(الہدیٰ) اکثر اہلِ کتاب قرآن پاک کے منکر کیوں؟ - ادارہ

9 /
الہدیٰ
 
اکثر اہلِ کتاب قرآن پاک کے منکر کیوں؟
 
آیت 47 {وَکَذٰلِکَ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الْکِتٰبَ ط} ’’اور (اے نبیﷺ!) اسی طرح ہم نے آپ کی طرف یہ کتاب نازل کی ہے۔‘‘
{فَالَّذِیْنَ اٰتَیْنٰہُمُ الْکِتٰبَ یُؤْمِنُوْنَ بِہٖ ج} ’’تو جن لوگوں کو ہم نے (اس سے پہلے) کتاب دی تھی وہ بھی اِس پر ایمان لائیں گے۔‘‘
قبل ازیں ہم سورۃ القصص کے چھٹے رکوع میں حبشہ سے مکّہ آنے والے اُن مسلمانوں کا ذکر پڑھ چکے ہیں جو پہلے عیسائی تھے ‘پھر صحابہ کرامjکی تبلیغ سے حضورﷺ پر ایمان لے آئے اور یوں اللہ تعالیٰ کے ہاں دوہرے اجر کے مستحق ٹھہرے۔
{وَمِنْ ہٰٓؤُلَآئِ مَنْ یُّؤْمِنُ بِہٖ ط} ’’اور ان (مشرکینِ مکّہ) میں سے بھی بہت سے لوگ اِس پر ایمان لا رہے ہیں۔‘‘
{وَمَا یَجْحَدُ بِاٰیٰتِنَآ اِلَّا الْکٰفِرُوْنَ(47)} ’’اور ہماری آیات کا انکار نہیں کرتے سوائے اُن لوگوں کے جو کفر پر اَڑ گئے ہیں۔‘‘ 
آیت 48 {وَمَا کُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِہٖ مِنْ کِتٰبٍ وَّلَا تَخُطُّہٗ بِیَمِیْنِکَ اِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُوْنَ(48)} ’’اور (اے نبیﷺ!) آپؐ تو اِس سے پہلے کوئی کتاب نہیں پڑھتے تھے اور نہ ہی آپؐ اپنے داہنے ہاتھ سے اسے لکھتے تھے‘(اگر ایسا ہوتا) تب تو یہ جھٹلانے والے ضرور شک کرتے۔‘‘
یہاں روئے سخن مشرکین مکّہ کی طرف ہے اورنبی آخر الزماںﷺ کی نبوت کی ایک اور دلیل بیان کی جا رہی ہے کہ قرآن نازل ہونے سے پہلے تو آپﷺ ان لوگوں کو کوئی کتاب پڑھ کر نہیں سناتے تھے اور نہ ہی کوئی کتاب خود اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے۔
آیت 49 {بَلْ ہُوَ اٰیٰتٌ م  بَیِّنٰتٌ فِیْ صُدُوْرِ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ ط} ’’بلکہ یہ تو روشن آیات ہیں ان لوگوں کے سینوں میں جنہیں علم دیا گیا ہے۔‘‘
سابقہ الہامی کتابوں کا علم رکھنے والے لوگ قرآن کی آیاتِ بینات کو خوب پہچانتے ہیں۔
{وَمَا یَجْحَدُ بِاٰیٰتِنَآ اِلَّا الظّٰلِمُوْنَ(49)} ’’اور ہماری آیات کا انکار نہیں کرتے مگر وہی لوگ جو ظالم ہیں۔‘‘
 
درس حدیث
 
حیا کی حقیقت
 
عَنْ أنَسٍ ؓ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ    ﷺ:((      اِنَّ    لِکُلِّ دِیْنٍ خُلُقًا وَ خُلُقُ الْاِسْلَامِ الحَیَائُ)) (سنن ابن ماجہ)
حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’بے شک ہر دین کے لیے کچھ اخلاق ہیں اور اسلام کا اخلاق حیا ہے۔‘‘
تشریح: حیا ہی وہ خوبی ہے جو انسانوں کو معراجِ انسانیت پر لاکھڑا کرتی ہے اور اسی سے وہ اشرف المخلوقات کہلانے کے حقدار ٹھہرتے ہیں۔ اسی وصف سے انسان اور حیوان میں فرق نمایاں ہوتا ہے اور اسی سے آداب و اخلاق نکھرتے اور سنورتے ہیں۔ اِسی وصف سے انسانوں میں تہذیب وشائستگی پروان چڑھتی ہے‘ نیکی اور سچائی کا چمن شاداب ہوتا ہے‘ شرافت و امانت کے پھول کھلتے ہیں،مروت و احسان کے ثمر لگتے ہیں۔ حیا انسان کی فطری خوبی ہے جو رب کائنات نے اُسے عطا کی ہے۔