(زمانہ گواہ ہے) ’’اسرائیلی جارحیت عالمی طاقتوں کے لیے چیلنج ‘‘ - وسیم احمد

9 /

پاکستان نظریۂ اسلام کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا اور

اُس کاتقاضا ہے کہ اسرائیل کو کبھی بھی تسلیم نہ کیا جائے،

قرآن و حدیث میں واضح رہنمائی ہے کہ یہودو نصاریٰ کبھی

مسلمانوں کے دوست نہیں ہو سکتے :رضاء الحق

پاکستان ، ترکی اور ایران متفقہ طور پر اسرائیل کے خلاف

موقف اپنائیں تووہ غزہ کے حوالے سے عالمی طاقتوں کا

فیصلہ تبدیل کروا سکتے ہیں اور غزہ میں نسل کشی رُک

سکتی ہے : توصیف احمد خان

’’اسرائیلی جارحیت عالمی طاقتوں کے لیے چیلنج ‘‘

پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف تجزیہ نگاروں اور دانشوروں کا اظہار خیال

میز بان : وسیم احمد باجوہ

مرتب : محمد رفیق چودھری

سوال: اسرائیل غزہ میں فلسطینی مسلمانوں کی نسل کُشی جاری رکھے ہوئے ہے جبکہ دوسری طرف مسلم ممالک کے بعض حکمرانوں کے بیانات میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے کچھ نرم گوشہ محسوس ہوتاہے ۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ یہ نرم گوشہ عوام میں بھی ہے یا یہ صرف حکمرانوں کا ہی خاصہ ہے؟
رضاء الحق:غزہ کے مسلمانوں کی نسل کشی کا یہ سلسلہ  7 اکتوبر 2023ء سے بھی پہلے کا ہے۔ 2006ء میں حماس نےالیکشن جیتا اور اسماعیل ہنیہ غزہ کےوزیراعظم منتخب ہوئے لیکن اسرائیل نے ایک دن کے لیے بھی انہیں تسلیم نہیں کیا ۔ اس وقت سے لے کر7 اکتوبر 2023ء تک اسرائیل غزہ پر 15 بڑے حملے کر چکا تھاجن میں ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا ۔ 7 اکتوبر 2023ء کے بعد سے اب تک 22 ماہ ہو چکے ہیں اور اس دوران غزہ کے مسلمانوں کی مسلسل نسل کشی ہورہی ہے جسے دنیا میں لائیو دکھایا جارہا ہے ۔ یہاں تک کہ عالمی عدالت انصاف نے بھی نیتن یاہو کو نسل کشی کا مرتکب اور مجرم قرار دیا۔ فرانسسکو البنیزی نے بھی یہ معاملہ اُٹھایا ہے اور امریکہ میں اُس پر اینٹی سمٹ ازم کا الزام لگا کر بلیک لسٹ کردیا گیا ہے۔ وہ یہودی جو ہولوکاسٹ اور اینٹی سمٹ ازم کا غوغا کرتے ہیں آج وہی غزہ میں نسل کشی کے مرتکب ہیں ۔ غزہ پر مسلسل بمباری کر کے نہ کوئی گھر چھوڑا ، نہ کوئی ہسپتال اور سکول چھوڑا ، یہاں تک کہ پناہ گزین کیمپوں پر بھی بمباری کرکے مسلمانوں کی نسل کشی کی جا رہی ہے ۔ 90 فیصد غزہ تباہ ہو چکا ہے ، 60 ہزار سے زائد مسلمان شہید ہو چکے ہیں اور 1 لاکھ سے زائد زخمی اور معذور ہیں ۔ ٹرمپ کے امریکی صدر بننے کے بعد یہ معاملہ مزید سنگین صورتحال اختیار کر چکا ہے ۔ جنوری میں ٹرمپ نے جو معاہدہ کروایا تھا اس کے تحت انسانی بنیادوں پر امداد اور تعمیر نو کے لیےبھاری مشینری کو غزہ میں جانے کی اجازت دی گئی تھی لیکن اسرائیل نے نہ صرف بھاری مشینری کو جانے سے روکا بلکہ غذائی امداد میں بھی رکاوٹیں کھڑیں کیں ۔ یہاں تک کہ آٹے کے صرف دو یا چار ٹرکس کو جانے دیا جاتاہے اور جب نہتے مسلمان آٹے کے لیے لائنوں میں لگے ہوتے ہیں تو اسرائیل فوجی سنائپر ان پر فائرنگ کرتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اب تک صرف پانی حاصل کرتے ہوئے 700بچے شہید ہو چکے ہیں ۔ دوسری طرف مسلم حکمرانوں کا طرزعمل یہ ہے کہ اُن میں سے بعض نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہوا ہے ۔ اگر 7 اکتوبر کا واقعہ نہ ہوتا تو اب تک باقی بھی کئی مسلم ممالک اسرائیل کو ابراہم اکارڈز کے تحت تسلیم کر چکے ہوتے لیکن 7 اکتوبر کے واقعہ نے عوام کو اسرائیل سے اس قدر متنفر کردیا کہ مسلم حکمران اس کو نظر انداز کرکے اسرائیل کی طرف بڑھنے کی جرأت نہ کرسکے ۔ عوام تو کبھی بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کریں گے لیکن مسلم ممالک میں عوام کی سنی نہیں جاتی ۔ اس وجہ سے دوبارہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی باتیں ہورہی ہیں ۔ 
سوال: اسرائیل اہل غزہ کے لیے امدادی سامان جانے کی جو اجازت دیتاہے اسے بھی جنگی حکمت عملی کے لیے استعمال کرتاہے ۔ جیسے ہی اہل غزہ امداد لینے کے لیے جمع ہوتے ہیں تو اسرائیل اُن پر فائر کھول دیتاہے ۔ اسی طرح ایک بچے پر فائر کرکے اس کو شہید کیاگیا اور بتایا گیا کہ لواحقین کو میت واپس کی جائے گی ۔ جب لواحقین میت  لے کر اس کے گرد جمع ہوئے تو لاش میں چھپائے گئے بم کو بلاسٹ کردیا گیا اور لواحقین سمیت بہت سے لوگ بھی شہید ہوگئے ۔ آپ یہ بتائیں کہ کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ عالمی طاقتیں اسرائیل کے خلاف ایک موقف اپنائیں اور اس کے خلاف کوئی ٹھوس اقدامات کریں؟
توصیف احمد خان:عالمی طاقتوں نے تواپنا موقف اپنایا ہوا ہے ۔ یہی برطانیہ ، امریکہ اور دیگر عالمی طاقتیں  یہودیوں کو فلسطین میں بسانے والی ہیں اورنکبہ جیسے واقعات کے ذریعے وہاں سے زبردستی مسلمانوں کو نکالنے اور اسرائیل کو تسلیم کروانے والی ہیں ۔ اصل میں موقف اپنانے کی ضرورت تو مسلم ممالک کو ہے ۔ اب غزہ میں نکبہ 2  ہورہا ہے ۔ وہ غزہ کو خالی کروانا چاہتے ہیں ۔ اہل غزہ کی نسل کشی کے حوالے سے تمام صہیونی آپس میں متفق ہیں ۔  صرف مسلم ممالک کو کسی فیصلے پر متفق ہونے کی ضرورت ہے ۔ پاکستان ، ترکی اور ایران متفقہ طور پر اسرائیل کے خلاف موقف اپنائیں تووہ عالمی طاقتوں کا فیصلہ بھی    بدل سکتے ہیں اور غزہ میں نسل کشی رُک سکتی ہے ۔ فلسطینی تو 77 سال سے قربانیاں دے رہے ہیں اور اب اسرائیل ان کو مکمل طور پر ختم کرنے کے درپے ہے ۔ اس کے بعد وہ گریٹر اسرائیل کی طرف بڑھتے ہوئے شام پر بھی     حملہ  کرے گا ۔ شام کے ’’ دروز قبائل‘‘ نے اسرائیل کی شہریت حاصل کر رکھی ہے اور اسرائیل ان کو  2017ء  سے فی کس 100 ڈالر ماہانہ تنخواہ دے رہا ہے تاکہ وقت آنے پر وہ شام میں اسرائیل کی جنگ لڑ سکیں۔ ان کا پیشوا گولان میں بیٹھا ہوا ۔ ترکیہ کی بھی شام میں پراکسی ہے ۔ وہ ان سے کام کیوں نہیں لے رہا ؟ صرف بیانات دینے سے تو کچھ نہیں ہوتا ۔ ترکیہ ، ایران اور پاکستان مل کر کوئی فیصلہ کریں اور 48 گھنٹے کا الٹی میٹم دے دیں تو اسرائیل مذاکرات کی میز پرآجائے گا ورنہ عرب ممالک تو کچھ نہیں کریں گے ۔ ان کی بادشاہتیں  برطانیہ اور امریکہ کے طفیل چل رہی ہیں ، اس لیے وہ اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں ۔ اردن میں 70 فیصد فلسطینی ہیں ، مصر میں اخوان کی بڑی تعداد موجود ہے لیکن دونوں  ممالک کی حکومتیں اسرائیل کی حفاظت کررہی ہیں اور بدلے میں ان کو ڈیڑھ ڈیڑھ ارب ڈالرز امریکہ کی جانب سے ملتے ہیں ۔ اصل میں فیصلہ مسلم ممالک نے کرنا ہے ۔ 
سوال: ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے پہلے دور حکومت میں اسرائیل کو تسلیم کروانے کے لیے ابراہم کارڈز کے نام سے ایک منصوبہ متعارف کروایا ۔بعض مسلم ممالک نے اس ڈیل کو قبول کیا اور اسے ڈیل آف دی سینچری کا نام دیا گیا۔ اس کے بعد انہوںنےیروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت بنادیا ۔ اپنے حالیہ دور حکومت میں ٹرمپ نے ابراہم اکارڈز منصوبے پر دوبارہ کام شروع کیا ہے اور پاکستان، سعودی عرب اور دیگر کئی مسلم ممالک پر بھی دباؤ  بڑھ رہا ہے۔ یہ بتائیے کہ امریکہ کے ابراہم اکارڈزکے  پس پردہ کیا مفادات ہیں ؟
رضاء الحق: اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اسرائیل آج بھی ایک ناجائز ریاست ہے ۔ اس نے فلسطین پر ناجائز قبضہ کیا ہوا ہے ۔ ابراہم اکارڈزدراصل اس ناجائز قبضے کو جائز تسلیم کروانے کا ایک منصوبہ ہے ۔ 2019ء میں بحرین میں پیس ٹو پراسپیرٹی کے نام سے ایک کانفرنس ہوئی تھی جس میں100 مسلم ممالک کے وزرائے خارجہ نے شرکت کی تھی ۔ اس میں 100 صفحات پر مشتمل ایک ڈاکومنٹ ٹرمپ کی جانب سے پیش کیا گیا تھا۔ یہ ڈاکو منٹ ٹرمپ کے یہودی داماد کشنر نے تیار کیا تھا۔ پہلے مرحلے میں UAE، بحرین ، عمان وغیرہ کی جانب سے اس منصوبے کی حمایت کی گئی ۔ اس کے بعد سوڈان اور مراکش نے بھی تسلیم کرلیا ۔ ترکی نے پہلے ہی تسلیم کیا ہوا ہےجبکہ مصر نے بھی کیمپ ڈیوڈ معاہدہ میں اسرائیل کو تسلیم کرلیا تھا ۔ دراصل پیس ٹو پراسپیرٹی بھی ایک دھوکہ تھا ۔ اس میں طے ہوا تھا کہ 75 فیصد مغربی کنارے کو اسرائیل میں ضم کردیا جائے گا ، باقی 25 فیصد علاقے پر فلسطینی اتھارٹی بنائی جائے گی جس کی نہ اپنی فوج ہو ، نہ پولیس ہواور نہ ہی اختیار ہو بلکہ اصل کنٹرول اسرائیل کا ہی رہے ۔اس معاہدے کے مطابق فلسطینی اتھارٹی کا دوسرا حصہ غزہ تصور کیا گیا تھا اور طے ہوا تھا کہ دونوں مسلم آبادیوں کو درمیان میں موجود اسرائیل سے نہیں گزرنے دیا جائے گابلکہ ان کی آمدورفت کے لیے30 کلومیٹر طویل زیر زمین سرنگ کھودی جائے گی ۔ بہرحال یہ منصوبہ کامیاب نہ ہو سکا ۔ دراصل اسرائیل فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہے ، وہ گریٹر اسرائیل کی بات کرتاہے اور دریائے نیل سے دریائے فرات تک کے سارے علاقے پر قبضہ کرنا چاہتا ہے ۔ عرب ممالک کے پاس اتنی طاقت نہیں ہے کہ وہ اسرائیل کو روک سکیں ۔ اگر پاکستان ، ترکی ، ایران اور افغانستان مل کر کوئی قدم اُٹھائیں تو رکاوٹ بن سکتے ہیں ۔ پاکستان ابراہم اکارڈز میں نہیں جا سکتا کیونکہ اگر پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرے گا تو اُسے کشمیر پر بھارتی قبضے کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا ۔ پھر یہ کہ صہیونی تحریک دراصل اپنے مسایاح کے انتظار میں ہے جوکہ دجال ہوگا ۔ اس کے لیے وہ تھرڈ ٹیمپل تعمیر کرنا چاہتے ہیں تاکہ دجال وہاں سے پوری دنیا پر حکومت کرے گا ۔ ہینری فورڈ نے 1930ء میں کہا تھا کہ صہیونیوں کے پروٹوکولز میں جو کچھ طے ہوا تھا اس کے مطابق وہ آگے بڑھ رہے ہیں ۔ دجال کی حکومت کو تسلیم کروانے کے لیے بھی ضروری ہے کہ مسلم ممالک اسرائیل کو تسلیم کرلیں۔ اسی وجہ سے مسلم ممالک پر دباؤ بڑھ رہا ہے ۔ 
توصیف احمد خان:ابراہم ریکارڈ کواس لیے لایا گیا ہے تاکہ مسلم ممالک نیوٹرلائز ہو جائیں اور مسئلہ فلسطین کو نظر انداز کر دیا جائے ۔ اس طریقے سے وہ اسرائیل کا مشرق وسطیٰ میں تسلط قائم کرنا چاہتے ہیں کہ وہ جو مرضی ہے کرتا رہے اس کے خلاف کوئی اقدام نہ کیا جائے ۔ سعودی عرب پاکستان کے بغیر اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا ۔ 
سوال:اگر سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کرلیتا ہے تو پھر کیا پاکستان کی اتنی ضرورت رہے گی؟
توصیف احمد خان: عرب ممالک تو پہلے ہی نیوٹرلائز ہیں ، وہ اندرن ِ خانہ اسرائیل سے تعلقات بھی بڑھا رہے ہیں لیکن پاکستان کی اپنی جگہ اہمیت ہے ، یہ ایک ایٹمی طاقت ہے اور عسکری لحاظ سے بھی طاقتور ہے لہٰذا اسرائیل اور امریکہ پاکستان کو جوہری لحاظ سے کسی مناسب وقت پر نیوٹرلائز کرنے کی کوشش کریں گے ۔  نیتن یاہوکا بیان تھا کہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت ختم ہونی چاہیے بلکہ بھارت کے راستے اُس نے دو مرتبہ کہوٹہ پر  حملہ بھی کیا ۔ اسرائیل کو اصل خطرہ پاکستان اور ایران سے ہے ۔ عرب ممالک سے کوئی خطرہ نہیں ہے ۔ 
سوال: زمینی حقائق یہ ہیں کہ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت امریکہ اور چین کے درمیان سینڈوچ بن کر رہ گئی ہے ،  ان حالات میں آپ حکومت کو کیا مشورہ دیں گے؟
رضاء الحق: آج سے 20 سال پہلےامریکہ دنیا    میں واحد بڑی طاقت تھا۔ لیکن اب چین اقتصادی اور عسکری لحاظ سے بہت بڑی طاقت بن چکا ہے ۔ حالیہ پاک بھارت جنگ میں بھی امریکہ اور اسرائیل کی ٹیکنالوجی کے مقابلے میں چین کی ٹیکنالوجی کو برتری حاصل ہوئی ہے۔ دنیا نے دیکھ لیاہے ۔ اب پاکستان اور چین کے درمیان ٹیکنالوجی کے لحاظ سے تعاون پہلے سے کئی گنا بڑھ گیا ہے۔ خاص طور پر ملٹری ہارڈویئر اور سافٹ ویئر کے لحاظ سے اب پاکستان امریکہ کاماضی کی طرح محتاج نہیں رہا ۔ البتہ عالمی ادارے ابھی بھی امریکہ کے کنٹرول میں ہیں ۔ ہم نے اگر IMFسے قرضہ لینا ہوگا تو امریکہ سے منظوری لینا پڑے گی ۔ امریکہ IMFکی شرائط کے ذریعے ہم سے مطالبات منوا سکتاہے ۔ اس لحاظ سے ہم سینڈوچ تو بنے ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود ہمیں پاکستان کے وسیع تر مفاد میں فیصلے کرنے ہوں گے ۔ دوسری طرف امریکہ اور اسرائیل بھارت کا بھی ساتھ دے رہے ہیں ، کیا ان حالات میں ہمیں امریکہ پر بھروسا کرنا چاہیے ؟
توصیف احمد خان: ہم نے تو امریکہ کو نہیں چھوڑا ۔ ہماری اشرافیہ کی تو لائف لائن ہی امریکہ ہے ۔ لیکن امریکہ نے ہمیشہ ہمیںبیچ منجدھار میں چھوڑ دیا اور کبھی ہم پر اعتماد نہیں کیا ۔ دوسری طرف بھارت اسرائیل ، امریکہ ، فرانس وغیرہ سے اسلحہ لیتا ہے، ہم نے بھی چین سے اگر لیا تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ ہمیں اپنے ملکی مفاد میں ہی فیصلہ کرناچا ہیے ۔ چین ہمیشہ یہی کہتاہے کہ امریکہ سے تعلق رکھیں مگر جنگ سے بچیں ، ملک میں امن قائم کریں ،اپنے مسائل مل بیٹھ کر حل کریں اور ترقی کے ذریعے امن اور ترقی حاصل کریں۔ اسی لیے SCOفورم کو استعمال کرتے ہوئے چین نے دو مرتبہ بھارت کو تجویز دی کہ پاکستان ، انڈیا ، چین مل بیٹھ کر اپنے معاملات حل کریں اور مل کر  ترقی کریں ۔ چین کے سابق صدر ڈنگ شاؤ پنگ نے    راجیو گاندھی کے دور میں بھارت کا دورہ کرکے یہ بات بتائی تھی کہ اگلی صدی ایشیا کی صدی ہے اور انڈیا اور چین آپس میں اتحاد کرکے اور باقی چھوٹے ممالک کو بھی ساتھ ملا کر بلاک بنائیں اور مل کر ترقی کریں ۔ چین اور روس اس لیے زیادہ قابل بھروسا ہیں کہ یہ اپنے اتحادی ممالک کی سکیورٹی اور ترقی کو ترجیح دیتے ہیں اور ان میں مداخلت نہیں کرتے ۔ جبکہ امریکہ کے دوستوں کوخود امریکہ سے سب سے بڑھ کر خطرہ لاحق ہوتاہے ۔ 
سوال: تنظیم اسلامی کی شروع دن سے یہ پالیسی ہے کہ ناجائز صہیونی ریاست کو کسی صورت تسلیم نہیں کرنا چاہیے ، یہاں تک کہ باقی مسلم ممالک اگر اسرائیل کو تسلیم کرلیں تو تب بھی پاکستان کو کسی صورت میں اسرائیل کو تسلیم نہیں کرناچاہیے۔ تنظیم اسلامی کے اس موقف کی بنیادیں کیا ہیں؟
رضاء الحق: ڈاکٹر اسرار احمدؒ اکثرفرمایا کرتے تھے کہ اگر ساری دنیا بھی اسرائیل کو تسلیم کر لے توپھر بھی پاکستان کواسرائیل کو تسلیم نہیں کرنا چاہیے۔اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان جس نظریہ کی بنیاد پر بنا ہے وہ اسلام ہے اور اسلام کا تقاضا ہے کہ اسرائیل کو کبھی بھی تسلیم نہ کیا جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بار بار یہود و نصاریٰ کو دوست(ولی) بنانے سے منع کیا ہے ۔ یہاں تک کہ بالکل آغاز میں سورہ فاتحہ ہے جس کو ہم ہر نماز کی ہر رکعت میں پڑھتے ہیں ، اس میں بھی بنی اسرائیل کو مغضوب علیہم قراردیا گیا ہے ۔ احادیث میں اس کی وضاحت موجود ہے اس سے مراد یہود ہیں جن پر اللہ کا غضب نازل ہوا ۔ اس لیے کہ انہوں نے جان بوجھ کر اللہ کے راستے کو چھوڑ ا اور شیطان کے راستے پر چل پڑے ۔ قرآن میں ہے کہ یہ نبی کریم ﷺ کو ایسے پہچانتے ہیں جیسے کوئی اپنی اولاد کو پہچانتا ہےکیونکہ پہلی آسمانی کتابوں میں آپ ﷺ کی بشارتیں موجود تھیں مگر اس کے باوجود انہوں نے آپ ﷺ کا انکار کیا ۔جس طرح شیطان نے اپنے تکبر اور حسد کی وجہ سے آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کیا اسی طرح یہود بھی اپنے تکبر اور حسد کی وجہ سے شیطان کے ساتھی بن گئے ۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
{لَـتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَۃً لِّـلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الْیَہُوْدَ وَالَّذِیْنَ اَشْرَکُوْاج } (المائدہ:82)
’’تم لازماًپائو گے اہل ِایمان کے حق میں شدید ترین دشمن یہود کو اور ان کو جو مشرک ہیں۔‘‘
یہود اہل کتاب ہونے کے باوجود اپنے حسداور تکبر کی وجہ سے مشرکوں سے بڑھ کر اسلام اور مسلمانوں کے دشمن ہیں ۔ اسی طرح قرآن میں فرمایا :
{یٰٓــاَیـُّـہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَـتَّخِذُوا الْیَہُوْدَ وَالنَّصٰرٰٓی اَوْلِـیَـآئَ م  بَعْضُہُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍ ط} (المائدہ:51)’’اے ایمان والو!یہودو نصاریٰ کو اپنا  دلی دوست(حمایتی اور پشت پناہ) نہ بنا ئو۔ وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دیا کہ یہود و نصاریٰ ہمارے کبھی دوست ہو ہی نہیں سکتے ۔ ان کی دوستیاں اور ان کی خیرخواہیاں ہمیشہ مسلمانوں کے دشمنوں کےساتھ رہیں  گی۔ یہ قرآن مجید کی سچی پیشین گوئی ہے۔ آج سے دو صدیاں قبل تک کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہود ونصاریٰ آپس میں کبھی دوست ہوں گے کیونکہ ان کی ہمیشہ آپس میں دشمنی رہی ۔ لیکن آج قرآن کی یہ پیشین گوئی سچ ثابت ہورہی ہے ۔ اسی طرح اللہ کے رسول ﷺ کی حدیث کا مفہوم ہے کہ : تم اہل عرب سے جنگ کرو گے اللہ تعالیٰ تمہیں فتح دے گا ، پھر تم اہل فارس سے جنگ کرو گے اللہ تعالیٰ تمہیں فتح عطا فرمائے گا، پھر تمہاری رومیوں سے جنگ ہوگی اللہ تعالیٰ تمہیں فتح عطا فرمائے گااور پھر تمہاری دجال سے جنگ ہوگی اور اللہ تعالیٰ تمہیں فتح عطا فرمائے گا۔( صحیح بخاری) 
لہٰذا قرآن و حدیث کی روشنی میں اگر ہم دیکھیں تو یہود کے ساتھ دوستی کی اجازت اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے بالکل نہیں ہے۔ سیاسی لحاظ سے دیکھیں تو تحریک پاکستان میں شروع سے ہی اسرائیل کی مخالفت کی گئی ۔ 1919ء میں علامہ اقبال نے فلسطین میں لاکر یہودیوں کو بسانے کی برطانوی پالیسی کی مذمت کی تھی اور فرمایا تھا کہ فلسطین کو فلسطینیوں کے پاس ہی رہنا چاہیے ۔ پھر جب بالفور ڈکلیریشن پاس ہوا تو اس میں بھی لکھا ہوا تھا کہ فلسطین میں پہلے سے موجود مسلمانوں اور عیسائیوں کو ان کے حقوق سے محروم نہیں کیا جائے گا مگر اسرائیل نے اس کی بھی خلاف ورزی کی ۔ اسی طرح قیام پاکستان کے بعد قائداعظم نے ایک انٹرویو میں فرمایا تھا کہ اسرائیل مغرب کا ناجائز بچہ ہے ۔ جب تک ایک بھی مسلمان زندہ ہے، وہ فلسطین میں یہودی ریاست کو تسلیم نہیں کرے گا ۔ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان جب امریکہ کے دورے پر گئے تو وہاں  یہودیوں نے ان سے فرمائش کی کہ اگر پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرلے تو اس کی معاشی ترقی کے لیے بڑی رقم دی جائے گی۔ لیاقت علی خان نے تاریخ الفاظ کہے : " Gentlemen! Our souls are not for sale."۔ ان تاریخی حقائق کی روشنی میں پاکستان کی پالیسی پہلے دن سے ہی واضح ہے کہ کسی صورت اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا جائے گا ۔ اسی طرح اگر ہم اخلاقی طور پر بھی دیکھیں تو اسرائیل ناجائز طور پر فلسطین پر قابض ہے ۔ اگر ہم اس کو تسلیم کرلیں تو کل ہمیں کشمیر پر بھارتی قبضہ کو بھی جائز تسلیم کرنا پڑے گا ۔ لہٰذا تنظیم اسلامی کا موقف واضح ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنا پاکستان کے لیے نہ تو مذہبی لحاظ سے جائز ہے اور نہ سیاسی اور اخلاقی لحاظ سے اس کی کوئی گنجائش موجود ہے ۔