(الہدیٰ) ہجرت کی طرف راہنمائی - ادارہ

13 /
الہدیٰ
ہجرت کی طرف راہنمائی
 
 
 
آیت 55   {یَوْمَ یَغْشٰىہُمُ الْعَذَابُ مِنْ فَوْقِہِمْ وَمِنْ تَحْتِ اَرْجُلِہِمْ} ’’جس دن عذاب ڈھانپ لے گا، اُنہیں اوپر سے بھی اور ان کے قدموں کے نیچے سے بھی‘‘
{وَیَقُوْلُ ذُوْقُوْا مَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ (55)} ’’اور کہا جائے گا کہ اب چکھو مزہ اپنے کرتوتوں کا۔‘‘
آیت 56  {یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّ اَرْضِیْ وَاسِعَۃٌ فَاِیَّایَ فَاعْبُدُوْنِ(56)} ’’اے میرے وہ بندو جو ایمان لائے ہو! میری زمین بہت وسیع ہے‘ پس عبادت تم میری ہی کرو۔‘‘
اب اس آیت میں خطاب کا رُخ پھر اہلِ ایمان کی طرف ہے اور راہِ حق کے مجاہدین کو تیسری ہدایت دی جارہی ہے۔ (پہلی ہدایت آیت 45 میں جبکہ دوسری46 میں دی جا چکی ہے۔)اِس آیت میں ہجرت کی طرف راہنمائی ہے اور ہجرتِ حبشہ اُسی حکم کی روشنی میں وقوع پذیر ہوئی تھی۔   اب اگلی آیت میں چوتھی ہدایت کا ذکر ہے: 
آیت 57 {کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِ قف ثُمَّ اِلَیْنَا تُرْجَعُوْنَ(57)}’’ہر جان موت کا مزا چکھنے والی ہے‘ پھر تم ہماری ہی طرف لوٹا دئیے جائو گے۔‘‘
دیکھو !موت تو ایک دن آنی ہی ہے۔ اُس دنیا میں نہ کوئی ہمیشہ رہا ہے اور نہ ہی آئندہ کوئی ہمیشہ رہے گا۔فرض کرو اگر یاسر اور ان کی اہلیہ سمیہ ؓ ابوجہل کے ہاتھوں شہید نہ بھی ہوتے تو کیا ہوتا؟ بس یہی نا کہ چند برس اور جی لیتے۔ موت تو پھر بھی اُنہیں آنی ہی تھی۔ راہِ حق کے مسافروں کے لیے یہ بہت قیمتی نصیحت ہے۔ اگر یہ اٹل حقیقت انسان کے دل و دماغ میں مستحضر رہے تو انتہائی مشکل اور نامساعد حالات میں بھی اس کی ہمت قائم رہتی ہے اور وہ زندگی بچانے کے لیے حق کا ساتھ چھوڑنے اور باطل کے ساتھ مصالحت کر لینے کی سوچ جیسے شیطانی وسوسوں سے محفوظ رہتا ہے …
 
درس حدیث
بیت المقدس امداد بھیجنا، بیت المقدس جانے کی مانند
 
عَنْ ‏ ‏مَيْمُونَةَ ؓ مَوْلَاةِ النَّبِيِّ ‏ﷺ‏ ‏قَالَتْ ‏ ‏قُلْتُ يَا رَسُولَ اللّٰهِ أَفْتِنَا فِي ‏ ‏بَيْتِ الْمَقْدِسِ ‏ ‏قَالَ:(( ‏ ‏أَرْضُ الْمَحْشَرِ وَالْمَنْشَرِ ائْتُوهُ فَصَلُّوا فِيهِ فَإِنَّ صَلَاةً فِيهِ كَأَلْفِ صَلَاةٍ فِي غَيْرِهِ)) قُلْتُ أَرَأَيْتَ إِنْ لَمْ أَسْتَطِعْ أَنْ أَتَحَمَّلَ إِلَيْهِ؟ قَالَ:(( ‏ ‏فَتُهْدِي لَهُ زَيْتًا يُسْرَجُ فِيهِ فَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ فَهُوَ كَمَنْ أَتَاهُ ‏))(سنن ابن ماجہ)
نبی اکرمﷺ کی لونڈی حضرت میمونہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم کو بیت المقدس کا مسئلہ بتائیے‘‘، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’وہ تو حشر و نشر کی زمین ہے، وہاں جاؤ اور نماز پڑھو، اس لیے کہ اس میں ایک نماز دوسری مسجدوں کی ہزار نماز کی طرح ہے‘‘ میں نے عرض کیا: ’اگر وہاں تک جانے کی طاقت نہ ہو؟‘ آپ ﷺنے فرمایا: ’’تو تم تیل بھیج دو جسے وہاں کے چراغوں میں جلایا جائے، جس نے ایسا کیا گویا وہ وہاں گیا۔‘‘