اداریہ
رضاء الحق
مافیاز کا راج !
پاکستان اس وقت ہمیشہ کی طرح مختلف النوع داخلی اور خارجی مسائل کے گرداب میں ہے۔ داخلی سطح پر سب سے بڑا اور خوفناک مسئلہ مہنگائی کا ہے۔ عوام کے ذرائع آمدن میں کوئی قابل ذکر اضافہ نہیں ہورہا جبکہ کمر توڑمہنگائی کی وجہ سےاخراجات میں اضافہ ہوا ہے جس سے عوام کے لیے جان اور جسم کا رشتہ برقرار رکھنا انتہائی مشکل ہو رہا ہے۔ اچھے بھلے گھرانے معاشی لحاظ سے پِس کر رہ گئے ہیں۔ سفید پوش طبقہ یعنی مڈل کلاس تقریباً ناپید ہو چکی ہے۔ ملکی آبادی کا ایک بڑا حصّہ ذرائع آمدن اور اخراجات میں توازن پیدا نہیں کر پا رہے۔ یہی عدم توازن معاشرے میں جرائم میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ رشوت خوری، چوری اور ڈاکہ زنی کی وارداتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ مہنگائی کی وجوہات کچھ فوری اور حکومتِ وقت کی غلط معاشی پالیسیوں کی وجہ سے ہوتی ہیں جبکہ کچھ تو ماضی میں ہونے والے واقعات سے جڑی ہوتی ہیں اور کچھ عالمی حالات و واقعات اور حکومت ِ وقت کے عالمی سطح پر کردار سے جڑی ہوتی ہیں۔
درحقیقت موجودہ حکومت نے بھی ماضی کی حکومتوں کی طرح معاشی اور اقتصادی سطح پر ہمالائی غلطیاں کی ہیں۔ ہائبرڈ طرزِ حکومت، جو مملکت خداداد میں ایک عرصہ سے نافذ ہے، کا ایک اَن کہا اصول یہ ہے کہ سیاسی حکومتوں (ماضی اور حال) کے وزرائے خزانہ بلکہ وزرائے اعظم تک کی حیثیت کٹھ پُتلیوں سے بڑھ کر نہیں رہی۔ فیصلے کہیں اور سے آتے ہیں۔ اِس طرزِ حکومت میں سیاسی حکومتوں کا کام محض اُن کو دئیے گئے فیصلوں اور پالیسیوں پر عمل درآمد کروانا ہے۔ ایس آئی ایف سی نے ابتدا میں تو خوب کارکردگی دکھائی اور میڈیا پر اس کے کارناموں کے قصیدے بھی لکھے اور پڑھے گئے۔ لیکن رفتہ رفتہ کسی بھی نظام کو کامیابی سے چلانے کا یہ آفاقی اصول کہ ’’جس کا کام اُسی کو ساجھے‘‘ غالب آتا چلا گیا۔ کشکول لیے دنیا بھر کے دورے کرنے، ملک سے سودی معیشت کے خاتمے پر توجہ دینے کی بجائے قومی اثاثہ جات کو کوڑیوں کے بھاؤ بیچنے یا گروی رکھوانے اور آئی ایم ایف سے مزید سودی قرض حاصل کرنے کے لیے سخت ترین شرائط پر معاہدے کرنے کا رجحان بڑھتا چلا گیا۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی معیشت کے کئی اشاریے گزشتہ دو سالوں میں بہتر ہوئے ہیں جس کی ایک مثال افراطِ زر میں کمی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ معیشت کی اس مشتہر بہتری کا عام عوام کی زندگی پر نہ ہونے کے برابر اثر پڑا ہے۔ پھر یہ کہ معیشت سے متعلق شماریات کا ’حُسن‘ یہ ہے کہ اُسے اچھا، بُرا جیسے چاہے پیش کر دو۔ صرف مخصوص اشاریے استعمال کرنے کا گُر آنا چاہیے۔
بہرحال زمینی حقیقت یہ ہے کہ غریب آدمی، جو حالیہ رپورٹس کے مطابق اب ملک کی 40 فیصد آبادی پر مشتمل ہے، آج بھی دو وقت کی روٹی کے حصول کی تگ و دو میں مصروف ہے۔ بجٹ میں تنخوادار طبقہ پر ٹیکسوں کی بھر مار جبکہ اشرافیہ کو ہر قسم کی چھوٹ دی گئی ہے۔ حال ہی میں ایک خبر نظروں سے گزری کہ حکومتِ پاکستان نے پانچ لاکھ ٹن چینی درآمد کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ قارئین کو یقیناً یاد ہوگا کہ ماضی قریب میں جب ملک چینی اور پھر گندم کے بحران کا شکار ہوا تھا تو ہم نے حکومت کو یہ مشورہ دیا تھا کہ اِن بنیادی ضروریاتِ زندگی کی اشیاء کی برآمد پر پابندی لگائی جائے تاکہ قیمتیں قابو میں رہیں۔ لیکن فیصلے کرنے والے ’عقلِ کل‘ ہیں، ملک پر مافیاز کا راج ہے اور نقار خانے میں طوطی کی کون سنتا ہے۔ کہیں لینڈ مافیا ہے تو کہیں چینی کا مافیا۔ بڑے زمیندار گندم پر سانپ بن کر بیٹھے ہیں اور آئی پی پیز آج بھی بجلی صلاحیت سے بہت کم پیدا کرنے کے باوجود پوری کیپیسٹی کے مطابق قومی خزانے سے رقم بٹور رہے ہیں۔ ہر طرف نفسانفسی کا عالم ہے۔
پھر یہ کہ اِس حوالے سے حکومتی سطح پر عوام سے کمیونیکیشن گیپ خوفناک حد تک بڑھ چکا ہے۔ اخبارات میں اشتہاروں کی بھرمار اور الیکٹرانک میڈیا پر مسلسل قصیدہ گوئی ایک طرف، حقیقت یہ ہے کہ وفاق اور تمام صوبوں کی سطح پر نااہل گورننس عروج پر ہے۔ بروقت صحیح فیصلے نہیں کیے جاتے اور حکومت بیرونی ممالک سے بہت سی اشیاء بروقت خریدنے میں ناکام رہتی ہے۔ بعدازاں وہی اشیاء انتہائی مہنگی خریدنا پڑتی ہیں اور پِسے ہوئے عوام پرمہنگائی کا ایک اورپہاڑ گرا دیا جاتاہے ۔حکومت سمگلنگ اور غیر قانونی کاروبار روکنے میں بھی ناکام ہے۔پھر یہ کہ ڈیمانڈ اور سپلائی کی مؤثر نگرانی بھی نہیں کر پا رہی۔شرح نمو اندازوں اور دعوؤں سے کم رہی اور پیٹرول، بجلی، گیس، گھی، آٹا، چینی، ادویات الغرض بنیادی انسانی ضرورت کی بہت سی اشیاء کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ جاری ہے۔ ملک کے وزیراعظم زمینی حقائق سے کوسوں دورعوام کو تصوراتی دنیا کے سہانے خواب دکھاتے نہیں تھکتے۔ ماضی میں حکمرانوں کی بدعنوانیوں پر شوروغوغا تو بہت رہا لیکن عملی طو رپر کوئی نتیجہ نہ نکلا جس کی واحد ذمہ دار حکومت ہی نہیں بلکہ ملک میں اِس حوالے سے رائج قوانین اور عدالتی نظام بھی ہے۔ ہماری اعلیٰ عدلیہ بھی اپنی اصلاح میں بُری طرح ناکام رہی ہے جس کا بھرپور فائدہ معاشی مجرم اور مافیاز اُٹھا رہے ہیں۔ علاوہ ازیں سابقہ تمام حکمرانوں نے بلااستثناء سرکاری خزانے سے جس بے دردی سے کھلواڑ کیا، اُس نے پاکستان کو بُری طرح مقامی اور عالمی قرضوں میں جکڑ دیا ہے۔ بہرحال دگرگوں عالمی حالات اور جنگوں سے دنیا بھر میں مندی کا سماں ہےجس کے اثرات پاکستان کی معیشت پر بھی آئے ہیں۔
البتہ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ حال اور ماضی کی کسی حکومت نے ملکی معیشت سے سود کے خاتمہ کی کوئی کوشش نہیں کی۔آج قرض اور سود کی ادائیگی کی مد فوجی بجٹ کے لیے مختص رقم سے کہیں آگے نکل چکی ہے اور آئندہ اِس میں مزیداضافہ ہوتا نظر آ رہا ہے۔ معاشی صورتِ حال کے حوالے سے گزشتہ پون صدی کی تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو ایک اچھے اور غیرجانبدار تجزیہ نگار کو معلوم ہو گا کہ حالات اچھے کبھی بھی نہ تھے البتہ لیپاپوتی ہوتی رہی۔ پھر سوویت یونین کو ہر قیمت پر شکست دینے کی امریکی پالیسی نے پاکستان کی اشرافیہ کو خوب فائدہ دیا۔ لہٰذا 1960ء کی دہائی سے لے کر 1980ء کی دہائی کے اختتام تک پاکستان پر ڈالرز ہی کی نہیں گندم،خوردنی تیل اور بہت سی اشیاء ضروریہ کی لگاتار بارش برسی۔اس دوران 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران اور پھر 1971ء میں امریکہ نے پاکستان کی طنابیں کچھ کھینچیں۔ 1971ء میں پاکستان دولخت ہوا۔ مہنگائی کا سیلاب آیا اور بھٹو نے اپنے معاشی مشیروں کی رائے کے برعکس معیشت کو قومیانے کا فیصلہ صادر کر دیا جس کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ پھر سوویت یونین افغانستان میں آدھمکا۔ جتنی عیش پاکستان کی اشرافیہ نے اُس دور میں کی ، نائن الیون کے بعد افغانستان پر امریکی حملے میں فرنٹ لائن اتحادی بن کر بھی نہ کی ہو گی۔ لیکن یہی عیش ہماری جڑوں میں بیٹھ گئی۔ ڈالروں کی فراوانی نے ہمیں تباہ وبرباد کر دیا۔ مثل مشہور ہو گی کہ "AID" دراصل "AIDS" سے بدتر ہے۔
اب امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان بھارت کے تابع رہ کر چین کا محاصرہ کرنے میں اُس کی کھل کر مدد کرے اورصدر ٹرمپ کے ابراہم اکارڈز کا حصّہ بن کر اسرائیل کو تسلیم کر لے۔ پھر امریکہ سے ڈالر بارش کی صورت میں برسیں گے۔ہمارے نزدیک ایسا کرنا اپنے ہاتھوں اپنی قبر کھودنے والی بات ہو گی۔ امریکہ وقتی طو رپر ساتھ دے گا جیسے وہ ماضی میں کرتا رہا ہے اور ہمسایہ چین جو اقتصادی جن بننے کے ساتھ ساتھ بڑی عسکری قوت بھی بن چکا ہے ہمیشہ کے لیے دشمن بن جائے گا اور بھارت کے لیے پاکستان کے حوالے سے بہترین موقعہ ہو گا کہ وہ اپنے تمام حسابات چکا لے۔ 2010ء کے بعد سے لیبیا اور شام کا حال ہم سب کے لیے سبق آموز ہونا چاہیے۔ خصوصاً شام کے حوالے سے آئندہ کسی اداریہ میں تفصیلی ذکر کریں گے۔ ان شاء اللہ!
سرکاری ذرائع کے مطابق مملکتِ خدادادپاکستان اس وقت 73.3کھرب روپے کی مقروض ہے اور اب آئی ایم ایف کے وفود پاکستان کے مختلف اداروں کے سربراہان سے ملاقات کر کے گویا انہیں ہدایات دے رہے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ قیامِ پاکستان کے بعد ملک و قوم کی اسلامی اساس کو بنیاد بنانے کی بجائے اشرافیہ نے لوٹ مار، کرپشن اور اقرباء پروری کو اپنا وطیرہ بنا لیا۔ جب تک ہم سودی معیشت کو جاری رکھ کر اللہ اور اُس کے رسولﷺ سے حالت ِجنگ میں رہیں گے تو ملک کی معیشت کیسے سُدھر سکے گی؟ لہٰذا ضرورت اِس امر کی ہے کہ فرسودہ نظام کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکا جائے۔ جاگیرداری اور سرمایہ داری کے ظالمانہ نظام کے ساتھ ساتھ سود، کرپشن اور اقرباء پروری اور تمام مافیاز کا خاتمہ کیا جائے۔ پاکستان میں اسلام کے معاشی،سیاسی اور معاشرتی نظام کو قائم اور نافذ کیا جائے۔ ملک میں اسلام کا نظامِ عدلِ اجتماعی بتمام و بکمال نافذ ہو گا تو عوام کے بنیادی معاشی مسائل بھی حل ہوں گے اور مسلمانانِ پاکستان کی آخرت بھی سنور جائے گی۔ ان شاء اللہ!