(اداریہ) اُمت کا اتحاد اور پاکستان کی سلامتی …(1) - رضا ء الحق

12 /
اداریہ
 
رضاء الحق
 
اُمت کا اتحاد اور پاکستان کی سلامتی …(1)
 
اسے بے حمیتی کہیے، بے حسی کہیے، دوسروں پر ہونے والے ظلم سے لاتعلقی کہیے، نفسا نفسی کہیے، لاعلمی کہیے ، اُمت میں اتحاد کے فقدان کا نام دیجیے یا کچھ اور…غزہ میں گزشتہ 22 ماہ سے ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل کی مسلسل وحشیانہ بمباری،تقریباً 6 ماہ سے غزہ کے مسلمانوں کی نسل کُشی کے لیے بھوک و افلاس کو باقاعدہ ہتھیار کے طور پر استعمال کیے جانے پر مسلم دنیا کے عمومی ردِ عمل نے روزِ روشن کی طرح عیاں کر دیا ہے کہ 57 مسلم ممالک کے حکمران و مقتدر طبقات بالخصوص، اور دنیا میں بسنے والےکم و بیش 2ارب مسلم عوام بالعموم بانجھ ہوتے جا رہے ہیں۔ الا ما شاءاللہ ۔ اگرچہ بانجھ پن کے اشارے تو غالبا ًدو صدیاں پہلے ہی ظاہر ہونے لگے تھے، جب برطانیہ نے نوآبادیاتی نظام (کلونیل ازم ) کے تحت ایک کاروباری کمپنی بھیج کر برصغیر پاک و ہند کو عملی طور پر فتح کر لیا تھاجس میں مقامی لوگوں نے انگریز کی غلامی قبول کر کے شرمناک کردار ادا کیا۔ 
19ویں صدی کے وسط سے سلطنتِ عثمانیہ بھی تیزی سے تنزلی کا شکار ہو رہی تھی۔ 1830ء کی دہائی میں سلطنت عثمانیہ نے ایک قانون اپنایا کہ آئندہ عائلی معاملات میں اگر چاہیں تو شریعت کے مطابق فیصلہ لے لیں اور چاہیں تو رواج کے مطابق۔ یہ وہی دور تھا جب سلطنتِ عثمانیہ یورپ کے یہودی سودی بینکاروں کے شکنجہ میں بری طرح جکڑی گئی تھی اور ان پر بے تحاشا قرض مع سود واجب الادا ہوچکا تھا۔ اس سے تقریباً دو ڈھائی صدیاں قبل حالات اتنے مختلف تھے کہ ملکہ برطانیہ جنگ میں جانے سے قبل خلافت عثمانیہ  سے درخواست کرتی تھی کہ اس کی غیر موجودگی میں برطانیہ کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت فرما دیں۔ لیکن خلافت ِعثمانیہ پر جدید یورپ کا جادو سر چڑھ کر بولا۔ خلیفۂ وقت کے ’حرم‘ میں فرانس، یونان، پرتگال، اسپین اور نہ جانے کہاں کہاں سے لونڈیاں موجود رہتیں۔ اس سے آگے بڑھ کر اِنہی ممالک کی خواتین کے ساتھ عثمانی حکمرانوں نے شادیاں بھی کر لیں۔ گویا سانپوں اور بچھوؤں کو گھر میں داخل ہونے کے لیے خود ہی اپنا در وا کر دیا۔ خلافت ِعثمانیہ، جس کی ایک دور میں پوری دنیا پر دھاک بیٹھی ہوئی تھی، اب ’’یورپ کا مردِ بیمار‘‘ کہلانے لگا۔ اسی دوران یہود نے ایسی چالیں چلیں کہ سارا یورپ ان کا محتاج اور مقروض ہو کر رہ گیا۔ یورپ کے مرکزی بینکوں پر یہود قابض تھے اور یورپ کے بادشاہ ان سے سودی قرض لے کر جنگیں لڑتے۔ پھر یہ کہ سٹاک مارکیٹوں پر بھی یہود کا قبضہ تھا۔ یورپ میں پہلا پرنٹنگ پریس 1450ء میں ایک سُناریوہانس گوٹن برگ نے ایجاد کیا۔ پھر کیا  تھا، یہود اور یہود نواز افراد کے نظریات و افکار، فلسفہ اور نظام ہائے معیشت و سیاست پر روایت سے ہٹ کر جدید نظریات و فلسفہ پر مبنی کتب بڑے پیمانے پر لکھ کر شائع کی گئیں۔ بعض تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ  مادہ پرستی،ہیومن ازم ، لبرل ازم، سیکولرازم اور ان کے مابین یورپ میں نام نہاد احیائے علوم اور اصلاح معاشرہ کی تحریکوں کی کامیابی میں بڑے پیمانے پر کتب شائع کیے جانے (یعنی پرنٹنگ پریس) نے فیصلہ کن کردار ادا کیا۔
یورپ میں بادشاہ اور پوپ کے گٹھ جوڑ سے صدیوں سے قائم طرزِ حکومت کو انقلاب فرانس نے نسیاً مَّنسیا کر دیا۔ پروٹیسٹنٹ عیسائیت کی داغ بیل تو 14ویں صدی میں ہی ڈال دی گئی تھی۔ ایک طرف رومیوں کی حکومت کے مظالم تھے تو دوسری طرف پروٹیسٹنٹ عیسائیت (جو خود یہود کی سازش کے تحت معرضِ وجود میں آئی) نے خاص طور پر برطانیہ میں جڑ پکڑ لی۔ یہود نے سودی بینکاری کی اجازت حاصل کر لی اور بڑے سرمایہ داروں، جن میں اکثر یہودی تھے، اُنہوں نے پرنٹنگ پریس کی ایجاد کے بعد دھڑا دھڑ ’’پرومزری نوٹ‘‘ (Promissery Note) چھاپنا اور جاری کرنا شروع کر دیئے۔ یوں سودی بینکاری کا وہ سلسلہ شروع ہوا جو آج تک تیسری دنیا کے ممالک کے گلے کا پھندا بنا ہوا ہے۔
اس کے کچھ ہی عرصہ بعد پہلے فرانس اور برطانیہ، پھر جرمنی میں صنعتی انقلاب برپا ہوا اور یورپ نے مادی ترقی کے اعتبار سے سلطنتِ عثمانیہ تو کُجا پوری دنیا کو کوسوں پیچھے چھوڑ دیا۔ بڑے بڑے بحری جہاز اور اسلحہ تیار کیا گیا۔ اسی دوران انقلابِ فرانس سے تقریباً 13 برس قبل سات سمندر پار امریکیوں نے قابض برطانیہ کو شکست دے دی اور 4 جولائی 1776ءکو ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا قیام عمل میں آیا، جو ابتدائی طور پر 13 ریاستوں پر مشتمل تھا۔تاریخ کے طالبِ علم کے طور پر بحرِاوقیانوس کے اُس پار امریکہ میں برطانیہ کی شکست کی داستان انتہائی تحیر آمیز ہے۔ اِس پر پھر کبھی تفصیلی کلام ہوگا۔ ان شاءاللہ! 
تاریخ گواہ ہے کہ امریکی جرنیلوں میں سے ایک کثیر تعداد مثلاً جارج واشنگٹن،  بینجمن فرینکلن، جیمز اوٹس، جیمز میڈیسن وغیرہ فری میسن تھے۔ فری میسنز اور الومنیٹی جیسے خفیہ گروہوں نے یہود کو سیاسی و معاشی تقویت دینے میں بڑا کردار ادا کیا۔ یہاں تک کہ 19ویں صدی کے اختتام پر یہ فیصلہ کر لیا گیا کہ اب خلافتِ عثمانیہ کا خاتمہ کر کے اس کی جگہ چھوٹی چھوٹی مسلم قومی ریاستیں قائم کر دی جائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اپنی انتہائی دگرگوں حالت کے باوجود بھی جب تک خلافت کا ادارہ قائم رہا، نہ تو یورپ کو قرآن اور صاحب قرآن ﷺ کی توہینِ کی جرأت ہو سکی اور نہ یہود کو ارضِ فلسطین میں آباد ہونے کی اجازت مل سکی، اگرچہ روتھشیلڈ خاندان نے اس کی کوشش بہت کی۔
1903ء میں بابائے صہیونیت تھیوڈور ہرتزل نے (Altneuland) نام کی ایک کتاب تحریر کی جس میں موصوف نے گریٹر اسرائیل کے خدوخال پیش کر دئیے۔اس سے قبل 1897 ء میں عالمی صہیونی کانگرس کا قیام عمل میں آچکا تھا اور اس کا پہلا اجلاس اسی سال تھیوڈور ہرتزل کے زیرِ صدارت سویٹزرلینڈ(Switzerland)کے شہربازلBasel)) میں منعقد کیا گیا تھا۔ اسی اجلاس کی کارروائی پر مبنی دستاویز ’’صہیونی پروٹوکولز‘‘ (Protocols of the Learned Elders of Zion)  کے نام سے معروف ہوئی ۔ اس دستاویز کوارضِ فلسطین میں دجالی صہیونی ریاست کو قائم کرنے اور دنیا پر یہود کی اجارہ داری کومسلط کرنے کا روڈ میپ یا بلو پرنٹ بھی کہا جا سکتا ہے۔ یہ وہی دستاویز ہے جسے نامورامریکی صنعت کار ہنری فورڈ اور برطانوی سیاست دان کیپٹن آرچیبالڈ رمزےنےجب دنیا میں جاری واقعات کے ساتھ جوڑ کر دیکھا تو انہیں چونکا دینے کی حد تک زمینی حقائق سے مشابہ پایا۔ ہنری فورڈ نے 1921ء میں ایک مشہور انٹرویو میں کہا تھا: ” میں صرف یہی کہوں گا کہ یہ پروٹوکولز جو کچھ پیش کرتے ہیں وہ حالاتِ حاضرہ سے مطابقت رکھتے ہیں…یہ آج تک دنیا کے حالات پر پورا اترے ہیں اور اب بھی فٹ بیٹھتے ہیں۔‘‘ بعد کے بعض تجزیہ نگاروں نے بھی اِس غیر معمولی مماثلت کو نوٹ کیا کہ اِن پروٹوکولز میں بیان کردہ ’’پیشگوئیاں‘‘ اور ’’ تاریخی و زمینی حقائق‘‘ کے مابین مشابہت اس قدر تھی کہ معلوم ہوتا تھا کہ انہی پروٹوکولز پر عمل درآمد جاری ہے۔
1914ء میں شروع ہونے والی پہلی جنگ عظیم میں اتحادیوں کو فتح حاصل ہوئی اور سلطنتِ عثمانیہ جس نے جنگ میں جرمنی کا ساتھ دیا تھا، اسے شکست ہو گئی۔ 3 مارچ 1924ءکو خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے کا باقاعدہ اعلان کر دیا گیا۔ سچ تو یہ ہے کہ غیروں سے زیادہ اپنوں کی سازشوں نے خلافت کے ادارے کو منہدم کرنے میں کردار ادا کیا۔ طاغوتی قوتوں کے بعض ایسے مسلم ’غلام‘ بھی شامل تھے جنہیں غداری کے صلے میں بعد ازاں مشرقِ وسطیٰ میں نئی صف بندی کے نتیجے میں بننے والی قومی ریاستیں تحفتاً عطا کر دی گئیں۔ دوسری طرف ترکی (جو اب ترکیہ کہلاتا ہے) میں مصطفیٰ کمال پاشا (اتاترک) کی خدمات کے عوض یورپ کی طاقتوں نے ترکیہ کی حکومت اس کے حوالے کر دی۔ترکیہ میں سیکولر حکومت کے قیام اور خلافتِ عثمانیہ کے انہدام کے بعد ارضِ فلسطین پر برطانیہ نے قبضہ جما لیا اور 1917ء کے بالفور اعلامیہ کے مطابق یہودیوں کو فلسطین میں آباد کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ کچھ زمینیں تو سیدھے سادے فلسطینی مسلمانوں سے خریدی گئیں مگرارضِ مقدس کے بیشتر علاقوں میں صہیونی دہشت گرد تنظیموں نے زبردستی فلسطینی مسلمانوں کی املاک اور زمینوں پر قبضہ جما کر اُنہیں در بدر کر دیا۔ 
دوسری جنگ عظیم، جو درحقیقت پہلی جنگ عظیم کا ہی ایک ضمیمہ تھا، میں ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل کو قائم کرنے کی حتمی تیاری کی گئی اور صہیونیوں کے دنیا بھر میں رائج کردہ سرمایہ دارانہ نظام، ٹھیٹ مغربی جمہوری طرزِ حکومت اور وحی سےمبرا و خود ساختہ اخلاقیات(subjective morality) پر مبنی تہذیب کی بنیادیں مزید مضبوط کی گئیں۔ مؤخر الذکر نظریات کا نشانہ دنیا بھرمیں مسلمانوں کی اشرافیہ اور عوام دونوں تھے،کیونکہ معاشرتی سطح پر اسلامی اقتدار، خاندانی نظام اور تہذیبِ اسلامی بڑی حد تک برقرار تھی۔ دوسری جنگِ عظیم کے خاتمہ کے بعد عالمی سطح پر4اہم تبدیلیاں واقع ہوئیں۔ اوّلاً یہ کہ فرہنگ کی امامت برطانیہ سے امریکہ منتقل ہو گئی بلکہ کر دی گئی۔دوسرا یہ کہ امریکہ اور سوویت یونین، جو دونوں بڑی جنگوں میں اتحادی فوج کا حصّہ تھے، اُن کی اجتماعی نظامِ معیشت کے حوالے سے سرد جنگ کا آغاز ہوا، جو سوویت یونین کی شکست و ریخت پر1991ء میںاختتام پذیر ہوئی۔ امریکہ (سرمایہ دارانہ نظام) کو سوویت یونین (اشتراکیت) کے خلاف فیصلہ کن فتح حاصل ہوئی جس کے نتیجہ میں وہ دنیا کی واحد سپریم طاقت بن گیا۔اس کے بعد امریکہ اور اُس کے اتحادیوں (بشمول نیٹو)نے اپنی ساری توجہ مسلم ممالک کے خلاف نظریاتی اور عسکری جنگیں مسلط کرنے پر مرکوز کر دی۔ تیسرے یہ کہ 14 مئی 1948ء کو ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل قائم کر دی گئی اور اسی سال نکبہ کے دوران لاکھوں فلسطینیوں کا قتل عام کیا گیا اور ان کی صدیوں سے موجود آبادیوں، گھروں اور املاک پر صہیونیوں نے زبردستی قبضہ کر لیا۔ ساتھ ہی دنیا بھر سے یہود کو اسرائیل یعنی مقبوضہ فلسطین میں لا کر آباد کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔   (جاری ہے)