اسلاف کا قلب و جگرعامرہ احسان
بہ زبانِ غزہ، نبیﷺ کی سفر طائف سے واپسی پر اللہ کے حضور فریاد، دل پر دوہرے زخم ثبت کرتی ہے۔ کریم بنی ﷺ کی عظمتِ مقام کے باوجود بھاری آزمائش پر دل آج بھی کرچی کرچی ہونے لگتے ہیں۔ اور اب اہل غزہ کے 59 مسلم ممالک کی 2 ارب آبادی، فوجیں، علماء، مدارس، دینی سرگرمیاں، ہزاروں لاکھوں کے ٹھٹ اور غزہ خونچکاں، پانی کے گھونٹ، دوا کی گولی، روٹی کے لقمے کو ترستا؟ یا ارحم الراحمین یارب المستضعفین…اللہ! غزہ آخری دموں پر ہے۔ پانی کے گھونٹ، دوا کی گولی، روٹی کے لقمے کو ترستا ۔ روٹیوں کے پہاڑ (غذا کے ٹرک) مصر، امریکہ اور اسرائیل کے مشترکہ قبضے میں ہیں اور وہ قصداً انھیں سسکار ہے ہیں۔ (دجال سے متعلق احادیث کے عین مطابق۔ مسلمان ان پڑھ ہیں اصل علم سے لا تعلق، دجالیوں کے جانے انجانے میں مدد گار، ساتھی بنے !) اردن اس وقت دار الحکومت میں فوڈ فیسٹول کے اشتہا انگیز کھانوں کی بے رحم مہک اڑانے کو 6 تا 11 اگست کے اشتہار دے رہا ہے۔ (غزہ کے فاقہ زدہ ڈھانچوں پر نمک چھڑکنے کو )۔ ان کے اشتہار میں لکھا ہے، جہاں کلچرز (بے حیا ڈھٹائی، بے حسی کے؟) یک جا ہوں گے۔ بڑے بڑے شیف (ماہر باورچی) ملیں گے۔ یہ اردن ہے جس نے خلافت عثمانیہ سے جان چھڑا کر برطانیہ کے سایۂ عاطفت(غفلت) میں آنا پسند کیاتھا۔ ادھر غزہ کی روزانہ کی فاقہ کشوں کی تصاویر دیکھیں۔ GHF، سفاک امریکی و اسرائیلی نام نہاد امدادی ادارے نے خان یونس میں موت کا جال بچھایا۔ امداد کی آڑ میں ’صرف خواتین‘ کا اشتہار لگایا۔ خاتون کہتی ہے: ہم وہاں مدد لینے پہنچیں تو آنسو گیس، آگ، مرچوں کا سپرے، گولیاں برسائی گئیں۔ شدید تذلیل سے گزارا۔ (خواتین بچنے کے لیے زمین پر الٹی خوفزدہ لیٹی ہوئی ہیں قطار اندر قطار۔) میں ننگے پاؤں وہاں سے بلا امداد، ذلت کما کر لوٹی۔ وہاں جو امداد لینے جاتا ہے وہ موت کے سفر پر نکلتا ہے۔ دنیا کی لعن طعن بر اب جو امداد کا پروپیگنڈا ہے، سرتا سر جھوٹ ہے۔ جہاں سمندر درکار ہے مدد کا وہاں دیکھ لیجیے، پیاسے کو شبنم بھی میسر نہیں، موت بٹ رہی ہے۔ کہتی ہے :’میرا جسم مرچوں کے سپرے سے دہک رہا ہے، سر بھڑک رہا ہے۔ ہم بچوں کو کیا جواب دیں، تمہارے لیے کیا لائے؟‘ یہ ہے امریکی امداد! ذلت، دکھوں میں روند کر! (ادھر ہم ہر وقت اسی، طواف کوئے ملامت کو مدد طلب دوڑے جاتے ہیں۔ اس مرتبہ تو ہم اپنی بیٹی ڈاکٹر عافیہ سے بھی اظہار بر ات کر گزرے۔ جس پر اس کا سراپا درد (برطانوی) اٹارنی کلائیو سٹیفورڈ بھی چلا اٹھا۔ غلط، بالکل غلط، بلا گواہی، خلافِ انصاف کو کس طرح آپ نے ’انصاف‘ کے عین مطابق قرار دے دیا؟
اسی پر بس نہیں۔ GHF نے ایک ماہ پہلے 15 تا 17 سالہ بچے رفح سے اغوا کیے۔ اسرائیلی فوجیوںنے اذیتوں، بھوک سے گزاراہاتھ، ٹانگیں باندھ کر رکھا۔ بدحو اس، نیم دیوانہ، سوکھا لاغر بچہ، ہر انگ سے خوف ٹپکتا! اب محبتوں میں گھر ا مگر غیر یقینی کیفیت کا شکار۔مہذب دنیا اب غصے سے پاگل ہو رہی ہے۔ امریکہ، اسرائیل اور مصر پر ان گنت ممالک میں عوام (مسلم، غیر مسلم) مصری سفارت خانوں کو تالے لگار ہے، دشنام طرازی، لعن طعن کر رہے ہیں۔ ایمسٹر ڈیم، لیبیا، مراکش، تر کی، لبنان، لندن سبھی جگہ غم و غصے سے رفح بارڈر کھولنے کے تقاضے کے ساتھ مصری سفارت خانے کو تالا لگایا گیا۔ بغداد میں بڑی تعداد میں عراقی مظاہرین نے ’سیسی اللہ کا دشمن ہے‘ کے بلند بانگ نعرے لگائے۔ ’سفیر سن لے!‘ تکبیریں بلند کیں۔ اے اقصٰی ہماری زندگی، ہمارا خون ہماری قربانیاں تمہارے لیے ہیں۔ خود مصری عوام شہر، شہر اب جاگ اٹھے ہیں۔وحدتِ اُمَّت صرف ان حساس، باضمیر، غزہ پر متحرک مسلمانوں تک محدود ہے!
یہ حال ہو چکا کہ ناصر ہسپتال میں گزشتہ 48 گھنٹے سے کچھ کھائے بغیر فاقہ زدہ طبی عملہ آپریشن کر رہا ہے۔ خود ڈائریکٹر کے پاس اب صرف سوکھی روٹی کے 2 ٹکڑے تھے۔ اسرائیلیوں کے لیے دنیاکے عوام، (حکمران نہیں!) سراپا نفرت ہیں۔ خود فلسطینی کہتے ہیں ’اگر ہم عیسائی، دروز، غلوائیت (بشار الاسد کی طرح)، ہندو ہوتے تو دنیا اٹھ کھڑی ہوتی ہماری مدد کو۔ سیکورٹی کونسل کا اجلاس بلایا جاتا۔ مگر ہم مسلمان ہیں۔ (فائز ابو شمالۃ) ادھر خلیل الحیۃ، غزہ کا جلا وطن حماس چیف سوال کرتا ہے۔ ’اے علمائے امت! غزہ کی پاکباز بیٹیاں آپ کو پکار رہی ہیں۔ وااسلاماہ کی فریاد، سسکتی صدائیں آپ کے ضمیر کو جھنجوڑ نہیں رہیں؟ آپ کی گردنوں پر ایک عظیم امانت کا بوجھ ہے۔ اس بارے آپ جوابدہ ہوں گے!
یہ ہُو کا عالم، یہ سناٹا، خون سے بڑے ایمانی رشتے پر کیوں دنیا بھر کے مسلمانوں پر چھایا ہوا ہے؟ حب الدنیا وکراہۃ الموتسمندروں کی جھاگ جیسی 2 ارب بے وقعت ہوئی امت پر چھائی ہے۔ یہ ’روحانی کرونا‘ ہے جو ہمیں اندر سے چاٹ گیا ہے۔ اس کی ابتدا تو 2001ء میں ہو گئی تھی جب امت بے وقعت ہو کر کفر کے لشکروں کی ہمنو ابنی امارت اسلامیہ افغانستان پر ٹوٹ پڑنے والی کفریہ قوتوں کی مدد گار بنی۔ جہاد گناہِ عظیم اور دہشت گردی قرار پایا۔ وہ تمام اصطلاحیں آج گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہو گئیں۔ امریکہ اسرائیل پر یہ فتاویٰ صادر نہیں ہوتے۔ اب وہ انتہا پسند دہشت گرد نہیں۔ انھیں سافٹ امیج، رواداری، آزادیٔ اظہار،بر داشت، ڈائیلاگ، ان معنوںمیں نہیں پڑھایا جاتا جو ہم پر لازم تھا۔ ’ڈی ریڈی کلائز ‘انتہا پسندی سے نکال کر فلسطینیوں کا طرزِ فکر،طرزِ زندگی اپنانے، برداشت کرنے کی تعلیم وتربیت اسرائیلیوں کو درکار نہیں۔ جو بد تہذیبی کی آخری انتہاؤں سے بھی گر چکے اس پر اعتراض نہیں! وجہ؟ عالمِ اسلام کی اشرافیہ، بے ضمیر، بڑی طاقتوں کے ہاتھ بکے ہوئے حکمران۔ اول تا آخر پوری امت میں۔ تمام مسلمان بے بس ہیں۔ درد مند تو ہیں ۔ مگر دعاؤں، ہمدردی کے سوا تہی دست۔انھیں اپنی اور بچوں کی زندگی اورمستقبل عزیز ہے۔ تاریخ سے ناواقف ہیں۔
ع ’ وہ کیا گردوں تھا جس کا تو ہے اک ٹوٹا ہوا تارہ!‘
جمہو ریت، اگر چہ اب دیکھ برت چکے، مگر نہیں جانتے خلافت کیا ہوتی ہے۔ قرآن، حدیث، وظائف، اذکار کر بھی لیں تو سیاسی اسلام شجر ممنوعہ ہے۔ حالانکہ وہ تو ہجرت مدینہ سے شروع ہو کر ریاست مدینہ میں بصورتِ قرآن آگیا۔ پو را نظام زندگی، حکمران نبی ﷺ اور قوانین ریاست تمام مدنی سورتوں میں نازل اور نافذ ہوتے گئے۔ آپؐ کے وصال تک، ہمہ گیر، ہمہ پہلو سیاسی، معاشی، معاشرتی، تعلیمی، بین الاقوامی رہنمائی ہماری مکمل ہو چکی تھی۔ وہی تمام آیات جن پر خلافت ِراشدہ آپؐ کے بعد بھی استوار ہوئی اور تین براعظموں پر تبلیغ اور جہاد فی سبیل اللہ کے ذریعے نافذ ہوئی۔ ہم یہ آیات مردوں پر پڑھ کر فارغ ہو جاتے ہیں۔ مگر! خدائے زندہ زندوں کا خدا ہے۔ ہم روحانی طور پر… مردہ ہے مانگ کے لایا ہے فرنگی سے نفس! خلافتِ عثمانیہ تک دنیا پر ہیبت بٹھائی (1924 ء) 3براعظموں پر اسلامی سلطنت، آج کے 64 ممالک پر مشتمل تھی۔ ننھے سے یورپ کے مقابلے میں عظیم الشان خلافت! کتنی بے پناہ شبانہ روز محنت سے یورپ نے اسے توڑا اور عہد کیا کہ اسے دوبارہ کسی صورت سر نہیں اُٹھانے دینا۔ ان ممالک کی وسعت اور تفصیل ہی آپ کے دل کو قوت و شوکت سے بھر دے گی۔ مسلمان (مگر مکمل! شریعت سے نابلد، ان پڑھ نہیں) اپنی تاریخ، مقصدِ وجود جانتا ہو تو مٹھی بھر بھی ایک دنیا کو دہلانے کو کافی ہیں۔
افغانستان کے مقابل تین سپر پاورز اور پھر 2021ء میں پوری دنیا کی مشترکہ قوتوں کی شکست میں کیا کوئی سبق نہیں؟ اس وقت دنیا بھر کے با شعور با ضمیر انسان کروڑوں کی تعداد میں امریکہ اسرائیل کے جانی دشمن ہوئے پڑے ہیں مگر وحدتِ اُمَّت ہوتی تو نقشہ پل بھر میں بدل جاتا۔آج کا پاکستان، مشرقی پاکستان کے تلخ تجربے سے گزرنے کے باوجود پھر انہی راستوں کی بھول بھلیوں میں، بصورتِ دلدل دھنستا چلا جارہا ہے۔ اس کی سالمیت صرف اور صرف اسلام سے وابستہ ہے۔ محبت، اخوت، عدل وانصاف، حکمت و دانائی، اعلیٰ ظرفی، غلطیوں کا اعتراف اور اصلاح احوال درکار ہے۔ بڑوں کی منتقم مزاجی، عوام میں تعصیات کے زہر کو پھلنے پھولنے دینا تباہی بربادی کا راستہ ہے۔ نیز امانت و دیانت کو دنیا پرستی نگل گئی۔ رزقِ حلال کی نہ پہچان نہ فکر، نہ دنیا و آخرت میں نتائج کا علم۔ جہالت، کرپشن ،سیرت و کردار کو دیمک بن کر چاٹ گئی۔ گاڑی، گھر، منصب کی چاہ نے دیوانہ کر رکھا ہے۔ ملکی ترقی بھی ظاہری چمک دمک، عمارات، پلوں، سڑکوں، ہائی رائز عمارتوں، بلٹ ٹرین کو سمجھا جاتا ہے۔ بنیادی عوامی ضروریات و سہولیات کی خبر ہی نہیں۔ سیلابوں میں ڈوبتا ملک، ایک ڈیم بنانے کی فرصت نہیں! تر جیحات درست کیجیے۔ ع
لا کہیں سے ڈھونڈ کر اسلاف کا قلب و جگر