تنظیمِ اسلامی پاکستان کے زیرِ اہتمام خصوصی مہم
’’اتحاد ِاُمّت اور پاکستان کی سالمیت‘‘
حضرت مولانا مفتی محمد شفیع ؒ کی معرکۃ الآرا تصنیف ’’وحدتِ اُمّت‘‘ سے چند اقتباسات
اُمت ِ اسلامیہ: ناقابل تقسیم وحدت
جہاں تک اسلام کی دعوتِ اتحاد اور تمام دنیا کے مسلمانوں کو بلکہ کل انسانوں کو ایک قوم ،ایک خاندان اور ایک برادری قرار دینے کا معاملہ ہے ،وہ کوئی ایسی چیز نہیں جو کسی مسلمان پر مخفی ہو۔ قرآن کریم کے واضح الفاظ:{خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ }میں تمام بنی نوع اور بنی آدم انسان کو،{اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ }میں مسلمانوں کو ایک برادری قرار دیا گیا۔
خطبہ حجۃ الوداع میں رسول کریمﷺ نے جو اُس وقت کے مسلمانوں کے سب سے بڑے اجتماع میں ہدایتی اصول ارشاد فرمائے اُن میں اس بات کو بڑی اہمیت سے ذکر فرمایا کہ:’’اسلام میں کالے گورے، عربی عجمی وغیرہ کا کوئی امتیاز نہیں۔ سب ایک ماں باپ سے پیدا ہونے والے افرادہیں۔‘‘
اس ارشاد کے ذریعے جاہلانہ وحدتیں جو نسب اور خاندان کی بنیاد پر یا وطن اور رنگ اور زبان کی بنیاد پر لوگوں نے قائم کر لی تھیں، ان سب کے بُتوں کو توڑ کر صرف خدا پرستی اور دین کی وحدت کو قائم فرمایا۔
یہی وہ حقیقی وحدت ہے جو مشرق و مغرب کے تمام بنی آدم اور نوع انسان کے تمام افراد کو متحد کر کے ایک قوم اور ایک برادری بنا سکتی ہے اور سعی و عمل کے ذریعہ حاصل کی جا سکتی ہے۔ نسب اور وطن یا رنگ اور زبان کی بنیاد پر جو وحدتیں اہلِ جاہلیت نے قائم کر لی تھیں اور آج کی مزعومہ روشن خیالی کے دور میںپھر انہی کی پرستش کی جا رہی ہے ان وحدتوں کی بنیاد پر ہی انسانوں کے طبقات میں تفرقہ ہے اور تفرقہ بھی ایسا جس کوکسی عمل اور کوشش سے مٹایا نہیں جا سکتا۔ جو کالا ہے وہ گورا نہیں بن سکتا،جو نسب میں سید یا شیخ نہیں وہ کسی سعی و عمل سے شیخ یا سید نہیں بن سکتا۔
اسلام نے ایک ایسی وحدت کی طرف دعوت دی جس میں تمام انسانی افراد بلا کسی مشقت کے شریک ہو سکتے ہیں ، اور یہ وحدت چونکہ ایک مالک حقیقیوحدہٗ لا شریک لہٗ کے تعلق اور اس کی اشاعت سے وابستہ ہے، اس لیے بلاشبہ ناقابل ِ تقسیم ہے۔
وہ ملت جس نے دنیا کے تمام انسانوں کو ایک خدا کی اطاعت پر جمع کر کے ایک برادری بنانے کی دعوت دی تھی:
{یٰٓــاَیـُّــہَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّـکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّـفْسٍ وَّاحِدَۃٍ} (النساء:1)
اور پھر مسلسل دعوت اور افہام و تفہیم کے باوجود لوگ اس برادری سے کٹ گئے، ان کو ایک جداگانہ قوم قرار دے کراللہ تعالیٰ کے ماننے والوں کو حسبِ دستور ایک قوم، ایک ملت اور ایک برادری بنا کربنیانِ مرصوص سیسہ پلائی ہوئی ناقابل شکست دیوار بنایا تھا، آج وہ ملت ہی طرح طرح کے تفرقوں میں مبتلا، ایک دوسرے سے بے زار اوربرسر ِ پیکار نظر آتی ہے۔ اس میں سیاسی پارٹیوں کے جھگڑے، نسبتی برادریوں کی تفریق، پیشوں اور کاروبار کی تقسیم اور امیر غریب کا تفرقہ تو بنیادِ منافرت تھی ہی، زیادہ افسوس اس کا ہے کہ دین اور خدا پرستی غیروں کو اپنا بنانے اور نسبی، نسلی، وطنی اور لسانی تفرقوں کو مٹانے ہی کا نسخہ ٔ اکسیر تھا، آج وہ بھی ہمارے لیے جنگ و جدل ،عداوتوں اور جھگڑوں کا ذریعہ بن گیا، جس نے پوری ملت کو دینی و دُنیوی ہر اعتبار سے ہلاکت کے غار میں دھکیل دیا اور اس سے بچنے کا کوئی علاج نظر نہیں آ رہا۔ ہماری ہر تنظیم تفریق اور ہر اجتماع افتراق کا سامان بہم پہنچاتا ہے۔ اور یہی وہ روگ ہے جس نے ملت ِ اسلامیہ کو اس عظیم الشان عددی اکثریت کے باوجود پسماندہ بنایا ہوا ہے۔ ہر قوم ہمیں اپنے میں جذب کرنے کی طمع رکھتی ہے۔ مسلمانوں کی زندگی کے ہر شعبہ پر عقائد سے لے کر اعمال و اخلاق تک، ثقافت ومعاشرت سے لے کر معاملات وا قتصادیات تک ہر قوم کی یلغار ہے۔
ہمارے عوام انگریز کے ڈیڑھ سو سالہ دورِاقتدار میں مختلف تدبیروں کے ذریعہ علم دین سے محروم اور حقائق سے نا آشنا کر دیئے گئے ، اب گھر کی دولت علم و فکر گنوا کر جو کچھ دوسروں کی طرف سے آتاہے، اسی کو سرمایۂ سعادت سمجھنے لگے، خصوصاً جب کہ اس تعلیم و تہذیب کے سایہ میںنفس کی بے لگام خواہشات اور عیش و عشرت کا میدان بھی کھلا نظر آتا ہے ،اور ہمارے علماء اہلِ فکر و نظر اپنے جزوی اور فروعی اختلافات اور بہت سے غیر ضروری مسائل میںا یسے اُلجھ گئے کہ ان کو اسلام کی سرحدوں پر ہونے والی یلغار کی گویا خبر ہی نہیں۔
مَیں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ نظری مسائل میں آراء کا اختلاف نہ مضر ہے، نہ اس کے مٹانے کی ضرورت ہے اور نہ مٹایا جا سکتا ہے۔ اختلافِ رائے نہ وحدتِ اسلامی کے منافی ہے نہ کسی کے لیے مضر ،بلکہ اختلاف رائے ایک فطری اور طبعی امر ہے ،جس سے نہ کبھی انسانوں کا کوئی گروہ خالی رہا ،نہ رہ سکتا ہے۔ کسی جماعت میںہر کام اور ہر بات میں مکمل اتفاقِ رائے صرف دو صورتوں میںہو سکتا ہے، ایک یہ کہ ان میں کوئی سوجھ بوجھ والا انسان نہ ہو جو معاملہ پر غور کر کے کوئی رائے قائم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو، اس لیے ایسے مجمع میں ایک شخص کوئی بات کہہ دے تو دوسرے سب اس پر اس لیے اتفاق کر سکتے ہیں کہ ان کے پاس کوئی رائے اور بصیرت ہی نہیں۔ دوسرے اس صورت میں مکمل اتفاقِ رائے ہو سکتا ہے کہ مجمع کے لوگ ضمیر فروش اور خائن ہوں کہ ایک بات کو غلط اور مضر جانتے ہوئے محض دوسروں کی رعایت سے اختلاف کا اظہار نہ کریں۔اور جہاں عقل بھی ہو اور دیانت بھی یہ ممکن نہیں کہ ان میں اختلافِ رائے نہ ہو۔
انتظامی اور تجرباتی امورمیں تواختلافِ رائے خود رسول کریمﷺ کے عہدِ مبارک میں آپﷺ کی مجلس میں بھی ہوتا رہا اور خلفائے راشدین اور عام صحابہ کرامؓ کے عہد میں امورِ انتظامیہ کے علاوہ جب نئے نئے حوادث اور شرعی مسائل سامنے آئے، جن کا قرآن و حدیث میں صراحتاً ذکر نہ تھا یا قرآن کی ایک آیت کا دوسری آیت سے یا ایک حدیث کا دوسری حدیث سے بظاہر تعارض نظر آیا اور ان کو قرآن و سنت کی نصوص میں غور کرکے تعارض کو رفع کرنے اور شرعی مسائل کے استخراج میں اپنی رائے اور قیاس سے کام لینا پڑا تو ان میں اختلافِ رائے ہوا ،جس کا ہونا عقل و دیانت کی بنا پر ناگزیر تھا۔
اذان اور نماز جیسی عبادتیں جو دن میں پانچ مرتبہ میناروں اور مسجدوں میں ادا کی جاتی ہیں، ان کی بھی جزوی کیفیات میں اس مقدس گروہ کے افراد کا خاصا اختلاف نظر آتا ہے، اور اس کے اختلافِ رائے پر باہمی بحث و مباحثہ میں بھی کوئی کمی نظر نہیں آتی۔ ایسے ہی غیر منصوص یا مبہم معاملات حلال و حرام، جائز و ناجائز میںبھی صحابہ کرامؓ کی آراء کا اختلاف کوئی ڈھکی چھپی چیز نہیں۔ پھر صحابہ کرامؓ کے شاگرد حضراتِ تابعین کا یہ عمل بھی ہر اہلِ علم کو معلوم ہے کہ ان میں سے کوئی جماعت کسی صحابیؓ کی رائے کو اختیار کر لیتی تھی اور کوئی ان کے مقابل دوسری جماعت دوسرے صحابی ؓکی رائے پر عمل کرتی تھی، لیکن صحابہؓ و تابعین کے اس پورے خیر القرون میں،اس کے بعد ائمہ مجتہدین اور ان کے پیروئوں میں کہیں ایک واقعہ بھی اس کا سننے میں نہیں آیا کہ ایک دوسرے کو گمراہ یا فاسق کہتے ہوں، یا کوئی مخالف فرقہ اور گروہ سمجھ کر ایک دوسرے کے پیچھے اقتداء کرنے سے روکتے ہوں۔
امام ابن عبدالبرقرطبیؒ نے اپنی کتاب ’’جامع بیان العلم‘‘ میں سلف کے باہمی اختلافات کا حال الفاظِ ذیل میں بیان کیا ہے:
عن یحییٰ بن سعید قال ما برح اہل الفتویٰ یفتون فیحل ہذا ویحرّم ہذا فلا یریٰ المحرم المحل ہلک لتحلیلہ ولا یریٰ المحل ان المحرم ہلک لتحریمہ ۔
’’یحییٰ بن سعید فرماتے ہیں کہ ہمیشہ اہلِ فتویٰ فتوے دیتے رہے ۔ایک شخص غیر منصوص احکام میں ایک چیز کو حلال قرار دیتا ہے، دوسرا حرام کہتا ہے، مگر نہ حرام کہنے والا یہ سمجھتا ہے کہ جس نے حلال ہونے کا فتویٰ دیا وہ ہلاک اور گمراہ ہو گیا، اور نہ حلال کہنے والا یہ سمجھتا ہے کہ جس نے حرام ہونے کا فتویٰ دیا وہ ہلاک اور گمراہ ہو گیا۔‘‘
اسی کتاب میں نقل کیا ہے کہ حضرت اسامہ بن زید ؓ نے فقیہہ مدینہ حضرت قاسم بن محمد ؒ سے ایک مختلف فیہ مسئلہ کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا کہ ان دونوں آراء میں سے آپ جس پر عمل کر لیں کافی ہے، کیونکہ دونوں طرف صحابہ کرام ؓ کی ایک جماعت کا اُسوہ موجود ہے۔
یہ رواداری کی تلقین اور اختلاف رائے کے باوجود اپنے مخالف کی رائے کا احترام صرف ایسے مسائل میں ہے جو یا تو قرآن و سنت میں صراحتاً مذکور نہیں ،یا مذکور ہیں مگر ایسے اجمال یا ابہام کے ساتھ کہ ان کی تشریح و تفسیر کے بغیر ان پر عمل نہیں ہو سکتا،یا دو آیتوں یا دو روایتوں میں بظاہر کچھ تعارض نظر آتا ہے۔
قادیان میں ہر سال ہمارا جلسہ ہوا کرتا تھا اور سیّدی حضرت مولانا سید محمد انور شاہ صاحب ؒ بھی اس میں شرکت فرمایا کرتے تھے۔ ایک سال اسی جلسہ پر تشریف لائے، میںبھی آپ کے ساتھ تھا۔ ایک صبح نماز فجر کے وقت اندھیرے میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ حضرت سر پکڑے ہوئے بہت مغموم بیٹھے ہیں۔ میں نے پوچھا: حضرت کیسا مزاج ہے؟ کہا ہاں! ٹھیک ہی ہے ،میاں مزاج کیا پوچھتے ہو، عمر ضائع کر دی۔
میں نے عرض کیا حضرت! آپؒ کی ساری عمر علم کی خدمت میں، دین کی اشاعت میں گزری ہے۔ ہزاروں آپؒ کے شاگرد علماء ہیں، مشاہیر ہیں، جو آپؒ سے مستفید ہوئے اور خدمت ِ دین میں لگے ہوئے ہیں، آپؒ کی عمر اگر ضائع ہوئی تو پھر کس کی عمر کام میں لگی؟
فرمایا: میں تمہیں صحیح کہتاہوں: عمر ضائع کر دی!
میں نے عرض کیا: حضرت بات کیا ہے؟
فرمایا: ہماری عمر کا، ہماری تقریروں کا، ہماری ساری کدوکاوش کا خلاصہ یہ رہا ہے کہ دوسرے مسلکوں پر حنفیت کی ترجیح قائم کر دیں، امام ابو حنیفہؒ کے مسائل کے دلائل تلاش کریں۔ یہ رہا ہے محور ہماری کوششوں کا، تقریروں کا اور علمی زندگی کا!
اب غورکرتاہوں تو دیکھتا ہوں کہ کس چیز میں عمر برباد کی ؟امام ابوحنیفہؒ ہماری ترجیح کے محتاج ہیں کہ ہم ان پر کوئی احسان کریں؟ ان کو اللہ تعالیٰ نے جو مقام دیا ہے وہ مقام لوگوں سے خود اپنا لوہا منوائے گا، وہ تو ہمارے محتاج نہیں۔
امام شافعی ؒ،امام مالکؒ اور احمد بن حنبلؒ اور دوسرے مسالک کے فقہاء جن کے مقابلے میں ہم یہ ترجیح قائم کرتے آئے ہیں، کیا حاصل ہے اس کا؟ اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہم زیادہ سے زیادہ اپنے مسلک کو ’’صواب محتمل الخطا‘‘ (درست مسلک جس میں خطا کا احتمال موجود ہے) ثابت کر دیں اور دوسرے کے مسلک کو ’’خطا محتمل الصواب‘‘ (غلط مسلک جس کے حق ہونے کا احتمال موجود ہے) کہیں۔ اس سے آگے کوئی نتیجہ نہیں ان تمام بحثوں‘ تدقیقات اور تحقیقات کا ‘جن میں ہم مصروف ہیں۔
پھر فرمایا:ارے میاں! اس کا تو کہیں حشر میںبھی راز نہیں کھلے گا کہ کون سا مسلک صواب تھا اور کون سا خطا۔ اجتہادی مسائل صرف یہی نہیں کہ دنیا میں ان کا فیصلہ نہیںہو سکتا‘ دنیا میں بھی ہم تمام تر تحقیق و کاوش کے بعد یہی کہہ سکتے ہیں کہ یہ بھی صحیح، یا یہ کہ یہ صحیح ہے لیکن احتمال موجود ہے کہ یہ خطا ہو ،اور وہ خطا ہے اس احتمال کے ساتھ کہ صواب ہو۔ دنیا میں تو یہ ہے ہی ‘قبر میں بھی منکر نکیر نہیں پوچھیں گے کہ رفع الیدین حق تھا یا ترکِ رفع الیدین حق تھا؟ آمین بالجہر حق تھی یا بالسر حق تھی؟ برزخ میں بھی اس کے متعلق سوال نہیں کیا جائے گا اور قبر میں بھی یہ سوال نہیں ہوگا۔
حضرت شاہ صاحب ؒ کے الفاظ یہ تھے: اللہ تعالیٰ امام شافعی ؒ کو رسوا کرے گا، نہ امام ابو حنیفہؒ کو، نہ امام مالکؒ کو ،نہ امام احمد بن حنبلؒ کو، جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کے علم کا انعام دیا ہے ،جن کے ساتھ اپنی مخلوق کے بہت بڑے حصے کو لگا دیا ہے ،جنہوں نے نورِ ہدایت چار سو پھیلایا ہے ،جن کی زندگیاں سنت کا نور پھیلانے میں گزریں، اللہ تعالیٰ ان میں سے کسی کو رسوا نہیں کرے گا
تو جس چیز کو نہ دنیا میں کہیں نکھرنا ہے ،نہ برزخ میں اور نہ محشر میں، اسی کے پیچھے پڑ کر ہم نے اپنی عمر ضائع کر دی،اپنی قوت صرف کر دی اور جو صحیح اسلام کی دعوت تھی، مجمع،علیہ اور سبھی کے مابین جو مسائل متفقہ تھے، اور دین کی جو ضروریات سبھی کے نزدیک اہم تھیں، جن کی دعوت انبیاءکرامfلے کر آئے تھے، جن کی دعوت کو عام کرنے کا ہمیں حکم دیا گیا تھا ،اور وہ منکرات جن کو مٹانے کی کوشش ہم پر فرض کی گئی، آج یہ دعوت تو نہیں دی جا رہی۔ یہ ضروریاتِ دین تو لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہو رہی ہیں اور اپنے و اغیار ان کے چہرے کو مسخ کر رہے ہیں ۔اور وہ منکرات جن کو مٹانے میں ہمیں لگے ہونا چاہیے تھا، وہ پھیل رہے ہیں، گمراہی پھیل رہی ہے، الحاد آ رہا ہے ،شرک و بت پرستی چلی آ رہی ہے، حرام و حلال کاامتیاز اٹھ رہا ہے، لیکن ہم لگے ہوئے ہیں اِن فرعی و فروعی بحثوں میں!
ایسے ہی اختلاف کے متعلق جس میں صحابہ کرامj کی دوآراء ہوں، امامِ اعظم ابوحنیفہؒ نے فرمایا:
(احد القولین خطأ والاثم فیہ موضوع )
’’متضاد اقوال میں سے ایک خطا ہے، مگر اس خطا کا گناہ معاف کر دیا گیا ہے‘‘۔
اور امام مالکؒ سے صحابہ کرامj کے باہمی اختلافات کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا:
(خطأ وصواب فانظر فی ذٰلک )
’’ان میںبعض خطا ہیں ،بعض صواب و صحیح، تو عمل کرنے والے اہل اجتہاد کو غور کر کے کوئی جانب متعین کرنا چاہیے۔‘‘
امام مالکؒ نے اپنے اس ارشاد میں جس طرح یہ واضح کر دیا کہ اختلافِ اجتہادی میںایک جانب صواب و صحیح اور دوسری جانب خطا ہوتی ہے، دونوںمتضاد چیزیں صواب نہیںہوتیں،اسی طرح یہ بھی ارشاد فرمایا کہ اس اختلاف و خطا دونوںمیں باہم جھگڑا اورجدال جائز نہیں۔ صرف اتناکافی ہے کہ جس کو خطا پر سمجھتا ہے ‘اس کو نرمی اور خیرخواہی سے خطا پر متنبہ کر دے۔ پھر وہ قبول کرے تو بہتر ورنہ سکوت کرے۔ جدال اور جھگڑا یا بدگوئی نہ کرے۔
محمد بن عبدالرحمن صیرفی ؒ نے حضرت امام احمد بن حنبلؒ سے سوال کیا کہ جب کسی مسئلہ میںصحابہ کرامؓ باہم مختلف ہوں تو کیا ہمارے لیے یہ جائز ہے کہ ہم ان میں غور و فکر کر کے یہ فیصلہ کریں کہ ان میں صحیح صواب کس کا قول ہے؟ تو فرمایا:(لا یجوز النظر بین اصحاب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم)
’’رسول اللہﷺ کے صحابہؓ کے اختلاف میں لوگوں کو غور و فکرہی نہ کرنا چاہیے۔‘‘
صیرفی ؒنے کہا کہ پھر عمل کس کے قول پر اور کس طرح کریں؟(تقلّد ایہم شئتَ )
’’ان میں سے جس کا چاہو اتباع کر لو ۔(یہی کافی ہے۔)‘‘
حضرت اُبی بن کعبؓ اور عبداللہ بن مسعودؓ میں ایک مسئلہ میںباہمی اختلاف ہو رہا تھا۔ حضرت فاروق اعظمؓ نے سنا تو غضب ناک ہو کرباہر تشریف لائے اور فرمایا کہ ’’افسوس! رسول اللہﷺ کے اصحاب میں ایسے دو شخص باہم جھگڑ رہے ہیں جن کی طرف لوگوں کی نظریں ہیں اور جن سے لوگ دین کا استفادہ کرتے ہیں۔‘‘ پھر ان دونوں کے اختلافات کا فیصلہ اس طرح فرمایا : (صدق اُبیّ ولم یأل ابن مسعود )یعنی ’’صحیح بات تو اُبی بن کعبؓ کی ہے مگر اجتہاد میںکوتاہی ابن مسعودؓ نے بھی نہیں کی‘‘۔پھر فرمایا کہ ’’مگر میں آئندہ ایسے مسائل میںجھگڑا کرتا ہوا کسی کو نہ دیکھوں، ورنہ اتنی سزا دوں گا۔‘‘
حضرت فاروق اعظم ؓ کے اس ارشاد سے ایک تو یہ بات ثابت ہوئی کہ اجتہادی مسائل و اختلافات میںایک قول صواب و صحیح ہوتا ہے، اور دوسرا اگرچہ صواب نہیں مگر ملامت اس پربھی نہیں کی جا سکتی۔
دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ ایسے اجتہادی مسائل میںخلاف و اختلاف پر زیادہ زور دینا مقتدیانِ اہلِ علم کے لیے مناسب نہیں، جس سے ایک دوسرے پر ملامت یا نزاع وجدال کے خطرات پیدا ہو جائیں ۔
امام شافعی ؒ کے ایک مفصل کلام کو نقل کر کے ابن عبدالبرؒ نے فرمایا کہ امام شافعی ؒ کے اس کلام میں اس کی دلیل موجود ہے کہ مجتہدین کو آپس میں ایک دوسرے کا تخطیہ نہ کرنا چاہیے۔ یعنی ان میں کوئی ایک دوسرے کو یہ نہ کہے کہ آپ غلطی اور خطا پر ہیں۔
خلاصہ یہ کہ اجتہادی اختلافات میں جمہور علماء کے نزدیک علم الٰہی کے اعتبار سے دو مختلف آراء میں سے حق تو کوئی ایک ہی ہوتی ہے ،مگر اس کا متعین کرنا کہ ان میں سے حق کیا ہے‘ اس کا یقینی ذریعہ کسی کے پاس نہیں‘ دونوں طرف خطا و صواب کا احتمال دائرہے۔ مجتہد اپنے غورو فکر سے کسی ایک جانب کو راجح قرار دے کر عمل کے لیے اختیار کر لیتا ہے۔ (اقتباسات: صفحہ:6 تا 17)