ڈاکٹر اسرار احمدؒ اور تنظیم اسلامی
ابو موسیٰ
انجمن خدام القرآن اور تنظیم اسلامی کے بانی محترم ڈاکٹر اسرار احمدؒ جماعتِ اسلامی کے ماچھی گوٹھ کے اجتماعِ عام کے بعد جماعت اسلامی سے الگ ہوئے۔ اِس علیحدگی کی تفصیل، یعنی یہ کیوں اور کیسے ہوئی؟ تنظیم کے اکثر رفقا ءنے خود ڈاکٹر صاحب سے سن رکھی ہے۔ باقی حضرات اُن کی مختلف تحریروں خاص طور پر اُن کی مشہور کتاب جماعت اسلامی ایک تحقیقی جائزہ‘‘ میں پڑھ چکے ہیں۔ لہٰذا ہم بات کا آغاز آپؒ کی جماعت سے علیحدگی کے بعد اُس وقت سے کریں گے جب ڈاکٹر صاحب اپنی فیملی سمیت مستقلاً لاہور میں مقیم ہوگئے۔ آپ نے اپنی تحریک کا آغاز لاہور میں مختلف مقامات پر دروس قرآن سے کیا۔
قارئین حیران ہوں گے کہ دروسِ قرآن کے حوالے سے کون سی تحریک کا آغاز ہوا تھا وہ تو محض دروسِ قرآن تھے۔ لیکن راقم کو مسجد خضراء کے خطاباتِ جمعہ سے لے کر اُن کے انتقال تک قریباً نصف صدی تک کسی نہ کسی انداز میں صحبت کا شرف حاصل رہا۔ (کچھ عرصہ محض سامع کی حیثیت سے اور طویل عرصہ تک مامور کی حیثیت سے) اُس کا ثمرہ یہ تھا کہ راقم کو اِس بات کا یقین ہوگیا کہ جب ڈاکٹر صاحبؒ نے جماعتِ اسلامی سے استعفیٰ دیا تھا تو ایک مکمل روڈمیپ اور دنیوی ہدف ڈاکٹر صاحبؒ پر واضح تھا کہ کس طرح اُنہوں نے مرحلہ وار اپنے اِس ہدف کی طرف بڑھنا ہے۔ لہٰذا لاہور سے شروع ہونے والے دروسِ قرآن حقیقتاً تحریک کا آغاز تھے۔
حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحبؒ کا تصورِ اسلام مجاہدانہ تھا۔ وہ بچپن میں ہی اپنی والدہ کو شاہنامہ اسلام جو اُنہیں زبانی یاد ہوگیا تھا، سنایا کرتے تھے۔ ڈاکٹر صاحبؒ فرماتے ہیں کہ جب علامہ اقبال فوت ہوئے تو وہ چھ سال کے تھے، جس کا اُنہیں صدمہ پہنچا۔ حیرت کی بات ہے کہ چھ سال کے بچے نے محسوس کیا کہ بہت بڑا قومی سانحہ ہوگیا ہے۔ وہ علماء کرام کا بہت احترام کرتے تھے۔ اُن کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے۔ وہ فقہ کے میدان کے آدمی نہیں تھے، اِس کا واضح اعلان بھی کرتے تھے اگرچہ کبھی کبھار خود پر کنٹرول نہ پا کر یا کسی صحافیانہ انداز میں پوچھے گئے سوال کا جواب دے دیتے تھے لیکن وہ حقیقت میں حَرکی اسلام کے شِدت سے قائل تھے۔ تاریخ اسلام میں ہر تحریکی اور جہادی کردار رکھنے والی شخصیت کے وہ زبردست مداح تھے۔ یہی وجہ تھی کہ آپؒ قبل از تقسیم ہند علماء ہی نہیں مشائخ سے بھی دلی محبت رکھتے تھے اور اُن کا ذکر بڑی عقیدت اور دل آویز انداز میں کرتے تھے۔ یہاں تک کہ وہ ایران اور اہلِ تشیع کی تعریف کرنے میں بھی بخل سے کام نہیں لیتے تھے کہ اہلِ سنت کی نسبت اُنہوں نے مغرب کے شَر کا زیادہ بہادری اور جرأت سے مقابلہ کیا۔
ڈاکٹر صاحبؒ اُس اسلام کے قائل نہیں تھے جسے علامہ اقبال نباتات و جمادات کا مذہب قرار دیتے ہیں۔ علامہ اقبال کا ذکر آیا تو یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ ڈاکٹر صاحبؒ عاشقانِ اقبال میں سے تھے لیکن یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ دنیوی ہیروز میں ڈاکٹر صاحبؒ کسی کے اندھا دھند پیروکار نہیں تھے۔ وہ علامہ اقبال کے عشق میں بُری طرح مبتلا تھے لیکن اُن کے اس شعر پر اُنہوں نے علامہ کےحوالے سے بھی تحفظات کا اظہار کیا تھا ۔ مثلاً؎
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھییہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے!لیکن علامہ سے اپنے قلبی تعلق کی وجہ سے علامہ کی مدافعت میں بھی یوں فرمایا کرتے تھے کہ یہ علامہ کے اولین دور کا شعر ہے ۔ عجیب بات یہ ہےکہ ڈاکٹر صاحب ؒ ؒ صاف کہتے تھے کہ میں علامہ کے نام کے ساتھ رحمۃ اللہ کا لاحقہ نہیں لگاتا ۔ راقم کی رائے میں اس کی وضاحت کی ضرورت نہیں ۔
ڈاکٹر صاحبؒ کی سیاسی بصیرت کی تو موجودہ نوجوان نسل بھی سوشل میڈیا میں اُن کے کلپس کی وجہ سے قائل ہوگئی ہے۔ آج کے نوجوان کا جو سیاسی شعور اُجاگر ہوا ہے اور اُسے روایتی اور غیر روایتی سیاست میں فرق سمجھ آیا ہے تو اُس کا کریڈٹ ڈاکٹر صاحبؒ ہی کو جاتا ہے۔ روایتی سیاست دانوں میں بھی کچھ زندہ ہیں جنہوں نے ڈاکٹرصاحبؒ کی سیاسی بصیرت کو بھرپور سراہا تھا۔ ڈاکٹرصاحبؒ کی وفات سے چند سال پہلے کا واقعہ ہے کہ مشہور دانشور اور سیاست دان مشاہد حسین سید نے ڈاکٹر صاحبؒ سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا۔ موصوف طے شدہ وقت پر قرآن اکیڈمی تشریف لائے، ملاقات ہوئی۔ راقم بھی موجود تھا۔ ملاقات کے بعد جب راقم مہمان کو باہر تک چھوڑنے آیا تو مشاہد حسین سید نے الوداعی مصافحہ کرتے ہوئے کہا: ’’میں تو اپنی طرف سے ایک مولوی کو ملنے آیا تھا لیکن میں تو اِس شخص کے انٹرنیشنل حالات کے حوالے سے وسیع ویژن پر ششدر رہ گیا ہوں۔‘‘ پھر یہ کہتے ہوئے رخصت ہوئے کہ میں دوبارہ آؤں گا اور اپنے بیٹوں کو ساتھ لے کر آؤں گا۔ ظاہر ہے مطلب یہ تھا کہ وہ بھی اِس اعلیٰ ظرفی اور ویژن کی اُڑان سے مستفید ہوں۔
حقیقت یہ ہے کہ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ایک مدت ہوئی اکثر مذہبی لوگوں کے بارے میں تصور قائم ہوگیا ہے جو ایسا غلط بھی نہیں کہ وہ سیاسی بصیرت سے عاری ہوتے ہیں اور بعض تو لبرلز کے اِس پروپیگنڈے کے بُری طرح شکار ہوگئے ہیں کہ مذہب کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ درحقیقت وہ مغرب کے اِس فلسفہ کے قائل ہوگئے ہیں کہ ریاست اور چرچ دو الگ الگ اور باکل مختلف entitiesہیں جن کا اپنا اپنا کام ہے گویا ریاست کا مذہب سے اور مذہب کا ریاست سے کوئی تعلق نہیں۔ دین ِاسلام عملی طور پر اِس تصور کی شدت سے نفی کرتا ہے اور سچی بات یہ ہے کہ یہ تسلیم کیا جائے یا نہ کیا جائے شعوری طور پر نہ سہی غیر شعوری طور پر ہی سہی ہمارے کچھ لوگ بھی اِس کے کسی قدر قائل ہوگئے ہیں اِس لیے یہ بات منہ سے برجستہ نکل جاتی ہے چھوڑیں جی سیاست کو، اپنا اصل کام کریں حالانکہ مسجدِ نبوی میں جہاں اُخروی نجات کے حوالے سے صحابہ کرامؓ کو بار بار یاد دہانی کرائی جاتی تھی تزکیۂ نفس کے لیے مختلف انداز سے کوشش کی جاتی تھی، وہیں قومی ہی نہیں بین الاقوامی معاملات بھی زیرِ بحث آتے تھے۔ اُس پر تجاویز بھی لی جاتی تھیں اور لائحہ عمل بھی تشکیل پاتے تھے۔ گویا سیاسی اور عسکری سطح پر فیصلے ہوتے تھے۔ سورۃالروم کی یہ آیات اِس کا واضح ثبوت ہیں:
’’الم۔ رومی مغلوب ہوگئے ہیں۔ نزدیک کی زمین پر اور وہ مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غالب آجائیں گے۔ چند سالوں میں۔ اللہ ہی کا اختیار ہے، پہلے بھی اور بعد میں بھی۔ اور اُس دن اہلِ ایمان خوشیاں منا رہے ہوں گے۔ (وہ خوش ہوں گے) اللہ کی مدد سے۔ وہ مدد کرتا ہے جس کی چاہتا ہے۔ اور وہ زبردست، بہت رحم فرمانے والا ہے۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے، اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ ‘‘
اِن آیات کا شانِ نزول علماء کرام یہ بتاتے ہیں کہ حضرت ابوبکرصدیق ؓ کی اُبی بن خلف نامی ایک کافر سے بحث ہوگئی کہ رومی تین سال کے دوران دوبارہ فتح یاب ہوں گے دونوں میں شرط لگ گئی کہ اگر رومی تین سال میں دوبارہ فتح یاب ہوگئے۔ تو کافر آپؓ کو دس اونٹ دے گا وگرنہ حضرت ابوبکرh اُس کافر کو دس اونٹ دیں گے۔ حضور ﷺکے علم میں یہ بات آئی تو حضور ﷺ نے حضرت ابوبکرؓ سے فرمایا کہ: ’’مدت تین سال کی بجائے دس سال کر لواور اُونٹوں کی تعداد سو کر لو۔‘‘ یاد رہے اُس وقت تک شرط حرام قرار نہیں دی گئی تھی۔
قصۂ مختصر عرض کرنا یہ مقصود تھا کہ مدینہ میں کس طرح سیاسی مباحث ہوتے تھے اور مسلمان اور کافر کتنی سرگرمی اور دلچسپی سے سیاسی مباحث میں حصّہ لیتے تھے اور اُسی بنیاد پر عسکری سطح پر بھی فیصلے ہوتے تھے۔ گویا حضور ﷺ اور صحابہ کرامؓ نے جتنی بھی بے شمار اور قابلِ قدر کوششیں کیں اُس کا پھل یعنی کفار کو شکست اور اُن کے علاقوں پر قبضہ (جس کی تفصیل یہاں بیان ہی نہیں کی جا سکتی) سیاسی اور عسکری کامیابی کی صورت میں نکلا، گویا سیاست اور عسکریت کامیابی کی کلید ثابت ہوئی۔ اگرچہ یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ مسجد نبویؐ کی تعلیم و تربیت اور تزکیہ نفس کی شعوری محنت اِس کامیابی و کامرانی کی جڑ اور بنیاد تھی گویا یہ کُل کے دو ایسے اجزا تھے جنہیں الگ الگ نہیں کیا جا سکتا ۔ چنانچہ جب یہ کہا جاتا ہے کہ سیاست چھوڑیں اور اصل کام کی طرف آئیں تو ہم اسلام کی ایک مضبوط بنیاد سے انحراف کرتے ہیں۔ مسلمان کا صحیح اور حقیقی ہیولہ ہی تب بنتا ہے اگر وہ رات کا راہب اور دن کا شاہسوار ہو۔ اسلام جو خلفائے راشدین ہی کے دور میں لاکھوں مربع میل میں پھیل گیا تھا وہ تزکیۂ نفس سے جَلا پاکر اور تیغ باکف ہونے سے ممکن ہوا تھا۔
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ صاف طور پر واضح کرتا ہے کہ اُس کے نزدیک تو اسلام ہی دین ہے یعنی باقی سب ادیان کی نفی ہوتی ہے تو سیدھی سی بات ہے کہ باقی سب کی نفی کرنے کے لیے آپ کو میدان میں نکلنا پڑے گا جو سیاسی سوجھ بوجھ اور عسکری مہارت کے بغیر ممکن نہیں لیکن آج کے دور میں ٹینکوں اور ایٹم بموں کی موجودگی میں چونکہ جنگ انفرادی اور جماعتی مسئلہ رہا ہی نہیں بلکہ یہ خالصتاً ریاستی مسئلہ ہوگیا ہے لہٰذا عسکریت تو مسئلہ پیدا کرے گی اور کر رہی ہے لہٰذا سیاسی بصیرت اور فہم کا کام دو گنا ہو گیا، کیونکہ اِسے یہ خلا بھی پُر کرنا ہوگا، نتیجتاً اگر کوئی گروہ یا جماعت سیاست سے لاتعلق رہتی ہے یا اُسے بنیادی اہمیت نہیں دیتی تو وہ تعداد کے لحاظ سے کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو جائے اُس کی معاشرے اور ملکی سطح پر کوئی اہمیت نہیں بن سکے گی۔ بین الاقوامی سطح پر تو کسی شناخت کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ ڈاکٹر اسرار احمدؒ کے الفاظ میں اگر راقم بیان کرے تو وہ یوں ہے جیسے کوئی آکاس بیل جو زمین پر تو پھیلتی چلی جائے لیکن کھڑا ہونے کی صلاحیت نہ رکھے۔ تبلیغی جماعت سے لاکھوں لوگ کسی نہ کسی انداز میں منسلک ہیں لیکن عوامی اور مذہبی سطح وغیرہ پر لوگ واہ واہ کہہ کر اور بہت اچھے لوگ ہیں جی ،کہہ کر آگے گزر جاتے ہیں۔ریاست میں قوتِ نافذہ رکھنے والی قوتیں انہیں کوئی اہمیت نہیں دیتیں ۔ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر اُن کی آواز نہیں ہوتی۔ اس لیے کہ اُنہوں نے اسلام کے سیاسی پہلو سے پہلو تہی اختیار کی ہوئی ہے۔
درحقیقت برصغیر پاک و ہند ایک طویل عرصہ تک مغرب کا غلام رہا۔ مغربی آقاؤں نے باقاعدہ محنت اور جدوجہد سے دو کام کیے۔ ایک تو مسلمانوں کے ذہن میں جہاد کا معاملہ گڈمڈ کر دیا۔ اِس حوالے سے بھی اُنہیں ایک نام نہاد مذہبی شخصیت مرزا غلام احمد مل گئی۔ جس لعین اور احمق شخص نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرکے اور قادیانیت کی بنیاد رکھ کر مسلمانوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ۔ پھر سرسیداحمد خان تھے جو اپنے تئیں تو یقیناً ایک مخلص مسلمان تھے اور اُنہوں نے اپنی طرف سے قومی سطح پر مسلمانوں کی بہتری کے لیے کام کیا اور مسلمانوں کو جدید تعلیم کی طرف راغب کیا۔ لیکن مذہبی معاملات میں ٹانگ اڑا کر اسلام کی جڑوں پر حملہ آور ہوئے۔ دوسری طرف 1857ء کی جنگ آزادی میں مسلمانوں کی شکست نے مسلمانوں کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ کچھ نے غیروں کے خلاف جہاد کا راستہ اپنایا اور ہتھیار اٹھا کر ہندوستان سے غیر مسلمان حکمرانوں کے خلاف جدوجہد شروع کر دی اور ایک طبقہ نے دینی مدارس قائم کرکے قال اللہ و قال رسول اللہ کی تعلیمات دینا شروع کر دیں اور خود کو غیر ملکی حکمرانوں کے قہر سے محفوظ کر لیا۔ وہ چونکہ حکمرانوں کے لیے کسی طور پر بھی فوری خطرہ نہ تھے لہٰذا حکمرانوں نے اُن کے راستے میں روڑے نہ اٹکائے، یہ نسبتاً محفوظ راستہ تھا۔ مسلمانوں کی اکثریت اِس طرف متوجہ ہوگئی۔ اِس حوالے سے یہ اعتراف کرنا لازم ہوگا کہ اِس طبقہ نے مسلمان کا اپنے عقائد اور شریعت سے تعلق بحال رکھا۔ وگرنہ مسلمان شرعی احکامات سے بالکل بے بہر ہ ہو جاتے اِس کے باوجود خوشگوار بات یہ ہے کہ تقسیم ہند سے پہلے اِن مدارس نے جہاں علماء کرام کی کھیپ تیار کی وہاں کئی مجاہد بھی پیدا کیے لیکن بدقسمتی سے بعد از تقسیم یہ ادارے یا تو مولویت بڑھانے کے باعث بنے اور مسلکی لڑائیوں میں مصروف ہوگئے یا انتخابی کھیل میں شامل ہو کر اقتدار کی رسہ کشی کا حصہ بن گئے اور اسلام کو اپنے سیاسی کیرئیر کے لیے استعمال کرنے لگے۔
ڈاکٹر صاحبؒ کا تصور یہ تھا کہ جدید تعلیم یافتہ لوگوں کو مذہبی تعلیم سے مزین کیا جائے اور وہ شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے اور جدید دور کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے عوام کے سامنے دین کو پیش کر سکیں۔ وہ مغرب کو اور اپنے دیسی لبرلز کو اُن کی زبان میں جواب دے سکیں۔ وہ موجودہ مذہبی لوگوں کی طرح صرف کسی محدود دائرے میں نہ گھومتے رہیں بلکہ ذہنی وسعت رکھتے ہوئے ہر نئی شے کو دینی بنیادوں پر پرکھنے اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ اِس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ڈاکٹر صاحبؒ خدانخواستہ مذہب میں نئی اختراع پیدا کرنے کے قائل تھے، بلکہ وہ اسلام کو قرآن، حدیث، اہلِ سنت کے ائمہ اربعہ اور اجماع امت کی حدود کے اندر آزادی کے قائل تھے، لیکن افسوس صد افسوس کہ اُن کا قرآن یونیورسٹی کا تصور کیا پورا ہونا تھا، قرآن کالج بھی چل نہ سکا۔ راقم کسی پر الزام نہیں لگاتا کہ ایسا کیوں ہوا؟ ڈاکٹر صاحبؒ نے بھی اگرچہ اپنی زندگی ہی میں قرآن کالج میں درسِ نظامی پڑھانے اور دوسرے مدارس کی طرح تعلیم کی اجازت دے دی تھی لیکن یہ کس قدر بادلِ نخواستہ تھی اور اُن کے لیے کس قدر تکلیف دہ تھی جو بیان سے باہر ہے۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2025