(الہدیٰ) اسلامی اخوت اور اتحاد - ادارہ

12 /
الہدیٰ
 
اسلامی اخوت اور اتحاد
 
   {وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْاص} (آل عمران)’’اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھام لو مل جل کر اور تفرقے میں نہ پڑو۔‘‘ 
     وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللہِ کہ اللہ کی رسّی سے چمٹ جائو، اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو۔ اور یہ اللہ کی رسّی کون سی ہے؟ متعدد احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ یہ ’’قرآن‘‘ ہے۔ یعنی اللہ کے قرب کے لیے ضروری ہے کہ ایک طرف انسان میں تقویٰ پیدا ہو اور دوسری طرف قرآن کے نظریات اور قرآن کی حکمت کا فہم۔ چنانچہ مختلف انسانوں کی اجتماعیت تبھی ممکن ہے جب ان کی سوچ ایک ہو، ان کے نظریات اور مقاصد ایک ہوں۔(ماخوذ از بیان القرآن، بانی ٔ تنظیم اسلامی، ڈاکٹر اسرار احمدؒ)
’’جماعت مسلمہ کے قیام کی بنیاد اخوت ہے۔ اللہ کے لیے، اسلامی نظام کے قیام کے لیے اور اللہ تعالیٰ کے بتائے منہاج زندگی کے دائرے میں رہتے ہوئے اخوت اوربرادری کا رشتہ اور تعلق۔ یہ اخوت اور بھائی چارہ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ جو اللہ نے مسلمانوں کو عطا فرمائی ۔ اہل عرب دورِ جاہلیت میں ایک دوسرے کے دشمن تھے۔ جب اسلام آیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں الفت، مؤدت و اخوت پیدا فرما دی اور مسلمان اللہ کے جھنڈے تلے متحد ہو گئے۔ یہودی دورِ نبویؐ میں مسلمانوں کی صفوں میں انتشار پیدا کرنے کے لیے مختلف ذرائع اور وسائل استعمال کرتے تھے اور قومِ یہوداور اس کے حواری آج بھی مسلمانوں کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے لیے اپنے تمام تر وسائل وذرائع کام میں لا رہے ہیں۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ ان کی سازشوں سے باخبر رہیں اور اخوت کی زنجیروں میں جکڑ کر اللہ کی بتائی ہوئی صراطِ مستقیم پرچلنے کی کوششوںمیں لگے رہیں۔ کیونکہ اسلام کی سربلندی کے لیے ایمان باللہ اور اخوت فی اللہ ناگزیر ہے۔ ‘‘(سید قطب شہیدؒ)
 
درس حدیث
مسلمانوں کا اتحاد
 
عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِیْرٍ ؓ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ ((تَرَی الْمُؤْمِنِیْنَ فِیْ تَرَاحُمِھِمْ وَتَوَآدِّھِمْ وَتَعَاطُفِھِمْ کَمَثَلِ الْجَسَدِ اِذَا اشْتَکٰی عُضْوٌ تَدَاعٰی لَہُ سَآئِرُ الْجَسَدِ بِا سَّھَرِ وَالْحُمّٰی)) (رواہ المسلم)
’’حضرت نعمان بن بشیر ؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’ تم مسلمانوں کو اُن کی باہمی رحم دلی، محبت اور عنایت میں ایک جسم کی مانند پائو گے۔ جب جسم کا ایک عضو مبتلا ئے درد ہوتا ہے تو تمام جسم بیداری و بخار میں مبتلا نظر آتا ہے۔‘‘ 
تشریح: آج مسلمان د نیا بھر میں ذلت وخواری کا شکار ہیں ، ان کی نفری اورتعداد بھی خاصی ہے، مال و دولت کی بھی کمی نہیں ہے، عرب ریاستیں سونا اگلتی ہیں، ہر طرف روپے پیسے کی ریل پیل ہے، عسکری لحاظ سے بھی کسی سے کم نہیںپھر کیا وجہ ہے کہ ان کی تمام تر شان وشوکت رخصت ہو چکی ہے اور ان پر ذلت و ادبار کی گھٹا چھا رہی ہے۔ ان کے نظامِ حکومت پر شاطر و عیار حکمران چھائے ہوئے ہیں جو ظاہری طور پر تو مسلمان ہیں مگر ان کے دل یہود ونصاریٰ کے ساتھ دھڑکتے دکھائی دیتے ہیں، اُن کے منافقانہ طرزِ عمل نے عوام الناس کا جینا دشوار کر دیا ہے، یہ لوگ نت نئے ٹیکس لگا کر عوام کو نچوڑ رہے ہیں اور اپنی کرسی بچانے کے لیے خزانہ عامرہ کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔ اس تباہی میں انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ اس لیے کہ عدلیہ کو بھی وہ اپنے ماتحت رکھتے ہیں اور ذرائع ابلاغ کو بھی اپنی خواہشات کے مطابق استعمال کرتے ہیں۔ ایسے حکمران عوام پر اُسی وقت مسلط ہوتے ہیں، جب دین دار آپس میں کٹے پھٹے ہوں، اپنے وطن پر ہی نظر ڈالیے، یہاں دین کا احساس رکھنے والے لوگوں میںکوئی قوت اور طاقت نہیں، وہ مختلف گروہوں اور دھڑے بندیوں کا شکار ہیں۔رب کریم نے تو اپنی کتابِ مبین میں ہمیں نصیحت فرمائی ہے: ’’اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھام لو مل جل کر اور تفرقے میں نہ پڑو۔‘‘ (آل عمران)اور پیارے رسول ﷺ نے کتنے خوبصورت انداز میں مسلمانوں کو ایک جسم کی مانند قرار دیا ہے کہ اگر اس کا ایک حصہ تکلیف میں ہو تو پورا جسم بے قرار ہو جاتا ہے اور کہیں ارشاد ہوا کہ مؤمن ، مؤمن کے لیے مثل عمارت کے ہے کہ ایک اینٹ دوسری اینٹ کو مضبوط کرتی ہے۔