(خصوصی مہم) امن ِعالم - ادارہ

12 /

تنظیمِ اسلامی پاکستان کے زیر اہتمام مہم

’’اتحاد ِاُمّت اور پاکستان کی سالمیت‘‘ کے حوالے سے

بانیٔ تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمدؒ کی معرکۃ الارا تصنیف ’’قرآن حکیم اور ہم‘‘ سے اقتباسات


امن ِعالم

عالمی امن کے قیام کے لیے جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں‘ اسلام کے پاس دو سکیمیں ہیں‘ ایک دیرپا اور مستقل ‘ اور دوسری عارضی وعبوری۔
عالم ِانسانی میں مضبوط و محکم اور پائیدار و دیرپا امن کے قیام کی صورت تو ایک ہی ہے ‘ کہ متذکرہ بالا اسلامی معاشرہ اور مسلم ریاست خود وسعت پذیر (expand) ہوں اور رفتہ رفتہ زیادہ سے زیادہ انسانوں ،حتیٰ کہ پوری انسانیت کو اپنے مضبوط حصارِامن میں لے کر ہر قسم کے فتنہ وفساد سے ما ٔمون و مصئون کر دیں‘ اس لیے کہ واقعہ یہی ہے کہ امن و سلامتی کی اس صراطِ مستقیم کے سوا جو ایمان و اسلام پرمبنی ہے‘ انسان کے لیے سکون اور اطمینان کی کوئی اور راہ ہے ہی نہیں‘ اور انسانی تاریخ اِس پر گواہ ہے کہ انسان نے اِس شاہراہ سے ہٹ کر جب کبھی کوئی دوسری راہ اختیار کی ‘ خدا کی زمین فتنہ و فساد سے بھر گئی ۔
’’کیا تم نے دیکھا نہیں کہ کیا کیا تیرے پروردگار نے عاد کے ساتھ ‘یعنی ستونوں والی قومِ ارم کے ساتھ‘ اور قومِ ثمود کے ساتھ جو وادیوں میں چٹانوں کو تراشاکرتے تھے‘ اور میخوں والے فرعون کے ساتھ‘ جنہوں نے بلادِ ارضی میں سرکشی کی اور اُن کو فساد سے بھر دیا!‘‘(الفجر:6تا12)
لہٰذا اسلام کا اصل زورتو اس دعوت پر ہے کہ پوری نوعِ انسانی اپنے خالق و مالک پر ایمان لے آئے اور اُس کی مرضی کے سامنے سرِتسلیم خم کر دے۔ 
(1) {فَاٰمِنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَالنُّوْرِ الَّذِیْٓ اَنْزَلْنَاط} (التغابن:8)
’’پس ایمان لائو اللہ پر اور اُس کے رسول (ﷺ) پر اور اُس نور (قرآن مجید) پر جو ہم نے نازل فرمایا ہے۔‘‘
(2) ((اَسْلِمُوْا تَسْلَمُوْا)) (متفق علیہ)
’’اسلام لے آئو ‘سلامتی پائو گے۔‘‘
(3) {ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّـۃًص} (البقرۃ:208)
’’اسلام (اور سلامتی ) میں پورے کے پورے اور سب کے سب داخل ہو جائو۔‘‘
(4) {اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللہِ الْاِسْلَامِ قف }
 (آلِ عمران:19)
’’اللہ کے ہاں تو بس ایک ہی دین مقبول ہے اور وہ ہے اسلام۔‘‘
اور اس عالم ِارضی کے امن و سکون اور سلامتی و اطمینان کا گہوارہ بننے کی اصلی صورت یہی ہے کہ پہلے کسی ایک خطے میں صحیح اسلامی معاشرہ اور حقیقی اسلامی ریاست قائم ہو جو ایمان و اسلام کی عالمگیر دعوت کی علم بَردار بن کر کھڑی ہو ‘جس کے نتیجے میں{وَرَاَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللہِ اَفْوَاجًا(2)}  
’’اور تم نے دیکھا لوگوں کو اللہ کے دین میں داخل ہوتے ہوئے فوج در فوج‘‘ کی صورت ایک بڑے پیمانے پر دوبارہ پیدا ہو اور اس اسلامی معاشرے اور اسلامی ریاست کی حدود پھیلتی چلی جائیں‘ تاآنکہ پورے عالم ِارضی میں {قِیْلًا سَلٰمًا سَلٰمًا(26)}  ’’ہر جانب سلامتی ہی سلامتی کا غلغلہ!‘‘ کا سماں بندھ جائے اور پورا عالم ِانسانیت اپنے رحیم و ودود ربّ کے دامن ِرحمت کے سائے تلے آ جائے۔
تاہم بحالت موجودہ یہ ایک بہت دور کی بات معلوم ہوتی ہے۔جب تک یہ آخری صورت نہ ہو‘ عبوری دور میں بھی اسلامی معاشرے اور مسلم ریاست کے پاس پورے عالم انسانی کے لیے دو مشترک اقدار کی بنیاد پر   صلح و امن اور محبت و رأفت کا پیغام موجود ہے۔ سائنس کی حیرت انگیز ترقی اور ذرائع آمد و رفت اور نقل و حمل میں بے پناہ اضافے کی بنا پر پورا عالم انسانی ایک شہر کے مانند ہو کر رہ گیا ہے اور مختلف ممالک کی حیثیت اس کے محلوں سے زیادہ نہیں رہی ‘ لیکن فاصلوں کی یہ ساری کمی انسان کے خارج ہی میں وقوع پذیر ہوئی ہے‘ دلوں کے بُعد میں قطعاً کوئی کمی واقع نہیں ہوئی‘ اور افرادِ نوعِ بشر اور اقوامِ و ملل عالم کے مابین دوری جوں کی توں قائم ہے۔ اور یہ    عجیب مخمصہ ہے جس میں عالم انسانی اس وقت گرفتار ہے کہ حالات کا شدید تقاضا تو یہ ہے کہ انسان باہم ایک دوسرے سے قریب ہوں اور دنیا میں جلد از جلد ایک عالمگیر معاشرہ اور ایک عالمی ریاست قائم ہو جائے‘ لیکن انسان کی تہی دستی اور تنگ دامانی کا عالم یہ ہے کہ ایسی کوئی قدر مشترک اُسے نہیں مل رہی جو مشرق و مغرب کے فاصلے‘ گورے اور کالے کے امتیاز‘ اور نسلوں اور عقائد و نظریات کے فرق و تفاوت کی خلیجوں کو پاٹ سکے‘یا کم از کم ایسا پل بن جائے جس پر سے گزر کر ابنائے نوعِ بشر ایک دوسرے سے بغل گیر ہو سکیں۔
اس بدلی ہوئی صورت حال ہی کا تقاضا تھا جس کے تحت مرحوم انجمن اقوامِ عالم (League of Nations)  وجود میں آئی تھی‘ اور انسان کی یہی تہی دستی تھی جس کے‘باعث وہ ناکام ہوئی ‘لیکن چونکہ تقاضا نہ صرف یہ کہ اپنی جگہ موجود تھا بلکہ پہلے سے کہیں زیادہ شدید صورت اختیار کر گیا تھا‘ لہٰذا پھر موجودہ تنظیم اقوام متحدہ (United Nations Organization)   وجود میں آئی۔ لیکن آپ دیکھ رہے ہیں کہ انسان کی اِسی تنگ دامانی کے باعث وہ بھی عملاًناکام ہو چکی ہے ‘اور اگرچہ اِس کا ظاہری ٹھاٹھ باٹھ موجود ہے‘تاہم ہر شخص جانتا ہے کہ درحقیقت وہ ’’united‘‘ یعنی متحدہ کی بجائے ’’untied‘‘ یعنی منتشر اقوام کے زبانی جمع خرچ کا ایک ادارہ ہے اور اس سے زیادہ کچھ نہیں۔
اس اعتبار سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وقت کے اس اہم تقاضے کا جواب اسلام اور صرف اسلام کے پاس موجود ہے‘ جو دو ایسی مشترک قدروں کا علم بَردار ہے جن کی لڑی میں پوری انسانیت کو پرویا جا سکتا ہے اور جن کی بنیاد پر مشرق بعید کے زردرو‘ مغرب بعید کے سرخ وسپید اور افریقہ کے سیاہ فام انسانوں میں بھائی چارہ قائم ہو سکتا ہے اور باہمی اپنائیت اور یگانگت کے احساسات بیدار ہو سکتے ہیں۔ سورۃ الحجرات کی ایک ہی آیت میں یہ دونوں مشترک اقدار بھی بیان ہوئی ہیں اور انسانوں کے مابین فرق و امتیاز کی تمام غلط بنیادوں اور عزت و شرف کے باطل پیمانوں کی نفی کر کے فرق و تمیز اور عزت و شرف کی واحد بنیاد بھی واضح کر دی گئی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:
{یٰٓــاَیـُّــہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰــکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنْثٰی وَجَعَلْنٰـکُمْ شُعُوْبًا وَّقَـبَــآئِلَ لِتَعَارَفُوْاط اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقٰىکُمْ ط} (الحجرات:13)
’’اے انسانو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں شعوب و قبائل میں تقسیم کر دیا تاکہ باہم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ (باقی رہا عزّت کا سوال تو) تم میں اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ باعزّت وہی ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔‘‘
گویا دنیا بھر کے تمام انسانوں کے مابین دووحدتیں مشترک ہیں: ایک وحدتِ خالق اور دوسری وحدتِ آدم۔ روئے زمین پر جتنے انسان بھی بس رہے ہیں وہ سب خدا کی مخلوق‘ لہٰذا باہم مساوی ‘ اور آدم و حوا کی اولاد ‘لہٰذا آپس میں بھائی بھائی ہیں: ((یٰٓاَیـُّھَا النَّاسُ کُوْنُوْا عِبَادَ اللّٰہِ اِخْوَانًا)) (صحیح مسلم)
ان کے مابین رنگ و نسل اور شکل اور زبانوں کا اختلاف صرف باہمی تعارف کے لیے ہے۔ ان میں سے کوئی چیز بھی عزت و شرف کی بنیاد نہیں۔ عزّت و شرف کا معیار تو ایک ہی ہے اور وہ ہے خدا کا خوف! ---  غورفرمایئے یہ باتیں آج کے اس نام نہاد ترقی یافتہ دور میں بھی کیسی بعید اور خالص نظری و کتابی محسوس ہوتی ہیں‘ لیکن محمد رسول اللہﷺ کے بارے میں یہ بات آپؐ کے بدترین دشمن بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اُنہوں نے واقعتاً ان ہی اساسات پر ایک معاشرہ عملاً قائم فرمادیا اور ایک باقاعدہ ریاست کی بنیاد رکھ دی۔ ایچ جی ویلز جس نے آنحضورﷺکی سیرت پر نہایت رکیک حملے بھی کیے ، لیکن ساتھ ہی یہ بھی تسلیم کیا کہ اگرچہ انسانی اخوت و مساوات کے مواعظ حسنہ کی تو ،بقول اس کے ،مسیح ناصری( علیٰ نبینا و علیہ الصلوٰۃ والسلام)کے یہاں بھی کمی نہیں، لیکن ان اساسات پر ایک انسانی معاشرے کا واقعی قیام صرف محمد ﷺکا کارنامہ ہے۔
سورۃ الحجرات کی محولہ بالا آیت میں جو تین مضامین بیان ہوئے ہیں ‘ وہی عکسی ترتیب کے ساتھ   سورۃ النساء کی پہلی آیت میں بیان ہوئے ہیں:
’’اے لوگو! ڈرتے رہو اپنے رب سے جس نے پیدا کیا تمہیں ایک جان سے اور بنایا اُسی سے اس کا جوڑا۔ اورپھیلا دئیے اُنہی سے کثیر تعداد میں مرد اور عورتیں۔ اور ڈرتے رہو اللہ سے جس کا واسطہ تم ایک دوسرے کو دیتے رہتے ہو اور رحمی رشتوں سے۔ بے شک اللہ تم پر نگران و نگہبان ہے۔‘‘
یعنی وہی تقویٰ کی تعلیم اور وحدتِ الٰہ و رب اور وحدتِ آدم و حوا کو ملحوظ رکھنے کی تاکید‘ یہ دو بنیادیں ہر دو انسانوں کے مابین مشترک ہیں‘ چاہے وہ مشرق کے ہوں یا مغرب کے ‘ کالے ہوں یا گورے‘ متمدّن ہوں یا غیرمتمدّن‘ مرد ہوں یا عورت اور چاہے کسی نسل سے تعلق رکھتے ہوں‘ کوئی نظریہ و عقیدہ رکھتے ہوں‘ کسی شکل و صورت کے مالک ہوں اور کوئی سی زبان بولتے ہوں۔ آیت کے دوسرے حصے میں اِن ہی دو اساسات کے تقاضوں کو کھول کر بیان کر دیا ۔ پہلی اصل کی معرفت کا تقاضا تقویٰ ہے اور دوسری اصل کا تقاضا رحمی تعلق کا لحاظ ہے جس کے اعتبار سے آدم و حوا پر جا کر پوری نوعِ انسانی ایک ہوجاتی ہے۔ 
یہ قرآن حکیم کی وہ تعلیم ہے جس میں ایک فرد کے داخلی سکون و اطمینان سے لے کر پورے عالم ِانسانی میں پائیدار اور محکم امن کے قیام کے امکانات مضمر ہیں۔ اب ذرا ایک جانب اپنی خوش قسمتی کا تصوّر کیجیے کہ آپ اس عالم انسانی کا وہ واحد گروہ ہیںجس کے پاس ایسی عظیم الشان تعلیم موجود ہے اور دوسری جانب اس صورتِ حال کو دیکھئے اور سر دھنیے کہ عالم ِاسلام بھی آج فلسفوں اور نظریوں کے لیے دستِ سوال اُن لوگوں کے سامنے دراز کر رہاہے جو خود ظُلُمٰتٌ بَعْضُھَا فَوْقَ بَعْضٍ  (النور:40) کی کیفیت میں مبتلا ہیں۔ حتیٰ کہ آج ’’دنیا بھرکے مزدورو متحد ہو جائو!‘‘کا نعرہ بھی عالمِ اسلام میں اِس لیے مقبول ہو رہا ہے کہ اِس میں بین الاقوامیت کی ایک جھلک تو نظر آتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ آج اِس دین کے نام لیوا‘ جس نے ہر قسم کی قوم پرستی (Nationalism) کاخاتمہ کیا اور جس کی تعلیم و تربیت کا منتہائے کمال یہ تھا کہ قریش کے اعلیٰ خاندان سے تعلق رکھنے والا اور پورے عالمِ اسلامی اور وقت کی عظیم ترین مملکت کا فرمانروا ایک حبشی النسل ‘ سیاہ فام‘ آزاد شدہ غلام کو ’’سیدنا‘‘ کے خطاب سے یاد کیا کرتا تھا ‘ اپنی مشکلات کا حل ایک نسلی قومیت میں تلاش کر رہے ہیں… اللہ اکبر‘ خود فراموشی ہو تو ایسی!  …اور قلب ِماہیت ہو تو اتنی!
ہمیں اِس کے تسلیم کرنے میں چاہے کتنی ہی ہچکچاہٹ محسوس ہو‘ واقعہ یہی ہے کہ قرآن کی تعلیمات سے سب سے زیادہ بعید خود ہم مسلمان ہیں‘ اور اِس بات کی شدید ضرورت ہے کہ قرآن کے فکر کو اُجاگر کرنے اور اِس کے نورِ ہدایت کو پھیلانے کا کام بالکل ابتدا سے شروع کیا جائے‘ اور پہلے خود مسلمانوں کو قرآنی تعلیمات سے روشناس کیا جائے اور پھر پورے عالم انسانی میں قرآن کی رہنمائی کو واضح کیا جائے۔ اور چونکہ یہ بنیادی کام صرف ایسے نوجوان طلبہ کے ذریعے ہو سکتاہے جو جدید علوم و فنون سے بھی آراستہ ہوں اور دینی جذبے اور مذہبی ذہن و فکر سے بھی مسلح ہوں۔میں یہ سمجھتا ہوں کہ موجودہ دور میں دین کے احیاء اور اسلام کی نشا ٔۃِثانیہ کے لیے جس اساسی کام کی ضرورت ہے وہ درحقیقت کچھ ایسے نوجوان طلبہ ہی کے ذریعے انجام پا سکتا ہے جو جدید و قدیم علوم اور قرآن کے علم و حکمت کی تحصیل اور تعلیم و تعلّم کے لیے اپنی زندگیاں وقف کرنے کو تیار ہوں۔ (اقتباسات: صفحہ:288تا294)