بیت المقدس ہمارا قبلہ اوّل ہے ، اُس پر صہیونی قبضہ
کو کس طرح تسلیم کیا جاسکتاہے ؟
ہمارے حکمرانوں کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ امریکہ، اسرائیل
کے کہنے پراگر ایران پر حملہ کر سکتاہے تو پاکستان کو کیوں کر
بخش دے گا ، 34 مسلم ممالک کی مشترکہ فوج نہ تو غزہ میں
نظر آئی اور نہ ہی اُمت کے دفاع میں ، شاید یہ اس کا مقصد ہی
نہیں تھا ، عالمی سطح پر جو حالا ت پیدا ہوچکے ہیں وہ تیسری
عالمی جنگ کے دروازے پر دستک دے رہے ہیں ،تمام
مکاتب ِفکر کے متفقہ ترجمۂ قرآن کی اشاعت اور نصاب میں شمولیت
وہ عظیم کارنامہ ہے جو پاکستان کے حصے میں آیا ۔ الحمد للہ
خصوصی پروگرام’’ امیر سے ملاقات‘‘ میں
امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ کے رفقائے تنظیم و احباب کے سوالوں کے جوابات
میزبان :آصف حمید
سوال: اس وقت دنیا کے حالات تیزی سے بدل رہے ہیں۔باطل قوتیں تیزی سے اپنے اہداف کی طرف بڑھ رہی ہیں ۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ایران کے بعد پاکستان کی باری بھی آئے گی اور اس حوالے سے بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسراراحمدؒ کا ایک کلپ بھی وائرل ہورہا ہے جس میں یہ کہا گیا تھا کہ ایران کے بعد پاکستان کی باری بھی آئے گی لیکن فی الحال تو ایران نے اُن کو منہ توڑ جواب دیا ہے اور وہ ایران میں اپنے اہداف حاصل نہیں کر سکے ۔ اس تناظر میں آپ بتائیے کہ پاکستان کی باری کی بات کس حد تک درست ہے؟
امیر تنظیم اسلامی:ایران نے تو ابھی ایٹمی صلاحیت کی طرف صرف پیش رفت ہی کی تھی کہ اسرائیل اور امریکہ نے اُس پر حملہ کردیا جبکہ پاکستان تو باقاعدہ ایٹمی قوت ہے ، 170 سےزائد نیوکلیئر وار ہیڈز ہمارے پاس ہیں ۔ لہٰذا پاکستان تو ان کی نظر میں سب سے بڑا دشمن ہے۔ مزید برآں یہ ملک اسلام کے نام پر بنا ہے ، تمام تر کوتاہیوں کے باوجود بہرحال یہاں کے عوام میں اسلام کا درد موجود ہے۔ اِس خطہ میں اسلام کے احیا کی تحریکوں کا پس منظر صدیوں پر مشتمل ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے اسرائیلی وزیراعظم بن گوریان نے کہا تھا کہ ہمیں عربوں سے کوئی خطرہ نہیں ہے بلکہ ہمارا اصل نظریاتی دشمن پاکستان ہے ۔ نیتن یاہو بار بار کہتا ہے کہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت اور میزائل ٹیکنالوجی ختم ہونی چاہیے۔ اسرائیل کا فطری اتحادی بھارت بھی یہی چاہتاہے ۔ ایران سے پہلے عراق اور لیبیا نے جوہری صلاحیت حاصل کرنے کی کوشش کی تو اُنہیں تباہ کر دیا گیا ۔ اِس لیے کہ صہیونی گریٹر اسرائیل کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں چاہتے ۔ ہمارے حکمرانوں کو بھی سوچنا چاہیے کہ وہ پاکستان کو کیوںکر برداشت کریں گے ۔ امریکہ اگر اسرائیل کی خاطر ایران پر حملہ کر سکتا ہے تو وہ کل اسرائیل کے کہنے پر پاکستان کو معاف کردے گا ؟ایران نے اگرچہ نقصان بھی اُٹھایا ہے لیکن اُس نے جو منہ توڑ جواب دیا ہے اوراسرائیل میں بھی عمارتیں گرتی اور ملبے کا ڈھیر بنتی ہوئی اہل غزہ نے دیکھی ہیں اور اسرائیل کا زعم ٹوٹا ہے ۔ لہٰذا باقی امت کو بھی ہمت کرنی چاہیے اور دلیرانہ فیصلے کرنے چاہئیں ۔ اگر ہم نے 34 ملکوں کی فوج بنا ڈالی تھی تو آج آگے بڑھ کر اُس میں دیگر مسلم ممالک کو بھی شامل کرنا چاہیے ۔ پھر ڈاکٹر صاحبؒ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ اس خطے کے مسلمانوں کا مستقبل میں اہم رول ہوگا کیونکہ احادیث میں خراسان سے اسلامی لشکروں کا ذکر ہے جو دجالی فوج کے خلاف لڑیں گے ۔ اس حوالے سے ڈاکٹر صاحب PIAاتحاد کی بات بھی کرتے تھے جو پاکستان ، ایران اور افغانستان پر مشتمل ہو سکتا ہے اور اس میں بھی لیڈنگ رول پاکستان ادا کر سکتاہے ۔ ہمارے وزیر اعظم صاحب اور فیلڈ مارشل صاحب امریکہ اور یورپ کے دورے کر سکتے ہیں تو اُنہیں مسلم ممالک کے دورے کرکے ایک اتحاد بنانے کی کوشش بھی کرنی چاہیے ۔ اللہ کے رسول ﷺ کے اُمتی کی حیثیت سے وہ کردار بھی ہمیں ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جس کا ذکر احادیث میں کیا گیا ہے اور جو مستقبل میں اِس خطے کے مسلمانوں کا رول ہوگا ۔ ان شاء اللہ !
سوال: 34 ملکوں کی جو فوج بنی تھی ، وہ نہ غزہ میں نظر آئی اور نہ ہی کہیں اور اُمت کے لیے لڑتی ہوئی نظر آئی ۔ شاید وہ بنی ہی کسی اور مقصد کے لیے تھی اور شاید وہ مقصد یہ تھا کہ اگر مسلم ممالک کے عوام امریکی مفادات کے خلاف کھڑے ہوجائیں یا اسلام کے نظام کی بات کریں تو یہ افواج اُن کے خلاف حرکت میں آجائیں ؟
امیر تنظیم اسلامی:بالکل اس کا مقصد یہ بھی ہوسکتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ایران کے خطرے کو بھی بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا تھا ۔ بہرحال ایران سے بھی غلطیاں ہوئی ہیں اور گریٹر ایران کا منصوبہ بھی اپنی جگہ رہا ہے ۔تاہم اُن کے نزدیک بڑا خطرہ یہی تھا کہ اسلامی جذبات رکھنے والے لوگ کھڑے نہ ہو جائیں اور امریکہ ناراض نہ ہو جائے ۔ امریکہ کو خوش کرنے کے لیے مسلم ممالک نے اربوں ڈالرز کے تحائف ٹرمپ کو دئیے ہیں ، کھربوں ڈالرز کے معاہدے کیے ہیں ، لیکن پڑوس میں غزہ ہے اور وہاں بچے، بچیاں، بوڑھے، عورتیں ذبح ہو رہے ہوں اوریہ مشترکہ فوج حرکت میں نہیں آرہی تو اس کا مطلب یہی ہے کہ اس فوج کے مقاصد کچھ اور تھے ۔ یہ دراصل وہن کی بیماری ہے جس کاذکر حدیث میں ہوا :
((حُبُّ الدُّنْیَا و کَرَاھِیَۃُ الْمَوْتِ)) جب اُمت میں یہ کیفیت پیدا ہو جائے تو پھر اس کا حشر بھی یہی ہوگا جو ہورہا ہے ۔
سوال: جب اسرائیل اور ایران کے درمیان سیز فائر ہوا تو اس کے بعد سے غزہ پر جو مزید قیامت ڈھائی جا رہی ہےکہ خوراک تقسیم کرنے والی این جی اوز خوراک میں زہر ملا کر اہل غزہ کو دے رہی ہیں ، کیا یہ امریکہ کے قیام امن کے دعوؤں کے خلاف نہیں ؟ اور کیا یہ بدترین ظلم نہیں ؟
امیر تنظیم اسلامی:بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسراراحمدؒ فرماتے تھے کہ انسانیت کے سب سے بڑے دشمن یہود ہیں اور اُن کی حرکتوں سے انسانیت بھی شرما جائے گی ۔ آج یہ بات سچ ثابت ہورہی ہے ۔ جہاں تک ٹرمپ کی بات ہے تو ایک طرف وہ جنگیں ختم کرنے کی بات کرتا ہے اور دوسری طرف جب غزہ میں جنگ بندی کے حوالے سے قرارداد پیش ہوتی ہے تو اس کو ویٹو کردیتا ہے ۔ اب تو کھلم کھلا اہل غزہ کے انخلاء کی باتیں ہو رہی ہیں ، اُنہیں غزہ کو خالی کرنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں ۔ اس ساری کذب بیانی اور شرمناک کردار سے امریکہ کا نقاب بھی اُتر چکا ہے ۔ اس کے بعد بھی ہمارے حکمران اگر دھوکہ کھاتے ہیں تو یہ اُن کی بڑی نالائقی ہوگی ۔
سوال: ہم دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے حکمرانوں کو ہدایت دے۔امریکہ نہیں چاہتا کہ پاکستان کو کوئی بھی عسکری فائدہ ہو ، جب پاکستان ایٹمی دھماکے کرنے والا تھا تو اُس وقت بھی امریکہ نے بہت ڈرایا دھمکایا اور لالچ بھی دی ۔شاید ہمارے مقتدر حلقوں کو اِس بات کا اندازہ بھی ہے یہی وجہ ہے کہ امریکہ کی مخالفت کے باجود ہم نے جوہری صلاحیت بھی حاصل کرلی ، میزائل ٹیکنالوجی بھی حاصل کرلی اور اب طیارے بھی بنانے شروع کردئیے ۔ کیا یہ بات درست ہے ؟
امیر تنظیم اسلامی:ڈاکٹراسراراحمدؒ مختلف پہلوؤں پرکلام کرتے ہوئے یہ ذکر بھی کرتے تھے کہ پاکستان بہرحال ایک مملکتِ خداداد ہے ، اگرچہ اس کو نقصان پہنچانے والوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اس کی ہر مشکل وقت میں حفاظت بھی کی اور چھپڑ پھاڑ کر جوہری صلاحیت بھی دے دی اور اس کو قائم رکھا ۔ شاید اس کے پس پردہ کوئی مصلحت ِخداوندی ہے ۔ خراسان کے تناظر میں وہ احادیث کی روشنی میں فرماتے تھے کہ اس خطے کا اہم رول ہوگا ۔ شاید اسی لیے یہ خطہ احیائے اسلام کی تحریکوں کی 400 سالہ مساعی کا امین ہے ۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتاہے :
{وَمَکَرُوْا وَمَکَرَ اللہُ ط وَاللہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَ 54} (آل عمران) ’’اب اُنہوں نے بھی چالیں چلیں اور اللہ نے بھی چال چلی۔اور اللہ تعالیٰ بہترین چال چلنے والا ہے۔‘‘
یقیناً اس وقت تک بھی اللہ ہی نے بچا کر رکھا ہے ورنہ کہوٹہ پر حملے کے پلان اسرائیل اور بھارت مل کر بناتے رہے، دشمنوں نے مٹانے کی ہر ممکن کوشش کی ۔ حالیہ پاک بھارت معرکہ میں بھی دنیا حیران ہے کہ کس طرح بھارت کو منہ کی کھانا پڑی ۔ البتہ ہم کسی خوش فہمی میں نہ رہیں بلکہ اپنی حرکتوں کی طرف بھی توجہ کریں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
{اِنَّ اللہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا}(النحل:128)’’یقیناً اللہ اہل ِتقویٰ کے ساتھ ہے۔‘‘
سرکشوں اور باغیوں کو اللہ کی مدد اور معیت حاصل نہیں ہوتی ۔ لہٰذا ایک طرف اللہ کا شکر ادا کریں کہ ہماری تمام تر کوتاہیوں کے باوجود ملک کو اللہ نے محفوظ رکھااور دوسری طرف عسکری لحاظ سے مضبوط بھی کیا ۔ آج جس کے ہاتھ میں جتنا اختیار اور اقتدار ہے وہ اتنا ہی اُمت کا نمائندہ ہے اور اُمت کی اِس امانت کا وہ امین بھی ہے ۔ اُس کو اُتنی ہی پاکستان کی جوہری اور عسکری صلاحیت کی حفاظت کرنی چاہیے اور اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے اس ملک کو کسی بڑے مقصد کے تحت ہمیں عطا کیا ہے اور اس کو جتنی طاقت اور صلاحیت دی ہے وہ بھی کسی بڑے مقصد کے تحت ہے ۔ مستقبل میں اِس ملک سے کوئی بڑا کام بھی لیا جاسکتا ہے لہٰذا اس کی حفاظت ہم سب کی ذمہ داری ہے ۔
سوال: ڈاکٹر اسراراحمدؒ کی ویڈیوز ہر طبقہ کے لوگوں تک پہنچ رہی ہیں جن میں احادیث کی روشنی میں مستقبل کا منظر نامہ بیان ہوا اور لوگوں کو پتہ چلا ہے کہ اس خطے کی مستقبل کے حوالے سے کوئی اہمیت ہے یا مشرق وسطیٰ میں کیا ہونے والا ہے ۔ ورنہ پہلے تو لوگوں کو معلوم ہی نہیں تھا ۔ یہ ڈاکٹر صاحب ؒ کا کتنا بڑا کام ہے ؟
امیر تنظیم اسلامی:ڈاکٹر صاحبؒ یہ بھی فرماتے تھے کہ ہمارے جو خالص دینی طبقات ہیں ، جہاں مدارس بھی ہیں ، فقہ کی تعلیم بھی ہے ، قرآن وسنت کی تعلیم بھی ہے، وہاں بھی دورِ فتن کی اِن احادیث کااِس طریقے سے مطالعہ نہیں کروایا جارہا ہے جیسا کہ وقت کا تقاضا ہے ۔ شاید اِس کی وجہ یہ ہے کہ دورِفتن کے ابواب آخر میں آتے ہیں ، شروع میں عقائد اور ایمانیات کا بیان آتاہے ، فقہی مسائل کا استنباط بھی کرنا پڑتا ہے لہٰذا کتابِ فتن تک پہنچتے پہنچتے کافی وقت لگ جاتا ہے ، اس لیے شاید اِن احادیث کےمطالعے پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی جن میں غزوہ ہند کا بھی ذکر ہے ، خراسان کے اسلامی لشکروں کا بھی ذکر ہے ۔اِسی طرح دجال اور فتنہ دجال ، حضرت مہدیؒ اور عیسیٰ علیہ السلام کی آمد اور پھر پورے روئے ارضی پر خلافت کے قیام کا بیان ہے ۔ یہ کام اللہ تعالیٰ نے ڈاکٹر اسراراحمدؒ سے لیا ۔اُن کی دیکھا دیکھی اب کچھ علماء نے بھی اِس طرف توجہ کی ہے ۔ہم سمجھتے ہیں کہ اِن موضوعات کو اب عام کرنے کی ضرورت ہے ۔ اگر اسرائیل کا ہر شہری گریٹر اسرائیل کے جھوٹے بیانیے کو پھیلا رہا ہے تو پھر مسلمانوں کو بھی قرآن و حدیث میں بیان کیے گئے مستقبل کے حالات کا علم ہونا چاہیے ۔ حالانکہ ہمارا دعویٰ ہے کہ ہمارے پاس اللہ کا سچا کلام ہے اور محمد ﷺ الصادق و مَصدوق ہیں، جن کی سچی پیشین گوئیاں ہمارے پاس موجود ہیں ۔لہٰذا اُمت مسلمہ کے ہر فرد کو ان کا علم ہوناچاہیے کہ بالآخر اسلام کاہی غلبہ ہوگا اور ہر مسلمان کو اِس کے لیے جدوجہد کرنا ہے ۔
سوال: ابراہیم اکارڈ 2 کی بحث آج کل ہمارے ملک میں بھی چھیڑ دی گئی ہے جس کا مقصد اسرائیل کو تسلیم کرنا ہے ، کہا جارہا ہے کہ سعودی عرب، ترکی اور پاکستان ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ کون ہمت کرکے پہلا قطرہ بنتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان اسرائیل کو کیوں تسلیم کرے کیااس حوالے سے کوئی مثبت پہلو ہے ؟
امیر تنظیم اسلامی:ملائشیا کے سابق وزیر اعظم مہاتیر محمد سے بھی ایک انٹرویو میں سوال پوچھا گیاتھا کہ آپ اسرائیل کوتسلیم کیوں نہیں کر تے؟ اُنہوں نے بھی وہی جواب دیا جو قائداعظم کا مؤقف تھا کہ اسرائیل مغرب کا ناجائز بچہ ہے ، اُس نے ناجائز طور پر فلسطین پر قبضہ کیا ہے ۔ قائداعظم کے اسی موقف پر شروع دن سے پاکستان کی پالیسی ہےکہ وہ کبھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا ۔ قیام ِپاکستان کے بعد جب لیاقت علی خان وزیر اعظم پاکستان کی حیثیت سے امریکہ گئے تھے تو اُن کو یہودیوں نے پیشکش کی تھی کہ اگر پاکستان، اسرائیل کو تسلیم کرلے تو اس کو دولت سے مالا کر دیا جائے گا۔ لیاقت علی خان نے تاریخی جواب دیا تھا کہ : "Gentlemen! Our souls are not for sale."بیت المقدس ہمارا قبلہ اوّل ہے ، اِس پر قبضہ کس طرح تسلیم کیا جاسکتاہے ؟ پھر یہ کہ اللہ کے رسول ﷺ کی معراج بیت المقدس سے ہوئی۔ اسی طرح بیت المقدس کا چارج عیسائی پادریوں نے خود خلیفۂ دوم حضرت عمر فاروق کے حوالے کیا۔ عیسائی پادریوں نے یہ کام پُرامن طور پر کیا کیونکہ ان کی مذہبی کتب میں اس کی بشارت موجود تھی۔اُنہوں نے معاہدے میں شرط رکھی تھی کہ یہودیوں کو یہاں آباد نہیں کیا جائے گا ۔ صہیونیوں نے تو دھونس ، دھاندلی اور بدمعاشی کے ذریعے فلسطین پر قبضہ کیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں یہود کو مغضوب علیہم قراردیا ہے ۔ ہر نماز کی ہر رکعت میں ہم یہ پڑھتے ہیں تو پھر کیسے اس کے خلاف عمل کرسکتے ہیں ۔اسی طرح قرآن مجید میں تقریباً 150 آیات میں بنی اسرائیل کے جرائم کو اللہ تعالیٰ نے بیان کرتے ہوئے اُن کو سخت چارج شیٹ کیا ہے ۔ اسی لیے ڈاکٹر اسراراحمدؒ فرماتے تھے کہ اگر ساری دنیا بھی اسرائیل کو تسلیم کرلے تو پاکستان کو پھر بھی نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اسرائیل کا علاج پاکستان ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ہر بیماری کا علاج پیدا کیا ہے اور پاکستان تواسرائیل سے پہلے بنا ہے ۔ اگر آج اسرائیل کو تسلیم کرتے ہیں تو کل گریٹر اسرائیل کے راستے میں رکاوٹ کیسے بنیں گے ۔ امریکہ ، اسرائیل اور انڈیا پر مشتمل شیطانی مثلث کیا پاکستان کو بھول جائے گی ؟ اللہ تعالیٰ نے تو پہلے سے ہی بتا دیا تھا :
{لَـتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَۃً لِّـلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الْیَہُوْدَ وَالَّذِیْنَ اَشْرَکُوْاج}(المائدہ:82)
’’تم لازماًپائو گے اہل ِایمان کے حق میں شدید ترین دشمن یہود کو اور اُن کو جو مشرک ہیں۔‘‘آج یہود و ہنود کا یہ گٹھ جوڑ کھل کر سامنے آگیا ہے ۔
سوال:نریندر مودی تقریباً 7 بار کہہ چکا ہے کہ سندور 2 لازماً ہوگا ۔ کیا بھارت پھر سے پاکستان پر حملے کی تیاری کر رہا ہے؟
امیر تنظیم اسلامی: پہلی بات یہ ہے کہ ہندو بنیا کبھی بھی پاکستان کا وجود تسلیم نہیں کرے گا ۔ اس کا دل پاکستان کے خلاف نفرت سے بھرا ہوا ہے ۔ حالیہ آپریشن سندور میں بھارت کی جو سبکی ہوئی ہے اور جو ایران کے ہاتھوں اسرائیل کی حالت ہوئی ہے، اس کے بعد یہود و ہنود دونوں ابلیسی بھائی جنونی ہو چکے ہیں۔ پھر یہ کہ اکتوبر میںبھارت کے صوبہ بہار میں الیکشن ہونے والے ہیں اور مودی کی نفسیات میں شامل ہے کہ الیکشن سے پہلے وہ پاکستان کے خلاف کوئی نہ کوئی حرکت ضرورت کرتاہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے ذمہ داروں کی طرف سے بھی بار بار یہ کہا جارہا ہے کہ ہم کسی بھی ممکنہ حملے کے لیے تیار ہیں ۔ آج کے دور میں جنگ صرف اسلحہ بارود سے ہی نہیں لڑی جاتی بلکہ نفسیاتی جنگ بھی لڑی جاتی ہے۔ پاکستان میں فرقہ واریت اور دہشت گردی کا معاملہ بھی چلتا رہا ہے ، سیاسی عدم استحکام کا معاملہ بھی ہے ۔ اس محاذ سے بھی حملہ ہو سکتا ہے ۔ پھر یہ کہ عالمی سطح پر جو حالا ت پیدا ہوچکے ہیں وہ تیسری عالمی جنگ کے دروازے پر دستک دے رہے ہیں۔ حق و باطل کا معرکہ اپنی انتہا پر پہنچنے والا ہے اور اس حوالے سے قرآن کی پیشین گوئی واضح ہے کہ یہود و ہنود تمہارے دشمن نمبر 1 ہوں گے ۔ آج پاکستان کے خلاف جو بیان نیتن یاہو کا ہوتاہے وہی نریندر مودی کا بھی ہوتاہے ۔ لہٰذ ا ہمیں اپنی تیاری پوری رکھنی چاہیے اور اندرونی طور پر اپنے آپ کو مضبوط کرنا چاہیے ۔ ڈاکٹر اسراراحمدؒ نے بہت پہلے یہ تجویز دی تھی کہ پاکستان کو کسی ایسی ایٹمی طاقت سے اتحاد کرنا چاہیے جو عالمی استعماری شکنجے سے باہر ہو ۔ برسوں بعد آج یہ سن کر عجیب لگتا ہے کہ اس وقت ڈاکٹر صاحبؒ کے ذہن میں یہ بات کیسے آئی تھی۔ آج ہمیں واقعی امریکہ جیسے دوست نما دشمن کے نرغے سے نکلنے کے لیے چین کے ساتھ اتحاد کی ضرورت ہے ۔ یہ وقتی طور پر دشمنوں کے گھیراؤ سے نکلنے کا ایک موثر طریقہ ہے لیکن ہمارا اصل ہدف امت مسلمہ کی سطح پر متحد ہونا ہے ۔ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر ہم پاکستان ، ایران اور افغانستان کا اتحاد بھی بنا سکتے ہیں ۔ تازہ خبر یہ ہے کہ روس نے بھی افغان حکومت کو تسلیم کرلیا ہے ۔ ہمارے لیے شرم کا مقام ہے کہ مسلمان ہوتے ہوئے بھی ایک مسلم حکومت کو تسلیم کرنے سے عاری ہیں ۔ ان کے وزیر خارجہ کو استنبول میں کانفرنس میں بلایا گیا وہاں اُس نے پشتو میں تقریر کی ۔ ساری دنیا اگر افغان طالبان سے اپنے تعلقات بڑھا رہی ہے تو ہماری حکومت کو کیا مسئلہ ہے ۔
سوال: حکومتِ پاکستان کا موقف ہے کہ افغانستان میں دہشت گردوں کے اڈے ہیں ،افغان حکومت کو چاہیے کہ ان کو ختم کرے ۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ پاک افغان تعلقات کی بحالی میں واحد رکاوٹ یہی رہ گئی ہے ؟
امیر تنظیم اسلامی:افغان طالبان کے موجودہ امیر کی جانب سے باقاعدہ حکم جاری ہوا ہے کہ افغانستان کی سرزمیں سے پاکستان میں دہشت گردی نہیں ہونی چاہیے ۔ ملاعمرؒ نے بھی اِس کی حوصلہ شکنی کی تھی اور ان کے دور میں پاکستان کے ساتھ تعلقات اچھے رہے تھے ۔ اسی طرح آج بھی اگر دونوں حکومتیں آپس میں مل کر کام کریں اور اپنے عوام کی بھی ذہن سازی کریں تو امن قائم ہو سکتاہے اور تعلقات بہت بہتر ہو سکتے ہیں ۔ دہشت گردی نہ پاکستان کے مفاد میں ہے اور نہ ہی افغانستان کے مفاد میں ہے ۔ دونوں ممالک کے مذہبی طبقات کو بھی مل کر مستقبل کے منظرنامے کے مطابق تیاری کرنی چاہیے جس کا ذکر احادیث میں ہوا ہے ۔ یہی خطہ وہ خراسان ہے جہاں سے احادیث کے مطابق اسلامی لشکر نکلیں گے اور یروشلم میں جاکر دجالی افواج کے خلاف لڑیں گے۔ پاکستان کا پہلا جرم یہ ہےکہ ہم نے اپنے ہاں شریعت کو نافذنہیں کیا حالانکہ ہم نے پاکستان کو اسلام کے نام پرقائم کیا تھا ۔ افغان طالبان نے اپنے ملک میں شریعت نافذ کی ہے جو کہ دجالی قوتوں کو برداشت نہیں ہورہی ہےاور وہ نہیں چاہتیں کہ پاکستان میں بھی شریعت کی جانب پیش رفت ہو ۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ دونوں ممالک اور ان کے عوام کو متحد ہو کر اسلام کےمکمل نفاذ کی جانب پیش رفت کرنا چاہیے ۔
سوال: قرآن مجید کاجو نیا ترجمہ شائع ہوا ہے جس پر تمام مکاتب فکر متفق ہیں وہ کس ادارے نے تیار کیا ہے اور کس نام سے شائع ہوا ہے ؟ (حافظ عبداللہ )
امیر تنظیم اسلامی:جس ادارے نے یہ ترجمہ شائع کروایا ہے اس کا نام علم فاؤنڈیشن ہے ۔ یہ ادارہ کراچی کے مخیر حضرات نے مل کر 2009ء میں قائم کیا اور اس کا مقصد یہ تھا کہ سکولوں کی تعلیم کو بہتر بنایا جائے ۔ خاص طور پر دینی اعتبار سے بہتر چیزیں نصاب میں شامل ہوں ۔ الحمد للہ ، میں بھی اس ادارے سے منسلک تھا اور اس کارخیر میں میرا بھی حصّہ تھا ۔ تنظیم اسلامی میں سورۃ المائدہ کی اس آیت کی روشنی میں ایک اصول طے ہے :
{وَتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی ص وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ص} (المائدۃ:2) ’’اور تم نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں تعاون کرو ‘ اور گناہ اور ظلم و زیادتی کے کاموں میں تعاون مت کرو‘‘
تنظیم اسلامی کے پلیٹ فارم سے ایک طرف ہم نے قرآن حکیم کی دعوت کو عام کیا اور دوسری طرف ’’علم فاؤنڈیشن‘‘ سے تعاون کرکے قرآن مجید کے متفقہ ترجمہ میں پیش رفت کی ۔ اس ادارے کے تحت ہم نے 70 قسم کے تراجم(جن میںاہل تشیع کا ترجمہ بھی شامل ہے) کو سامنے رکھ کر اور عربی اسلوب کا بھی لحاظ رکھتے ہوئے ایک متفقہ ترجمہ کیا ۔ 2018ء میں جب بلیغ الرحمان وفاقی وزیر تعلیم تھے اور بعد میں پنجاب کے گورنر بھی رہے ، انہوں نے اس ترجمے کا خیر مقد م کیا اور مدار س کے پانچ بڑے وفاقوں (دیو بندی، بریلوی، اہل حدیث، جماعت اسلامی اور اہل تشیع)سے ایک ایک عالم لے کر ایک کمیٹی تشکیل دی، میں بھی علم فاؤنڈیشن کی جانب سے اس کا ممبر تھا ۔ وفاقی وزارت تعلیم کے کنویئنربھی اس میں شامل ہوئے اور ان سات افراد پر مشتمل کمیٹی نے 3 سال تک ایک ایک لفظ پر بحث کرنے کے بعد 28 جنوری 2020ء کو مجوزہ ترجمے پر اتفاق کرلیا اورتین صفحات پر مشتمل ایک خط بھی ساتھ لگایا جس پر ہر ممبر نے لکھا تھا کہ ہم نے کن کن باتوں کا خیال رکھا تاکہ اُمت میں تفرقہ پیدا نہ ہو ۔ اس متفقہ نصاب میں صرف ترجمہ ہی شامل نہیں ہے بلکہ سورتوں کا تعارف بھی ہے ، پیغمبروں کے واقعات ، مختصر سی تشریح، مورل لیسنز اور ایکسرسائزز بھی ہیں ۔ سب پر علماء کا اتفاق ہوا ۔ یہ ایک بہت بڑا کام ہوا ہے جس کی مثال پاکستان کی پوری تاریخ بلکہ شاید دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی ۔
سوال:گويااس ترجمہ میں اُمت کے دو بڑے گروہوں ( سنی اور شیعہ ) کے فقہی یا فکری اختلافات کو ٹچ نہیں کیا گیا؟
امیر تنظیم اسلامی:اس وقت الحمد للہ 1 کروڑ 30 لاکھ سے زائد طلبہ و طالبات کے ہاتھ میں یہ متفقہ ترجمہ موجود ہے ۔ سب سے پہلے خیبر پختونخواحکومت نے اس ترجمہ کو نصاب میں شامل کیا ، اس کے بعد وفاق نے اور پھر حکومت ِپنجاب نے بھی شامل کرلیا۔ نویں سے 12 ویں جماعت تک 50 نمبر کالازمی پیپر قرآن پاک کے ترجمے کا ہو رہا ہے۔ترجمے کا 75 فیصد اس میں شامل ہے ۔ چھٹی جماعت سے لے کر آٹھویں تک باقی شامل ہے ۔ باقی صوبوں میں بھی ان شاء اللہ پیش رفت ہوگی۔ پاکستان میں 8 کروڑ بچہ اس وقت اسکولوں میں ہے۔ علماء نے کہا ہے کہ اگر یہ بچے اس ترجمے کا مطالعہ کرلیں تو کم ازکم ملحد نہیں ہوں گے ۔کم از کم بنیادی اخلاقیات کا سبق توا نہیں مل رہا ہے ۔ اسیر مالٹا مولا شیخ الہند نے فرمایا تھا کہ میں نے جیل کی تنہائیوں میں امت کے زوال پر غور کیا تو دوبنیادی سبب معلوم ہوئے ۔ فرقہ واریت اور دوسرا قرآن مجید سے دوری ۔ انہوں نے فرمایا : میں نے تہیہ کیا کہ آزاد ہونے کے بعد بچوں کے لیے ناظرہ قرآن کا انتظام کروں گا اور بڑوں کے لیے عوامی درسِ قرآن کا اہتمام کروں گا ۔ الحمد اللہ ڈاکٹراسراراحمدؒ نے عوامی درسِ قرآن کا یہ خواب پورا کیا ۔ مفتی محمد شفیع ؒ نے فرمایا کہ قرآن سے اگر واقعتاً تعلق ہو گا تو یہ تفرقے بھی ختم ہو جائیں گے۔میں سمجھتا ہوں کہ علم فاؤنڈیشن کا متفقہ ترجمہ قرآن بھی اسی تسلسل کا حصہ ہے اور اس خطے میں اس قدر بڑے کام کا ہونا اس بات کی مزید دلیل ہے کہ اس خطے سے اللہ نے کوئی کام لینا ہے ۔
سوال:آپ امیر تنظیم اسلامی ہیں اور تنظیم اسلامی کی مصروفیات میں سے آپ کیسے ٹائم نکال سکتے ہیں؟
امیر تنظیم اسلامی:علم فاؤنڈیشن 2009ء میں قائم ہوا ، اس وقت میںرفیق تنظیم تھا اور ایک یونیورسٹی میں پڑھاتا تھا ۔ تنظیم کے ذمہ داران سے مشاورت کے بعد میں نے یونیورسٹی میں پڑھانا چھوڑا اور علم فاؤنڈیشن میں کام شروع کیا ۔ تنظیم اسلامی کی امارت کی ذمہ داری میرے کندھوں پر 2020ء میں آئی اور اس کے بعد علم فاؤنڈیشن کے ذمہ داران نے بھی مہربانی کی اور زیادہ تر کام آن لائن ہو تا ہے اور منگل کو ایک سیشن کراچی میں ہوتا ہے جس میںبالمشافعہ شریک ہوتا ہوں ، اسی طرح دیگر میٹنگز میں کبھی آن لائن شریک ہوتا ہوں اور کبھی فزیکلی شریک ہوتا ہوں ۔
سوال:کیاکبھی ایسا موقع بھی آیا کہ کچھ لوگ اس کام کی مخالفت میں کھڑے ہوئے کہ سارے مکاتب فکر کا ایک ترجمہ کیسے ہوسکتا ہے ، یہ تو کوئی اور ہی سازش ہے وغیرہ ؟
امیر تنظیم اسلامی:جب بھی دین کا کوئی کام ہوتا ہے تو اس کی مخالفت ضرورہوتی ہے کیونکہ دین کے مخالفین سے یہ برداشت نہیں ہوتا ۔ اس کے علاوہ آپس کے فرقہ وارانہ اختلافات بھی رکاوٹ بنتے ہیں ۔ جب کمیٹی تشکیل دی گئی تو پہلے اجلاس میں شدید اختلاف ہوا ۔ کسی نے کہا کہ ہمارے بزرگوں کے ترجمے کا کیا ہو گا؟ جواب دیا گیا کہ ہم اپنے اپنے بزرگوں کا ترجمہ خود پڑھ لیں گے لیکن8 کروڑ بچہ جوسکولوں میں پڑھ رہا ہے وہ اگر قرآن کے ترجمہ سے محروم ہوا تو ان کے 16 کروڑ ہاتھ ہوں گے اور ہماری گردنیں ہوں گی ، اگر ہم رکاوٹ بنے ۔ پھر مختلف مکاتب فکر کے متشدد قسم کے لوگوں کی طرف سے بھی بات آئی کہ یہ ہو ہی نہیں سکتا ، اس کا مطلب ہے کہ آپ تحریف کریں گے وغیرہ ۔ لیکن دلچسپ بات ہے کہ ان پانچوں مکاتب فکر کے علماء کی طرف سے کوئی رکاوٹ پیدا نہیں ہوئی ۔ جب عوام کو معلوم ہوا کہ تمام مکاتب فکر نے اس پر اتفاق کرلیا تو اس کے بعدسے اعتراضات ختم ہوگئے اور اب یہ مشن کامیابی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ ہمیں اللہ کا شکر اداکرنا چاہیے کہ فتنوں کے اس دور میں جبکہ ہر طرف شیطانیت کا دور دورا ہے ، دجالی فتنے عروج پر ہیں ، ہمیں یاد ہے مشرف کے دور میں نصاب میں سے سورۃ توبہ، سورۃ انفال، سورۃ احزاب اور سورۃ ممتحنہ کو نکال دیا گیا تھا کیونکہ ان میں کفار اور مشرکین کے خلاف جہاد کا ذکر ہے ۔ لیکن آج الحمد للہ علم فاؤنڈیشن کی کاوش سے یہ متفقہ ترجمہ پنجاب ، خیبر پختونخوا اور وفاق میں پڑھایا جارہا ہے ۔ بلوچستان اور کشمیر میں بھی جلد ہی کام شروع ہو جائے گا ۔ ان شاء اللہ !