رقص ِبسمل کا تماشا دیکھنے والے
عامرہ احسان
ا سرائیل کی غزہ میں وحشیانہ جنگ بظاہر اب رُخ بدل رہی ہے۔ جنگ کے بہانے نتین یاہو کو اپنی تما م تر کرپشن کی تحقیق سے بچنے، اپوزیشن اور عوام کو دبانے کی خاصی طویل مدت مل گئی۔ مغربی حکومتوں کی جنگ میں مدد نے مغربی جمہوریت کو بری طرح دنیا بھر میں بے نقاب کیا۔ معاشی بربادی، قومی انتشار سبھی نے سہا۔ صہیونی، اسرائیلی فوج کی نفرت دنیا بھر کے رگ وپے میں اتر گئی۔ ٹرمپ دوہری جنگ لڑتا، اسرائیل کی خاطر جابجا انقلابی ہنگامے کھڑا کرتا اب ہار چلا ہے۔ روس یوکرین جنگ، اسرائیل ایران جنگ، یورپ کو آنکھیں دکھاتا، نیٹو کی مالی حصہ داری سے ہاتھ کھینچتا ہر طرف اُلجھا پڑا ہے۔ اندرونِ ملک طوفان کچھ کم نہیں۔ تارکین وطن کو نکال باہر کرنے کی مہم، نیو یارک میں اچانک، غیر متوقع ابھر آنے والا یوگنڈا کا33 سالہ گجراتی! (بظاہر مسلم شناخت) میئر کی انتخابی مہم میں مقبولیت پربر افروختہ نیویارک کو ’جیو یارک‘ بناڈالنے والے یہودی کیسے سنبھالیں! دوسری طرف ایلون مسک اپنی اربوں ڈالر دولت کے بل پر نئی سیاسی پارٹی ’امریکہ پارٹی‘ بنا کر ہلچل مچا رہا ہے۔ ٹرمپ کا بگڑا منہ کچھ اور بگڑ گیا۔ وہ تو مسک کو دھمکا رہا تھا کہ اس کی کمپنیوں کو ملنے والی سرکاری مالی معاونت (اربوں ڈالر میں) بند کی جائے اور اسے واپس جنوبی افریقہ بھیجا جائے۔ (مسک کو 2002 ء میں امریکی شہریت ملی تھی)۔ مسک نے 160سالہ امریکی سیاست کے 2پارٹی نظام پر نئی پارٹی لیے حملہ کر دیا !
غزہ نے دنیا بھر میں انسانوں کو مزاحمت اور آزادی کی بھر پور تربیت دے دی ہے۔ اتنی کہ ناچنے گانے بجانے والے بینڈ نے برطانیہ، آئر لینڈ، غرض دنیا بھر کے نوجوانوں میں آگ بھڑکا دی۔ ’موت، موت، موت‘ کی تکرار کے ساتھ …کس کے لیے؟ اسرائیلی دفاعی افواج IDF کے لیے! ان کے پوسٹر پر مر کا واٹینک ہے، علامتی!( جس پر ایک قسامی نے ٹینک کا ڈھکن بے جگری، بے خوفی سے اٹھا کر بارود سے اندر بیٹھے 7 ’IDF‘ فوجی بھسم کر دیئے تھے)۔ حادثہ اس سے بڑا یہ ہوا کہ ’Kneecap‘ نا می بینڈ، اس کھچاکھچ بھرے’ گلیسٹن بری‘ مقبول فیسٹول کوبرطانیہ سے لائیو ’بی بی سی‘ پر دنیا بھرکو دکھایا جا رہا تھا۔ پیچھے فلسطینی جھنڈا تھا اور ’’فری فری فلسطین ‘ ‘ کے نعرے ہمراہ تھے۔ ’ ’یہ بچے مار رہے ہیں، جنگی جرائم کے مرتکب ہیں، دنیا جھوٹ بول رہی ہے، حقائق کھول دو؍ سچ کا اظہار کرو، صہیونیوں کی پکار نظر انداز کرو، دیوانے ہو جاؤ (غزہ کے حالات کے تناظر میں)، مٹھیاں بھینچو (غصے کا اظہار!) ہم ہی وہ ہیں جنھیں لازماً مزاحمت کرنی ہے، اپنا کردار ادا کرو، کھڑے ہو جائو اور لڑو، فلسطینیوں کی اس مظلومیت میں مدد کرو، موت، موت، موت ہو IDF کو۔‘‘ پھر پورا مجمع بیک آواز یہ پکارتا ہے۔ (نوٹ کیجیے فلسطین کا حق مسلمان نہیںیہ غیر مسلم ادا کر رہے ہیں)اس پکار کا سحر چھا گیا اوربہت جلد ٹویٹر پر یہی( خوفناک جملہ اسرائیل کے لیے!) ٹاپ ٹرینڈ بن گیا۔
حجر و شجر کی باری بھی آئے گی آخری ہلے میں جب حدیث کے مطابق ہر پتھر، ہر درخت پکار اُٹھے گا،میرے پیچھے یہودی چُھپا ہے۔ فی الحال تو مسلمانوں (بر صغیر و دیگر مسلم علاقوں) کے پرانے آقاؤں کے درودیوار گونج رہے ہیں۔ جنوبی افریقہ کا انفلوئنسر، کینیڈ س کنگ کہتا ہے کہ وہ شیطانی سیاح جس نے 18 ماہ کا بچہ (روس میں ) زمین پر دے مارا، وہ IDF فوجی ہے۔ یہ دنیا محفوظ نہیں ہے جب تک اسرائیلی دنیا میں کھلے عام پھر رہے ہیں۔ یہ طبقہ حساسیت میں ہالی وڈ سے لے کر برطانیہ تک غزہ کی پشت پنا ہی میں حیران کن حد تک باضمیر اور اظہار میں بے باک ثابت ہو رہا ہے۔ اللہ انھیں ایمان عطا کر دے۔ (بہت سے مسلمان ہوئے بھی ہیں غزہ کے بے مثل صبرو ثبات بھرے حسین کردار پر!) فیسٹول میں بے باک سچ کے اظہار پر گوئینے باب ویل ان کو بھاری قیمت ادا کرنی پڑی، بہت سے پروگرام منسوخ کروا دیئے جانے کی صورت میں! اسے تو IDF کے لیے موت کی آواز لگانے کو نفرت انگیز قرار دیا گیا (Hate Speech)۔ مگر IDF کا ننھے فلسطینی بچے، ان کی مائیں، خاندان اجاڑنا نفرت کی قاتلا نہ مہم نہ تھی؟ دوہرے معیارات اور جھوٹ کی کوئی حد تو ہو!
اسی دوران برطانوی حکومت نے فلسطین ایکشن نامی، نہایت فعال، بے باک گروپ کو دہشت گرد تنظیم (دہشت گردی ایکٹ 2000 ء کے تحت) قرار دے دیا۔ یوکے ہائی کورٹ نے بھی پابندی کی تائید کر دی۔ جس پر غم و غصے کی لہر برطانیہ اور اس سے باہر بھی، ممبران پارلیمنٹ، صحافیوں اور ایکس برادری سمیت ہر طرف پھیل گئی۔ اس اقدام کا مقصد، برطانیہ اسرائیل مابین ترسیل اسلحہ کے معترضین،ناقدین کی مکمل زبان بندی تھی۔یہ گروپ مسلسل غزہ کا پشت پناہ رہا۔ اب تک سول نافرمانی، فوجی جہازوں کو بیس میں گھس کر سرخ پینٹ کر دینا، جو فیکٹریاں اسرائیل کو اسلحہ سپلائی کرتی ہیں، ان میں سپرے پینٹ کرکے برطانیہ اسرائیل تعاون پر احتجاج کرنا۔ یہ علامتی تھا، پُرتشدد نہ تھا۔ اس پر پابندی نے اظہار رائے سلب کرنے کا تاثر گہرا کر دیا۔ کارکنان، آرٹسٹ، سیاستدان، عوام چلااُٹھے۔ ہزاروں کی تعداد میں نکلے کہ ہم سب ’فلسطین ایکشن‘ ہیں۔ ایم پی زارہ سلطانہ کھول اٹھی: ’سپرے پینٹ کے ڈبے کو انھوں نے خودکش بم بنا دیا؟ یہ احمقانہ بات ہے! یہ برطانیہ کی قتل عام میں شراکت کو دبانے، چھپانے کو کیا گیا ہے۔ سچ کی زباں بندی نہ ہو سکے گی! عجب ہے کہ جو ’فلسطین ایکشن‘ کر رہی ہے وہ دہشت گردی ہے اور اسرائیل جو (قتل و غارت گری) کر رہا ہے، وہ قتل عام نہیں؟ جرم نہیں؟ اس پر پابندی لگ گئی اور IDF و نیتن یا ہو اپنا جھوٹ پھیلانے میں آزاد ہیں۔‘ بینڈ نے اپنے فلسطین نواز ہونے پر لکھا: برطانیہ نے جنگ مخالف اور قتلِ عام مخالف کو دہشت گرد بنا ڈالا۔ سٹار مر (وزیر اعظم) بھی انسانیت کے خلاف جرائم کا چیمپئین ہے۔ انقلاب اب یہ ہوگا: ’ برطانیہ، آئر لینڈ سے نکل جاؤ۔ انقلاب اب لائیو ہوگا!‘ سابق برطانوی سفارتکار کریگ مرے نے 13 گھنٹے کا روائی سننے کو، کورٹ میں گزارے۔ فلسطین ایکشن پر پابندی پر شدید غم زدہ تھا۔ ’برطانوی حکومت کے چہرے کا نقاب اُتر گیا، مہذب رو یہ اتار پھینکا۔ایک نے لکھا: میرے خدا! اس کا مطلب ہے، اب ہم تنقید، اختلاف کا حق کھو چکے ہیں؟ مجھے یقین نہیں آ رہا۔ سوشل میڈیا پر پابندی لگنے سے قبل آخری جملہ فلسطین ایکشن نے لکھا: دبانے سے مزاحمت مزید بڑھتی ہے!
اس ہولناک جنگ میں مغربی دنیا کی حکومتی سطح پر شمولیت، شراکت، اسرائیل کو قوت فراہم کرنا حد درجہ شرمناک ہیں۔ مسلم دنیا زبانی جمع خرچ سے آگے نہ بڑھی۔ دنیا بھر میں سبھی عوام الناس (مسلمان کم کم، غیر مسلم بہت زیادہ) بالخصوص برطانیہ، جنوبی افریقہ، آئرلینڈ فلسطین کے زبردست مؤید، پشت پناہ رہے۔ 7 اکتوبر 2023ء سے آج تک دیوانہ وار احتجاجی مہمات سے دنیا ہلاتے، دہلاتے رہے۔
امریکہ اسرائیل نے امدادی خوراک کی ترسیل کا جو قاتلانہ نظام، UN اداروں کے عادلانہ مہربان نظام کی جگہ، ان سے چھین کر چلایا، اس کی سفا کی نے دنیا کو ان قاتل قوموں کے لیے نفرت سے بھر دیا۔ 170 امدادی تنظیموں نے اِس کے خلاف برسلز سے مشترکہ بیان جاری کیا۔ اسرائیلی فوجی کنٹرول میں جکڑا امدادی نظام جو بھوکے محصور شہریوں کو مجبور کر رہا ہے کہ یا بھوک سے مر جاؤ یا بندوق کی گولی سے۔ بھوک سے مرتے ہجوم آکر مدد وصول کرنے کھڑے ہوتے ہیں تو یا بندوق کی گولی کا وہ لقمہ بنتے ہیں، روٹی کے دو لقموں کے عوض۔ اور اگر آٹا ملتا ہے تو اس میں زہرناک نشہ آور ڈرگ ’آکسی کو ڈان‘ ہوتی ہے جو ادویاتی ہتھیار سے دہشت گردی کے مترادف ہے۔ وہ روح جسے وہ بموں بھری ہلاکتوں سے شکست نہ دے سکے، اُسے اِس حوصلہ شکن جذباتی بحران، شعوری حالت، مخدوش کرنے والی گولی سے جبراً زیر کریں گے۔ جنگی جرائم میں یہ ہولناک اضافہ ہے۔ جن مظلوموں کو آپریشن بے ہوش کیے بغیر کروانے پڑے انھیں اب یوں بے حس اور سُن کیا جائے گا؟ یہ سب 2 ارب مسلمان برادری کی آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے۔ مغربی عوام اپنی تعلیم، ڈگریاں، نوکریاں فلسطینی بچانے کو داؤ پر لگا رہے ہیں۔ ہمیں حب ِدنیا اور کراہیۃ الموت لے ڈوبی۔ زمینیں، پلاٹ، گھر، گاڑیاں، مناصب، سیاست۔ حب الشہوات نے تباہ کر دیا۔ نفاق یہی تو ہے۔
یہ سب ہیں رقصِ بسمل کا تماشا دیکھنے والے
اگر امریکہ اسرائیل جنگ بندی کی بات کر رہا ہے تو وہ اپنے رذائل ومسائل کے ہاتھوں کرے گا۔ اسرائیلی فوجی شدید نفسیاتی مریض اور تعداد میں کم پڑ رہے ہیں۔ٹیکساس میں ناگہانی خوفناک سیلاب مکافاتِ عمل ہے ۔غزہ میں ظلم اور بے دردی سے قتل و غارت گری نے خود امریکہ کو صدی بھر کی بدترین غرقابی سے دو چار کیا۔ تمام اسباب و وسائل کسی کام نہ آئے۔ اللہ اس کرب سے ان اپنے پیاروں اور ہمارے پیارے فلسطینی بہن بھائیوں کو نکالے۔ (آمین)