(زمانہ گواہ ہے) ’’اتحاد اُمت اور پاکستان کی سالمیت ‘‘ مہم - محمد رفیق چودھری

12 /

اتحاد اُمت کے تصور کو دوبارہ اُجاگر کرنے کے لیے ضروری

ہے کہ نیشن سٹیٹس کے تصور کی نفی کی جائے :خورشید انجم

اتحاد کے بغیر دنیا کے پونے 2 ارب مسلمان اور 57 مسلم ممالک

محض راکھ کا ڈھیر ہیں :ڈاکٹر فرید احمد پراچہ

ہر مسلم ملک اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجد کے میناروں کو اونچا

کرنے کی بجائے اُمت کے اجتماعی مفاد کوبالا سمجھے

تو اتحادِ اُمت ممکن ہے :ڈاکٹر عارف صدیقی

تنظیم اسلامی کے زیراہتمام ’’اتحاد اُمت اور پاکستان کی سالمیت ‘‘ مہم

پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف تجزیہ نگاروں اور دانشوروں کا اظہار خیال

میز بان : وسیم احمد باجوہ

مرتب : محمد رفیق چودھری

سوال: تنظیم اسلامی’’اتحاد اُمت اور پاکستان کی سالمیت ‘‘کے عنوان سےایک مہم کا آغاز کر رہی ہے۔ اتحاداس وقت پوری دنیا کے مسلمانوں کی ضرورت ہے ۔ بالخصوص اسرائیلی مظالم کے خلا ف سب کو متحد ہونے کی ضرورت ہے ۔ آپ کی کیا رائے ہے ؟
ڈاکٹر فرید احمدپراچہ:اتحاد کے بغیر تو اُمت کا تصور ممکن ہی نہیں ۔ جیسا کہ فرمایا :
{اِنَّ ہٰذِہٖٓ اُمَّتُکُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً ز} (الانبیاء:92) ’’یقیناً یہ تمہاری اُمّت ‘ ایک ہی اُمّت ہے‘‘
یہ اُمت، اُمت واحدہ اُسی صورت میں بن سکتی ہے جب اس میں اتحاد ہوگا ۔ اُمت کے اتحاد کی ضرورت ویسے تو ہر دور میں رہی ہے لیکن موجودہ دور میں جبکہ پورا  عالم کفر الکفر ملۃ واحدہ کی شکل اختیار کرچکا ہے ، اس صورت میں اُمت کے اتحاد کی ضرورت زیادہ محسوس ہورہی ہے ۔ قرآن پاک میں کہا گیا:
{وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْہَبَ رِیْحُکُمْ } (الانفال:46)’’اور آپس میں جھگڑا نہ کرو ورنہ تم ڈھیلے   پڑ جائو گے اور تمہاری ہوا اُکھڑ جائے گی  ۔‘‘
آج ہماری ہوااسی وجہ سے اُکھڑ گئی ہےکہ ہم متحد نہیں رہے ۔ اس وقت دنیا میں پونے دو ارب مسلمان اور 57 مسلم ممالک ہیں جن میں پاکستان جیسی دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت بھی شامل ہے ۔پھر ان میں بہت سے   دولت مند مسلم ممالک بھی شامل ہیں ، ہر طرح کے وسائل اُمت کو میسر ہیں لیکن اس سب کے باوجود آج پوری دنیا میں اُمت کو مار پڑرہی ہے ۔ دشمن قوتیں مسلم ممالک پر یلغار کرکے تباہی مچا رہی ہیں ، غزہ کو کھنڈربنا دیا گیا ہے لیکن 57 مسلم ممالک کے حکمران صرف زبانی جمع خرچ سے زیادہ کچھ نہیں کر رہے ۔ اس لیے دشمن یہ سمجھ چکے ہیں کہ پونے دو ارب مسلمان صرف راکھ کا ڈھیر ہیں۔ مسلم ممالک قراردادیں پاس کرنے ، مذمت کرنےاور عوام ریلیاں  نکالنے  تک محدودہیں ۔ان کی عسکری قوت صرف فوجی پریڈ کرنے اور مخصوص دنوں کو مارچ پاسٹ کرنے کے سوا کچھ نہیں کر رہی ۔ اندازہ کیجئے کہ غزہ میں بچے بھوک سے مررہے ہیں ،خوراک اور ادویات نہیں ہیں ، امداد ی سامان کے ٹرک اسرائیل نے روک رکھے ہیں ، اور اس دوران مسلسل بمباری کرکے غزہ کے مسلمانوں کو شہید کیا جارہا ہے اور غزہ کو کھنڈر بنایا جارہا ہے۔ رمضان بھی آیا ، عیدین بھی آئیں، لیکن 57 مسلم ممالک ایک دن کے لیے بھی جنگ بندی نہیں کروا سکے۔ اسرائیل کے خلاف عالمی عدالت میں بھی اگر کوئی ملک گیا ہے تو وہ ایک غیر مسلم ملک (جنوبی افریقہ ) گیا ۔ کوئی مسلم ملک عالمی عدالت میں بھی نہیں جا سکا ۔ آج ہماری یہ بے بسی اتحاد نہ ہونے کی وجہ سے ہے ۔ ایک چھوٹا سے ملک اسرائیل آج 57 مسلم ممالک کوسرے عام چیلنج کر رہا ہے، کبھی وہ یمن پر حملہ کرتاہے ، کبھی شام پر ، کبھی لبنان پر ، کبھی ایران پر اور اعلانیہ   کہہ رہا ہے ایران کے بعد پاکستان کی باری آئے گی۔کیا 57 مسلم ممالک ایک ایک کرکےبرباد ہونے کا انتظار کر رہے ہیں ؟ ٹھیک ہے ایران نے جواب دیا لیکن یہی جواب اگر پوری اُمت مسلمہ کی جانب سے ہوتا تو اسرائیل کی آئندہ کسی مسلم ملک پر چڑھائی کرنے کی  جرأت نہ ہوتی۔ ایران کے بعد پاکستان کی باری آسکتی ہے ۔ لہٰذا اس وقت اُمت کو اتحاد کی جتنی ضرورت ہے اس سے پہلے کبھی نہ تھی ۔ ہمیں  سقوط بغداد، سقوط غرناطہ و قرطبہ سے سبق سیکھنا چاہیے ۔
سوال: ان حالات میں آپ کیا سمجھتے ہیں کہ اگر کچھ ممالک کا اتحاد بن جائے تو کچھ بہتر نتائج حاصل ہو سکتے ہیں ؟ خاص طور پر کن مسلم ممالک کا اتحاد ممکن ہے اور کیا وہ فوری بننا چاہیے ؟
ڈاکٹر محمد عارف صدیقی:اُمت کے اندر اتحاد کا جذبہ بیدار ہورہا ہے ۔ جب پاکستان اور بھارت کے درمیان معرکہ ہوا تو معلوم ہوا کہ ترکیہ ہمارے ساتھ کھڑا ہے ، بنگلہ دیش ہمارے ساتھ کھڑا ہے ، بنگلہ دیشی آرمی چیف نے وزٹ بھی کیا ۔ آزربائیجان نے اخلاقی مدد کی ۔ اس کے بعد جب ایران پر اسرائیل نے حملہ کیا تو پاکستان نے ہر لحاظ سے ایران کی مدد کی ۔ ایرانی پارلیمنٹ میں اس کا اعتراف کیا گیا ۔ ابھی خبریں آرہی ہیں کہ ایرانی صدر بھی پاکستان کے دورے پر آرہے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ اُمت کے اندر اتحاد کی فضا ہموار ہونا شروع ہو چکی ہے ۔ اس سے پہلے اگر آپ دیکھیں تو سعودیہ نے بھی ایران کے بارے میں اپنے نظریات کو کچھ بدلا ہے۔  افغانستان کے پاس دنیا کی سب سے تجربہ کار گوریلا فورس ہے جو گزشتہ چار نسلوں سے گوریلا جنگ لڑ رہی ہے۔ پاکستان کے پاس ایٹمی قوت اور میزائل ٹیکنالوجی ہے ۔ ترکیہ کے پاس ڈرون ٹیکنالوجی ہے ۔ ملائشیا کا اکنامک ویژن ہے۔ انڈونیشیا بحری راستوں کے حوالے سے اہم ہے ۔ لیکن ان سب نے اپنی اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجد بنا رکھی ہے ۔ اس کی بجائے اگر ہر مسلم ملک اپنی صلاحیت کو اُمت کے لیےوقف کرے ، مثلاً پاکستان کے ایٹمی اثاثے  اُمت کے اثاثے قرار دیے جائیں۔ ایران کی میزائل ٹیکنالوجی کو اُمت کا اثاثہ قراردیا جائے ۔ اسی طرح ترکیہ کی ڈرون ٹیکنالوجی،افغانستان کی گوریلا فورس، عرب ممالک کے معدنی وسائل کو اُمت کے اثاثہ جات قراردیا جائے ۔ پاکستان کے پاس ریکوڈک کے ذخائر ہیں ،     ہم بولی لگاتے ہیں اور امریکہ و کینیڈا جیسے ممالک کو بلاتے ہیں، بجائے اس کے اگر مسلم ممالک کے امیرزادوں کو بلایا جائے ،تو اتحاد کی یہ فضا مزید ہموار ہو سکتی ہے ۔ اب ہمیں دفاعی حکمت عملی سے آگے بڑھ کر جارحانہ حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی ۔ ہم اگر اوپن اتحاد نہیں بنا سکتے ، خفیہ اتحاد تو بنا سکتے ہیں ۔ کیا عالم کفر کے خفیہ اتحاد ہمارے خلاف نہیں ہیں؟اگر ہمارے کچھ ممالک دوسرے مسلم ممالک میں  اپنی پروکسیز اس لیے بناتے ہیں تاکہ وہاں اپنے مسلک ،  فرقہ ، علاقائی بالا دستی ، گریٹر ویژن کو پروموٹ کریں تو کیا یہ پروکسیز اسرائیل اور انڈیا کے خلاف نہیں بن سکتیں ؟ مگر شرط یہ ہے کہ ہم اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجد کے میناروں کو اونچا کرنے کی بجائے اُمت کے مفاد کو ترجیح دیں ۔ 
سوال:  مسلم ممالک کے درمیان اتحاد قائم نہ ہونے کی کئی وجوہات ہیں مگر ان میں سب سے بڑی وجہ       فرقہ واریت ہے جبکہ دوسری طرف عالم کفر اپنے تمام تر اختلافات کے باوجود متحد ہے ۔ ہم فرقہ واریت سے کس طرح نجات حاصل کر سکتے ہیں تاکہ اُمت میں اتحاد قائم ہو؟
خورشیدانجم: سب سےبڑی فرقہ واریت    نیشن سٹیٹس کا تصور ہے ۔ جب تک یہ نہیں تھا تو ہم اُمت واحدہ کی صورت میں تھے اور پوری دنیا پر ہمارا غلبہ تھا ۔اس وقت مغرب ڈارک ایجز میں سورہا تھا ۔ پھر ہماری بغداد اور غرناطہ کی یونیورسٹیوں سے پڑھ کر لوگ گئے اور یورپ میں رینائسنس اور ریفارمیشن کی تحریکیں چلیں ، اس کے نتیجہ میں یورپ جاگا ۔ لیکن اس کے باوجود بھی جب تک خلافت قائم رہی ، نہ تو فلسطین پر یہودی قبضہ کرسکے اور   نہ ہی کوئی مغربی ملک توہین رسالتﷺ کی جرأت کر سکا۔ اسلام دشمن قوتوں کو معلوم تھا کہ جب تک خلافت کا نظام قائم رہے گا وہ اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہو سکیں گی۔ لہٰذا انہوںنے عربوں کو جھانسہ دیا اور    خلافت ِعثمانیہ کے خلاف کھڑا کیا ۔ نتیجہ میں اُمت مسلمہ ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی اور اس کے بعد استعماری قوتوں نے ایک لانگ ٹرم پالیسی بنائی کہ مسلمانوں کو متحد نہ ہونے دیا جائے۔ اس کے لیے نیشن سٹیٹس کا تصور دیا گیا ۔ جس طرح ہمارے ہاں’’سب سے پہلے پاکستان  ‘‘کا نعرہ لگتا رہا، اسی طرح دوسرے مسلم ممالک بھی صرف اپنے ملکی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں اور اس وجہ سے اُمت کا اجتماعی مفاد پس پشت ڈال دیا گیا ۔ لہٰذا اتحادِ اُمت کے تصور کو دوبارہ اُجاگر کرنے کے لیے ضروری ہے کہ نیشن سٹیٹس کے تصور کی نفی کی جائے ۔ نیشن سٹیٹس کے تصور کی وجہ سے ہر ملک اپنے مفاد سے آگے بڑھ کر سوچنے کے لیے تیار نہیں ۔ اسی وجہ سے OIC، عرب لیگ جیسے عالمی ادارے بھی مذاق بن کر رہ گئے ہیں ۔ اگر اپنے ملکی مفاد سے آگے بڑھ کر سوچیں گے تو پھر نیٹو کی طرز پر عسکری اتحاد بھی بن سکتے ہیں ۔ پھر یہ کہ اُمت کے اتحاد کی سب سے بڑی بنیاد قرآن مجید تھا جس کو ہم نے چھوڑ دیا ہے اور فرقوں میں بٹ گئے ہیں ۔ اگر ہم قرآن کو تھام لیں گے تو دوبارہ اُمت واحدہ بن سکتے ہیں ۔ اس کے بعد نفاذ دین کی جدوجہد ہمیں متحد کر سکتی ہے ۔ پہلے خلافت کی بنیاد پر ہم اکٹھے تھے ، کیونکہ ہمارے پاس ایک مرکز تھا،لیکن اب کسی کا قبلہ واشنگٹن کی جانب ہے ، کسی کا ماسکو ، کسی کا بیجنگ اور کسی کا لندن کی طرف ہے ۔ اگر خلافت کا ادارہ قائم ہوگا تو ہم سب کے قبلے کا رُخ کعبہ کی جانب ہو جائے گا اور ہم متحد ہو جائیں گے ۔ 
سوال:پاکستان کی سالمیت کو اس وقت شدید خطرات لاحق ہیں ، امریکہ ، اسرائیل اوربھارت کا شیطانی اتحاد ثلاثہ چاروں جانب سے پاکستان کو گھیرنے کوشش کررہا ہے ، مشرقی اور مغربی دونوں بارڈرز سے پاکستان کو خطرہ لاحق ہے ۔ پاکستان کی سالمیت کو برقرار رکھنے کے لیے ہمیں کیا کرنا ہوگا؟
ڈاکٹر فرید احمدپراچہ: پاکستان کی سالمیت کے خلاف جتنے بڑے پیمانے پر اس وقت ایک کھلم کھلا یلغار ہو رہی ہے تو سب سے پہلے ہمیں اس کو سمجھنا چاہیے ۔ امریکہ ، اسرائیل اور بھارت  کی طرف سے تو ایک    اعلانِ جنگ ہے اور پوری واردات ہو رہی ہے۔ ان کا ہدف پاکستان کا ایٹمی پروگرام بھی ہے ، نظریہ بھی ہے ، سالمیت اور بقاء بھی ہے ۔ لہٰذا پاکستان کو ایک طرف جغرافیائی دہشت گردی کا سامنا ہے اور دوسری جانب نظریاتی دہشت گردی کا بھی سامنا ہے ۔ نبی کریم ﷺ کی ناموس سے متعلق جو قوانین ہیں وہ بھی اس یلغار کی زد میں ہیں اور اس یلغار کے لیے سوشل میڈیا کا راستہ بھی استعمال کیا جارہا ہے اور عدلیہ کا راستہ بھی استعمال کیا جارہا ہے ۔ جغرافیائی دہشت گردی کے لحاظ سے بلوچستان اور    خیبر پختونخوا میںمسئلہ ہے ، سرحدیں محفوظ نہیں ہیں ۔ ان حالات میں ایک تو ہمیں اپنے ملک کے اندر اتحاد کی فضا کو قائم کرنا چاہیے ۔ دوسرا جو ہمارے ریاستی اور حکومتی ادارے ہیں ان کو آئینی حدود کے اندر رہتے ہوئے ملک کی جغرافیائی سالمیت کا دفاع کرنا چاہیے ۔ یہ ایسے اقدام نہ کریں ، ایسی قانون سازیں نہ کروائیں ، عدالتیں ایسے فیصلے نہ کریں کہ عوام میں مایوسی پیدا ہو یا ادارہ جاتی تصادم کی راہ ہموار ہو اور دشمن اس سے فائدہ اُٹھائیں ۔ اسی طرح ہمارے حکمرانوں کو امریکہ اور IMFپر انحصار ختم کرنا ہوگا اور اس کے لیے اپنے شاہانہ اخراجات کو ختم کرنے کی ضرورت ہے ۔ یہ ملک کی سالمیت کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ اگر برطانیہ میں حکومت کے پاس صرف 80 سرکاری گاڑیاں ہیں اور ہماری حکومت کے پاس صرف وفاق میں 1 لاکھ سرکاری گاڑیاں ہیں اور ان کے پٹرول اور دیگر اخراجات اس کے علاوہ ہیں تو اس سے اندازہ کیا جاسکتاہے کہ قومی خزانے کو کتنا نقصان پہنچایا جارہا ہے اور اس وجہ سے جب ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہوتا ہے تو ہم کاسہ لے کر بھیک مانگتے پھرتے ہیں اور پھر IMFجیسے ادارے ہم سے اپنی من مانی شرائط منواتے ہیں جن پر عمل درآمد کے نتیجے میں ملک مزید تباہی اور نظریاتی انتشار کی طرف جاتاہے ۔ معلوم ہوا کہ ملکی سالمیت کے لیے ایک بڑا خطرہ ہمارے حکمرانوں اور اشرافیہ کا شاہانہ طرززندگی بھی ہے۔ اسی طرح سودی نظام بھی ملکی سالمیت کے لیے بڑا خطرہ ہے ۔ وفاقی شرعی عدالت نے فیصلہ جاری کیا تھا کہ 31 دسمبر 2027ء تک پاکستان نے اپنے معاشی نظام کو نہ صرف سود سے مکمل طور پر پاک کرنا ہے بلکہ ملکی معیشت کو اسلامی خطوط پر استوار کرنا ہے۔ لیکن حکومت کی جانب سے ابھی تک کوئی اقدام نہیں کیا گیا، بجائے اس کے حکومت شرح سود بڑھا دیتی ہے ۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ جنگ جاری رکھ کر ہم ملکی سالمیت اور بقاء کو ممکن نہیں بنا سکتے۔ اسی طرح اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے ، شاہانہ اخراجات کو کم کرنے کے لیے، کلبھوشن کو سزا دینے کے لیےاگر ہماری حکومت تیار نہیں ہے تو پھر ملکی سالمیت اور بقاء محض ایک خواب ہے ۔ 
سوال:پاکستان کی سالمیت ، ترقی اور خوشحالی کےلیے ضروری ہے کہ فرقہ واریت اورانتہا پسندی کا خاتمہ ہو مگر یہ کیسے ممکن ہو سکتاہے ، آپ حکومت کو اس حوالے سے کیا تجاویز دیں گے ؟
ڈاکٹر محمد عارف صدیقی:ہمارے چیلنجز داخلی بھی ہیں، معاشی بھی ہیں اور خارجی بھی ہیں۔ ان سب کو حل کیا جائے گا تو یقینی طور پر ہم ایک طاقتور ،ملک بن کر اُبھریں گے۔اگر ہم چاہتے ہیں کہ بحیثیت ایٹمی قوت اُمت مسلمہ کو لیڈ کریں اور باقی مسلم ممالک ہماری قیادت میں کھڑے ہوں تو سب سے پہلے ہمیں اپنے آپ کو معاشی اور سیاسی طور پر مضبوط کرنا ہوگا اور اس کے ساتھ ساتھ اس ڈاکٹرائن کو بھی بدلنا ہوگا کہ ہماری ایٹمی قوت صرف ہمارے ملکی دفاع کے لیے ہے ، یہ دفاع کس طرح کا ہے جب پوری دنیا کے مسلمان کٹ مریں ۔ اسرائیل نے دھمکی دی ہے کہ ایران کے بعد اگلی باری پاکستان کی ہے تو کیا آپ اُس کا انتظار کریں گے ؟ اسی طرح ہماری معاشی بدحالی کی وجہ سے دشمن کی شرائط مان کرہماری ریاست فسطائیت کی طرف بڑھ رہی ہے ، اداروں کے درمیان تصادم بڑھ رہا ہے ۔ ہمارے ازلی دشمن بھارت کے ساتھ تمام کفریہ طاقتیں اتحاد کررہی ہیں ۔ IMFاور ورلڈ بینک کے قرضوں کے بوجھ تلے رہتے ہوئے ہم اپنی خودمختاری کو بحال نہیں رکھ سکتے ، ہم اتحاد اُمت کی طرف نہیں بڑھ سکتے ۔ دفاع سے آگے بڑھ کر جارحانہ پالیسی اپنانے کے لیے ہمیں سب سے پہلے قرضوں کے بوجھ سے نجات حاصل کرنا ہوگی اور اس کے بعد ہی ممکن ہے کہ ہم اُمت کے اتحاد کی بات کرسکیں ،ا س کے بعد ہی آپ امریکہ کو اس خطہ سے دیس نکالا دے سکتے ہیں اور اس کے بعد ہی ہمارے ملک میں استحکام آئے گا ۔ 
سوال:بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمد ؒ فرمایا کرتے تھے کہ پاکستان اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا اور اس کی سالمیت اوربقاء نفاذ اسلام میں ہے۔ اس وقت     نفاذِ اسلام کی کس قدر ضرورت اور اہمیت ہے ؟
خورشیدانجم:یہ ڈاکٹر اسراراحمدؒ کا خواب نہیں تھا بلکہ بانیان پاکستان علامہ محمداقبال اور قائداعظم کا بھی خواب تھا۔ قائداعظم کی 100 سے زائد تقاریر میں اس مقصد کو بیان کیا گیا ہے ۔ پھر قرارداد مقاصد اسی تناظر میں پاس کی گئی۔ مولانا سید مودودیؒ کا بھی یہی تجزیہ    تھا۔ پاکستان تو بنا ہی اسلام کی بنیاد پر ہے ۔ ورنہ کوئی نسلی ، لسانی ، علاقائی یا تاریخی عنصر نہیں تھا جو ہمیں ایک قوم بناتا۔ باقی تمام مسلم ممالک نسلی، لسانی یا جغرافیائی بنیادوں پر وجود میں آئے لیکن پاکستان واحد ملک ہے جو کلمے کی بنیاد پر بنا ہے ۔ ہمارے پاس کوئی دوسری اساس ہی نہیں تھی۔ لہٰذا جو پاکستان کی وجۂ قیام ہے وہی وجۂ بقاء بھی ہے۔ ورنہ پاکستان اپنا جواز کھو بیٹھے گا۔ کل بھارتی مسلمان پوچھے گا کہ تم یہاں بھی نماز روزہ کا اہتمام کر سکتے تھے ، یہاں بھی مساجد اور مدارس ہیں پھر تاریخ انسانی کی اتنی بڑی قربانیاں تم نے کس لیے دی تھیں ؟کیوں اتنا لہو بہایا ، اتنے سہاگ اُجاڑے گئے ، اتنے بچے یتیم ہوگئے تو ہمارے پاس کوئی جواب نہیں ہوگا ۔ لہٰذا پاکستان کا جواز صرف اور صرف نفاذ اسلام پر منحصر ہے ۔پاکستان اسی بڑے مقصد کے لیے حاصل کیا گیا تھا ،وہ مقصد علامہ اقبال کے الفاظ میں یہ تھا کہ دور ملوکیت میں اسلام کے چہرے پر جو بد نما داغ پڑ گئے ہیں ان کو صاف کر کے اسلام کا روشن چہرہ دنیا کو دکھا سکیں اور قائد اعظم کے الفاظ میں اسلام کا نظام حریت و اخوت و مساوات قائم کر سکیں ۔ اگر اس مقصد کے حصول کی جدوجہد نہیں ہوگی تو اس ملک کے وجود کی وجۂ جواز ہی باقی نہیں رہتی ۔ لہٰذا اگر ہم چاہتے ہیںکہ پاکستان میں استحکام آئے ، قومی یکجہتی اور ہم آہنگی قائم ہو تو ہمیں اسلام کی طرف بڑھنا ہوگا ۔صرف اسی صورت میں ہماری اُخروی نجات بھی ممکن ہوگی ۔ 
سوال:پاکستان کی سالمیت اور بقاء کے لیے سیاسی، مذہبی اور معاشی طور پرمستحکم ہونا کتنا ضروری ہے؟ 
ڈاکٹر فرید احمدپراچہ:پاکستان کی بقاء اور سالمیت کا انحصار ہی اس نظریہ پر ہے کہ پاکستان کا مطلب کیا لاالٰہ الا اللہ ۔ ہمارے سیاسی اورمعاشی استحکام کا انحصار بھی اسی نظریہ کے نفاذ پر ہے ۔ اس نظریہ کے نفاذ کی صورت میں جب ہم معاشی طور پر مضبوط ہوں گے تو IMFاور ورلڈ بینک سے نجات حاصل ہو جائے گی اور ہمارے ملک میں نظریاتی اور سیاسی استحکام بھی آئے گا ۔ بصورت دیگر ہماری سیاست ، معیشت ، معاشرت ، میڈیا ، ادارے ، کچھ بھی آزاد نہیں ہوگا ۔ آج ہماری انڈسٹری ٹھپ ہو چکی ہے، زراعت کو بھی ہم نے ختم کردیا ہے حالانکہ ہماری اقتصادیات کی ریڑھ کی ہڈی زراعت تھی ۔ ہم نے ایکسپورٹس بڑھانے کی بجائے امریکہ ، چائنہ اور بھارت کی منڈی بننے کا فیصلہ کیا ۔ ہم کارخانہ دار، کسان کو  سبسڈی دینے کو تیار نہیں ہیں، ان کو سستی بجلی اور سستا بیج دینے کے لیے تیار نہیں ۔ ہم نے ٹماٹر اور پیاز بھی باہر سے منگوانے ہیں ، ہمارے مل مالکان ایک مافیا کی صورت میں کسان کا استحصال کرنے کے لیےاکٹھے ہو جاتے ہیں ،   ذخیرہ اندوزی کرنےکے لیے اکٹھے ہو جاتے ہیں ، اب چینی کا مصنوعی بحران پیدا کرکے چینی امپورٹ کریں گے اور نومبر میں جب گنے کی فصل تیار ہوگی تو کسان گنے کو ادھارپر اور سستے داموں بیچنے پر مجبور ہوں گے۔ یہ سارے مظالم تب ختم ہوں گے جب ہم یہاں اسلام کے نظامِ عدلِ اجتماعی کو نافذ کریں گے ۔ 
سوال:پاکستان کو جو اہم ترین داخلی اور خارجی چیلنجز درپیش ہیں ان کا مقابلہ کرنے کے لیے آپ حکومت پاکستان کو اور ہمارے مقتدر لوگوں کو کیا تجاویز دیں گے؟
ڈاکٹر محمد عارف صدیقی: سب سے پہلے تو عسکری اور دفاعی قوت میں اضافہ انتہائی ضروری ہے۔ حالیہ پاک بھارت معرکہ میں اس کی ضرورت اور اہمیت کا ہمیں اندازہ ہوگیا ۔اگر ہمیں خارجی خطرات سے نمٹنا ہے تو جدید ٹیکنالوجی اور سائبر وائر کو ہمیں سمجھنا ہوگا۔اس کے بعد جوہری ڈیٹرنس کومسلم جوہری ڈیٹرنس قرار دیا جائے۔ جس طرح ہر ملک کی ایجنسیاں ہوتی ہیں جو بیرون ملک جا کر کام کرتی ہیں، یہاں بھی بلیک واٹر کام کر رہی تھی، ایسے ادارے بنا کر دنیا بھر میں جہاں بھی پاکستان یا اُمت کے خلاف منصوبے بنتے ہیں اُن سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے۔آپ کے پاس سائبر مانیٹرنگ کا بہت ہائی ٹیک سسٹم ہے اس کو استعمال کرکے فرقہ واریت ، دہشت گردی کا سدباب کیا جائے ۔ دشمن کا بیانیہ پروموٹ کرنے والوں کے لیے زیرو ٹالرنس کی پالیسی اپنائی جائے۔ ایسا مشترکہ نصاب بنے جو بین الاقوامی اداروں کے مفادات کا نگران نہ ہوبلکہ اُمت مسلمہ کے مستقبل کا امین ہو۔اُمت مسلمہ کا ایک عسکری اتحاد بھی ہونا چاہیے ۔ چین، شمالی کوریا، ترکیہ کے ساتھ آپ کے ساتھ ٹیکنالوجی کے معاہدے ہونے چاہئیں تاکہ آپ مل کر ایک بلاک بنا سکیں۔ سب سے اہم اس خطے کو ڈالر فری زون بنانا ہے ۔ جب تک ڈالر کو آپ یہاں سے نکال باہر نہیں کریں گے، آپ نہ تونئے ملٹری الائنس بنا سکتے ہیں، نہ ہی آپ اپنی معیشت کو آزاد کر سکتے ہیں۔ لہٰذا سب سے پہلے آپ کو ڈالر کے شکنجے سے نکلنا پڑے گا پھر آپ کو اپنی پراکسی پالیسی وضح کرنی پڑے گی۔ پراکسی پالیسی جب تک آپ امریکہ ، اسرائیل اور انڈیا کی طرح  نہیں بنائیں گے آپ خارجی فتنوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ ہمارے انٹیلی جنس آپریشنز کی برتری کا پوری دنیا کو علم ہے لہٰذا اب اس برتری کو سیاسی مفادات کے لیے استعمال کرنے کی بجائے پوری دنیا میں پاکستان کا اور اسلام کانام بلند کرنے کے لیے استعمال کیا جائے تو یقینی طور پر ہم اُمت مسلمہ کو لیڈ کر رہے ہوں گے۔
سوال: تنظیم اسلامی یکم تا 22 اگست 2025ءسے ’’اتحاد اُمت اور پاکستان کی سالمیت‘‘ کے عنوان سے ایک ملک گیر مہم کا انعقاد کر رہی ہے ۔ اس مہم کے اغراض و مقاصد کیا ہیں، نیز اس مہم کی چیدہ چیدہ سرگرمیاں کیا ہوں گی ؟
خورشیدانجم:7اکتوبر 2023ء کے بعد غزہ کے حوالے سے جس قدر آواز بلند ہوئی ہے تو دینی جماعتوں  نے ہی کی ہے ، عوام کو بھی دینی جماعتوں نے ہی آگاہ اور متحرک کیا ہے ، مظاہرے اور جلوس نکالے ہیں ۔ فلسطینی بھائیوں کے لیے مدد کی مہم بھی دینی جماعتوں نے ہی چلائی ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس سرگرمی میں کمی آئی ہے ، درمیان میں ابراہم اکارڈز جیسے شوشے بھی چھوڑے گئے اور فلسطین سے توجہ ہٹا کر اسرائیل کو تسلیم کرنے کی باتیں کی گئیں ۔ لہٰذا مسئلہ فلسطین کو دوبارہ زندہ اور اُجاگر کرنے کے لیے اور عوام اور حکمرانوں کو پاکستان کو درپیش چیلنجز سےآگاہی دینے کے لیے تنظیم اسلامی نے     تین ہفتوں پر مشتمل اس مہم کا آغاز کیا ہے ۔ قائد اعظم نے اسرائیل کو مغرب کا ناجائز بچہ قرار دیا تھا اور لیاقت علی خان نے کہا تھا: ـ" Gentlemen!Our souls are not for sale!"بانیان پاکستان کے یہ تاریخی الفاظ پاکستان کی پالیسی کی بنیاد ہیں ۔ ڈاکٹر اسراراحمدؒ فرمایا کرتے تھے کہ اسرائیل ایک بیماری ہے اور اس کا علاج پاکستان ہے ، اگر ساری دنیا بھی اسرائیل کو تسلیم کرلے تب بھی پاکستان کو اسرائیل کو تسلیم نہیں کرنا چاہیے ۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان اس خطے میں واقعہ ہے جس کے بارے میں احادیث میں بشارت موجود ہے کہ یہاں سے اسلامی لشکر جائیں گے اور یروشلم میں جاکر دجال کے لشکر کے خلاف لڑیں گے ۔ لہٰذا ہم اپنے مقام کو پہچانیں،اللہ نے  ہمیںجو اعزاز بخشا ہے  پاکستان کی سالمیت بھی اسی سے مشروط ہے۔لیکن اس کے لیے ہمیں قرآن و سنت کی طرف لوٹنا ہوگا دین کے نفاذ کی جدوجہد میں شامل ہونا ہو گا۔ اس مہم کی چیدہ چیدہ سرگرمیاں یہ ہوں گی کہ سب سے پہلےامیر تنظیم اسلامی 31 جولائی کو صحافیوں سے ملاقات میں انہیں مہم کی غرض و غایت بتائیں گے ۔ پھر امیر تنظیم کا ایک ویڈیو پیغام نشر ہوگا ، اس کو ہینڈ بلز کی صورت میں تقسیم بھی کیا جائے گا ۔ دراصل اس مہم کے ذریعے ہم عوام ، حکومت ، مقتدر حلقوں ، دینی اور سیاسی جماعتوں ،    علمائے کرام کو متوجہ کرنا چاہتے ہیں کہ اُمت کے اتحاد کی اس وقت کس قدر ضرورت ہے اور پاکستان کی سالمیت کے لیے ہمیں کس قدر سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے ۔ علماء کے نام ایک خط بھی لکھا گیا ہے کہ وہ منبر و محراب سے اس حوالے سے آگاہی اور شعور بیدار کرنے کی کوشش کریں ۔ خصوصاً جمعہ کے دن کروڑوں مسلمان خطبہ سنتے ہیں ، ان خطبات کے ذریعے بھی عوام ، حکمرانوں اور مقتدر حلقوں کو پیغام دیا جائےگا۔ اسی طرح ہم اخبارات اور رسائل میں بھی اس حوالے سے مضامین شائع کریں گے ۔ ملک بھر میں پرامن مظاہرے بھی ہوں گے ، کیمپس بھی لگائے جائیں گے ۔ ایسی مہمات تنظیم اسلامی کے رفقاء کی تربیت کے لیے بھی اہم ہوتی ہیں ۔