ماہِ صفر اور غلط تصورات
عابدہ قاسم
صفر اسلامی کیلنڈر کا دوسرا مہینہ ہے۔ اسلام سے پہلے اسے منحوس سمجھا جاتا تھالیکن مسلمان اسے صفر الخیر یا صفر المظفر(کامیابی کا مہینہ)کہتے ہیں۔ یہ مہینہ زمانہ جاہلیت میں منحوس، آسمانوں سے بلائیں اترنے والا اور آفتیں نازل ہونے والا سمجھا جاتا تھا۔ زمانہ جاہلیت کے لوگ اس ماہ میں خوشی کی تقریبات ،شادی بیاہ، سفرکرنا، لین دین قائم کرنا منحوس سمجھتے تھے اور قابل افسوس امر یہ ہے کہ یہی نظریہ نسل در نسل آج تک چلا آ رہا ہے۔
ماہِ صفر کی وجہ تسمیہ
صفر کا لفظی مطلب’’خا لی ہونا ‘‘ ہے۔ عرب زمانہ جاہلیت میں ماہِ صفر کو منحوس خیال کرتے ہوئے اسے ’’صفر المکان‘‘یعنی گھروں کو خالی کرنے کا مہینہ کہتے تھے کیونکہ وہ تین حرمت والے مہینوں ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم کے بعد اس مہینے میں گھروں کو خالی کر کے لڑائی اور قتل و قتال کے لیے میدانِ جنگ کی طرف نکل پڑتے تھے جنگ و جدال اور قتل و قتال کی وجہ سے بے شمار انسان قتل ہوتے، گھر ویران ہوتے اور وادیاں برباد ہو جاتیں۔ ( تفسیر ابن کثیر،جلد دوم، ص:604)
عربوں نے اس ویرانی اور بربادی کی اصل وجہ کی طرف توجہ دینے اور اس سے کنارہ کشی کی بجائے اس ماہ کو ہی منحوس، بلاؤں اور مصیبتوں کا مہینہ قرار دے دیا۔
دورِ جاہلیت میں ماہِ صفر کے متعلق نظریات
عربوں کے ہاں ماہِ صفر میں دو بڑی برائیاں تھیں:
1۔ ماہ ِ صفر کواپنی جگہ سے آگے پیچھے کرنا
مشرکین حرمت والے مہینے کو موخر کرتے رہتے تھے۔ محرم حرمت والا مہینہ تھا اس میں قتال حرام تھا مشرکین عرب لوٹ مار اور قتل و غارت کرنے والے لوگ تھے۔ ذوالقعدہ، ذوالحج اور محرم یہ تینوں متواترحرمت والے مہینے تھے۔ ان تین مہینوں میں قتال سے صبر کرنا مشرکینِ عرب کے لیے بہت مشکل اور دشوار تھا انہیں جب محرم کے مہینے میں کسی سے لڑنے کی ضرورت پیش آتی تو وہ محرم کے مہینہ کو موخر قرار دے دیتے اور صفر کے مہینہ کو محرم قرار دیتے اور اصل محرم کے مہینہ میں قتال کرتے۔ اسی طرح وہ ہر سال محرم کے مہینہ کو ایک ماہ موخر کرتے رہتے حتیٰ کہ جس سال نبی کریمﷺ نے حج کیا، اس سال گیارہ مرتبہ محرم کا مہینہ موخر ہو کر اپنی اصل ہیئت پر آچکا ہے جس ہیت پر وہ اس وقت تھا جب اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا تھا۔
(سعیدی، تبیان القرآن، جلد: 5، ص: 133)
2۔ ماہِ صفر کو منحوس سمجھنا
مشرکین ماہِ صفر کو منحوس خیال کرتے تھے لڑائی اور قتل و غارت کی وجہ سے ان کے گھر خالی ہو جاتے تھے اور مصائب ومشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تو بجائے اس کے کہ وہ اپنے اعمال درست کرتے وہ ماہِ صفر کو منحوس سمجھتے۔
3۔ ماہِ صفر قر آن و حدیث کی روشنی میں
قرآن کی روشنی میں:
{مَـآ اَصَابَکَ مِنْ حَسَنَۃٍ فَمِنَ اللہِز وَمَـآ اَصَابَکَ مِنْ سَیِّـئَۃٍ فَمِنْ نَّفْسِکَ طوَاَرْسَلْنٰکَ لِلنَّاسِ رَسُوْلًاطوَکَفٰی بِاللہِ شَہِیْدًا(79)} (النساء)’’(اے مسلمان!) تجھے جو بھلائی بھی پہنچتی ہے وہ اللہ کی طرف سے پہنچتی ہے‘ اور جو مصیبت تجھ پر آتی ہے وہ خود تیرے نفس کی طرف سے ہے۔اور (اے نبیﷺ!) ہم نے آپ کو تو لوگوں کے لیے رسول بنا کر بھیجا ہے۔اور اللہ تعالیٰ کافی ہے گواہ کے طو رپر۔‘‘
{اِنَّ عِدَّۃَ الشُّہُوْرِ عِنْدَ اللہِ اثْنَا عَشَرَ شَہْرًا فِیْ کِتٰبِ اللہِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ مِنْہَآ اَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ ط ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ ج فَلَا تَظْلِمُوْا فِیْہِنَّ اَنْفُسَکُمْ وَقَاتِلُوا الْمُشْرِکِیْنَ کَآفَّۃً کَمَا یُقَاتِلُوْنَکُمْ کَآفَّۃًطوَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ(36)}(التوبۃ) ’’بے شک اللہ کے ہاں مہینوں کی تعداد بارہ ہے ‘اللہ کے قانون میں‘جس دن سے اُس نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو‘ان میں سے چار مہینے محترم ہیں ۔یہی ہے سیدھا دین‘تو ان کے معاملے میں اپنے اوپر ظلم نہ کرو‘اور مشرکین سے سب مل کر جنگ کرو جیسے وہ سب اکٹھے ہو کر تم سے جنگ کرتے ہیں ‘اور جان لو کہ اللہ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے۔‘‘
حدیث ِ مبارکہ کی روشنی میں
حضرت ابو ہریرۃ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’کوئی مرض متعدی نہیں ہوتا، نہ بد شگونی ہے، نہ صفر اور اُلّو (کی نحوست) کی کوئی اصل ہے۔‘‘(صحیح البخاری)
ایک اعرابی نے سوال کیا کہ یا رسول اللہﷺ پھر کیا وجہ ہے کہ اونٹ ریگستان میںہرنوں کی طرح پھر رہے ہوتے ہیں پھر ان میں ایک خارش زدہ اونٹ داخل ہوتا ہے اور سب کو خارش میں مبتلاء کر دیتا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’پہلے اونٹ میں خارش کس نے پیدا کی تھی؟‘‘(صحیح مسلم، جلد)
ماہِ صفر اور غلط تصورات
اس ترقی یافتہ دور میں بھی ماہِ صفر المظفرمیں نحوست سے متعلق لوگوں کے غلط نظریات ختم نہیں ہوئے بلکہ جیسے ہی اس با برکت مہینے کی آمد ہوتی ہے تو نحوست کے وہمی تصورات کے شکار بعض نادانوںکی جانب سے اس پاکیزہ مہینے سے متعلق طرح طرح کی غلط فہمیوں پر مشتمل پیغامات پھیلائے جاتے ہیںاور اس ماہ کو انتہائی منحوس تصور کیا جاتا ہے۔ مولانا مفتی محمد امجد علی فرماتے ہیں کہ: ’’ماہ صفر کو لوگ منحوس جانتے ہیں اس میں شادی بیاہ نہیں کرتے، لڑکیوں کو رخصت نہیں کرتے اور بھی اس قسم کے کام کرنے کے سے پرہیز کرتے ہیں اور سفر کرنے سے گریز کرتے ہیں۔خصوصاً ماہِ صفرکی ابتدائی تیرہ تاریخیں بہت زیادہ نجس مانی جاتی ہیںاور ان کو تیرہ تیزی کہتے ہیں یہ سب جہالت کی باتیں ہیں۔‘‘(بہار شریعت)
اسلامی مہینوں کے فضائل میں شاہ عبد الحق محدث دہلویؒ کا قول نقل کیا گیا ہے کہ عوام اسے یعنی صفر کے مہینے کو بلاؤں، حادثوںاور آفتوں کے نازل ہونے کا مہینہ قرار دیتے ہیں یہ عقیدہ باطل ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں۔
ماہِ صفر میں بلائیں، آفات اترنے اور جنات کے نزول کا عقیدہ من گھڑت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی تقدیر و تاثیر میں زمانے کا کوئی دخل نہیں۔ ماہِ صفر بھی دیگر مہینوں کی طرح ایک مہینہ ہے اگر ایک شخص اس مہینہ میں احکامِ شرع کا پابند رہتا ہے تو یہ مہینہ اس کے لیے مبارک ہے اور دوسرا شخص اس مہینہ میں گناہ کرتا ہے، حدود اللہ کو پامال کرتا ہے تو اس کی بربادی کے لیے اس کے اپنے گناہوں کی نحوست ہی کافی ہے۔
خلاصہ
جو قومیں دین ِ فطرت اسلام سے اعراض کرتی ہیں وہ اسی قدر توہمات اور بد شگونیوں کا شکار ہو جاتی ہے۔ یہ انسان کو اندر سے کمزور کر دیتی ہیں اس کے برعکس اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول ﷺکی ذات پر کامل و اکمل یقین انسان کو مضبوط اور مستحکم بنا دیتا ہے پھر انسان کسی دن یامہینے کو منحوس نہیں سمجھتابلکہ ہر خیر و شر کا اللہ کی طرف سے ہونے کا یقین رکھتا ہے۔