تصورِشہادت اور فریضۂ شہادت
(قرآن و حدیث کی روشنی میں )
مسجدجامع القرآن ، قرآن اکیڈمی لاہور میں امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ s کے4جولائی 2025ء کے خطاب جمعہ کی تلخیص
مرتب: ابو ابراہیم
خطبہ ٔمسنونہ اور تلاوتِ آیاتِ قرآنی کے بعد!
10 محرم کی فضیلت اور اہمیت تاریخی اعتبار سے بھی ہے اور احادیث مبارکہ میں بھی اِس دن کی خاص اہمیت بیان ہوئی ہے ۔ سنت رسول ﷺ سے یہ تعلیم بھی ملتی ہے کہ 10 محرم کے روزہ کے ساتھ 9 یا 11 محرم کا روزہ بھی رکھ لیا جائے تاکہ یہود سے مشابہت نہ ہو ۔ لیکن جب سنت رخصت ہوتی ہے تو اس کی جگہ بدعات لے لیتی ہیںیا بدعات آتی ہیں تو سنت رخصت ہو جاتی ہے۔ہجرت کے بعد اللہ کے رسول ﷺ نے 10محرم کا روزہ کبھی نہیں چھوڑا ۔ مفسرین کے مطابق رمضان کے روزوں کی فرضیت سے قبل 10 محرم کا روزہ فرض تھا البتہ ماہ رمضان کے روزوں کی فرضیت کے بعد یہ نفل کے درجے میں آ گیا لیکن اللہ کے نبی ﷺ نے جس طرح فجر کی دو سنتوں اور وتر کو سفر میں بھی نہیں چھوڑا ، اسی طرح آپ ﷺ نے 10 محرم کے روزے کو بھی کبھی نہیں چھوڑا ۔ محرم حرمت والے چار مہینوں میں شامل ہے ۔ اس وجہ سے بھی اس کی اہمیت ہے ۔ اسلاف نے یہاں تک لکھا ہے کہ ان مہینوں میں عمل کا اجر بڑھ جاتا ہے، اسی طرح گناہ کی شدت بھی بڑھ جاتی ہے۔ اسلامی تاریخ میں محرم کے ابتدائی دس دنوں کی اہمیت اس لیے بھی ہے کہ یکم محرم کو حضرت عمر فاروق کی شہادت ہوئی اور10 محرم کو حضرت حسین اور ان کے گھرانے کی شہادتیں ہوئیں جوکہ ایک بہت بڑا سانحہ تھا۔اللہ کے دین کے لیے یہ بہت بڑی قربانی بھی تھی ۔
سانحۂ کربلا میں اُمت کے لیے جو بہت بڑا سبق تھا اُس کو بھول کر آج ہمارے ہاں 9 اور 10 محرم کو لوگ چھٹیاں مناتے ہیں ، سیر وتفریح کرتے ہیں جس طرح عام طور پر چھٹیاں منائی جاتی ہیں اور سنت رسول ﷺ کی خلاف وزریاں کی جاتی ہیں ۔ معلوم نہیں محرم کے ان دنوں کی چھٹیاں منانے کا تصور کہاں سے آگیا ۔ اگر شہادت کے دن کی چھٹی منانا اتنا ہی ضروری ہے تو یکم محرم کو بھی چھٹی منانی چاہیے کیونکہ اس دن خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق ؓ کی شہادت ہوئی، اسی طرح حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کی شہادت کے دن ہیں اور سال بھر میں کوئی دن ایسا نہیں جب اللہ کے رسول ﷺ کے کسی صحابیؓ، تابعیؒ یا تبع تابعیؒ کی شہادت کا دن نہ ہو ۔ اس اُمت کی تاریخ شہادتوں سے بھری ہوئی ہے ۔ پھر تو پورا سال چھٹیاں منانی چاہئیں ۔
سیدنا حسین کی شہادت اچانک نہیں ہوگئی بلکہ اس کے پس پردہ محرکات اور عوامل کا تعلق اسلامی انقلاب کی مخالف(Counter Revolutionary Forces) قوتوں سے تھا ۔ڈاکٹر اسراراحمدؒ نے سانحہ کربلا کے حوالے سے بہت تفصیلی خطاب کیے تھے جوآج ’’سانحۂ کربلا‘‘ کے عنوان سے کتابی شکل میں بھی موجود ہیں ۔ انہوں نے سانحہ کربلا کے پس منظر پر بھی تفصیلی روشنی ڈالی ہے اسلامی انقلاب کے نتیجہ میں جن لوگوں کے مفادات پر ضرب پڑی اُنہوں نے اسلام کے خلاف کس طرح سازشیں کیں ، اُمت کو انتشار اور فتنوں میں ڈالا اورخانہ جنگی کی صورتحال پیدا کی ۔ ان فتنوں میں سے ایک سبائیوں کا فتنہ بھی تھا جس کا ماسٹر مائنڈ ایک یہودی ابن سبا تھا ۔ ان فتنوں کی وجہ سے حضرت حسین ؓ سے پہلے تین خلفاء راشدین ؓ کی شہادت ہو چکی تھی ۔ سانحہ کربلا بھی انہی واقعات کا تسلسل تھا ۔ اس کتاب میں بڑا متوازن تجزیہ ہے جس میں آج کے مسلمانوں کے لیے بڑی رہنمائی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ اسلام میں ایک عزیمت کا پہلو ہے اور ایک رخصت کا پہلو ہے ۔ حضرت سمیہؓ و یاسر ؓاسلام کے پہلے شہداء ہیں جنہیں کفار نے اذیتیں دے دے کر شہید کیا ۔ اللہ کے رسول ﷺ جب انہیں اس حالت میں دیکھتے تھے تو فرماتے تھے : ((اصبرو یا ال یاسر فان موعدکم الجنۃ )) حضور ﷺ نے انہیں صبر کی تلقین کی اور جنت کی بشارت دی ۔ البتہ ان دونوں کے بیٹے حضرت عمار بن یاسر پر کفار نے بہت سختی کی یہاں تک کہ ان کی جان کے درپے ہوگئے اوراُنہوں نے مجبوراً اضطراری کیفیت میں کلمہ کفر کہہ دیا ۔ اس کے بعد وہ روتے ہوئے حضور ﷺ کے پاس گئے اور سارا ماجرہ بیان کیا ۔ حضور ﷺ نے فرمایا : تمہارے دل کی کیفیت کیا تھی ۔ کہا : میرا دل تو ایمان پر مطمئن تھا لیکن جسم کی اذیت برداشت نہ کرسکا ۔ حضور ﷺ نے فرمایا : اگر آئندہ بھی تجھے مجبور کریں تو جان بچانے کے لیے تم کہہ دینا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایک عزیمت کا راستہ ہے کہ جان چلی جائے مگر زبان پر کلمۂ کفر نہ آئے اور ایک رخصت کا راستہ ہے کہ جان بچانے کے لیے انسان کلمۂ کفر بھی کہہ سکتاہے ۔ ان دونوں راستوں کو سند حضور ﷺ نے عطا کی۔لیکن آج ہمارے ہاں لوگ دو انتہاؤں کا شکار ہیں ۔ کوئی معاذ اللہ سیدنا حسین کے مقابلے میں دیگر صحابہ کرامؓ کو مطعون کرنا شروع کر دیتاہے ، جنہوں نے ایک حد تک کچھ مخالفت کی، پھر ذرا رخصت کا معاملہ ہوا اور یزید کی بیعت کو قبول کر لیا ۔کچھ لوگ دوسری انتہا پر جا کر سیدنا حسین ؓکے اس اقدام کو جو عزیمت پر مبنی تھا پر اعتراض کرنا شروع کر دیتا ہے ۔یہ دونوں انتہائیں غلط ہیں ۔ انہیں سمجھنا چاہیے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے جہاں عزیمت کا راستہ دکھایا ہے وہاں رخصت بھی دی ہے ۔ ہمیں ہر حال میں صحابہ کرامؓ کے مقام و مرتبہ کا خیال رکھنا چاہیے۔ ان کے بارے میں اللہ کا فیصلہ ہے : {رَضِیَ اللہُ عَنْہُمْ } (البینہ)’’اللہ ان سے راضی ہو ا ۔‘‘صحابہ کرامؓ سب کے سب عدل پر ہیں ۔ ان میں سے کسی کی نیت پر شک نہیں کیا جا سکتا۔
شہادت کا تصور اور فریضہ ٔشہادت نیا موضوع نہیں ہے۔ شہید کا لفظ عام طور پرہم اس بندے کے لیے استعمال کرتے ہیں جس نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کر دیاہوجوبالکل صحیح ہے۔احادیث میں بھی اللہ کی راہ میں جان کا نذرانہ پیش کرنے والے کے لیے شہید کا لفظ استعمال ہوتا دکھائی دیتا ہے، البتہ قرآن کریم میں اللہ کی راہ میں جان کا نذرانہ پیش کرنے والوں کے لیے قتل کا لفظ آتا ہے مثلاً مشہور آیت ہے:
{وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّـقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ اَمْوَاتٌط بَلْ اَحْیَـآئٌ وَّلٰـکِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ(154)}(البقرہ :154) ’’اور مت کہو اُن کو جو اللہ کی راہ میں قتل ہو جائیں کہ وہ مردہ ہیں۔ (وہ مردہ نہیں ہیں) بلکہ زندہ ہیں‘ لیکن تمہیں اِس کا شعور نہیں ہے۔‘‘
یہاں ایک چھوٹا سا نکتہ ڈاکٹر صاحب ؒ بھی بیان فرمایا کرتے تھے کہ انبیاء کرامf کا مرتبہ شہداء سے کہیں زیادہ ہے تو پھر ہم کیوں انبیاءؑ کی حیاتِ برزخ کے بارے میں بحثیں کرتے ہیں ۔ قرآن کہتا ہے کہ تم شہداء کی حیات کو نہیں سمجھ سکتے تو انبیاءؑ کی حیات ِ برزخ تمہیں کیسے سمجھ میں آئے گی ۔ بہرحال قرآن میں شہید کے لیے مقتول کا لفظ آتاہے ۔ گو کہ ہم شہید کاجو لفظ اللہ کی راہ میں قتل ہونے والے کے لیے استعمال کرتے ہیں، یہ بھی درست ہے لیکن شہادت کا ترجمہ گواہی دینا بھی ہے ۔ جیسا کہ ہم کلمہ شہادت پڑھتے ہیں : ((اشھد ان لا الٰہ الا اللہ))میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ اس گواہی کے اعتبار سے شہادت ختم نبوت کے بعد اب اُمت کا ایک اہم فریضہ ہے۔ اس معنی میں اُمت کے لیے شہداء کا لفظ آتا ہے۔ اسی طرح رسول اللہ ﷺ کے لیے شہید کا لفظ آتاہے ۔جیسے فرمایا :
{وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰـکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا }(البقرہ:143)
’’اور (اے مسلمانو!) اسی طرح تو ہم نے تمہیں ایک اُمت ِوسط بنایا ہے‘‘
وسط کے کئی ترجمے ہیں۔جیسا کہ درمیان، معتدل ، بہترین وغیرہ اور ان تمام معانی کا اطلاق اُمت مسلمہ پر ہوتاہے ۔ اس آیت کے مطابق رسول اللہ ﷺ شہید اس لیے ہیں کہ انہوں نے اپنے قول و فعل اور کردار سے اللہ کے دین کی گواہی پیش کی ۔ مشہور حدیث ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر آپ ﷺ نے طویل خطبہ فرمایا اورآخر میں حاضرین سے دریافت کیا : ((الا ھل بلغت )) کیا میں نے پیغام کو پہنچا دیا۔ حاضرین نے جواب دیا : حضورﷺ آپ نے حق وصیت، حق نصیحت اور حق امانت اداکردیا ۔ اس کے بعد تین مرتبہ آپ ﷺ نے یہ فرمایا :((اللهم اشهد))اے اللہ ! توگواہ رہنا ۔ پھر حضور ﷺنےفرمایا: ((فلیبلغ الشاھد الغائب)) تو پھر جن تک پیغام پہنچ گیا ہے وہ ان تک پہنچائیں جو موجود نہیں ہیں ۔ ‘‘
اب یہ شہادت والا فریضہ قیامت تک کے لیے اُمت مسلمہ کے کندھوں پرہے اور یہ فریضہ پوری اُمت پر عائد ہوتاہے ۔ امام قرطبیؒ نے لکھا:اُمتی کہلانے کا مستحق وہی شخص ہے جو اس فریضہ کو ادا کرے ۔ حضورﷺ نے تو اس شہادت کا حق ادا کردیا ۔ تین اعتبارات سے اللہ کے رسول ﷺ نے گواہی دی ۔ (1)۔ حضورﷺ نے اپنے قول سے اللہ کے دین کی گواہی دی۔اللہ کی جانب سےجو ہدایت آپ ﷺ پر نازل ہوئی اُس کو آپ ﷺ نے اُمت تک پہنچایا جو کہ قرآن و حدیث کی شکل میں آج اُمت کے پاس محفوظ ہے ۔ (2)۔ آپ ﷺ نے اپنے ذاتی کردار سے بھی اللہ کے دین کی گواہی پیش کی ۔ اگر اللہ حکم دیتا ہے :
{وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ }’’ نماز قائم کرو۔‘‘
تو حضور ﷺفرماتے ہیں :
((صلوا کما رایتمونی اصلی ))’’ نماز ایسے ادا کرو جیسے مجھے نماز ادا کرتے ہوئے دیکھتے ہو‘‘۔
اگر اللہ تعالیٰ نے حکم دیا :
{وَلِلہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْـبَـیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَـیْہِ سَبِیْلًا ط}ا(آل عمران :97) ’’اور اللہ کا حق ہے لوگوں پر کہ وہ حج کریں اُس کے گھر کا‘ جو بھی استطاعت رکھتا ہو اس کے سفر کی۔‘‘
تو حضور ﷺ نے اُمت سے فرمایا :
((خذوا انی مناسککم)) ’’مجھ سے اپنے حج پہ مناسک کو سیکھ لو۔ ‘‘
اللہ نےقرآن عطا کیا اور حضورﷺ نے اس کی عملی شکل ہمارے سامنے اپنے کردار و عمل سے پیش کی ۔ چاہے عبادات ہوں ، معاملات ہوں ، خوشی غمی کے مواقع ہوں ، حضور ﷺ نے اس کاعملی نمونہ ہمارے سامنے رکھا۔ (3)۔ حضور ﷺ نے 23 برس کی جدوجہد کے دوران دعوتِ دین کا کام بھی کیا ، اقامت ِدین و نفاذِ دین کی جدوجہد بھی کی ، اس جہدوجہد کے دوران آپ ﷺ طائف میں لوگوں کے ظلم سے لہو لہان بھی ہوئے ، اپنا گھر بار چھوڑ کر ہجرت بھی کی ۔ فاقے بھی کاٹے ، پیٹ پر پتھر بھی باندھے ،اُحد میں اپنے خون کا نذرانے بھی پیش کیا، اپنے پیارے 70 صحابہؓ کی جانیں اللہ کی خدمت میں پیش کیں ۔ اس قدر قربانیوں کے بعد وہ وقت آتاہے جب اللہ تعالیٰ فرماتاہے :
{وَقُلْ جَآئَ الْحَقُّ وَزَہَقَ الْبَاطِلُ ط اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَہُوْقًا(81)}(بنی اسرائیل)’’اور آپؐ کہہ دیجیے کہ حق آگیا اور باطل بھاگ گیا۔یقیناً باطل ہے ہی بھاگ جانے والا ۔‘‘
{وَرَاَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللہِ اَفْوَاجًا(2)}(الفتح)’’اور آپؐ دیکھ لیں لوگوں کو داخل ہوتے ہوئے اللہ کے دین میں فوج در فوج۔‘‘
آپ ﷺ نے صرف اپنے قول و فعل سے ہی دین کی گواہی نہیں دی بلکہ اللہ کے دین کو بالفعل نافذ و قائم کرکے بھی دکھایا ۔ اب ختم ِنبوت کے بعد یہ فریضۂ شہادت اُمت ِمسلمہ کے کاندھوں پر ہے اور یہ کوئی نفلی یا جزوقتی کام نہیں ہے کہ دل کیا تو کیا ،نہیں تو نہ سہی ، ہرگز نہیں بلکہ یہ اُمت کا فریضہ جو ادا کرنا ہی کرنا ہے ۔ جس قدر جس کے پاس استطاعت ہے اسی قدر وہ اس کا مکلف بھی ہے ۔ یہ اُمت اسی کام کے لیے کھڑی کی گئی :
{کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ}(آل عمران :110)’’تم وہ بہترین اُمت ہو جسے لوگوں کے لیے برپا کیا گیا ہے‘تم حکم کرتے ہو نیکی کا‘اور تم روکتے ہو بدی سے۔‘‘
مسلمان کا کام صرف اپنی ذات کے لیے جینا نہیں ہے بلکہ پوری انسانیت کی بھلائی کے لیے اس کو پیدا کیا گیا ہے۔ ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اپنے قول و فعل اور اپنے کردار سے اللہ کے دین کی گواہی لوگوں کے سامنے پیش کرے اور اجتماعی جدوجہد کے ذریعےاسلام کا نظامِ عدلِ اجتماعی قائم کرنے کی کوشش کرے تاکہ انسانیت کو عدل و انصاف مل سکے ۔ اس کے لیے ہمیں وقت بھی دینا ہوگا ، صلاحیتیں بھی وقف کرنی ہوں گی ، اپنا مال بھی خرچ کرنا ہوگا اور جب ضرورت پڑے تو اپنی جان کا نذرانہ بھی پیش کرنا ہوگا ۔ جو اس راہ میں جان کا نذرانہ پیش کردے وہ گویا فریضۂ شہادت کو ایک درجے میں بتمام و کمال ادا کر لیتا ہے۔ یہی تنظیم اسلامی کی مستقل دعوت ہے : خود اللہ کا بندہ بننا، دوسروں کو اللہ تعالیٰ کی بندگی کی دعوت دینا اور اللہ کی بندگی پر مبنی نظام کے قیام کی جدوجہد کرنا ۔ یہی اللہ کے رسول ﷺ کی زندگی کے 23 برس کا نچوڑ ہے۔ اسی مشن کے لیے صحابہ کرامؓنے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے ۔ پھر اللہ کے اسی نظام کی حفاظت اور دفاع کے لیےتین خلفائے راشدین اور حضرت حسینؓنے شہادت پیش کی ۔
سیدنا حسینؓ نے محسوس کیا کہ جو نظام اللہ کے رسول ﷺ قائم کرکے گئے تھے اور جن اصولوں پر قائم کرکے گئے تھے، جن اُصولوں کی بنیاد پر خلفائے راشدینؓ کے دور میں خلافت کا نظام قائم رہا ، یزید کے دور میں اُن اصولوں کو پامال کیا گیا ہے ، یعنی نظام خلافت میں ایک دراڑ آگئی ہے تو آپؓ سے یہ برداشت نہیں ہوا اور آپؓ نے اس خرابی کے خلاف علم ِجہاد بلند کیا ۔
آج دین کی پوری عمارت ڈھے چکی ہے ، آج ہمارا پورے کا پورا نظام باطل کے سامنے سجدہ ریز ہے ،ان حالات میں ہماری غیرت ایمانی کہاں ہے ؟ بعض جمعہ کی دو رکعتوں پر مطمئن ہیں ، بعض سال میں دو مرتبہ عیدکی نمازیں پڑھ کر مطمئن ہیں ، کچھ پنج وقتہ نماز پر مطمئن ہیں ، باقی نظام کدھر ہے ؟آج اس مملکت ِخداداد میں دینی اقدار کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے، جس طرح کی قانون سازیاں ہورہی ہیںاور جس طرح جان بوجھ کر اس ملک میں دین کا حلیہ بگاڑا جارہا ہے، کیااس پر ہماراایمان ہمیں غیرت دلاتا ہے کہ ہم بھی حضرت حسینؓ کی طرح باطل کے خلاف کھڑے ہوں ؟چاہے اہل تشیع ہوں یا اہل سنت ہوں سب کے لیے سیدنا حسینؓکے نقش قدم پر چلنے کا تقاضا تو یہی ہے کہ ہم حق کے لیے کھڑے ہوں ۔ صرف 2 دن کی چھٹی منا لینے سے، حلوے مانڈے کا اہتمام کرنے اور ایک دو دن آنسو بہا لینے سے شہدائے کربلا سے عقیدت اور محبت کے تقاضے پورے ہوجائیں گے ؟اللہ کا دین تو یہ تقاضا کرتاہے کہ :
{اِنَّ اللہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَہُمْ وَاَمْوَالَہُمْ بِاَنَّ لَہُمُ الْجَنَّۃَط} (التوبہ :111) ’’یقیناً اللہ نے خرید لی ہیں اہل ِ ایمان سے اُن کی جانیں بھی اور اُن کے مال بھی اس قیمت پر کہ ان کے لیے جنّت ہے۔‘‘
امام زین العابدینؒ کا بڑا پیارا قول ہے ۔ فرمایا : یہ میری جان کوئی گھٹیا شے نہیں ہے،اس جان کو تو اللہ نے خریدلیا ہے اور جان کے بدلے اللہ سے جنت حاصل کی جا سکتی ہے ۔ اس جان کو معمولی کاموں میں کیوں لگایا جائے ۔ یہ جان اللہ کی دی ہوئی ہے ، ہماری تمام تر صلاحیتیں ، ہمارے تمام وسائل اللہ کے دئیے ہوئے ہیں اور انہیں اللہ کے لیے صرف کرنا ہی سب سے بڑی شہادت ہے ۔ جیسا کہ قرآن میں فرمایا :
{اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ (162)}(الانعام)’’ میری نماز‘ میری قربانی‘ میری زندگی اور میری موت اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔‘‘
یہ ہے حسینیت کا اصل تقاضا ہے ۔ اگر ہمیں سیدنا حسینؓسے واقعی محبت اور عقیدت ہے تو ہم لازماً اُن کی پیروی کریں گے ۔ انہوں نے خلافت کے دفاع میں اپنا سب کچھ قربان کردیا ۔ آج دنیا میں اللہ کا دین مغلوب ہے اور ہمارے چہروں کا رنگ بھی نہیں بدل رہا تو پھر حسینیت کا دعویٰ بے معنی ہے۔ اللہ ہمیں سمجھ عطا فرمائے۔آمین !
اسرائیل یا افغانستان؟
ایک طرف ہمارا پڑوسی اور برادر اسلامی ملک افغانستان ہے جس کو ابھی تک پاکستان نے تسلیم نہیں کیا،دوسری طرف ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل ہے جس کو تسلیم کرنے کے حوالے سے مسلسل دباؤ بڑھ رہا ہے ۔ اندر خانے شاید انتظار ہو رہا ہے کہ پہلے کوئی بڑا عرب ملک اسرائیل کو تسلیم کرے تو اس کے بعد پاکستان بھی کرلے ۔ اس حوالے سے تنظیم اسلامی کا مستقل موقف رہا ہے جس کو ڈاکٹر صاحبؒ نے بار بار دہرایا ہے اور آج بھی ان کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہورہی ہے۔ جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ساری دنیا اگر اسرائیل کو تسلیم کرلے تو پاکستان کو پھر بھی نہیں کرنا چاہیے ۔ اس کے لیے انہوں نے دلائل بھی پیش کیے ہیں ۔ یہ سارے دلائل تنظیم اسلامی کی ویب سائٹ پر بھی موجود ہیں۔ قائداعظم نے اسرائیل کو مغرب کا ناجائز بچہ قراردیا تھا ، انہوں نے امریکی صدر کو بھی لکھا کہ اسرائیل کا قیام ایک غیر منصفانہ اقدام ہے۔ ڈاکٹر صاحبؒ نے یہ بھی بیان کیا کہ ہمارے نزدیک رسول اللہ ﷺکے معراج کے واقعے کے موقع پر یہ سارا معاملہ طے ہو گیا کہ اب سے بیت المقدس کی تولیت مسلمانوں کے پاس رہے گی اور خود عیسائی راہبوں نے حضرت عمر ؓکو بیت المقدس کی چابیاں پیش کرکے اس بات کی توثیق بھی کردی ۔ اب یہود کا زبردستی فلسطین پر قبضہ کرنا بالکل ناجائز اور ناقابل تسلیم عمل ہے۔ اسی طرح لیاقت علی خان جب امریکہ کےدورے پر گئے تو انہیں بھی پیش کش کی گئی کہ اگر پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرلے تو ہم آپ کے لیے خزانوں کے منہ کھول دیںگے۔ لیکن انہوں نے تاریخی جواب دیا : "Gentlemen! our souls are not for sale "۔یہ پاکستان کی مستقل پالیسی ہے ۔ اس کو نظر انداز کرکے ہرتھوڑے عرصہ بعد اسرائیل کے حق میں جو ’’پھلجھڑیاں‘‘ چھوڑی جاتی ہیں ، ان کی ہم مذمت کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحبؒ یہ بھی بیان کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ہر بیماری کا علاج بھی پیدا کرتاہے ۔ اسرائیل بعد میں بنا لیکن اللہ نے اس کے علاج کے لیے پاکستان کو پہلے پیدا کیا ۔ اسی بات کو اسرائیلی بھی تسلیم کرتے ہیں ۔ بن گوریان نے 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد فتح کا جشن مناتے ہوئے کہا تھا کہ عربوں سے ہمیں کوئی خطرہ نہیں ہے۔ ہمارا اصل نظریاتی دشمن پاکستان ہے ۔ نیتن یاہو کا بیان ہے کہ ہماری خواہش ہوگی کہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت سلب کر لی جائے۔ یعنی اسرائیل تو ہمیں اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتا ہے جبکہ دوسری طرف ہمارے بعض نادان کہتے ہیں کہ اسرائیل کو تسلیم کرلینا چاہیے ۔ اگر آج ہم فلسطین پر اسرائیلی قبضہ تسلیم کرلیں تو کل ہم کشمیر پر بھارتی قبضے کو کس منہ سے غلط کہیں گے ۔ پھر یہ کہ امارت اسلامیہ افغانستان کو روس نے تسلیم کرلیا ہے ، چین کے سفارتی تعلقات بحال ہو چکے ہیں تو پاکستان اس کو تسلیم کیوں نہیں کر رہا ؟ہم کس صف میں کھڑے ہونا چاہتے ہیں ؟مستقبل کے منظرنامہ کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے ۔ احادیث میں ذکر ہے کہ خراسان سے اسلامی لشکر کالے جھنڈوں کے ساتھ نکلے گا اور یروشلم میں جاکرحضرت امام مہدیؒ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لشکر کے ساتھ مل کر دجال کے لشکر کے خلاف لڑے گا ۔ہم نے پاکستان کو اسلام کے نام پر حاصل کیا ، اگر یہ خطہ مضبوط ہوگا تو دنیا کے دیگر مسلمانوں کو بھی تقویت ملے گی اور یہاں اسلام مضبوط ہوگا تو یہاں سے اسلامی لشکرحضرت امام مہدیؒ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نصرت کو جاسکیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس قابل بنائے ۔ آمین !