اتحادِ اُمت، کیا اور کیسے؟
ضمیر الحسن خان
دین اسلام کا امتیاز یہ ہے کہ یہ فطرت کادین ہے، فطرتِ انسانی ، الفت ومحبت کا نام ہے۔ اسلام کی دعوت وتعلیم بھی یہی ہے ، وہ بھی چاہتا ہے کہ انسان منظم، فعال ومتحرک (Active) اورمتحد ہوکر اس کی اقامت و اشاعت کا فریضہ انجام دے، اس لیے یہ ہمیشہ جماعت واجتماعیت کی طرف بلاتا ہے۔ مومن، دوسرے مومن سے مل کر ہی سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنتا ہے۔ نیکی اور بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون اور باہمی اشتراک ایک اہم دینی، اخلاقی اور انسانی فریضہ ہے اور تواصی بالحق وتواصی بالصبر ہی دنیوی واُخروی فلاح کی تنہا ضمانت ہے۔
امت کے موجودہ حالات بھی اسی بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ نفع بخش کوششیں مشترک و متحد ہوں۔عظیم کارنامے متحدہ کوششوں کے بغیر انجام نہیں دیئے جاسکتے اور فیصلہ کن معرکے کندھے سے کندھا ملاکر اور ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر ہی سر کئے جاسکتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ کو محبت بھی اپنے ان ہی بندوں سے ہے جو متحد و ایک ہوں ۔
{اِنَّ اللہَ یُحِبُّ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِہٖ صَفًّا کَاَنَّہُمْ بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌ(4)}(الصف) ’’اللہ کو تو محبوب ہیں وہ بندے جو اُس کی راہ میں صفیں باندھ کر قتال کرتے ہیں ‘جیسے کہ وہ سیسہ پلائی دیوار ہوں۔‘‘
پھراتحادو اجتماعیت بھی ایسی کہ اس میںکہیں سے شیطان کے درآنے کی گنجائش نہ ہو، اس لیے نماز تک میں حکم ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر ایسے کھڑے ہوں کہ صفوں کے اندر جگہ خالی نہ رہے ۔ آپؐ نے فرمایا: ایک دوسرے سے اختلاف نہ کیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ اس سے تمہارے دلوں میں ایک دوسرے سے اختلاف پیدا ہوجائے۔(ابوداؤد)
پوری اُمّت جسد ِواحد کی طرح ہے
قرآن مجید نے اُمّت کو جس اخوت و اتحاد کا درس دیا ہے اُس کے تصور کے بغیر دین کا تصور بھی مکمل نہیں ہوتا۔عرب جو ہمیشہ لڑتے تھے ، جیسے ہی نورِ ایمان کی شعائیں اُن کے دلوں پر پڑیں، کفر کی ساری سیاہیاں ختم ہوگئیں اور آپس میں ایسے شیروشکر ہوئے کہ ضرب المثل بن گئے۔ قرآن مجید نے ان کے اتحاد کی تعریف کی اور فرمایا:
{ہُوَ الَّذِیْٓ اَیَّدَکَ بِنَصْرِہٖ وَبِالْمُؤْمِنِیْنَ(62) وَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِہِمْ ط لَوْ اَنْفَقْتَ مَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مَّـآ اَلَّفْتَ بَیْنَ قُلُوْبِہِمْ}(الانفال:62،63) ’’ وہی تو ہے (اللہ) جس نے آپؐ کی مدد کی ہے اپنی نصرت سے اور اہل ِایمان کے ذریعے سے۔اور اِن (اہل ِایمان) کے دلوں میں اُس نے الفت پیدا کر دی۔ اگر آپ ؐ زمین کی ساری دولت بھی خرچ کر دیتے تو اِن کے دلوں میں یہ اُلفت پیدا نہیں کر سکتے تھے۔‘‘
ایمان کی شان یہی ہے کہ اللہ کے جتنے بندے اُس کی رسی سے وابستہ ہوجائیں اور اسلام و قرآن کی لڑی میں پروجائیں وہ ایک جسم وجاں بن جائیں، ان میں سے کسی کی تکلیف، دوسرے کو مضطرب و بے چین کردے، اُن کے درمیان کوئی مسلک، کوئی ذات، کوئی برادری، کوئی علاقہ او رکوئی خاندان نہ ہو سب ایک ہی خاندان ، خاندانِ اسلام سے وابستہ ہوجائیں۔
صحابی ٔرسولؐ،حضرت عبداللہ ابن عباسi فرماتے ہیں :’’خون کے رشتے ٹوٹ جاتے ہیں، احسانات فراموش کردیئے جاتے ہیں لیکن ایمان سے زیادہ دلوں کو قریب کرنے والی چیز دیکھنے میں نہیں آئی۔‘‘ (ابن کثیر2/426)
ایمان ہی کی طاقت تھی کہ اوس وخزرج کی پشتہا پشت کی دشمنیاں اخوت ومحبت میں تبدیل ہوگئیں جبکہ قرآن پاک کی شہادت یہ ہے کہ زمین و آسمان کے تمام خزانے لٹاکر بھی اُن کی نفرتیں ختم نہ ہوپاتیں۔ اس کا اس کے سوا اور کیا مطلب ہوسکتا ہے کہ امت حقیقی ایمان کی لذت سے ناآشنا ہے۔
اخوت واتحاد کی برکتیں
محبت واتحاد کی اہمیت کا اندازہ اِن احادیث سے بآسانی لگایا جاسکتا ہے:
بخاری ومسلم (صحیحین) کی روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:’’ مومن، مومن کے لیے دیوار کے مانند ہے جس کاایک حصہ دوسر ے کو تقویت پہنچاتا ہے۔‘‘
اگر ایک مومن دوسرے مومن کو اپنی قوت نہ سمجھے اور اُسے ضائع ہونے کے لیے چھوڑ دے تو اس کامطلب یہ ہے کہ وہ خود اپنی کمزوری کا سامان کر رہا ہے۔
خلیفۂ ثانی حضرت عمر فاروق ؓ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا: ’’قیامت کے روز اللہ کے کچھ بندے ایسے ہوں گے جو نہ نبی ہوں گے نہ شہداء، مگر اللہ کی نگاہ میں اُن کی جو قدرومنزلت ہوگی اُسے دیکھ کر انبیاء و شہداء بھی اُن پر رشک کریں گے۔ صحابہ کرامj نے پوچھا: وہ کون لوگ ہوں گے؟ ارشاد فرمایا: ’’یہ وہ لوگ ہیںجو کسی رشتے ناطے یا کسی دنیوی تعلق کی بنا پر نہیں بلکہ صرف اللہ کی خوشنودی اور اس سے تعلق کی وجہ سے آپس میں محبت کرتے تھے۔‘‘(سنن ابو دائود)
ایمان ایک مقناطیسی طاقت ہے، اگر انسان کے دل میں ایمان ہے تو وہ لازماً دوسرے کی طرف کھینچتا ہے۔ نبی کریمﷺ کی صریح ہدایت ہے کہ بھائی بھائی بن کر رہو۔ ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، ایک دوسرے کو نقصان نہ پہنچائو، ایک دوسرے سے بغض وکینہ نہ رکھا کرو، آپس میں بے تعلق اور منھ پھیر کر نہ رہو، سب اللہ تعالیٰ کے بندے ہو، بھائی بھائی بن کر رہو اور مسلمان اپنے بھائی پرظلم نہیں کرتا ، نہ اُسے ذلیل وحقیرسمجھتا ہے اور نہ اسے بے سہارا چھوڑتا ہے، دیکھو! تقویٰ کی جگہ یہ ہے ، آپؐ نے اپنے سینۂ اطہر کی طرف اشارہ کرکے تین بار یہ بات فرمائی۔ پھر فرمایا: ’’آدمی کے برا ہونے کے لیے اتنی بات کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانے، مسلمان کا خون ، اس کا مال اور اُس کی عزت دوسرے مسلمان پر حرام ہے حرام۔‘‘ (رواہ الترمذی )
نبی کریم ﷺ ان ہدایات پر عمل کرکے کیا مسلک کی دوریاں باقی رہ سکتی ہیں، کیا ایمانی اخوت میں جغرافیہ رکاوٹ بن سکتا ہے، کیا ذات وبرادری کی تفریق باقی رہ سکتی ہے، حقیقت یہ ہے کہ سب مسلمان ہوں گے اور ایک ہوں گے۔
اسلامی اخوت کی حفاظت ،نماز روزے سے بڑھ کر ہے
بعض روایات سے تو یہاں تک پتہ چلتا ہے کہ ایمانی اخوت و محبت اور اس کی بقاء و تحفظ نماز اور روزے سے بھی بڑھ کر ہے۔
حضرت ابودرداء ؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺنے فرمایا: ’’میں تمہیں ایسا عمل نہ بتاؤں جو روزوں اور صدقہ وخیرات اور نماز سے بھی افضل ہے؟‘‘ ہم نے عرض کیا کیوں نہیں، (ایسی بات تو ضرور ارشاد فرمائیے) آپؐ نے فرمایا:’’ وہ عمل باہمی تعلقات کی اصلاح ہے، (اصلاح باہم ہے) تعلقات کا فساد ، صفایا کردینے والی چیز ہے۔ ‘‘(رواہ الترمذی)
حضرت زبیر ؓ کی روایت میں مزید صراحت ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’تمہارے اندر گزشتہ قوموں جیسی بیماری درآئی ہے، حسد اورباہمی عداوت و دشمنی صفایا کردینے والی چیز ہے، میں بالوں کے صفایا کردینے کی بات نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ یہ دین کا صفایا کردیتی ہے۔‘‘ (رواہ الترمذی)
کون صاحب ِایمان نہیں جانتا کہ نمازو روزہ اسلام کے رکن رکیں ہیں مگر رسولِ اسلامﷺ نے مسلمانوں کے باہمی تعلقات کی درستگی کو ان بنیادی ارکان اسلام سے بھی افضل قرار دیا اور وجہ یہ بیان فرمائی کہ باہمی بگاڑ و اختلاف، پورے دین کی بنیاد کو اکھاڑ دینے والی چیز ہے، آپس کی نفرت و عداوت اور بغض وکینہ دین اور تقاضائے دین پر غالب آکر مسلم امت کی ایک ایک چیز پر قبضہ جما لیتے ہیں۔
اصلاح باہم کی اس سے بڑھ کر اور کیااہمیت ہوسکتی ہے کہ اس کی خاطر خدا کے رسولؐ نے نماز جیسی عبادت میں تاخیر گوارا فرمائی۔
قرآنی ہدایت اور ایمانی بصیرت تھی کہ ایک موقع پر اوس اور خزرج جن کی دشمنیاں مشہور ہیں، ایمان لانے کے بعد جب ایمان کی حرارت نے ان کے دلوں کو پگھلاکرایک دوسرے سے جوڑ دیا، ایک دن دونوں قبیلوں کے لوگ ایک جگہ بیٹھے تھے کہ خزرج کے ایک آدمی نے ایک شعر پڑھا جس میں اوس کی ہجو تھی، پلٹ کر اس نے بھی خزرج کی ہجو میں شعر پڑھا، بڑھتے بڑھتے سلسلہ یہاں تک پہنچ گیا کہ تلواریں نکل آئیں، آپؐ کو جیسے ہی خبر ہوئی فوراً وہاں پہنچے اور یہ آیتیں تلاوت فرمائیں:
{یٰٓــاَیـُّـہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ (102) وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْاص وَاذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللہِ عَلَیْکُمْ اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَآئً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖٓ اِخْوَانًاج وَکُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَکُمْ مِّنْہَاط کَذٰلِکَ یُـبَـیِّنُ اللہُ لَـکُمْ اٰیٰتِہٖ لَـعَلَّـکُمْ تَہْتَدُوْنَ(103)}(آل عمران) ’’اے اہل ایمان! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جتنا کہ اُس کے تقویٰ کا حق ہے‘اور تمہیں ہرگز موت نہ آنے پائے مگر فرمانبرداری کی حالت میں۔اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھام لو مل جل کر اور تفرقے میں نہ پڑو۔ اور ذرا یاد کرو اللہ کا جو انعام تم پر ہوا جبکہ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے‘تو اللہ نے تمہارے دلوں کے اندر اُلفت پیدا کر دی‘پس تم اللہ کے فضل و کرم سے بھائی بھائی بن‘گئے۔اور تم تو آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ گئے تھے ‘‘ (بس اس میں گرنے ہی والے تھے ) تو اللہ نے تمہیں اس سے بچا لیا۔اسی طرح اللہ تمہارے لیے اپنی آیات واضح کررہا ہے تاکہ تم راہ پائو (اور صحیح راہ پر قائم رہو)۔‘‘
زبان مبارک سے یہ آیات سنتے ہی انھوں نے تلواریں زمین پر پھینک دیں اور باہم گلے مل کر خوب روئے۔ روایت میں ہے کہ انہیں اپنے ہتھیاروں سے وحشت ہوگئی اور پھینک دیئے۔
قرآن پاک اور نبی رحمتؐ نے بنائے امت کو جن بنیادوں پر استوار کیا تھا ان کی رو سے علاقائیت، قومیت، برادریاں تمام رشتے تحلیل ہوکر {اِنَّ ہٰذِہٖٓ اُمَّتُکُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً ز وَّاَنَا رَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْنِ(0)} (الانبیاء:92) کی ناقابل تسخیر وحدت میں ضم ہوگئے اور لازوال ہوگئے۔
یہاں یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ لفظ ’’اُمت‘‘ جس طرح کسی قوم اور جماعت کے لیے استعمال ہوتا ہے اسی طرح ایک طریقہ وروش کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے گویا جب بہت سے افراد مل کر ایک قوم ہوجائیں تو ان سب کے طور طریق اور روش بھی ایک ہونا چاہئے۔ مگر امت کی بدقسمتی ہے کہ اپنے ان فانوسوں کو ریزہ ریزہ کرکے اور اپنی ان روشن قندیلوں کو گل کرکے دشمن کے مدھم اور ٹمٹماتے ہوئے دلوں کو روشن کر رہی ہے اور اپنی بربادی کا سامان کر رہی ہے۔
((اَللّٰھُمَّ اھْدِ قَوْمِیْ فَاِنَّھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ)) (سنن ابن ماجہ )’’اے اللہ!میری قوم کو ہدایت دے یہ مجھے نہیں جانتے۔‘‘
دلوں کا ٹکراؤ شیطان کا مرغوب ترین مشغلہ ہے
حضرت جابر ؓ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺنے فرمایا:’’ شیطان سمندر کے اوپر اپنا دربار لگاتا ہے اور ہر طرف اپنے وفود روانہ کرتا ہے جو انسانوں کو فتنوں میں مبتلا کرتے ہیں۔ پس اس کا سب سے قریبی وچہیتا وہ قرار پاتا ہے جس کا فتنہ سب سے بڑا ہوتا ہے، ان میں سے ایک آتا ہے اور کہتا ہے کہ آج میں نے یہ یہ کیا، وہ کہتا ہے کہ تم نے کچھ بھی نہیں کیا، دوسرا کہتا ہے کہ میں نے فلاں کا پیچھا اس وقت تک کیا کہ اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان پھوٹ ڈلوا دی، وہ اُسے قریب کرتا ہے اور سینے سے لگالیتا ہے اور کہتا ہے: شاباش، تیرا کیا کہنا، دوسری روایت میں یہ صراحت بھی مذکور ہے کہ شیطان اس بات سے تو مایوس ہوچکا ہے کہ نماز پڑھنے والی امت، اللہ کی بندگی چھوڑکر اس کی پرستش کرنے لگے، ہاں، وہ اسے لڑانے بھڑانے کے سلسلے میں ضرور پُرامید ہے۔
شیطان کے اسی پھندے سے بچنے کی خاطر اسلام نے اپنے ماننے والوں کو تعلیم دی کہ جب بھی آپس میں تلخی اور سخت کلامی کی نوبت آئے، چاہئے کہ لاحول ولا قوۃ الا باللہ پڑھ کر خاموش ہوجائے، پانی پی لے، بیٹھ جائے اور وہاں سے ہٹ جائے وغیرہ۔
ایک موقع پر حضور نبی کریم ﷺ نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے مخاطب ہوکر فرمایا: تین باتیں ہیں اور ان میں سے ہر ایک شدنی ہے:(1) کوئی بندہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ کوئی اس پر ظلم کرے اور وہ اللہ کے لیے معاف کردے اوراللہ تعالیٰ غیب سے اس کی مدد کے اسباب فراہم نہ کرے۔ (2) کبھی ایسا نہیں ہوا کہ بندہ نے اللہ کے لیے خرچ کیا ہو جس سے اس کا مقصد بندوں کے حقوق ادا کرنا ہو اور اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے خیروبرکت میں اضافہ نہ کیا ہو۔ (3) اور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی نے مخلوق سے سوال کیا ہو جس سے اس کا مقصد اپنی ضرورت کی تکمیل ہو اور اللہ نے اس کے حق میں کمی و بے برکتی نہ لکھ دی ہو۔ (الترغیب والترہیب)
بغض وکینہ سے اجتناب کیجئے
دین اسلام نے دلوں سے تمام مسلکی، جماعتی، علاقائی ، نسبی غرض ہر طرح کے تعصب کو ختم کرنے کا مکمل اہتمام کیا ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ جاہلی عصبیت اور بغض و حسد، اللہ کی مغفرت کے حصول میں بھی رکاوٹ ہے۔
حضرت انس بن مالک ؓ ایک جلیل القدر صحابی ہیں ان سے ایک واقعہ منقول ہے کہ ایک دن یہ لوگ اللہ کے رسولﷺ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، آپؐ نے فرمایا: ابھی تمہارے درمیان ایک جنتی آنے والا ہے، اتنے میں ایک انصاری صحابی آئے جن کی داڑھی بھیگی ہوئی تھی، ہاتھ میں چپل تھی، وہ آئے اور کچھ دیر کے بعد (غالباً نماز پڑھ کر) چلے گئے۔
دوسرے دن پھر آپؐ نے وہی بات ارشاد فرمائی اور پھر وہی انصاری آئے اور گئے۔ تیسرے دن بھی ایسا ہی ہوا، جب مجلس نبویؐ برخاست ہوگئی تو عبداللہ ابن عمرؓ ان کے پیچھے پیچھے گئے اوران سے مہمان بننے کی درخواست کی۔ چنانچہ وہ ان کے یہاں تین دن تک ٹھہرے رہے اور یہ پتہ لگانے کی کوشش کرتے رہے کہ آخر کس وجہ سے اللہ کے رسولؐ نے ان کو جنتی بتایا تھا۔ تلاش کے باوجود انہیں ان کی زندگی میں کوئی ایسا عمل نظر نہیں آیا۔ جب واپس ہونے لگے تو ان انصاری صحابی ؓ نے بلایا اور کہا کہ جو کچھ تم نے دیکھا ہے میں ویسا ہی ہوں، البتہ میں کسی مسلمان کے تئیں اپنے دل میں کوئی کینہ، تعصب اور کدورت نہیں رکھتا اور نہ کسی سے جلتا ہوں، یہ سن کر ابن عمرiنے کہا کہ اس چیز نے تم کو اس مقام بلند تک پہنچایا ہے۔
یزار و ابن عساکر وغیرہ نے ان صحابی کا نام حضرت محمد بن ابی وقاص ؓ بتایا ہے ۔ یہ وہ جلیل القدر صحابی رسولﷺ جو عشرہ مبشرہ میں شامل ہیں یعنی ان صحابہ کرام ؓ میں سے ہیں جن کے جنتی ہونے کی بشارت سیدالمرسلین ورحمت للعالمین ﷺکی زبان مبارک سے دنیا ہی میں سنا دی گئی تھی۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دین اسلام میں باہمی اخوت و محبت کی کس قدر اہمیت ہے وہ چیزیں جو اس مقدس رشتۂ ایمانی کی راہ میں حائل ہوسکتی ہیں ، اسلام نے ان پر کیسی قدغنیں لگائی ہیں اور مسلم معاشرے سے کس طرح ان چیزوں کو ختم کرنے کی سعی مشکور کی ہے ان روشن ہدایات و تعلیمات کی روشنی میں امت اپنا جائزہ لے اور دیکھے کہ وہ اپنے دعویٰ ایمان میں کتنی مخلص ہے ، ایک طرف ہادیٔ اعظمﷺ کے پیش کردہ یہ اصول اور دوسری طرف ہمارا طرز فکر وعمل۔ پھر بھی ہمیں فخر ہے ع کچھ بھی ہیں لیکن تیرے محبوب کی امت میں ہیںاللہ تعالیٰ پوری امت مسلمہ کو اتحاد و اتفاق کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین!