(اداریہ) کیوں اسرائیل کو کبھی بھی تسلیم نہیں کیا جا سکتا ؟ - رضا ء الحق

9 /

اداریہ


رضاء الحق


کیوں اسرائیل کو کبھی بھی تسلیم نہیں کیا جا سکتا ؟


حیرت ہے کہ مملکتِ خداداد پاکستان میں ہر کچھ عرصہ بعد یہ بحث چھیڑ دی جاتی ہے کہ اگر اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کر لیے جائیں تو اس میں کیا حرج ہے؟ اس پر مستزاد یہ کہ اگر عرب ممالک ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل کو تسلیم کر لیں تو پاکستان تسلیم کیوں نہ کرے؟ یہ شرانگیز بحث کبھی میڈیا پر شروع کروائی جاتی ہے تو کبھی این جی اوز کے ذریعے۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران تو حکومتی سطح سے بھی ایسی ہی آوازیں سامنے لائی جا رہی ہیں۔ کم و بیش2 سال قبل نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ صاحب نے ایک انٹرویو میں یہ شوشہ چھوڑ دیا تھا کہ بانیٔ پاکستان قائد اعظم کوئی نبی تو نہیں تھے کہ ان کے اس پالیسی بیان کہ پاکستان اسرائیل کو کبھی تسلیم نہیں کرے گا کو بدلہ نہ جا سکے۔ اُس سے چند ہفتے قبل اُس وقت کے نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی یہ بیان دے چکے تھے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ’ملکی مفاد‘ میں کیا جائے گا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہائبرڈ نظام چلانے والے (کل کے ہوں یا آج کے) سب ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل پر فریفتہ ہیں۔ عوامی اور مذہبی طبقات کی جانب سے رد عمل کا خطرہ نہ ہوتا تو یہ ’کار خیر‘ کب کا انجام پا چکا ہوتا۔
حقیقت یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ میں ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل کو تسلیم کرنے کی طرف تیزی سے پیش قدمی جاری تھی۔ ولی عہد نے تو فاکس نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے باقاعدہ تسلیم کیا کہ امریکہ کی مدد سے سعودی عرب اور اسرائیل آپس کے تعلقات قائم کرنے کے انتہائی قریب ہیں۔ معاملات چند ہفتوں میں طے پانے والے تھے اور اسرائیل کے ایک انتہائی اہم وزیر نے یہاں تک بیان دے دیا کہ سعودی عرب کے ساتھ کچھ دیگر ’اہم مسلم ممالک‘ بھی اسرائیل کو تسلیم کریں گے۔ پھر 7 اکتوبر 2023ء کا آفتاب طلوع ہوا۔ فلسطینی مجاہدین نے آپریشن’’ طوفان الاقصیٰ‘‘ برپا کر کے تمام منصوبوں پر پانی پھیر دیا۔ ایک منصوبہ انسان بناتا ہے اور ایک تدبیر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ہوتی ہے۔ ہوتا وہی ہے جو اللہ تعالیٰ چاہے!
گزشتہ 21 ماہ کے دوران ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل کا غزہ پر مسلسل وحشیانہ بمباری کا سلسلہ جاری ہے اور میڈیا کی اطلاعات کے مطابق تقریباً 60 ہزار مسلمانوں کو شہید کیا جا چکا ہے، جن میں اکثریت عورتوں اور بچوں کی ہے۔ ایک لاکھ سے زائد افراد زخمی ہیں اور تقریباً اتنے ہی اور ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ بین الاقوامی اداروں کی رپورٹس کے مطابق غزہ کا 90 فیصد تک علاقہ مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔ لہٰذا ہم سمجھتے ہیں کہ شہداء کی اصل تعداد اس سے کہیں بڑھ کر ہوگی۔ امتحان اہلِ غزہ کا بھی ہے اور دیگر مسلم ممالک کے حکمرانوں، مقتدر طبقوں اور عوام کا بھی۔ غزہ کے مسلمان تو اپنا خون پیش کر کے حق کی شہادت دے رہے ہیں۔ روزِ قیامت سوال دوسروں سے بھی ہوگا۔بین الاقوامی اداروں کی بات چل نکلی تو معلوم ہوا کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس والے محاورے کا اصل مطلب کیا ہے۔ اسرائیل نے اقوام متحدہ، ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ، انروا، دنیا بھر خصوصاً غیر مسلم ممالک میں لاکھوں افراد کے احتجاج، حتیٰ کہ عالمی عدالت ِانصاف اور عالمی فوجداری عدالت کے فیصلوں کو بھی ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔ 21 ماہ گزرنے کے باوجود غزہ کے مسلمانوں کا قتل عام بلکہ نسل کشی مسلسل جاری ہے۔نہ کوئی پوچھنے والا ہے، نہ روکنے والا، بلکہ امریکہ تو اسرائیل کے خلاف سلامتی کونسل میں پیش کی جانے والی ہر قرارداد کو ویٹو کر دیتا ہے۔
2024ء کے آغاز میں ٹرمپ نے دوسری مرتبہ امریکی صدر کا عہدہ سنبھالتے ہی اپنی روایتی اسرائیل نوازی کو ایک مرتبہ پھراپنا مقصد بنا لیا۔ عرب ممالک کو دھمکی دی، اسرائیل کو مہلک ترین اسلحہ، جس کی ترسیل امریکہ نے اس سے قبل روک رکھی تھی، اس کی فراہمی کو یقینی بنایا، ایران پر اسرائیلی حملوں میں مکمل معاونت کی اور پھر خود ایٹمی معاملات پر بات چیت کے دوران ہی ایران کی 3 جوہری تنصیبات پر حملہ کر دیا۔ پاکستان کے خلاف حالیہ بھارتی مہم جوئی میں اسرائیل کے ساتھ مل کر مودی کی معاونت کی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ابراہم اکارڈز 2 کا آغاز کیا تاکہ مزید اہم مسلم ممالک کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کروائے جائیں۔
حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اور عمومی طور پر مغربی ممالک کے ہاتھ معصوم اور بے گناہ لوگوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ ریڈ انڈینز کی نسل کشی سے لے کر ویت نام کی جنگ تک، 1990ء کی دہائی میں عراق پر حملہ اور نائن الیون کے بعد افغانستان میں لاکھوں افراد کا قتل عام… دوسری جنگ عظیم میں جاپان پر ایٹمی حملے اور اب اسرائیل کی بالواسطہ اور بلاواسطہ معاونت… یہ ہے دنیا کو انسانی حقوق اور امن کا درس دینے والوں کا اپنا ابلیسی طرزِ عمل۔ دریں اثنا 3 انتہائی اہم پاکستانی حکومتی عہدے داروں کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے اور ابراہم اکارڈز 2 کا حصّہ بننے پر آمادگی کے حوالے سے بیانات سامنے آئے جو اِسی گریٹ گیم کی ایک کڑی محسوس ہوتی ہے۔ پاکستان کی ایک انتہائی اہم بلکہ اہم ترین شخصیت کا حالیہ دورہ امریکہ کے دوران اکرام کیا جانا ہر سنجیدہ اور غوروخوص کرنے والے پاکستانی کے لیے لمحہ ٔفکریہ ہے۔ ہمارے نزدیک امریکی نائب صدر جیمز وینس کا بھارت کو یہ کہنا کہ پاکستان کی کچھ باتیں مان لی جائیں ورنہ پاکستان بھارت پر بہت بڑا حملہ کر سکتا ہے بھی اسی سلسلے کی ہی ایک کڑی ہے۔ جسے گُڑ دے کر اس سےاسرائیل کو تسلیم کروا لیا جائے اسے زہر دینے کی کیا ضرورت؟ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل پاکستان کو اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتا ہے۔ بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمدؒ کا ایک کلپ پچھلے دنوں وائرل ہوا جس میں انہوں نے فرمایا تھا کہ اگر تمام عرب ممالک اسرائیل کو تسلیم کر لیں تو بھی پاکستان کو اسرائیل کو تسلیم نہیں کرنا چاہیے۔ موجودہ امیر تنظیم اسلامی شجاع الدین شیخs اپنے خطبات جمعہ، پریس ریلیزز، سیمینارز، الغرض ہر پلیٹ فارم پر اِسی مؤقف کا اعادہ کرتے ہیں۔ پھر یہ کہ قیام پاکستان کے وقت بلکہ اس سے بھی قبل تحریکِ پاکستان کے دوران مسلم لیگ کی یہی اٹل پالیسی تھی۔ اکثر امیر تنظیم اسلامی سے یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ اگر بالفرض تمام عرب ممالک اسرائیل کو تسلیم کر لیں اور اس سے تعلقات قائم کر لیں تو پاکستان ایسا کیوں نہ کرے؟
اُن کا جواب تنظیم اسلامی پاکستان کی ویب سائٹ پرموجود اکثر کیے جانے والے سوالات کے جوابات پر مشتمل ایک گوشہ یعنی(Frequently Asked Questions FAQs)کے سوال نمبر 49 میں موجود ہے اور جس کو قارئین کی نظر کرتے ہیں۔
سوال نمبر 49: ریاست اسرائیل کے حوالے سے تنظیم اسلامی کا کیا موقف ہے؟ اگر عرب ممالک اسے تسلیم کر لیتے ہیں تو پاکستان کو تسلیم کرنے میں کیا رکاوٹ ہے؟
جواب: تنظیم اسلامی کا موقف آغاز سے ہی اسرائیل کے حوالے سے واضح ہے کہ اسے ہرگز تسلیم نہیں کرنا چاہیے۔ ہمارے اس موقف کی دو بنیادیں ہیں: ایک دینی بنیاد اور دوسری سیاسی بنیاد۔
مذہبی بنیاد:اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب قرآن حکیم میں یہودیوں کو ’’مغضوب علیہم‘‘ قرار دیا گیا ہے، اور مسلمان اپنی نماز کی ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ پڑھتا ہے جس کے بغیر نماز مکمل نہیں ہوتی۔ گویا وہ اللہ تعالیٰ کا یہودیوں کے بارے میں یہ فتویٰ بار بار دہراتا ہے۔ ایک وقت تھا جب یہودی قوم اُمت مسلمہ تھی ۔ اللہ تعالیٰ نے اس قوم پر بڑی عنایات کیں ۔ حضرت موسیٰd کو جو معجزات عطا کیے گئے، ان کے تمام تر فوائد بنی اسرائیل کو پہنچے۔ اُنہیں فرعون کی غلامی سے نجات دلائی گئی، صحرائے سینا میں من و سلویٰ عطا کیا گیا، پہاڑ کی چٹان سے پانی کے 12 چشمے جاری کیے گئے، اور دھوپ کی شدت سے بادلوں کے سائے فراہم کیے گئے۔ لیکن تمام نعمتوں کے باوجود وہ ہمیشہ بدعہد قوم ثابت ہوئی۔ کبھی بچھڑے کی پوجا شروع کر دیتے اور کبھی نت نئے مطالبات کرتے، جو اکثر پورے بھی کر دئیے جاتے، لیکن انہوں نے وقت آنے پر حضرت موسیٰ dکے حکم پرقتال کرنے سے انکار کر دیا۔ ہزاروں انبیاء کرام f کو شہید کیا۔ لہٰذا وہ بحیثیت اُمت معزول کر دئیے گئے اور ان کی بلندی کو زوال میں بدل دیا گیا۔جب نبی آخر الزماں محمد رسول اللہ ﷺ مبعوث ہوئے، تو یہودیوں نے سب سے بڑھ کر آپ ﷺ کی مخالفت کی۔ مسلمانوں نے یہودیوں کی بدعہدی کی بنا پر پہلے انہیں مدینہ اور اس کے نواحی علاقوں سے نکالا اور بعد ازاں خیبر سے بھی نکال دیا گیا۔ دورِ فاروقی میں جب عیسائیوں نے بیت المقدس حضرت عمرh کی وساطت سے مسلمانوں کے حوالے کیا، تو یہ شرط رکھی کہ یہودیوں کو یہاں آنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ حضرت عمرh نے اس شرط کو تھوڑا نرم کر کے قبول کرلیاکہ یہودی یروشلم کو وزٹ تو کر سکتے ہیں، لیکن کبھی یہاں آباد نہیں ہوں گے۔یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ تین مقدس ترین مقامات (مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ، اور بیت المقدس) صرف مسلمانوں کے لیے ہیں۔ اللہ کے کسی دشمن کا ان مقامات پر قبضہ مسلمان کسی صورت قبول نہیں کریں گے۔
سیاسی بنیاد:قائدِ اعظم محمد علی جناح، جو بانیٔ پاکستان اور بابائے قوم ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے واحد غیر متنازعہ سیاستدان تھے،انہوں نے اسرائیل کے قیام پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا تھا:"Israel is an illegitimate child of the West."یعنی ’’اسرائیل مغرب کا ناجائز بچہ ہے۔‘‘ اسرائیل کے قیام سے کئی سال پہلے قائد ِ اعظم نے کہا تھا: ’’جب تک ایک بھی مسلمان مرد اور عورت زندہ ہے، اسرائیل کے وجود کا کوئی جواز قابلِ قبول نہیں۔‘‘پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان، جو قائد اعظم کے دستِ راست تھے، وہ بحیثیت وزیراعظم جب امریکہ کے پہلے سرکاری دورے پر گئے، تو یہودیوں نے ان کا شاندار استقبال کیا۔ ایک تقریب میں میزبان نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ اگر پاکستان اسرائیل سے تعلقات قائم کر لے، تو پاکستان کو ناقابلِ یقین فوائد پہنچائے جائیں گے : لیاقت علی خان نے جواب دیا:"Gentlemen! Our souls are not for sale."
1967ء میں عرب اسرائیل جنگ جیتنے کے بعد اسرائیل کے وزیراعظم بن گوریان نے کہا تھا کہ عرب کبھی ہمارا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ ہمارا اصل دشمن پاکستان ہے، جس سے نمٹنے کے لیے ہمیں تیار رہنا ہوگا۔ عرب اسرائیل جنگ میں پاکستانی فضائیہ نے بھی حصہ لیا تھا اور جتنے اسرائیلی جنگی طیاروں سے مقابلہ ہوا، وہ پاکستانی پائلٹس نے مار گرائے۔اسرائیل نے بھارت کی مدد سے کہوٹہ پلانٹ پر حملے کی متعدد بار کوشش کی، جس کا اعتراف سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری بھی کر چکے ہیں۔تاریخ گواہ ہے کہ بیت المقدس پر جب بھی غیروں کا قبضہ ہوا، مسلمان ہمیشہ اس قبضے کو ختم کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ اگر پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرتا ہے، تو ظاہر ہے کہ بیت المقدس پر اس کے قبضے کو بھی تسلیم کرنا ہوگا، جسے کوئی غیرت مند مسلمان قبول نہیں کر سکتا۔پاکستان کی اس خصوصی حیثیت کے پیشِ نظر اگر عرب ممالک کے امریکہ نواز سربراہان اسرائیل کو تسلیم کر کے اپنے بے حمیت ہونے کا ثبوت دیں، پاکستان کو تب بھی کسی صورت میں اسرائیل کو تسلیم نہیں کرنا چاہیے۔ (Ref:https://www.tanzeem.org/faq) اگر آج ہم ابراہم اکارڈز2 پر دستخط کر دیتے ہیں(یعنی اسرائیل کو تسلیم کر لیتے ہیں) تو کل کشمیر سمیت دیگر مقامات پر مسلمانوں کے علاقوں پر باطل قوتوں کے قبضہ کی کس منہ سے مذمت کریں گے؟ اس معاملے میں یہی تنظیم اسلامی کی طے شدہ اٹل پالیسی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ حکومتِ پاکستان اور مقتدر حلقوں کو نورِہدایت نصیب ہو اور ریاست ِ پاکستان اس دجالی ریاست کو تسلیم کرنے کے معاملہ میں کسی مصلحت کا شکار نہ ہو۔ آمین! ظظظ