اداریہ
رضاء الحق
اُمت کا اتحاد اور پاکستان کی سلامتی…( 2)
(گزشتہ سے پیوستہ)
عرب ممالک نے 1948ء میں اسرائیل کے خلاف خاصی کامیاب جنگ کی اور وہ فتح کے قریب پہنچ چکے تھے کہ نہ جانے کیوں اچانک عربوں نےجنگ بندی کا اعلان کر دیا۔ چوتھی سطح پر مسلمان ممالک جو کم و بیش 13صدیوںتک دنیا کی سب سے بڑی سپر پاور رہ چکے تھے، ان میں قومیت اور دین کے احیاء کی بنیاد پر تحریکوں کا آغاز ہوا۔ ایسی ہی ایک تحریک جو برصغیر میں مسلم قومیت کی بنیاد پر برپا کی گئی اُس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کی خصوصی نصرت برصغیر کے مسلمانوں کو عطا ہوئی اور پاکستان معجزانہ طور پر معرض وجود میں آگیا۔ تحریک ِپاکستان کے مقبول ترین نعروں’’پاکستان کا مطلب کیا:لاإلٰــہَ إلَّا اللہُ ‘‘ اور’’مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ ‘‘ نے برصغیر کے مسلمانوں میں ایسا ولولہ اور جذبہ پیدا کیا کہ انگریز اور ہندوؤں کی دہری غلامی سے نجات مل گئی اور 14اگست 1947ء کو پاکستان قائم ہوگیا۔ مدینہ کی ریاست کے بعد پاکستان وہ واحد ملک ہے جو اسلام کی بنیاد پر قائم کیا گیا۔ قیامِ پاکستان کے فوراً بعد ابتدائی چند سالوں کے دوران مملکت ِخداداد میں دین کو قائم و نافذ کرنے کی طرف کچھ پیش قدمی ہوئی۔ 1949ء میں قراردادِمقاصد منظور ہو گئی اور 1951ء میں تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے 31 جید علمائے کرام نے اتمامِ حجت کرتے ہوئے 22 نکات پیش کر دئیے کہ ان کی بنیاد پر پاکستان کو عملی طور پر ایک اسلامی فلاحی ریاست بنا دیا جائے، ہم سب اس پر متفق ہیں۔ یہ بین المسالک اتحاد کے حوالے سے ایک سنگ ِمیل سے کم نہ تھا۔
1956ء کے اسلامی آئین پربھی کام شروع کر دیا گیا تھا۔ لیکن شومئی قسمت کہ اُس کے بعد ملک پٹڑی سے اتر گیا بلکہ صحیح ترین الفاظ میںاُتار دیا گیا۔ سیکولرازم ا ور مارشل لاء نے دین کے نفاذ کی جانب پیش قدمی کو ریورس گیئر لگا دیا۔قیامِ پاکستان کے محض 24 برس بعد ملک کا مشرقی بازو کٹ کر علیحدہ ہو گیا۔لیکن اِن تمام دھچکوں کے علی الرغم پاکستان کا معجزانہ طور قائم رہنا اور انتہائی دگرگوں حالات میں بھی اللہ تعالیٰ کی خاص مدد کا شامل حال رہنا یقیناًاس امر کی طرف ایک لطیف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ پاکستان سے کوئی بڑا کام لینا چاہتا ہے۔ اس وقت عالمی منظر نامہ کچھ اس طرح ہے کہ امریکہ، اسرائیل، بھارت اور اکثر مغربی ممالک اپنے عزائم میں متحد ہیں۔ افسوس تو اس بات پرہے کہ مسلم ممالک بدترین ناچاقی و نا اتفاقی کا شکار ہیں اور مسلک، نسل، زبان اور خطوں کے تاریخی پسِ منظر کی وجہ سے 57 مسلم ممالک میں اتفاق و اتحاد نام کی کوئی شے دکھائی نہیں دیتی۔ ایک طرف تو مسلمان ’’وہن‘‘ کی اُس بیماری میں بُری طرح مبتلا ہیں جس کی تشخیص نبی مکرم ﷺنے تقریباً 14 صدیاں قبل ہی کر دی تھی۔دنیا کی محبت اور موت سے نفرت مسلمانوں خصوصاً مسلم ممالک کے بادشاہوں، حکومتی زعماءاور مقتدر حلقوں کی اکثریت میں سرایت کر چکی ہے۔ پھر یہ کہ گزشتہ 30 سال کے دوران طاغوتی قوتیں متحد ہو کر مسلم ممالک کو ایک ایک کر کے تباہ و بربادکرتی رہی ہیں۔ مسلم ممالک کی حالت یہ ہے کہ انہیں عذاب کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے آپس کی خانہ جنگیوں میں مبتلا کر دیا ہے۔ ایک مسلم ملک پر حملہ ہوتا ہے تو باقی سُکھ کا سانس لیتے ہیں کہ ہم بچ گئے !جیسے مرغی کے ڈربے سے قصائی جب ایک کو ذبح کرنے کے لیے نکالتا ہے تو باقی اِسی پر خوش ہو جاتی ہیں کہ ان کی بچت ہو گئی، اگرچہ ایک ایک کر کے تمام مرغیوں کو ذبح کر دیا جاتا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ مصیبت غزہ والوں پر ہی ہے، ہم تو بچے ہوئے ہیں! عرب ممالک تو اپنی بادشاہتوں کو بچانے کے لیے
ایک ایک کھرب ڈالر تک کا تاوان ادا کرکے خوش ہیں کہ بچت ہوگئی۔ سادگی مسلم کی دیکھ! معروف حدیث کے مفہوم کے مطابق دورِ فتن و ملاحم میں کفار مسلمانوں پر حملے کے لیے ایک دوسرے کو ایسے دعوت دیں گے جیسے دسترخوان پر کھانا سجانے کے بعد دعوت دی جاتی ہے۔ نبی مکرم ﷺ کی اس پیش گوئی کو آج سب سر کی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اتحادِ اُمت کے لیے قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے جا بجا رہنمائی اور لائحہ عمل واضح کر کے بیان فرمایا ہے۔ سورۃ آل عمران کی آیت 103میں فرمایا: {وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْاص} ’’اور اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھام لو مل جل کر اور تفرقے میں نہ پڑو ۔‘‘ سورۃ الشوریٰ کی آیت 13 میں فرمایا:
{اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ ط}ؕ ’’قائم کرو دین کو اور اس میں تفرقہ نہ ڈالو۔‘‘ گویا مسلکی اور فرقہ وارانہ اختلافات سے ایک منزل اوپر یعنی قرآن و سنت کی روشنی میں دین، جو کہ آج مغلوب ہے، کو غالب و نافذ کرنے کی جدوجہد کو اپنا ہدف بنایا جائے تو اُمتِ مسلمہ میں اتحاد و اتفاق خودپیدا ہو جائے گا۔ لیکن افسوس کہ آج مسلم ممالک کا طرزِ عمل وحی الٰہی کے بالکل برعکس ہے۔
پاکستان کی بات کریں تو کم و بیش 78 سال امریکہ کی غلامی میں بسر کر دئیے۔ فوجی حکومتوں نے ملک کا بیڑا غرق کر دیا اور سیاست دانوں کا یہ حال ہے کہ ان میں سے ہر ایک جی ایچ کیو کے کسی گملے کی پیداوار ہے۔ ملک میں سود کا دھندا عام ہے اور وفاقی شرعی عدالت کے متعدد فیصلوں کے باوجود حکومت اور ریاستی ادارے بینکاری اور مہاجن کے سود کے خاتمے میں سنجیدہ دکھائی نہیں دیتے۔ سیاسی بیانات دے دیئے جاتے ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ جس ملک نے اسلام کا قلعہ بننا تھا، جہاں اسلام کے نظامِ عدلِ اجتماعی کا نفاذ ہونا تھا اور جس نے دنیا کے دیگر مسلم ممالک کے لیے روشنی کا مینارہ بننا تھا، وہ خود شروع دن سے اللہ اور اس کےرسولﷺ کے ساتھ حالت ِجنگ میں ہے۔ مغربی جمہوریت کے طرزِ حکومت کو کسی مقدس صحیفے کی طرح تقریباً مِن و عَن ملک و ملت پر سوار کر دیا گیا ہے۔معاشرتی سطح پر اگرچہ کچھ عرصہ قبل تک حالات نسبتاً بہتر تھے لیکن گزشتہ20 برس کے دوران مغرب کے سوشل انجینئرنگ ایجنڈا کو نافذ کرنے کے لیے پیسہ پانی کی طرح بہایا گیا ہے۔
نائن الیون کے بعد سابق صدر جنرل پرویز مشرف کی نام نہاد روشن خیالی کے سلسلے میں کئے گئے اقدامات نے پاکستان کے معاشرتی نظام پرانتہائی منفی اثرات ڈالے۔ پھر یہ کہ اسلام دشمن قوتوں نے بھی مسلم ممالک کے معاشرتی اور خاندانی نظام کو درہم برہم کرنے کے لیےخوب محنت کی ہے۔ آج حالت یہ ہے کہ روایتی و سوشل میڈیا فحاشی و عریانی اور توہینِ رسالت ﷺ و مقدسات کے اڈے بن چکے ہیں۔ پارلیمان نے مغرب اور اس کے اداروں کو خوش کرنے کے لیے ٹرانس جینڈر ایکٹ جیسے کئی غیر شرعی قوانین بنا ڈالے۔
گزشتہ 40 سال کے دوران آئی ایم ایف کے ہتھکنڈوں میں جکڑے جانے اور اشرافیہ کی کرپشن کے باعث ہماری معاشی حالت بھی انتہائی دگر گوں ہے۔ بین الاقوامی سطح پرہم دوست، اتحادی اور دشمن میں فرق کرنے کو تیار نہیں اور اسلامی تعلیمات کے مطابق بین الاقوامی تعلقات قائم کرنا شایدترجیحات میں شامل ہی نہیں۔ پاکستان کی اشرافیہ کا ایک خود ساختہ المیہ یہ بھی ہے کہ امریکہ اور چین کے درمیان سینڈوچ بننے سے کیسے بچا جائے۔ پاکستان سے لُوٹا ہوا پیسہ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک میں جمع ہے ۔اِنہی ممالک میں جائیدادیں بھی ہیں اور کاروبار بھی۔ اکثریت کے بچے، بچیاں بھی اِنہی ممالک میں پَل بڑھ رہے ہیں اور صدر ٹرمپ کا اچانک پاکستان پر اس قدر مہربان ہو جانا ہمارے لیے خطرے کی گھنٹی ہونی چاہیے۔ کریں تو کیا کریں؟
روس جو ایک عیسائی ملک ہے اس نے اماراتِ اسلامیہ افغانستان کو تسلیم کر کے مسلم ممالک کو ایک زوردار طمانچہ رسید کیا ہے۔ چین کے بھی اماراتِ اسلامیہ افغانستان کے ساتھ بہترین تجارتی و سفارتی تعلقات ہیں۔ ہمارا حال یہ ہے کہ برادر ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات خراب کرنے میں ماضی اور حال کی حکومتوں اور مقتدر حلقوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اندرون ملک جنگل کا قانون ہے۔ چھوٹے مجرم اور زیرِعتاب سیاست دان لمبی سزائیں کاٹ رہے ہیں جبکہ آج کی پسندیدہ اشرافیہ جو کل تک مطعون تھی، اُسے کلین چٹ دے دی گئی۔ ملک کے نائب وزیراعظم و وزیرخارجہ اقوامِ متحدہ میں ایک حالیہ تقریر کے دوران مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کے فارمولا پر زور دیتے ہیں۔ اناللہ و انا الیہ راجعون ع پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے!
عدالتوں کا یہ حال ہے کہ بین الاقوامی اداروں کو خوش کرنے کے لیے ایسے فیصلے صادر فرمائے جا رہے ہیں جن کا دین سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔ دہشت گردی کے عفریت نے ملک کے مخصوص علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔عالمی سطح پر اتحادِ اُمت نام کی کوئی شے دیکھنے کو نہیں ملتی۔ مملکتِ خداداد پاکستان کے حکمرانوں، ریاستی اداروں اور عوام الناس کی بداعمالیوں کے باعث ملکی سلامتی بھی خطرے میں ہے۔ اسی تناظر میں تنظیم اسلامی نے یکم تا 22 اگست 2025ء ’’اِتحادِ اُمَّت اور پاکستان کی سالمیت‘‘ کے عنوان سے تین ہفتوں پر محیط ایک مہم کا آغاز کیا ہے جو ملک بھر میں خطابات، تحریروں، پُرامن مظاہروں اور دیگر شرعی ذرائع سے امتِ مسلمہ کو بالعموم اور اہلیانِ پاکستان کو بالخصوص اپنا بھولا ہوا سبق یاد کروانے کی ایک سعی ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ امریکہ، اسرائیل اور بھارت پر مبنی ابلیسی اتحادِ ثلاثہ کی نظرِ بد پاکستان کے ایٹمی پروگرام اور میزائل ٹیکنالوجی پر ہے۔ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ پاکستان چین، روس، افغانستان اور ایران سے واضح اظہارِ لاتعلقی کر دے۔ ایرانی صدر مسعود پزشکیان کا حالیہ دورۂ پاکستان البتہ انتہائی خوش آئند ہے۔ لیکن فیلڈ مارشل صاحب کا چند ہفتوں کے فصل سے دوبارہ امریکہ کا دورہ کرنا ملک و ملت کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ شنید یہ بھی ہے کہ امریکہ پی آئی اے سمیت پاکستان کے 24 سرکاری اداروں کو خریدنا چاہتا ہے اور پاکستان میں موجود قیمتی اور نایاب معدنیات وغیرہ کے ذخائر پر بھی اُس کی نظر ہے جو ملک و قوم کے لیے انتہائی نقصان دہ ثابت ہوگا۔
ہمیں یہ بھی یاد رہے کہ پاکستان کے بعض علاقے اُس خطے میں شامل ہیں جسے احادیث مبارکہ میں ” خراسان“ کے نام سے تعبیر کیا گیا ہے۔ مستقبل کا منظر نامہ ہمیں چیخ چیخ کر یہ باور کروا رہا ہے کہ ملکی اور عالمی سطح پر اگر پاکستان نے کوئی اہم کردار ادا کرنا ہے تو اس کا آغاز اپنے ملک سے کرنا ہو گا۔ اللّہ کا دین تو غالب ہو کر ہی رہے گا:’’وہی ہے (اللہ) جس نے بھیجا اپنے رسولؐ کو الہدیٰ اور دین حق کے ساتھ تاکہ غالب کر دے اس کو پورے نظام زندگی پر اور خواہ مشرکوں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو !‘‘ (سورۃ الصف: آیت 9) پاکستان کے ہر خاص و عام کو تو یہ فکر ہونی چاہیے کہ وہ مستقبل کے اِس معرکۂ حق و باطل کی تیاری میں کتنا حصّہ ڈال رہا ہے۔ ابھی پانی سر سے نہیں گزرا، ابھی وقت باقی ہے۔ لہٰذا اِس مہلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کو صحیح معنوں میں ایک ایسی اسلامی فلاحی ریاست بنانے کا سلسلہ شروع کیا جائے جو مستقبل کے عالمی منظر نامے میں حزب اللہ کا کردار ادا کرے۔اُمت کے اتحاد کا داعی بن کر باطل قوتوں کو پاش پاش کرنے کی تیاری مکمل رکھے۔ اللہ تعالیٰ حکمرانوں، مقتدر حلقوں، دینی و سیاسی جماعتوں اور عوام الناس کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین!