(الہدیٰ) اہل ِ کتاب کو دعوت دینے کا طریقہ - ادارہ

10 /
الہدیٰ
 
اہل ِ کتاب کو دعوت دینے کا طریقہ 
 
آیت 46 {وَلَا تُجَادِلُوْٓا اَہْلَ الْکِتٰبِ اِلَّا بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُز} ’’اور اہل کتاب سے جھگڑا مت کرو مگر بہترین طریقے سے‘‘
ان کو دعوت دیتے ہوئے اچھے طریقے سے اُن سے گفتگو کرو۔ تمہاری گفتگو میں نہ تو اُن کی توہین کا انداز ہو اور نہ ہی اُن کی عصبیت ِجاہلی کو بھڑکنے کا موقع ملتا ہو۔بہر حال اپنا پیغام احسن طریقے سے اُن تک پہنچا دو۔ اِس کے بعد وہ اپنے نظرئیے اور عمل کے لیے اللہ کے ہاں خود ذمّہ دار ہیں۔
{اِلَّا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْہُمْ} ’’سوائے اُن کے جو اُن میں سے نا انصافی پر تل جائیں‘‘
اس استثناء کے دو معنی ہیں۔ ایک یہ کہ اُن میں غیر منصفانہ طرز ِعمل دکھانے والے افراد سے مجادلہ کرنے کی سرے سے ضرورت ہی نہیں ہے ‘ا ور دوسرے یہ کہ دورانِ گفتگو ایسے لوگوں کی ہٹ دھرمی کے سبب اُن کے ساتھ کسی حد تک سخت رویّہ اختیار کرنے کی بھی اجازت ہے۔ بہر حال اگر کوئی شخص جان بوجھ کر ضد اور ہٹ دھرمی پر اُتر آئے تو اُس کے ساتھ بحث و تمحیص میں یہ دونوں صورتیں بھی پید اہو سکتی ہیں۔ 
{وَقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا بِالَّذِیْٓ اُنْزِلَ اِلَیْنَا وَاُنْزِلَ اِلَیْکُمْ} ’’اور (ان سے) کہیے کہ ہم ایمان رکھتے ہیں اِس پر بھی جو ہم پر نازل کیا گیا اور اُس پر بھی جو آپ لوگوں پر نازل کیا گیا ‘‘
{وَاِلٰـہُنَا وَاِلٰہُکُمْ وَاحِدٌ وَّنَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ(46)} ’’ اور ہمارا معبود اور تمہارا معبود ایک ہی ہے اور ہم تو اسی کے سامنے سر جھکاچکے ہیں۔‘‘
 
درس حدیث
 
مصائب کی برداشت کے بدلے گناہوں کی معافی
 
 عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ  ؓ  قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِﷺ:((مَا يَزَالُ البَلَاءُ بِالمُؤْمِنِ وَالمُؤْمِنَةِ فِي نَفْسِهِ وَوَلَدِهِ وَمَالِهِ حَتَّى يَلْقَى اللهَ وَمَا عَلَيْهِ خَطِيئَةٌ))(جامع ترمذی)
حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’مومن مرد اور مومن عورت پر جان، مال اور اولاد کی مصیبتیں نازل ہوتی رہتی ہیں۔ یہاں تک کہ جب وہ اللہ کے حضور پیش ہوگا تو اُس کے نامہ اعمال میں کوئی گناہ نہیں ہوگا۔‘‘