(زمانہ گواہ ہے) ’’ابراہم اکارڈز 2 :منصوبے کے پس پردہ حقائق ‘‘ - محمد رفیق چودھری

9 /

دینی نقطۂ نظر کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی قوانین کے مطابق بھی

اسرائیل فلسطین پر ناجائز طور پر قابض ہے ، لہٰذا اسرائیل کا وجود

کسی بھی لحاظ سے ناقابلِ قبول اور ناقابلِ تسلیم ہے :رضاء الحق

جس دن ہمارے حکمرانوں نے ابراہم اکارڈز پر عمل کے بارے میں

سوچا، وہ ان کے اقتدار کا آخری دن ہوگا :ڈاکٹر فرید احمد پراچہ

اسرائیل کو تسلیم کرنے کا مطلب ہوگا کہ پاکستان نے کشمیر پر بھارت

کے قبضے کو بھی تسلیم کرلیا ہے :بریگیڈیئر (ر) رفعت اللہ

’’ابراہم اکارڈز 2 :منصوبے کے پس پردہ حقائق ‘‘

پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف تجزیہ نگاروں اور دانشوروں کا اظہار خیال

میز بان : وسیم احمد باجوہ

مرتب : محمد رفیق چودھری

سوال:پاکستان کے چند اعلیٰ حکومتی عہدیداروں کی طرف سے مختلف ٹی وی پروگرامز اور سوشل میڈیا پر ابراہم اکارڈز 2 کو جوائن کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ آپ کے پاس اس حوالے سے کیا تفصیلات ہیں؟
ڈاکٹر فرید احمد پراچہ: یہ بہت بڑی جسارت ہے جو حکومتی عہدیداروں کی طرف سے کی جا رہی ہے۔ پاکستان کی شروع دن سے ایک متفقہ پالیسی ہے جو پاکستان کی بنیادوں میںاور ہمارے نظریے میں شامل ہے، یہی نہیں بلکہ ہماری روح میں شامل ہے۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال کی فلسطین کے حوالے سے پالیسی بہت واضح تھی۔ ابراہم اکارڈز دھوکہ دہی کی واردات کے سوا کچھ نہیں ہے ، یہ سب ٹرمپ کے یہودی داماد کا پلان تھا اور 2020ء میں ٹرمپ نے مسلم ممالک سے اسرائیل کو تسلیم کروانے کے لیے ایک جال بچھایا اور ایک فریب دیا کہ یہودی ، عیسائی اور مسلمان حضرت ابراہیم علیہ السلام کی متاع کے مشترکہ وارث ہیں ۔ حالانکہ قرآن نے اس حوالے سے کوئی ابہام چھوڑا ہی نہیں ۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ صاف صاف بتا رہا ہے :
   {مَا کَانَ اِبْرٰہِیْمُ یَہُوْدِیًّا وَّلَا نَصْرَانِیًّا}   (آل عمران:67) ’’(تمہیں بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ) ابراہیم ؑ نہ تو یہودی تھے نہ نصرانی۔‘‘ 
یعنی ابراہم اکارڈز کے نام پر جو مغلوبہ یہ تیار کرنا چاہتے ہیں کہ اسلام، یہودیت اور عیسائیت کو ملاکر ایک مشترکہ دین بنایا جائے اور پھر ایک ہی جلد کے اندر قرآن پاک ، تورات اور انجیل کو اکٹھا شائع کر دیا جائے (معاذاللہ)، یہ اشتراک ہو ہی نہیں سکتا۔یہ اللہ تعالیٰ کا اٹل فیصلہ ہے ۔ لیکن ٹرمپ اور اس کے یہودی داماد نے اس گھناؤنے منصوبے کے ذریعے ان نام نہاد مسلم حکمرانوں  کے لیے اسرائیل کو تسلیم کرنا آسان بنادیا جو پہلے ہی تیار بیٹھے تھے ۔ اپنے لوگوں کو مطمئن کرنے کے لیے ابراہم اکارڈز کے نام پریہ فریب دیا ہے کہ ہم سب ایک ہیں اور اتحاد ِ مذاہب کی بات کر رہے ہیں ۔ اس منصوبے پر ٹرمپ کے پہلے دور میں بھی عمل ہوا تھا اور کچھ ممالک نے اس فریب میں آکر اسرائیل کو تسلیم کرلیا اور دوبارہ اس جال کو پھیلایا جارہا ہے۔ اس وقت غزہ میں انتہا درجے کی قتل و غارت گری ہو    رہی ہے اور مسلمانوں کی جو نسل کشی کی جارہی ہے ، اس پر پردہ ڈالنے کے لیے ہمارے نام نہاد دانشور اور وزراء ابراہم اکارڈز کی باتیں کر رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ فلسطین ہمارا مسئلہ نہیں ہے ، ہمارا مسئلہ کشمیر ہے وغیرہ ۔حالانکہ قائداعظم اور علامہ اقبال نے واضح طور پر مسئلہ فلسطین کو تمام مسلمانوں کا مسئلہ قرار دیا تھا۔ مسجد اقصیٰ صرف عربوں کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ پوری اُمت مسلمہ کا مسئلہ ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :{وَلَنْ تَرْضٰی عَنْکَ الْیَہُوْدُ وَلَا النَّصٰرٰی حَتّٰی تَــتَّبِعَ مِلَّـتَہُمْ ط} (البقرۃ:120) ’’اور(اے نبی ﷺ !  آپ کسی مغالطے میں نہ رہیے) ہرگز راضی نہ ہوں گے آپؐ سے یہودی اور نہ نصرانی جب تک کہ آپؐ پیروی نہ کریں ان کی ملت کی۔‘‘
یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے واضح ہدایت ہے ۔اس کے برعکس ہمارے ہاں بعض لوگ جو کچھ کر رہے ہیں یہ اسلام سے بھی غداری ہے ، آئین پاکستان اور نظریۂ پاکستان سے بھی غداری ہے اور فلسطینیوں اور کشمیریوں کے لہو سے بھی غداری ہے۔ جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن صاحب بھی مسلسل کہہ رہے ہیں اور تنظیم اسلامی کی طرف سے بھی یہ بات آرہی ہے ۔ یہ واضح کر دیا جائے کہ جس دن ہمارے حکمرانوں نے ابراہم اکارڈز پر عمل کرنے کے بارے میں سوچاتو وہ ان کے اقتدار کا آخری دن ہو گا۔  
سوال: کیا وجہ ہے کہ ہر چند سال کے بعد اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بحث چھیڑ دی جاتی ہے ۔ آپ کے خیال میں اس کے پیچھے کون سے عوامل اور محرکات کارفرما ہیں ؟
بریگیڈیئر(ر) رفعت اللہ :مسئلہ فلسطین جب تک حل نہیں ہوجاتا تب تک یہی صورتحال رہے گی کہ جب بھی مشرق وسطیٰ میں کشیدگی بڑھے گی تو ساتھ یہ بحثیں بھی شروع ہو جائیں گی ۔ پاکستان میں ان بحثوں کا کوئی جواز نہیں بنتا کیونکہ اگر پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرلیتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ کشمیر پر بھارت کے قبضہ کو بھی تسلیم کرے گا۔ پھر اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر کے حوالے سے جو قراردادیں ہیں وہ بے معنی ہو جائیں گی ۔سیاسی لحاظ سے یہ ایک بہت بڑا بلنڈر ہوگا ۔ دوسری بات یہ ہے کہ اسرائیل  بھارت کے ساتھ تعاون کر رہا ہے ، حالیہ پاک بھارت جنگ میں بھی اس نے بھارت کو سپورٹ کیا ۔ابراہم اکارڈز کا اگر آپ نے پاکستان کے ساتھ تعلق دیکھنا ہوتو      پہلے ہمیں اس کا بیک گراؤنڈ دیکھنا ہوگا۔ 2017ء میں جب ٹرمپ نے اپنی صدارت کا آغاز کیا تو اس کے بعد ایک سال کے اندر اندر پیس ٹو پراسپیرٹی کے نام سے بحرین میں ایک ورکشاپ کرائی جس میں عرب ممالک کے وزرائے خارجہ شریک ہوئے اور اس میں 100 صفحات پر مشتمل ایک ڈاکومنٹ پیش کیا گیا ۔ 2020 ء میں جب ٹرمپ نے اپنا ویژن فار پیس ٹونٹی ٹونٹی دیا تو اس میں اُسی ڈاکومنٹ کو لایا گیا ۔ اس میں سب سے اہم چیز وہ نقشہ تھا جس میں فلسطینی ریاست کو مغربی کنارے اور غزہ پر مشتمل دکھایا گیا تھا اور درمیان میں اسرائیل کو دکھایا گیا ۔ یعنی عرب ممالک کو دو ریاستی حل کی یقین دہانی کروائی گئی ۔ لیکن نیتن یاہو نے اپنی تقریر میں واضح کہا کہ فلسطین اپنی فوج نہیں رکھ سکے گا اور غزہ اور مغربی کنارے کےدرمیان باہمی رابطے کے لیے 30 کلو میٹر پر مشتمل ایک زیر زمین سرنگ کھودی جائے گی کیونکہ اسرائیلی سرزمین پر ان کو آنے جانے کی اجازت نہیں ہوگی ۔ لیکن یہ شرط بھی رکھی گئی کہ حماس اور دیگر جہادی گروہوں کو جلا وطن کیا جائے گا ۔ ابراہم اکارڈز کو صرف اس لیے نہیں لایا گیا کہ اسرائیل کو تسلیم کرواناہے بلکہ اس کا مقصد باہمی تعلقات کو معمول پر لانا بھی ہے ۔ اگر 7 اکتوبر 2023ء کو حماس کا اسرائیل پر حملہ نہ ہوتا تو اس وقت تک سعودی عرب اور دیگر مسلم ممالک اسرائیل کو تسلیم کر چکے ہوتے ۔پاکستان مسلم دنیا میں واحد ایٹمی طاقت ہے اور اس کے پاس بڑی فوج بھی ہے ۔ ہماری جغرافیائی پوزیشن بھی بہت اہم ہے ۔ اس تناظر میں بھی امریکہ اور یورپ بالکل پسند نہیں کرتے کہ ہمارا تعلق چین کے ساتھ زیادہ بڑھے یا بھارت کے مقابلے میں ہم طاقتور ہو جائیں ۔ ابراہم اکارڈ ز کا مقصد صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ تینوں مذاہب کو اکٹھا کر کے ایک متحدہ مذہب تشکیل دیا جائےبلکہ اس کے ساتھ ایک اور تصور I2U2 کے نام سے جوبائیڈن کے دور میں آیا تھا۔ اس کو انڈو ابراہمک الائنس بھی کہتے ہیں، ویسٹ ایشیاالائنس بھی کہتے ہیں، ویسٹرن بلاک بھی کہتے ہیں ۔ اس میں   انڈیا ، اسرائیل ، امریکہ اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں ۔ بظاہر اس معاہدے کے مقاصد ٹیکنالوجی ، انرجی سیکٹر ، زراعت اور سکیورٹی کے شعبوں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون بڑھاناہے لیکن پس پردہ یہ مقصد بھی شامل ہے کہ امریکہ انڈو پیسیفک میں اپنی مصروفیات کم کرنا چاہتا اور یہ اس صورت میں ممکن ہے جب اس خطے میں ایک ایسا اتحاد بن جائے جو چین کا مقابلہ کرسکے۔ اس کے لیے انہوں نے بھارت کی بھی طاقت بڑھانے کی کوشش کی ، کواڈ جیسے اتحاد بنائے جن میں آسٹریلیا ، جاپان ، انڈیا اور امریکہ شامل ہیں ۔ان حالات میں پاکستان کے پاس جو آپشنز ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ جس طرح NPTپر دستخط کرنے کو پاکستان نے مشروط کردیا تھا کہ اگر بھارت سائن کرے گا تو پاکستان بھی کرے گا ۔ اسی طرح اسرائیل کو تسلیم کرنے کے معاملے کو بھی اگر پاکستان خدانخواستہ مشروط کردیتا ہے کہ سعودی عرب اور دیگر مسلم ممالک تسلیم کریں گے تو    ہم بھی کرلیں گے تو اس صورت میں ہمیں کشمیر پر بھارت کے قبضے کو بھی تسلیم کرناپڑے گا اور یہ بہت بڑی ناکامی ہوگی ۔
سوال: بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے یہ کہہ کر کہ اسرائیل مغرب کا ناجائز بچہ ہے، اسرائیل کے حوالے سے پاکستان کی پالیسی واضح کر دی تھی ۔ آپ یہ بتائیں کہ اتنا وقت گزرنے کے بعد اور حالات اس قدر تبدیل ہونے کے بعد کیا قائداعظم کی اس پالیسی کو تبدیل کرنا ممکن ہوگا؟
رضاء الحق: ابراہیم اکارڈز، اس کی ایکسٹینشن ڈیل آف دی سینچری اور اس سے پہلے جو پیس ٹو پراسپیرٹی تھا ، ان سب کی مختلف تہیں ہیں ۔ اس سے قبل جیوش نیشن سٹیٹ والا قانون بھی ٹرمپ کے دور حکومت کے بالکل آغاز میں لے کر آئے تھے ۔ اس وقت بھی اسرائیل کے اندر ایک فلسطینی ریاست موجود ہے، جس کو محمود عباس چلا رہے ہیں لیکن اصل میں اس کو اسرائیل ہی کنٹرول کر رہا ہے۔ ابراہم اکارڈز میں اگر چہ فلسطینی ریاست کی بھی ضمانت دی گئی ہے لیکن یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کی اپنی فوج نہیں ہوگی۔ ڈیل آف سنچری میں یہ بھی طے ہے کہ 75 فیصد مغربی کنارے کو اسرائیل میں ضم کر دیا جائے گا ۔ یہ سب دھوکے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے ۔ پہلے ابراہیم اکارڈز میں متحدہ عرب امارات کے ساتھ یہ طے ہوا تھاکہ اب اسرائیل مغربی کنارے پر حملہ نہیں کرے گا لیکن وہاں بھی  مسلمانوں کو شہید کیا جارہاہے ۔ بنیادی طور پر اگر دیکھا جائے تو فلسطین کا معاملہ عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان تھا ۔ یہود کا حق تو فلسطین پر سے بہت پہلے ختم ہو گیا تھا جب ان کو اللہ نے سزا دے کر وہاں سے نکال دیا تھا ۔ اس کے بعد وہاں عیسائیوں کی حکومت رہی ، پھر مسلمانوں  کا دور حکومت آیا تو عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان معاہدہ ہوا خود عیسائی راہبوں نے بیت المقدس کی چابیاں  حضرت عمر ؄ کے حوالے کیں ۔ اس کے بعدسے دینی و قانونی لحاظ سے قبلہ اوّل کی تولیت مسلمانوں کے پاس ہے۔ یہودیوں کابیت المقدس پر حق نہ تو دینی لحاظ سے اور نہ ہی قانونی لحاظ سے رہا ہے ۔ یہ تو بعد میں جب پروٹیسٹنٹ فرقہ بنا تو اُس میں یہودیت کی کچھ تعلیمات تھیں جن کی وجہ سے یہودیوں کو یورپ میں سیاسی اور معاشی گرفت مضبوط کرنے کا موقع مل گیا جس کے نتیجے میں وہ برطانیہ جیسی کالونیل طاقتوں سے1917ء میں  ڈکلیریشن حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے اور فلسطین میں لا کر یہودیوں کو آباد کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔
قائداعظم نے اسرائیل کو جو مغرب کا ناجائز بچہ قرار دیا تھا تو اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ مسلم لیگ اور مسلمانوں کے ڈی این اے میں اسرائیل سے نفرت شامل تھی ۔ علامہ اقبال  نے 1919ء میں کہا تھا کہ فلسطین میں یہودیوں کو بسانے کی جو کوشش ہورہی ہے ہم اس کی مذمت کرتے ہیں ۔ اسی طرح مسجد اقصیٰ کے مفتی اعظم کے بھی مسلم لیگ کے رہنماؤں  کے ساتھ اچھے تعلقات تھے اور قیام پاکستان کے بعد انہوں نے پاکستان کا دورہ بھی کیا ۔ 1940ء میں جب قرارداد پاکستان پاس ہوئی تھی تو اس کے ساتھ ہی فلسطین کے حوالے سے بھی ایک قرارداد پاس ہوئی تھی جس میںفلسطین میں یہودیوں کو بسانے کی کوشش کی مذمت کی گئی تھی اور مطالبہ کیا گیا تھاکہ بیت المقدس کو مسلمانوں کی تولیت میں ہی رہنے دیا جائے۔ قیامِ پاکستان کے بعد جب لیاقت علی خان امریکہ کے دور پر گئے تو وہاں  یہودیوں نے ان سے فرمائش کی کہ اگر پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرلے تو پاکستان کو مالا مال کر دیا جائے گا۔ انہوں نے تاریخی جواب دیا: "Gentlemen!Our souls are not for sale." آج پاکستان کی موجودہ حکومت کے وزراء اور اس کے حمایتی صحافی یہ کہہ رہے ہیں کہ فلسطین ہمارا مسئلہ نہیں ہے ، یہ دراصل نظریۂ پاکستان ، بانیانِ پاکستان اور پوری اُمت مسلمہ سے غداری کے مترادف ہے۔ احادیث مبارکہ میں بہت واضح طور پر یہ تعلیمات ہیں کہ مسلمانوں کے مقدس مقامات میں سے ایک بیت المقدس بھی ہے ۔ اسی طرح دور فتن کی احادیث میں آخری دور کی جنگوں کا بھی ذکر ہے جن میں مسلمانوں کو لشکر دجال کے خلاف فتح  حاصل ہوگی اور اس کے بعد پتھر اور درخت بھی پکاریں گے کہ اے مسلمانو! ہمارے پیچھے یہودی چھپا ہے اس کو قتل کردو ۔ اب رفتہ رفتہ وہ صورتحال واضح ہوتی نظر آرہی ہے ۔ یہاں تک کہ یورپ کی یونیورسٹیوں میں غیر مسلم طلبہ نے بھی اسرائیل کے خلاف مظاہرے کیے۔ انگلینڈ میں منعقد ہونے والے ایک سالانہ کنسرٹ میں لوگوں نے باقاعدہ اسرائیل کے خلاف نعرے لگائے ، پس منظر  میں فلسطینی جھنڈے لہرائے جارہے تھےاور آزاد فلسطینی ریاست کا مطالبہ دہرایا جارہا تھا،اس منظر کوBBC نے بھی لائیو دکھایا ۔ یہی سلسلہ آگے بڑھے گااور پتھر اور درخت بھی یہودیوں کے خلاف بولیں گے ۔ 
سوال: سات اکتوبر 2023 ءسے آج تک مسلسل   21 ماہ سے اسرائیل فلسطینیوں پر مظالم ڈھا رہا ہے اور امریکہ  اسلحہ بارود کے لحاظ سے بھی اس کی مکمل پشت پناہی کر رہا ہےاور اس کے خلاف پیش ہونے والی ہر قرارداد کو بھی ویٹو کر رہا ہے ۔ ان حالات میں اگر عرب ممالک امریکہ کے دباؤ میں آکر اسرائیل کو تسلیم کرلیتے ہیں تو پھر بھی پاکستان کو اسرائیل کو تسلیم کرنا چاہیے یا نہیں ؟
ڈاکٹر فرید احمد پراچہ: پشت پناہی چھوٹا لفظ ہے ، دراصل یہ سارا کیا دھرا امریکہ کا ہے ۔ اگر امریکہ پیچھے نہ ہوتو نیتن یاہو کچھ نہیں کر سکتا ۔ جہاں تک ویٹو کا تعلق ہے تو یہ جمہوریت کی بھی نفی ہےا ورانسانیت کی بھی نفی ہے ۔ ساری انسانیت ایک طرف چیخ رہی ہے کہ غزہ میں ظلم بند کیا جائے، عالمی عدالتیں اسرائیل کے خلاف فیصلہ دے چکی ہیں ، لیکن اکیلا امریکہ ویٹو کر دیتاہے ۔ جہاں ایک طرف  پرندوں تک کے حقوق کے لیے این جی اوز کھڑی ہو جاتی ہیںدوسری طرف خود UNICEF کی رپورٹ کے مطابق 50 ہزار بچے غزہ میں شہید ہو چکے ہیں لیکن امریکہ اس کے باجود اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے ۔ اسرائیل سے بڑھ کر ظالم امریکہ ہے جو غزہ کو خالی کرواناچاہتاہے اور کہتا ہے یہاں تفریح گاہ بناؤں گا۔ ان حالات میں اگر پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات کرتاہے تو پاکستان کے 24 کروڑ عوام کسی صورت میں اس کی اجازت نہیں دیں گے ۔ عوام تو پہلے ہی ان حکمرانوں سے تنگ ہیں ۔ ہمارے آرمی چیف حافظ قرآن ہیں اور قرآن کی آیات پڑھ پڑھ سناتے ہیں ، اسی قرآن کے اندر یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ جو یہود سے دوستی کرے گا وہ انہی میں سے ہوگا ۔ مسجد اقصیٰ کی حرمت صرف عربوں کا مسئلہ نہیں ہے، یہ تمام مسلمانوں کے ایمان سے تعلق رکھتا ہے ۔ ہمارے ٹی وی اینکرز جو بیٹھ کرپھلجھڑیاں چھوڑ رہے ہیںکہ ہمیں کیا تکلیف ہے ۔ تکلیف تو ان کو ہوگی جن کے دل میں ایمان ہے ، جن کے ایمان ڈالرز پر ہیں انہیں کیا تکلیف ہوگی ؟
سوال: ٹرمپ نے اپنے پہلے دور حکومت میں ابراہم اکارڈز کا جو سلسلہ شروع کیا تھا ، یہ اسی کا تسلسل ہے جو اب اسرائیل کو تسلیم کرنے کی باتیں ہورہی ہیں یا یہ کوئی الگ منصوبہ ہے ؟
بریگیڈیئر(ر) رفعت اللہ :ٹرمپ کے پہلے دور میں اور موجودہ دور میں بہت فرق ہے ۔ اب دنیا میں چین اور روس بھی بڑی طاقتیں بن چکے ہیں ۔ پھر یہ کہ حماس اور ایران نے اسرائیل کی طاقت کا بھی بھانڈا پھوڑ دیاہے ۔ اسی طرح پاکستان نے بھی بھارت کو شدید جھٹکا دیااور بھارت کے پیچھے اسرائیل کھڑا تھا ۔ دنیا پہلے یونی پولر تھی ، لیکن اب بائی پولر ہو چکی ہے ۔ ابراہم اکارڈز کا مقصد یہ ہےکہ اسرائیل کے اردگرد کے سارے ممالک اسرائیل کے ساتھ تعلقات نارمل کرلیں اور ایک بڑا ابجیکٹوبرکس کو کاؤنٹر بیلنس کرنا اور BRIکو ثبوتاژ کرنا بھی ہے۔ اس کے مقابلے میںانڈیا مڈل ایسٹ یورپ اکنامک کوریڈور کو کامیاب بنانا ہے ۔ بریکس اس وقت دنیا کی سب سے بڑی حقیقت بن چکا ہے۔ اس کے 10 ممالک دنیا کی   50 فیصد آبادی اور 40 فیصد معیشت کو کنٹرول کرتے ہیں ۔ لہٰذا ابراہم اکارڈز2 کی بڑی وجہ بریکس ہے ۔ روس، امریکہ اور یورپ کی جانب سے عائد کی جانے والی 20 ہزار پابندیوں کے باوجود بھی اس وقت ایران ، عراق ،     متحدہ عرب امارات اور سعودیہ سے تیل درآمد کررہا ہے ۔ اب وہ ڈالر کو بھی ختم کرنا چاہ رہے ہیں۔ سی پیک چین کا ایک چھوٹا پروجیکٹ ہے جبکہ BRI افریقہ تک اپنی جڑیں پھیلا رہا ہے ۔جبکہ انڈیا احمق ہے جوIMECکے ذریعے اس کو کمتر کرنا چاہ رہا ہے ۔ اس وقت دنیا پرانے جیو پولیٹیکل ورلڈ آرڈر سے اپنی ڈی کوڈنگ کر رہی ہے اور نئے اتحاد بن رہے ہیں ۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو دنیا کے حالات اس طرح کے نہیں رہے جیسے ٹرمپ کے پہلے دور میں  تھے۔ اب مسلمانوں کا مورال بھی دنیا میں بلند ہو چکا ہے اور ان حالات میں مسلم حکمران کوئی ایسا فیصلہ نہیں کریں  گے جس کی وجہ سے انہیں عوام کے غضب کا سامنا کرنا پڑے ۔ اسی طرح پاکستان کا بھی اب امریکہ پر زیادہ انحصار نہیں رہا بلکہ امریکہ اور یورپ کی مجبوری ہے کہ وہ پاکستان کی مدد کریں ۔ پہلے پاکستان آئی ایم ایف کے ذریعے بلیک میل ہوتا تھا کیونکہ پاکستان کی جتنے ملٹری ہارڈویئرز تھے وہ امریکہ پر منحصر تھے لیکن اب ہم چین کی ٹیکنالوجی کو استعمال کر رہے ہیں۔ ویسے بھی امریکن ٹیکنالوجی میں بڑے سکیورٹی رسک ہیں۔ اس پر ہم بھروسا نہیں کر سکتے ۔ 
رضاء الحق:امریکی نائب صدر جیمزوانس نے مودی کو مخاطب کرکے حالیہ بیان دیا ہے کہ پاکستان کے مطالبات مان لو ورنہ پاکستان تم پر بہت جلد بڑا حملہ کرے گا ۔ پھر اسرائیل اور پاکستان دونوں نے ٹرمپ کو نوبل انعام کے لیے نامز کیا ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ ہماری ا ہم ترین شخصیات کے حالیہ دورہ امریکہ کے دوران پاکستان کو کچھ اہم اہداف دیے گئے ہیں ۔ بریکس کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے کیونکہ اس کا جو حالیہ وزرائے خارجہ لیول کا اجلاس ہوا ہے اس میں غزہ میں جاری اسرائیل مظالم اور ایران پر اسرائیلی حملہ کی مذمت کی گئی ہے ۔ گویا کہ اب امریکہ کی سول سپریم پاور کی حیثیت نہیں رہی ۔ ایک خبر یہ بھی آئی ہے کہ ٹرمپ نے ایک کمپنی کو ہائر کیا ہے جو غزہ میں تعمیراتی منصوبوں پر کام شروع کرے گی ۔ اس لیے ٹرمپ بھی یہ چاہتاہے کہ غزہ سے مسلمانوں کو زبردستی نکالا جائے ۔ گریٹر اسرائیل کا منصوبہ اپنی جگہ ہے کیونکہ صہیونیوں کے مطابق ان کا مسایاح آئے گا اور یروشلم سے پوری دنیا پر حکومت کرے گا ۔اسی منصوبے پر وہ کام کررہے ہیں ۔ 
سوال: پاکستان کو ابراہم ایکارڈز2سے باز رکھنے کے لیے آپ عوام ، علماء اور حکومت کو کیا مشورے دیں گے ؟
ڈاکٹر فرید احمد پراچہ:علماء کرام کو مساجد، منبر و محراب سے آواز اُٹھانی چاہیے ،عوام کو جلسے ، جلوس ، ریلیاں اور مظاہروں سمیت ہر طرح کا اہتمام کرنا چاہیے ۔ عوام کو اس حوالے سے جگانا بہت ضروری ہے ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ عوام کو پتا ہی نہ چلے کہ ابراہم اکارڈز کیا ہے ۔ ہم عوام سے یہ اپیل کرتے کہ حکومت اگر ابراہم اکارڈز کی جانب پیش رفت کرتی ہے تو عوام ڈٹ کر اس کی مخالفت کریں ۔ 
بریگیڈیئر(ر) رفعت اللہ : اگر پاکستان ابراہم ریکارڈ کے حوالے سے پیش رفت کرتاہے تو اس کا مطلب ہوگا کہ پاکستان چین اور روس سے خود کو الگ کررہا ہے کیونکہ ابراہم اکارڈز 2 کا سب سے بڑا مقصد بریکس ، BRIاور سی پیک کو ثبوتاژ کرنا ہے ۔ جبکہ حالیہ پاک بھارت جنگ میں بھی چین نے پاکستان کی مدد کی ہے ، اس کے علاوہ  پاکستان کے چین کے ساتھ ملٹری ، سکیورٹی اور معاشی مفادات بھی جڑے ہیں ۔ اگر پاکستان ابراہم اکارڈ ز میں جاتا ہے تو اس کو بہت زیادہ نقصان ہو سکتاہے ۔ ہم کشمیر سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے ۔ 
رضاء الحق:اصل معاملہ یہ ہے کہ ہم اسلام سے دستبردار نہیں ہو سکتے ۔ مستقبل کے تناظر میں دیکھا جائے تو اسلام کے حوالے سے اس خطے کا بہت اہم رول ہوگا ۔ احادیث میں بھی ذکر ہے کہ یہاں سے اسلامی لشکر جائیں گے اورارض مقدس میں جاکر دجال کے لشکر کے خلاف لڑیں گے ۔ تنظیم اسلامی کا ڈاکٹر اسراراحمدؒ کے دور سے ہی بڑا واضح موقف رہا ہے کہ اگر ساری دنیا بھی اسرائیل کو تسلیم کرلے تب بھی پاکستان کو اسرائیل کو تسلیم نہیں کرنا چاہیے کیونکہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے اور اسلام میں یہود کو مغضوب علیہم قراردیا گیا ہے ۔ ہر نماز کی ہر رکعت میں ہم یہ الفاظ دہراتے ہیں ۔ پھر ہم اسرائیل کے ساتھ کس طرح معاہدے کر سکتے ہیں ؟اسی طرح  مسجد اقصیٰ کاشمار مسلمانوں کے تین اہم ترین مراکز میں  ہوتاہے جو کہ حرمت والے ہیں ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے معراج کا سفر اسی مقام سے کیا اور تب سے بیت المقدس کی تولیت مسلمانوں کے سپرد کی گئی ہے۔ پھر یہ کہ بیت المقدس  مسلمانوں کا قبلہ اوّل بھی ہے۔ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی تعلیمات کے مطابق اب پوری دنیا میں اللہ کے دین کو  قائم اور نافذ کرنا موجودہ امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے نہ کہ یہود کی جو کہ مغضوب علیہم قرار پا چکے ہیں ۔ لہٰذا اب یہود منتخب لوگ نہیں رہے ۔ تحویل قبلہ کا معاملہ بھی اس کا اہم ترین ثبوت ہے ۔ اب دنیا میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ مسلمانوں نے ادا کرنا ہے ۔ بین الاقوامی قوانین کے مطابق بھی یہودی فلسطین پر ناجائز طور پر قابض ہیں ۔ اقوام متحدہ کی قراردادیں بھی اس پر گواہ ہیں ۔ لہٰذا انٹر نیشنل لاء کے مطابق بھی اسرائیل کا وجود ناقابل قبول اور نا قابل تسلیم ہے ۔ اگر ہم اسرائیل کو تسلیم کرتے ہیں تو پھر کشمیر پر بھارتی قبضہ کے خلاف بھی ہم کوئی بات نہیں کر سکیں گے ۔