(درحقیقت) ڈاکٹر عافیہ کو انصاف نہیں ملے گا؟ - خالد نجیب خان

10 /

ڈاکٹر عافیہ کو انصاف نہیں ملے گا؟


خالدنجیب خان


(معاون شعبہ نشر واشاعت)

چند روز پہلے اخبارات میں شائع ہونے والی ایک خبر نے رنجیدہ کردیا ۔خبر تھی کہ’’ وفاقی حکومت نے امریکی عدالت میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کیس میں عدالتی معاونت فراہم کرنے اور فریق بننے سے انکار کر دیا۔‘‘ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی چھوٹی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی صحت اور وطن واپسی سے متعلق ایک درخواست جمع کرائی تھی جو جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان کی عدالت میں سماعت کے لیے پیش کی گئی تودرخواست گزارکے وکیل عمران شفیق جبکہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل اور دیگر حکام بھی عدالت میں پیش ہوئے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ حکومت نے امریکا میں کیس میں فریق نہ بننے کا فیصلہ کیا ہے۔عدالت نے استفسار کیا کہ یہ فیصلہ کس وجہ سے کیا گیاہے ؟ توایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے یہی فیصلہ کیا گیا ہے۔جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے ریمارکس دیئے کہ حکومت یا اٹارنی جنرل کوئی بھی فیصلہ کرتے ہیں تو اُس کی وجوہات ہوتی ہیں، بغیر وجوہات کے کوئی فیصلہ نہیں کیا جاتا ہے۔یہ ایک آئینی عدالت ہے،ایسا ممکن نہیں ہے کہ کوئی عدالت میں آکر کہہ دے کہ حکومت نے فیصلہ کیا ہے اورکوئی وجہ نہ بتائے۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی گزشتہ دو دہائیوں سے زیادہ مدت سے انصاف کی متلاشی ہیں مگر اُنہیں انصاف نہیں مل رہا۔اُن کے بارے میں اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ وہ مزاحمت کا ایک استعارہ بن کر دنیا بھر میں شہرت پا چکی ہیں ۔واضح رہے کہ یہ شہرت اُن کا مقصد یا منزل نہیں تھی ۔ ہمارے ہاں عام طور پرتو اتنے مضبوط اعصاب کے مالک مرد بھی نہیں ہوتے جتنے مضبوط اعصاب کی مالک وہ ہیں ۔ اِس کی وجہ شاید یہ بھی ہو کہ وہ بذات خود اعصاب کی ڈاکٹر ہیں اور 2002 ء میں اپنے شعبہ میں اعلیٰ ترین ڈگریاں لے کر امریکہ سے پاکستان آئیں بیرون ملک سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے آنے والے دوسرے بے شمار نوجوانوں کی طرح اُنہیں بھی کوئی ڈھنگ کی ملازمت نہیں ملی تو مجبوراً ایک مرتبہ پھر امریکہ جانا پڑا ۔اس دوران میری لینڈ میں ڈاک وصول کرنے کے لیے اُنہوں نے ایک پوسٹ باکس کرائے پر لیا اور 2003ء میں واپس کراچی آگئیں۔اس دوران میں ایف بی آئی کو شک ہوا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے میری لینڈ میں پوسٹ باکس تلاش ملازمت کی بجائے القاعدہ سے وابستہ کسی شخصیت کی سہولت کے لیے خود اپنے نام پر حاصل کیا ہے۔
اِسی بنا پر امریکہ بہادر نے اُنہیں ناصرف دہشت گرد قرار دے دیا بلکہ اُنہیں پاکستان سے طلب بھی کر لیا۔ اُس وقت اُن کی عمر30 سال تھی ،اپنے اوپر اتنا بڑا الزام لگنے سے وہ بے حد پریشان ہو گئیں اور کراچی میں ہی روپوش ہوگئیں ۔ جب انہوں نے خود کو محفوظ خیال کیا تو ایک دن اپنے تینوں بچوں کوجن میں سے ایک توصرف ایک ماہ کا تھا جبکہ بڑا بیٹا صرف چار سال کا تھا کو لے کر ہوائی جہاز کے ذریعے راولپنڈی جانے کے لیے نکلیں تو اُنہیں ائیرپورٹ پہنچنے سے پہلے ہی ٹیکسی میں سے اُتار کرغائب کردیا گیا۔ یہ وقت ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘کا نعرہ بلند کرنے والے ایک فوجی حکمران کا تھا،جس نے امریکہ کی نیم آواز پر بلا تحقیق ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو اُٹھا کر امریکہ کے حوالے کردیا شاید اس حوالگی کی ہی بدولت اُنہیں یہ رعایت ملی کہ عدالت سے موت کی سزا ہونے کے باوجود اُس پر عمل درآمد نہیں ہوسکا ۔اُن کی یوں حوالگی پر ملک بھر میں آواز اُٹھائی گئی مگر وہ آواز فوجی اور امریکی نقاروں کی آواز میں توتی کی آوازبن کرہی رہ گئی تھی۔
بعد ازاں عالمی اداروں نے خیال ظاہر کیا کہ افغانستان میں امریکی جیل بگرام میں قیدی نمبر650 شاید عافیہ صدیقی ہی ہے ۔اِسی دوران یہ بھی معلوم ہوا کہ افغانستان میں امریکی فوجیوں نے زیرحراست عافیہ صدیقی کو گولیوں کا نشانہ بنا کر شدید زخمی کردیا ہے اور وہ قریب المرگ ہیں توایک نیا الزام لگا دیا گیا کہ اُنہوں نےامریکی فوجی پر بندوق اُٹھانے کی کوشش کی تھی جس پرفوجیوں نےاُن پرگولیاں چلا دیں۔بہرحال پرنٹ میڈیا کے شور مچانے کااثر یہ ہوا کہ 27جولائی2008ء کو امریکہ نے اعلان کردیا کہ عافیہ صدیقی کو افغانستان سے گرفتارکرکےدہشت گردی کے حوالہ سے مقدمہ چلانے کے لیے نیویارک پہنچادیاگیاہے۔ پاکستان میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے امریکہ کی اِس کہانی کو ناقابلِ یقین قراردے کر مسترد کردیا۔اِس سے قبل انسانی حقوق کی تنظیمیں جو صرف پاکستان کے مخصوص شہروں میں ہی احتجاج کرتی تھیں اب نیویارک ،واشنگٹن اور کیلیفورنیا جیسے شہروں میں بھی احتجاج کرنے لگیں ۔مگر حاصل کچھ بھی نہ ہوا۔
پرویز مشرف کا اقتدار ختم ہونے کے بعد جب مرکز میں پیپلز پارٹی کی حکومت بنی تو اگست 2009ء میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے میڈیا کو بتایا کہ حکومت ِپاکستان تین امریکی وکیلوں کو 2 ملین ڈالرادا کرے گی تاکہ وہ امریکی عدالت میں عافیہ صدیقی کی وکالت کریں مگرلاہور ہائی کورٹ نے حکومت کو یہ رقم جاری کرنے سے اِس لیےمنع کردیا کیونکہ عدالت میں درخواست گزار نے کہا تھا کہ امریکی عدالت سے انصاف کی توقع نہیں ہے،اِس لیے یہ بڑی رقم عالمی عدالت انصاف میں مقدمہ دائر کرنے پرخرچ کی جائے ۔
ڈاکٹرعافیہ صدیقی کا مقدمہ پاکستان کی طرف سے نہ تو امریکہ کی کسی عدالت میں لڑا گیا اور نہ ہی عالمی عدالت انصاف میں مگر6 سال بعد دسمبر 2009ء میں بالآخر کراچی پولیس نے2003ء میں عافیہ صدیقی اوران کے بچوں کے اغوا کا مقدمہ نامعلوم افراد کے خلاف درج کر لیا۔تاریخ گواہ ہے کہ کراچی میں درج ہونے والی یہ رپورٹ ڈاکٹر عافیہ کو رہائی دلانے میں تو کوئی کردار ادا نہیں کرسکی ۔تاہم اِس سے اہلِ اقتدار کوسکون آگیا کہ اُنہوں نے تو ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے بہت ہاتھ پاؤں مارے مگراُس کی قسمت میں رہائی لکھی ہی نہیں تھی اس لیے وہ رہا نہ ہوسکیں۔ کراچی میں مقدمہ درج ہونے کے تقریباً 9 مہینے کے بعد ہی 23 ستمبر، 2010ء کونیویارک میں امریکی عدالت نے عافیہ صدیقی کو 86 سال قید کی سزا سنادی۔
جون 2013ء میں خبر موصول ہوئی کہ امریکی فوجی جیل فورٹ ورتھ میں ایک مرتبہ پھر ڈاکٹر عافیہ پر حملہ کیا گیا جس سے وہ دو دن تک بیہوش پڑی رہیں۔کم و بیش دس سال تک سفری دستاویزات مکمل کرنے کے بعد تقریباً دو سال پہلے2023ء میں اُن کی چھوٹی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی اوربچے اُن سے ملنے کی آس لے کر امریکہ پہنچے تواُنہیں کوئی خاص کامیابی نہ مل سکی۔اُنہوں نے دیکھا کہ قید وبند کی طویل صعوبتیں برداشت کر کے وہ بہت نحیف و نزار ہو چکی ہیں۔ اُنھیں ایک کان سے سنائی نہیں دیتا۔ سر میں چوٹ کے باعث اُن کی قوت سماعت بری طرح سے متاثر ہوچکی ہے۔
لاہور میں جب ایک امریکی بلیک واٹر کے غنڈے ریمنڈ ڈیوس نے دو پاکستانی نوجوانوں کو سر بازار فائرنگ کرکے قتل کردیا اور امریکی حکومت نے اُسے امریکہ کے حوالے کرنے کے لیے کہا تو عوام نے اِس پر شدید احتجاج کیا اور آخرکار مطالبہ کیا کہ ریمنڈ ڈیوس کے بدلے معصوم ڈاکٹر عافیہ کو پاکستان میں بلوا لیا جائے مگر یہ بات پاکستانی حکومت کی سماعتوں تک پہنچ ہی نہ سکی۔پھر ایک دن امریکی حکام نے اعلان کیا کہ شکیل آفریدی نام کا ایک شخص پاکستان میں امریکہ کے لیے جاسوسی کرتا رہا ہے تو پاکستانی حکام نے ،اُسے فوری طور پر حفاظتی حراست میں لے لیااور اُسے امریکہ کے حوالے کرنے کے لیے ضابطے بنانے شروع کئے توعوامی سطع پر تجویز دی گئی کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی امریکہ کے حوالے کرکے اُس کے بدلے پاکستان کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کوحاصل کرلیا جائے۔ یہ تجویز یا مطالبہ امریکی ایوانوں تک تو پہنچ گیامگر پاکستانی حکام تک نہ پہنچ سکا۔ایسے میں پاکستانی عوام تو یہ آس لگائے رہے کہ ڈاکٹر شکیل کے امریکہ پہنچنے کے بعد ڈاکٹر عافیہ کو بھیج دیا جائے گا۔
یہ حقیقت ہے کہ امریکہ میں ڈاکٹر عافیہ کو سزا سنائے جانے کے بعد سے پاکستان میں تین مرتبہ عام انتخابات ہوچکے ہیں اورکم و بیش پانچ وزرائے اعظم تبدیل ہوئے ہیں اور انہوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران میں ڈاکٹر عافیہ کی رہائی یا پاکستان منگوانے کے وعدے کئے مگر حقیقتاً اُن کی عملی کوششیں خانہ پُری کے سوا کچھ بھی نہ تھیں ۔حکومت وقت کا تازہ ترین عمل تو انتہائی شرمناک ہے تاہم یہ حقیقت ہے کہ حکومت سے زیادہ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق نے اِس کیس میں دلچسپی لی اوراپنی ذاتی جیب سے خرچ کرکے امریکہ جاکرحتی المقدور کوششیں بھی کی ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا ’’جرم‘‘ اتنا بڑا نہیں ہے جتنا بڑا ڈاکٹر شکیل آفریدی یا ریمنڈ ڈیوس کا تھا، امریکی حکومت اپنے باشندوں کو جس صفائی سے بچا کر لے گئی ،دنیا میں اس کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ جبکہ ڈاکٹر عافیہ پرعاید کی گئی فرد جرم کا مجموعہ بھی ان کی برابری نہیں کرسکتا۔ ڈاکٹر عافیہ کو قید میں ڈال کر امریکی اداروں کے انتقام کی آگ توابھی تک ٹھنڈی نہیں ہوئی مگر پاکستانی اداروں کا رویہ بھی قابل غور ہے۔ایسے میں ہم یہی دعا کرسکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ پاکستانی حکمرانوں کو ذہنی غلامی سے نجات دے اور اُنہیں تمام فیصلے عوام اور اسلام کے مفادمیں کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)