔ جبکہ حضرت حسین ؓ کا اُسوہ تو یہ تھا کہ اسلامی نظام میں صرف ایک دراڑآئی تھی اور آپؓ نے اپنے اہل وعیال سمیت قربانی پیش کر دی ۔
آج غزہ کے مسلمان گویا ایک ’’کربلا‘‘ کی سی کیفیت سے گزر رہے ہیں۔7 اکتوبر 2023ء کے بعد غزہ پر اسرائیل مسلسل 20 ماہ سے شدید ترین وحشیانہ بمباری کر رہا ہے۔ میڈیا میں بتائے جانے والے اعداد و شمار کے مطابق اس ڈیڑھ برس میں بچوں اور عورتوں سمیت 60 ہزار سے زائد مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا جبکہ ہم سمجھتے ہیں کہ شہداءکی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ غزہ کا تقریباً 90 فیصد علاقہ مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔ سکول ہوں یا ہسپتال، عام شہریوں کے گھر ہوں یا پناہ گزین کیمپ سب کو اسرائیل نے ملیہ میٹ کر دیا ہے لیکن امریکہ نے اسرائیل کے خلاف سیکیورٹی کونسل میں پیش ہونے والی ہر قرارداد کو ویٹو کر دیا۔ عالمی عدالت انصاف کا فیصلہ جس نے واشگاف الفاظ میں اسرائیل کو فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی کا مرتکب قرار دیا تھا وہ تو قصہ پارینہ بن چکا ہے۔ امریکہ اور مغربی یورپ نے تو اسرائیل کی مدد کرنی ہی تھی، بھارت کی جانب سے اسلحہ اور فوجیوں کی صورت میں اسرائیل کی باقاعدہ مدد کی گئی اور وہ غزہ کے مسلمانوں کے قتل عام میں شریک ہیں۔
{لَـتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَۃً لِّـلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الْیَہُوْدَ وَالَّذِیْنَ اَشْرَکُوْاج} (المائدہ: 82) ’’تم لازماًپائو گے اہل ِایمان کے حق میں شدید ترین دشمن یہود کو اور اُن کو جو مشرک ہیں۔‘‘
یہود و ہنود کا گٹھ جوڑ اگر آج بھی کسی پر واضح نہیں تو ہم دعا ہی دے سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ دل کی آنکھ بھی کھولے تاکہ اشیاء اپنی اصل حقیقت کے مطابق دکھائی دیں۔ پہلگام کا فالس فلیگ اور اس کےبعد بھارت کے اقدام سب کے سامنے ہیں۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کی خصوصی عنایت تھی کہ پاکستان کے آپریشن بنیان مرصوصنے دشمن کے ہوش گم کر دیئے۔ لیکن بھارت، اسرائیل اور امریکہ کے کیمپ میں مکمل طور پر جا چکا ہے اور وہ اُن کی ہر بات کو تسلیم کرے گا۔ پاکستان پر بھارتی جارحیت کا معاملہ ابھی ٹلا نہیں۔6 ماہ،سال بعد بھارت پھر پاکستان پر چڑھائی کی کوشش کر سکتا ہے ۔یہ بھی یاد رہے کہ اسرائیل کی نظرِبد اسلامی ایٹمی پاکستان پر مرکوز ہے۔1967ء میں اسرائیلی وزیراعظم ڈیوڈ بن گوریان نے پاکستان کو اپنا اصل دشمن قرار دیا تھا۔ موجودہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو ماضی قریب میں پاکستان کے ایٹمی دانت توڑنے کی خواہش کا کھلم کھلا اظہار کر چکا ہے۔ اور اب توصہیونیوں کا مقبوضہ بین الاقوامی میڈیا بغیر کسی لگی لپٹی کے کہہ رہا ہے،’’پہلے ایران، پھر پاکستان! ۔‘‘
اِن حالات میں ہمارا حکومتِ پاکستان کو مشورہ ہے کہ وہ بھارت اور امریکہ دونوں کے ساتھ تمام سفارتی تعلقات ، تجارتی معاہدات اور ہر طرح کے روابط ختم کرنے کا اعلان کرے۔ شملہ معاہدہ اور اس جیسے تمام سیاسی سفارتی معاہدات بھارت کے منہ پر دے مارے۔ اپنی فضائی حدود اور زمینی راہداری کو بھارت اور امریکہ دونوںکے لیے مکمل طور پر بند کردیا جائے۔ افواج ِ پاکستان جن کا اصولِ عمل ہی ’’ایمان،تقویٰ، جہاد فی سبیل اللہ‘‘ ہے، وہ جنگ کی تیاری کریں۔ مزید برآں پاکستان کے ہر شہری کو فوجی تربیت دینے کااہتمام کیا جائے۔ امریکی مفادات سے گلو خلاصی حاصل کی جائے اور سودی قرضوں سے جان چھڑائی جائے۔ اس وقت پاکستان اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کا غیر مستقل رکن ہے، لہٰذا اس فورم کومقبوضہ فلسطین اور مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے بھرپور آواز اُٹھانے کے لیے استعمال کیا جائے۔مشرقِ وسطیٰ اور اس خطے کی بدلتی ہوئی صورتِ حال کے پیشِ نظرپاکستان کے لیے ناگزیر ہو گیا ہے کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی کو قرآن وسنت کے تابع کرے اور اُن احادیثِ مبارکہ جن میں اِس خطے کی مستقبل میں خصوصی اہمیت کا ذکر ہے اس کے لیے عملی تیاری کی جائے۔یہی وہ طریقہ ہے جس سے پاکستان کی شہ رگ یعنی کشمیر بھی پنجۂ ہنود سے آزاد ہو سکتی ہے۔ غزہ کے مسلمانوں کی عملی مدد اور مسجدِاقصیٰ کی حرمت پر پہرا دینا بھی اسی طرح ممکن ہے۔ لہٰذا ہمارا ارضِ مقدس سے ، مسجد ِاقصیٰ سے اورغزہ کے مسلمانوں سے رشتہ حقیقی معنوں میں تب ہی مضبوط اور گہرا ہوگا جب ہم پاکستان میں عملی طور پر لاالٰہ الا اللہ کو قائم کریں گے ۔اگر ہم اس پہلو پر سوچیں ، غورو فکر کریں تو ہمیں حضرت حسین ؓکی شہادت کے بنیادی مقاصد بھی سمجھ میں آسکیں گے اور پھر جب ان مقاصد کو سمجھنے کے بعد ان کو پورا کرنے کی عملی جدوجہد ہماری زندگی کا مقصد بن جائے گی تو نہ صرف حضرت حسین ؓسے ہماری محبت اور عقیدت کے اصل تقاضے پورے ہوں گے بلکہ ہماری دعائیں بھی قبول ہوں گی ،اللہ کی مدد اور نصرت بھی ہمیں حاصل ہوگی ۔لہٰذا پاکستان کو صحیح معنوں میں اسلامی فلاحی ریاست بنایا جائے۔ یہی وہ واحد راستہ ہے جس سے نہ صرف پاکستان کی سلامتی اور بقاء کی ضمانت مل سکتی ہے بلکہ ایک ایسا مستحکم اور مضبوط پاکستان وجود میں آسکتا ہے جو مستقبل میں معرکہ حق و باطل میں خراسان کے اُس لشکر کا حصّہ بنے گا جو حضرت مہدی ؓ کی بھی نصرت کرے گا اور حضرت عیسیٰ بن مریم eکی فوج کا حصّہ بن کر یروشلم میں بھی اسلام کا جھنڈا گاڑےگا۔ان شاء اللہ! اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ شہادتِ حسینؓ کے اصل مفہوم کو سمجھ کر اُس پر عملی طور پر جدوجہد کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!