(درحقیقت) عالمی امن معاہدات اورابراہم اکارڈز - خالد نجیب خان

9 /

درحقیقت
عالمی امن معاہدات اورابراہم اکارڈزخالدنجیب خان

امریکہ میں’’ امریکا پارٹی‘‘ کے قیام سے چند روز پہلے صدر ٹرمپ نے نیٹو کے سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ اور ایران کے تعلقات میں گزشتہ کئی عشروں سے جاری کشیدگی میں اب کمی ہوگی۔ اِس کے علاوہ اُنہوں نے ایران پر امریکہ کی جانب سے عائد پابندیوں میں نرمی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ تعمیر نو کے لیے اب تہران تیل برآمد کرسکے گا اور ساتھ ہی یہ توقع بھی ظاہر کی ہے کہ ایران اور امریکہ میں مذاکرات جلد شروع ہوسکتے ہیں تاہم ایرانی جوہری پروگرام پر معاہدہ بھی زیرِ غور ہے ۔ دی ہیگ میں جاری نیٹو سربراہی اجلاس کے موقع پر خطاب میں اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم ایران کو کسی صورت ایٹمی طاقت نہیں بننے دیںگے اور اگر اس نے یورینیم افزودگی کا پروگرام دوبارہ شروع کیا تو اس پر دوبارہ حملہ کریں گے۔ اور پھر چند روز بعد ہی ایران پر نئی پابندیاں بھی لگا دیں اور وضاحت کی کہ یہ اقدامات ایران کی معیشت اور حزب اللہ کے مالی ڈھانچے پر دباؤ بڑھانے کی کوشش کا حصہ ہیں۔گویا صدر ٹرمپ کے بیانات،’’ بیانات محض‘‘ ہی ہوتے ہیں کہ اُن پر بھروسا نہ کریں بلکہ صرف اُن کے عمل کو دیکھیں۔
امریکی صدر کے عمل کومدنظر رکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ جب سے اُنہوں نے اپنے عہدے کا حلف اُٹھایا ہے،دنیا بھر میں کہیں جنگیں شروع ہورہی ہیں تو کہیں اعلان جنگ بندی ہو رہا ہے ، حالانکہ اُنہوں نے تو حلف اُٹھانے سے پہلے بلکہ اپنی انتخابی مہم کے دوران ہی یہ کہا تھا ’’سب سے پہلے امریکہ‘‘ یعنی امریکہ اب کسی دوسرے ملک میں مداخلت نہیں کرے گا تو دنیا والے انگشت بدندان رہ گئے کہ امریکہ اب اگر دنیا کے ممالک کے معاملات میں مداخلت نہیں کرے گا تو پھر کیا کرے گا؟
امریکی صدر کے حلف اُٹھانے سے پہلے اہل غزہ اور اسرائیل کے درمیان عارضی جنگ بندی کا معاہدہ ہوا تو دنیا بھر میں خوشی کی لہر پھیل گئی اور توقع ہوئی کہ نئے امریکی صدر کے عہدہ پر براجمان ہونے سے پہلے ہی اتنا بڑی کامیابی مل گئی تو بعد میں کیا کچھ نہیں ہوگا۔اِسی دوران میں روس، یوکرین کی جنگ کا موضوع زیر بحث آگیا تو توقعات وابستہ کرنے والے پھر توقعات وابستہ کر بیٹھے تو خبر آگئی کہ اسرائیل نےغزہ امن معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اہل ِغزہ پر بدترین بمباری دوبارہ شروع کردی ہے اور اس سے متعلق خبریں آج تک آرہی ہیں ۔ جبکہ دوسری طرف غزہ میں ایک اور جنگ بندی کے معاہدے کی بھی گونج تو سنائی دے رہی ہے مگر آثار تاحال کہیں نظر نہیں آرہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اِس وقت دنیا والے حیران ہیں کہ یہ کیسا امن ہے کہ غزہ میں امن کے متلاشی محض ایک کلو آٹے کے حصول کے لیے اپنی جانیں دے رہے ہیں اور آٹا بھی وہ کہ جس میں ایسا کیمیائی مواد شامل کردیا گیا ہے کہ اُس کے کھانے والے کے اندر وہ کیمیائی تبدیلیاں پیدا ہوجائیں کہ وہ ماضی میں اپنی کی گئی ساری جدوجہد کو بے کار خیال کرنے لگے یا پھر کچھ دنوں میں خودبخود جان جان آفرین کے سپرد کردے۔
بہرحال امن کی تلاش میں اہل ِ غزہ پر بڑھتے ہوئے مظالم کے پیش نظر جب پاکستان کی تمام دینی جماعتوں نے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو کر اسرائیل کے خلاف جنگ کرنے کا فتویٰ دیاتو پاکستان کو مصروف کرنے کے لیے بھارت نے پاکستان پر حملہ کردیا مگرپاکستان کی جوابی کارروائی سے بھارت بھی بوکھلا گیا اورچند گھنٹوں میں ہی ٹرمپ صاحب کی معرفت جنگ بندی کا اعلان کردیا گیا اور فروغ امن کا کریڈٹ صدر ٹرمپ کو مل گیا جس پر تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ ایک حلقے کا خیال ہے کہ جس نے اَمن کرایا ہے اُس کو اِس کا کریڈٹ دے دیا جائے تو حرج کیا ہے (بشرطیکہ امن ہوا ہو) پاکستان کا دعویٰ ہے کہ یہ جنگ اُس نے ناصرف جیت لی ہے بلکہ بھارت سے 1971ء کی جنگ کا بدلہ بھی لے لیا ہے اور اِسی وجہ سے اُس نے اپنے آرمی چیف کو فیلڈ مارشل کا اعزاز بھی دے دیا ہے جبکہ دوسری طرف ایک حلقے کا خیال ہے کہ آپریشن’’ بنیان مرصوص‘‘ اور ’’آپریشن سندور‘‘ میں بھارت کا فوجی نقصان پاکستان سے زیادہ ہوا ہے اور بھارت کا موقف ہے کہ وہ تازہ دم ہو کر پاکستان پر پھر حملہ کرے گا اِس لیے یہ کہنا درست نہیں ہے کہ پاکستان نے جنگ جیت لی ہے یا 1971ء کی جنگ کا بدلہ لے لیا ہے۔
حالیہ جنگ بندی کے فوراً بعدپاکستان اور بھارت نے الگ الگ وفود امریکہ اور یورپ میں بھیجے تاکہ دنیا کو اپنا اپنا کیس بیان کریں۔ پاکستانی وفد نے اپنا پیغام صدر ٹرمپ تک پہنچاتے ہوئے کہا کہ وہ بھارت اور پاکستان کے درمیان مصالحت کرا کے اپنا کردار ادا کریں جبکہ بھارتی وزیراعظم نے امریکی صدر کی مداخلت قبول کرنے سے صاف انکار کر دیا۔بھارت تازہ دم ہو کر نئے حملوں کی منصوبہ بندی کررہا ہے توپاکستان بھی یقیناً اِس وقت فارغ تو نہیں بیٹھا ہوا وہ بھی کچھ نہ کچھ کر ہی رہا ہے جس کا اظہار یقیناً وقت آنے پر ہو ہی جائے گا۔یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیااِسے امن کہا جاسکتاہے؟
پاک بھارت جنگ ختم یا عارضی طور پر بند ہونے کے چند دنوں کے بعد ہی اس خطے میں اسرائیل نے ایران پر حملے کیے جس میں اُس کی اعلیٰ فوجی قیادت جاں بحق ہوئی ۔ جس کے بعد ایران نے اسرائیل کے ساتھ تقریباً وہ سلوک کیا جو چند روز پہلے پاکستان بھارت کے ساتھ کر چکا تھا اور آخر کار امریکہ اور اُس کے ایجنٹ اسرائیل کو جنگ بندی کا اعلان کرنا پڑاجسے ایران نے اس شرط پر قبول کرلیا کہ’’ آئندہ شرارت نہیں کرنا‘‘ مگر ’’ امن کے پیامبر‘‘ کی خواہش ہے کہ ایران اور پاکستان دونوں ہی نا جائز صہیونی ریا ست اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کے لیے عملی اقدامات کریں۔ایران کی موجودہ حکومت تو اِس حوالے سے کوئی رد عمل ظاہر نہیں کررہی جبکہ ہمارے اعلیٰ حکومتی عہدیدار ابراہم اکارڈز کا حصّہ بننے کے لیے ہلکے پھلکے اشارے یا ٹیسٹر دینا شروع ہو گئے ہیں۔اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ اِس طرح کی کمپین کی جاتی رہی ہے جسے عوام نے یہ کہہ کر مسترد کردیا تھا کہ با نی پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح نے قیا م پاکستان کے فوراً بعد یہ کہا تھا کہ ’’اسرائیل مغرب کا ناجائز بچہ ہے‘‘ اور پاکستان کبھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گاجبکہ گزشتہ چند سالوں سے یہاں پر چند لوگ ہلکی پھلکی موسیقی میں اسرائیل سے دوستی کاراگ الاپتے رہتے ہیں جس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ پاکستان کے 25 کروڑ عوام کو یہ موسیقی پسند ہے۔ پاکستان کے پہلے وزیراعظم شہیدِ ملت لیاقت علی خان سے دورۂ امریکہ کے دوران ایک یہودی میزبان نے کہا کہ پاکستان ایک نوزائیدہ ریاست ہے، اگر وہ اسرائیل کو تسلیم کرلے تو اُس کے لیے خزانوں کے منہ کھول دیئے جائیں گے تو اُنہوں نے صاف انکار کر دیاتھا۔
حقیقت یہ ہے کہ ایران پر حالیہ دبائو صرف اسی لیے ہے کہ وہ اسرائیل کے لیے کوئی خطرہ نہ بنے اور اسرائیل کی بدمعاشیوں کو دیکھ کر اندھا ہی بن جائے۔ خدانخواستہ ایران کا وجودختم ہوتا ہے یا وہاں پر رجیم چینج ہوتی ہے تو اس کا اگلا ہدف یقیناًپاکستان ہے ،جس کا اظہار وہ کئی مرتبہ کرچکا ہے۔گویا یہ کہا جاسکتا ہے کہ اسرائیل کا اصل ہدف پاکستان ہے جبکہ ایران ،عراق اور دیگر کئی مسلم ممالک تو سنگ میل ہی ہیں۔اِس وقت عالمی امن کی خاطر ایران کا ایک معمولی شرط پر جنگ بندی پر راضی ہونا یقیناً اِس بات کا ثبوت ہے کہ اُس نے امریکہ اور اسرائیل پر یہ واضح کردیا ہے کہ اب اگر کوئی شرارت ہوئی تو کم از کم اسرائیل تو ایسا مزہ ضرور چکھ لے گا کہ وہ اُس کا ذائقہ بتانے کے قابل نہیں ہو گا۔ یہ حقیقت ہے کہ غزہ میں اسرائیل کو جتنی بھی ہزیمت اُٹھانا پڑی ہے ،اُس میں ایران کا بڑا ہاتھ رہا ہے،یہ ہاتھ قانونی طورپر تو یقیناً کسی کو نظر نہیں آیا مگر اِس حقیقت سے انکار بھی ممکن نہیں ہے۔
اِس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ خطے میں دو مسلم ممالک اپنے پڑوسی ہنود اور یہود سے جنگ جیت چکے ہیں اور افغانستان تو پہلے ہی امریکہ اور روس کو شکست دے چکا ہے، ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ یہ تینوں ممالک مل کر پہلے مرحلے میں بیت المقدس کی آزادی اور عالم اسلام کی رہنمائی کے لیے کسی پلیٹ فارم پر جمع ہوں اور دین کی سربلندی کے لیے کوئی لائحہ عمل طے کریں اور اگلے مرحلے میں ماضی قریب اور دور میں شکست خوردہ مسلم ممالک کو مثلاً سعودی عرب، عراق، ترکیہ، مصر، شام، لیبیا وغیرہ کو بھی اِس میں شامل کر لیا جائے۔
مگر یہ اُسی وقت ممکن ہے جب اِن تمام ممالک میں عوام کو اصل حقائق کا علم ہو گا ۔بڑی بدقسمتی تو یہ ہے کہ اب جنگوں میں اسلحہ اور بارود کے استعمال سے پہلے ہی میڈیا کے ذریعے پروپیگنڈا کرکے عوام کے دلوں میں دشمن کی دھاک بٹھا دی جاتی ہے اور جب دشمن حملہ کرتا ہے تو اُسے کامیابی حاصل کرنے میں زیادہ توانائی صرف نہیں کرنا پڑتی ۔ گویا اُنہیں اپنے دوست اور دشمن کی پہچان ہی نہیں رہتی، انہیں جس طرف بھی ہانک دیا جائے، چل پڑتے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں ابراہیم اکارڈز پر دستخط کرنے کے حوالے سے میڈیا پر بات چیت جاری ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستانی عوام کبھی اپنے فلسطینی بھائیوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کی اجازت نہیں دیں گے۔پاکستان میں ابراہیم اکارڈز کی حمایت میں بات کرنے والے حکومتی اور غیر حکومتی افراد کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے معمولی مفاد کی خاطر کم از کم اپنے دین سے تو غداری نہ کریں ۔خدانخواستہ اگر ان کا یہ منصوبہ کامیاب ہوجاتا ہے تو پھر…؟؟؟