(منبرو محراب) اِتحادِ اُمّت اور پاکستان کی سالمیت - ابو ابراہیم

13 /

اِتحادِ اُمّت اور پاکستان کی سالمیت


مسجدجامع القرآن ، قرآن اکیڈمی لاہور  میں امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ  حفظ اللہ  کےیکم اگست 2025ء کے خطاب جمعہ کی تلخیص

خطبہ ٔمسنونہ اور تلاوتِ آیاتِ قرآنی کے بعد!
تنظیم اسلامی کے زیرِاہتمام یکم تا 22 اگست 2025ء ایک ملک گیر مہم کا انعقاد کیا جارہا ہے جس کا عنوان حالات حاضرہ کے تناظر میں ’’اِتحادِ اُمّت اور پاکستان کی سالمیت‘‘ رکھا گیا ہے ۔اس وقت ایک طرف اُمت مسلمہ کے خلاف پورا عالم کفر’’ الکفر ملۃ واحد‘‘ کی شکل اختیار کرچکا ہے ۔ 7اکتوبر 2023ء کے بعد سے غزہ پر مسلسل بمباری جاری ہے ، غزہ کو مکمل طور پر کھنڈر بنادیا گیا ہے ، 60ہزار سے زائد فلسطینی مسلمان شہید اور لاکھوں بے گھر اور زخمی ہیں ، جنہیں خوراک ، ادویات ، پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے ، بھوک اور پیاس سے بچے شہید ہورہے ہیںلیکن اب کفار کی یلغار کا سلسلہ اس سے بھی آگے بڑھ کر شام ، لبنان ، یمن اور ایران تک پہنچ چکا ہے ۔ جبکہ دوسری طرف 57 مسلم ممالک کی حالت اُن مرغیوں جیسی ہے جن میں سے ایک کو پکڑ کر ذبح کیا جاتا ہے تو باقی سمجھتی ہیں کہ اُن کی جان بچ گئی لیکن بالآخر ایک ایک کرکے سب کو ذبح کر دیا جاتا ہے۔ حالانکہ اللہ نے مسلمانوں کو ایک اُمت اسی لیے بنایا تھا کہ وہ متحد ہو کر دشمنوں کامقابلہ کریں ۔ فرمایا :
 
{اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ } (الحجرات:10) ’’یقیناً تمام اہل ِایمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔‘‘
اللہ کے پیغمبرﷺ فرماتے ہیں :’’اُمت مسلمہ ایک جسم کی مانند ہے ، اگر جسم کے ایک حصے میں تکلیف ہو تو پور ا جسم درد محسوس کرتاہے ۔‘‘
کیا آج ہم اس درد کو محسوس کر رہے ہیں؟کیا غزہ کے معصوم بچوں کی لاشیں روزانہ کی بنیاد پر اُٹھتے ہوئے دیکھ کر ہمارے دلوں کی کیفیت بدلتی ہے؟
حضور ﷺ نے فرمایا : ’’مومن دوسرے مومن کے لیے عمارت کی مانند ہے، جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو مضبوط کرتا ہے، پھر آپ ﷺ نے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میںڈالیں۔‘‘(مشکوٰۃ)
یہ تصور آج ہمارے ذہنوں سے اُوجھل ہو گیا ہے ۔ حالانکہ ایک صدی قبل تک جب خلافت کا نظام موجود تھا ، اگرچہ آخری دور میں خلافت کمزور ہو چکی تھی لیکن اس کے باوجود بھی ایک مرکزیت موجود تھی، جس کے ہوتے ہوئے فلسطین پر قبضہ کرنا کفار کے لیے ناممکن تھا ۔ لہٰذا غیروں کی سازش اور اپنوں کی نادانیوں کی وجہ سے وہ مرکزیت ختم ہوگئی ۔ اس کے بعد ہم نیشن، سٹیٹس اور فرقوں میں تقسیم ہوگئے اور جس طرح ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا نعرہ لگتا رہا اسی طرح دیگر مسلم ممالک بھی صرف اپنے ملکی مفاد کو اُمت کے اجتماعی مفاد پر ترجیح دینے لگے ۔ اس کا نتیجہ ہے کہ آج ایک چھوٹا ساناجائز صہیونی ملک57 مسلم ممالک کو چیلنج کر رہا ہے ۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ آج ہم تقسیم ہو کر غیروں کے محتاج ہو چکے ہیں ۔ خلافت کی بجائے ہم نے اقوام متحدہ پر انحصار کرلیا جو کہ امریکہ کی کنیز ہے ۔ غیر مسلموں کا کوئی مسئلہ ہو تو ایک دن میں قرارداد پاس ہو جاتی ہے اور اس پر عمل درآمد بھی فوری ہو جاتاہے ، جس طرح مشرقی تیمور میں ہوا یا جنوبی سوڈان میں ہوا لیکن کشمیر کا مسئلہ ہو ، فلسطین کا مسئلہ ہو تو 78 سال گزر جائیں ، تب بھی کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔
آج دنیا میں پونے دو ارب مسلمان اور 57 مسلم ممالک ہر طرح کی دولت اور وسائل سے مالا مالا ہیں ۔ اس کے باوجود ہماری حیثیت یہ ہوگئی ہے کہ چھوٹا سا صہیونی ملک ایک ایک کرکے مسلم ممالک کو تباہ کر رہا ہے اور 57 مسلم ممالک کچھ نہیں کر پارہے ۔ اب ابراہم اکارڈز کی بات کی جارہی ہے ، جس کا مقصد جنگ کے بغیر ہی مسلم ممالک کو فتح کرکے اسرائیل کے قدموں میں ڈالنا ہے ۔ یہ قبلہ اوّل سمیت فلسطین پر ناجائز صہیونی قبضہ کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے جو کہ بحیثیت مسلمان اس اُمت کو کسی صورت بھی زیب نہیں دیتا۔ ڈاکٹر اسراراحمدؒ فرمایا کرتے تھے کہ ساری دنیا بھی اسرائیل کو تسلیم کرلے تب بھی پاکستان کو اسرائیل کو تسلیم نہیں کرنا چاہیے کیونکہ پاکستان ایک ایسی مملکت ہے جو کسی رنگ ، نسل ، زبان یا جغرافیائی تاریخ کی بنیاد پر وجود میں نہیں آئی بلکہ یہ وہ مملکت ہے جو اسلام کے نام پر وجود میں آئی ہے اور اس کا نام مملکتِ خداداد پاکستان ہے ۔ دوسری طرف دیکھا جائے تو پاکستان کے اندرونی اور بیرونی حالات بھی انتہائی ناگفتہ بہ ہیں ۔ ایک طرف امریکہ، اسرائیل اور بھارت کا شیطانی اتحاد ثلاثہ پاکستان کو چاروں جانب سے گھیرنے اور تباہ کرنے کی کوشش کررہا ہے اور دوسری جانب اندرونی سطح پر سیاسی خلفشار ، معاشی عدم استحکام ، دہشت گردی اور اختلافات ملک کی جڑوں کو کھوکھلاکر رہے ہیں ۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں امن و امان کی صورت حال بھی داؤ پر لگ چکی ہے ۔ تیراہ اور باجوڑ کے علاقے میں خوف اور دہشت کا ماحول ہے ۔ گویا پاکستان کی بقاء اور سلامتی کو اندرونی اور بیرونی دونوں جانب سے سنگین خطرات لاحق ہیں ۔ اس حوالے سے ہمیں آواز بلند کرنی چاہیے اور اسی سلسلہ میں  ’’اِتحادِ اُمّت اور پاکستان کی سالمیت‘‘ کے عنوان سے اس مہم کا آغا زکیا گیا ہے ۔مہم کے دوران خطابات جمعہ، عوامی خطابات، سوشل میڈیا پر مواد کی فراہمی، شارٹ کلپس ، بیانات، پریس ریلیز ، پمفلٹس ، ہینڈ بلز وغیرہ کے ذریعے عوام ، حکومت ، مقتدر حلقوں ، علماء ، دینی و سیاسی جماعتوں  اور ہر طبقہ کے افراد تک پیغام پہنچانے کی کوشش کی جائے گی ۔ اس حوالے سے کچھ کتابوں کی تقسیم کا عمل بھی ہوگا ۔ اس مہم کے دوران جو بنیادی پیغام پاکستانی قوم اور پوری اُمت کو دینا مقصود ہے، وہ یہ ہے : 
{وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْاص} (آل عمران:103)’’اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھام لو مل جل کر اور تفرقے میں نہ پڑو۔‘‘ 
جامع ترمذی کی روایت ہے کہ قرآن کریم ہی اللہ تعالیٰ کی مضبوط رسی ہے۔مسلم شریف کی ایک روایت کے مطابق اس رسی کا ایک سرا اللہ کے پاس ہے جبکہ دوسرا قرآن کو تھامنے والےکے پاس ہوتاہے ۔ حدیث کے الفاظ ہیں کہ اگر اسے تھامے رہو گے تو کبھی ہلاکت اور گمراہی میں نہ پڑو گے ۔ بدقسمتی سے آج ہماری عظیم اکثریت تو قرآن کی تلاوت بھی نہیں کرتی اور جو تلاوت کرتے ہیں ، ان کے پاس قرآن کو سمجھنے کا وقت نہیں ہے ۔اگر کچھ سمجھا بھی ہے تو اس پر عمل کرنا اور انفرادی سطح سے آگے بڑھ کر اس کے نفاذ کے لیے جدوجہد کرنا ترجیحات میں شامل نہیں ہے ۔ ڈاکٹر اسرار احمدؒ  فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے بھی تین بڑے بڑے فتوے قرآن میں دیئے ہیں :
{وَمَنْ لَّــمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْکٰفِرُوْنَ(44)}’’اور جو اللہ کی اُتاری ہوئی شریعت کے مطابق فیصلے نہیں کرتے وہی تو کافر ہیں۔‘‘ 
{وَمَنْ لَّـمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ(45)}’’ اور جو فیصلے نہیں کرتے اللہ کی اُتاری ہوئی شریعت کے مطابق وہی تو ظالم ہیں۔‘‘
{وَمَنْ لَّـمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ  الْفٰسِقُوْنَ(47)}(المائدہ)’’اور جو لوگ نہیں فیصلے کرتے اللہ کے اُتارے ہوئے احکامات و قوانین کے مطابق‘ وہی تو فاسق ہیں۔‘‘
 معلوم ہوا کہ جو اللہ کے نازل کیے ہوئے احکامات کو نافذ نہیں کرتے وہی تو کافر ، ظالم اور فاسق ہیں ۔ آج انفرادی اور اجتماعی سطح پر ہم اپنا جائزہ لیں ، کیا ہم اللہ کے نازل کردہ احکامات پر عمل کر رہے ہیں ، انفرادی اور اجتماعی سطح پر ان کے نفاذ کے لیے سنجیدہ ہیں، کیا ہمارے حکمرانوں کی ترجیحات میں قرآن کے احکامات کا نفاذ شامل ہے ؟معروف حدیث کے الفاظ ہیں : 
’’بے شک اللہ اس قرآن کی بدولت قوموں کو عروج عطا فرمائے گا اور اس کو ترک کر دینے کی وجہ سے قوموں کو ذلیل اور رسوا کر دے گا۔‘‘ (رواہ المسلم)
آج دنیا میں ہماری ذلت و رسوائی کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ہم نے اس قرآن کو چھوڑ دیا ہے ۔ آج ہمارے حکمرانوں کو امریکہ کا اتنا خوف ہے کہ پانی کی ایک بوتل تک غزہ کے بھوکے پیاسے بچوں تک نہیں پہنچا سکتے اور ٹرمپ کو اربوں کو تحائف دے رہے ہیں ۔ ایک زمانہ تھا جب دنیا پر مسلمانوں کا غلبہ تھا ؎
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآن ہو کر
مسلمانوں کے دوبارہ غلبے اور اتحاد کی بنیاد یہی قرآن بن سکتاہے اگر مسلمان اس کو تھام لیں ۔ قرآن کو تھامیں گے تو اللہ کے نبی ﷺ کا مشن بھی اِس اُمت کا مشن بنے گا جس کی بدولت اللہ نے مسلمانوں کو دنیا پر غلبہ عطا کیا ۔ 
{ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ}(الصف:9)’’وہی ہے (اللہ) جس نے بھیجا اپنے رسولؐ کو الہدیٰ اور دین ِحق کے ساتھ تاکہ غالب کر دے اُس کو پورے نظامِ زندگی پر۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے نبی پاک ﷺ کو قرآن صرف پڑھنے کے لیے نہیں دیا بلکہ اس کا کل روئے ارض پر نفاذ مقصود ہے ۔ اس مشن کو دوبارہ اپنائیں گے تو اُمت میں دوبارہ اتحاد بھی پیدا ہوگا اور اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو دوبارہ غلبہ بھی عطا فرمائے گا ۔ 
{اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ ط} (الشوریٰ:13) ’’کہ قائم کرو دین کو۔اور اس میں تفرقہ نہ ڈالو۔‘‘
ہر مسلک کا مسلمان نمازوں میں یہی قرآن پڑھتا ہے ، اس قرآن کے ساتھ جڑیں گے ، اس کو ترجیح دیں گے تو تفرقے بھی ختم ہوں گے ۔ اسی طرح اقامت دین کی جدوجہد جو حضور ﷺکا مشن ہے، اِس میں کسی کا اختلاف نہیں۔ اس سنت کو اپنائیں گے تو تفرقہ مٹے گا ۔ لہٰذا اُمت کو جوڑنے والی چیز قرآن اور صاحب قرآن ﷺ ہیں ۔ تنظیم اسلامی کی دعوت یہی ہے ، ڈاکٹر اسراراحمدؒ نے قرآن اور نبی پاک ﷺ کے مشن کو اولین ترجیح دی اور اُمت کو بھولا ہوا سبق یاد دلایا ۔ انہوں نے قرآن اکیڈمیز اور  انجمن خدام القرآن کے مراکز اسی لیے قائم کیے۔ دورۂ ترجمہ قرآن اور خلاصۂ مضامین قرآن کے سلسلے شروع کیےاور کسی تفرقہ کے بغیر تمام مسلمانوں تک قرآن اور صاحب ِقرآن ﷺ کا پیغام پہنچانے کی کوشش کی۔ اسی مشن کے لیے انہوں نے تنظیم اسلامی قائم کی جس کا بنیادی کام قرآن کی طرف رجوع کروانا ، قرآن کے حقوق ادا کرنے کی جانب متوجہ کرانا ،  غلبہ و اقامت دین کی جدوجہد کے لیے لوگوں کوبیدار کرنا اورایک جماعت کے تحت منظم کرکے غلبہ دین کی جدوجہد کو آگے بڑھانا ہے ۔ یہی کام اگر اُمت کی سطح پر ہوگا تو کیا اُمت متحد نہیں ہوگی ؟ اسی جدوجہد کے نتیجہ میں اللہ کی مدد بھی آئے گی ۔ 
{یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَنْصُرُوا اللہَ یَنْصُرْکُمْ وَیُثَبِّتْ اَقْدَامَکُمْ(7)}(سورۃمحمد) ’’اے اہلِ ایمان! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا اور وہ تمہارے قدموں کو جما دے گا۔‘‘
آج عوام سے لے کر حکمرانوں تک ہماری عظیم اکثریت کی ترجیحات میں اللہ کا دین شامل ہی نہیں ہے ۔ ایک وقت کا کھانا لیٹ ہو جائے تو کتنی پریشانی ہوتی ہے کیا پنج وقتہ نمازوں کے ضائع ہونے پر کوئی پریشانی ہوتی ہے؟ مسلک پر آنچ آجائے تو پریشانی ہوتی ہے ، قرآن کے احکامات پر آنچ آئے تو کوئی پریشانی ہوتی ہے ؟اسی طرح ہمارے حکمرانوں کے ہاں عاشورہ کے موقع پر ،  رمضان اورربیع الاوّل میں اور دیگر مواقع پر بڑے بڑے دعوے اور بیانات مل جائیں گے لیکن جب شریعت کے نفاذ کی باری آتی ہے تو دین اُن کی ترجیحات میں نہیں ہوتا ۔ ذرا سوچئے! اس ذلت اور رسوائی کے سوا دنیا میں ہمارا مقدر کیا ہوگا ؟ تنظیمِ اسلامی کے زیر اہتمام اس مہم کے ذریعے ہم اُمت کو یہی بھولا ہوا سبق یاد دلانے کی کوشش کررہے ہیں ۔ 
پاکستان کی سالمیت 
یہ مملکت ہم نے اللہ کے نام پر حاصل کی۔   محض خطۂ زمین سے محبت کا مسئلہ نہیں ہے۔خطے دنیا میں بہت سارے ہیں۔وطن سے فطری محبت ہوناالگ شے ہے لیکن اس وطن سے محبت کی بنیاد محض وطن پرستی نہیں۔ محض وطن پرستی کی تو اقبال نے بھی حوصلہ شکنی کی ہے ؎
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
اس ملک سے محبت اس لیے ہے کہ ہم نے اسے اللہ کے نام پر حاصل کیا ۔ لاکھوں لوگ ہجرت کرکے ، اپنے گھر بار ،  کاروبار ، روزگار چھوڑ کر اس لیے نہیں آئے تھے کہ یہاں   آکر کاروبار کریں گے، سود کے دھندوں ، بے حیائی کے طوفان کے لیے یہ سب قربانیاں نہیں دی گئی تھیں ، بلکہ ان کے نزدیک اصل مشن شریعت کا نفاذ اور اللہ کے دین کا غلبہ تھا ۔ تحریک پاکستان کا مقبول ترین نعرہ تھا:’’پاکستان کا مطلب کیا : لاالٰہ الاللہ۔‘‘ عالم اسلام میں پاکستانیوں سے محبت ہے تو اس کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے ۔ گھانا کے ایک علاقے میں لیبیا کا ایک مسلمان امامت کروا رہا تھا ، ایک پاکستانی نمازی وہاں آیا تو امام نے پاکستانی کو آگے کر دیا کہ پاکستانی مسلمان موجود ہے تو کوئی اور امامت نہیں کروائے گا ۔ اسی طرح امریکہ، اسرائیل اور بھارت کا شیطانی اتحاد ثلاثہ پاکستان کو کمزور کرنے کے درپے ہے تو اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ان کو معلوم ہے کہ یہ واحد ملک ہے جو اسلام کے نام پر بنا ہے اور یہ اسلام سے محبت کرنے والوں کا ملک ہے۔ اس لیے وہ اس ملک کو تباہ کرنے کے لیے ہر طرح کا انتشار یہاں پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ 1967ء میں عرب اسرائیل جنگ کے بعد فتح کا جشن مناتے ہوئے اسرائیلی وزیر اعظم بن گوریان نے کہا تھا کہ عرب ہمارے لیے خطرہ نہیں ہیں ، ہمیں اصل خطرہ پاکستان سے ہے ۔نیتن یاہو نے اپنے ایک بیان میں کہا تھاکہ مجھے خوشی ہوگی کہ پاکستان ایٹمی صلاحیت سے محروم ہو جائے ۔ پاکستان کی سالمیت اور بقاء کو آج بیرونی خطرات بھی لاحق ہیں ۔ ایران کے بعد اگلا نشانہ پاکستان بھی ہو سکتاہے ۔ لہٰذا آج اگر ہم اُمت کی سطح پر متحد نہیں ہوں گے تو پاکستان کی سالمیت بھی خطرے میں پڑ جائے گی۔ اسی طرح پاکستان کی سالمیت کو اندرونی خطرات بھی لاحق ہیں ۔ ایک طرف سیاسی جبر کا معاملہ ہے ، سب کو معلوم ہے کہ جمہوریت کی بجائے اس وقت ہائبرڈ سسٹم ملک پر مسلط ہے جو کہ ناکام ہو چکا ہے ۔ ریاستی جبر کے تحت عوامی رائے کو کچلنے کی کوشش بھی کی جارہی ہے۔ ڈاکٹر اسرار احمدؒ  فرمایا کرتے تھے کہ جس طرح انسانی جسم کو زندہ رہنے کے لیے ہوا، پانی اور خوراک کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اس سے زیادہ ضروری روح کی تازگی کے لیے ایمان کی ہے ۔ اسی طرح پاکستان کی سالمیت کے لیے زیادہ اہم اسلام کا نفاذ ہے جو اس کی بقاء کے لیے لازم ہے ۔ پاکستان کی روح کیاہے ؟’’ پاکستان کا مطلب کیا : لاالٰہ الا اللہ ۔‘‘ لہٰذا پاکستان کی بقا ء، سلامتی اور استحکام کے لیے کوئی راستہ نہیں ہے سوائے اس کے کہ یہاں پر شریعت اسلامی کو نافذ کیا جائے۔ البتہ جب تک شریعت کا نفاذ نہیں ہوتا جو اصل ہدف رہے گا تب تک اس ملک کو چلانے کے لیےکوئی نہ کوئی نظام تو چاہیے ۔ ہمارے نزدیک مارشل لاء سے بہتر جمہوریت ہے تاکہ عوام آزادانہ رائے کے ذریعے اپنی حکومت بناسکیں ۔ وگرنہ عوام میں اضطراب اور مایوسی بڑھے گی ، نفرتیں جنم لیں گی ، نظریہ سے دوری پیدا ہوگی اور انتشار جنم لے گا ۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
{مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ ط وَالَّذِیْنَ مَعَہٗٓ اَشِدَّآئُ  عَلَی الْکُفَّارِ }(الفتح:29)’’محمد(ﷺ) اللہ کے رسول ہیں۔ اور جو ان کے ساتھ ہیں‘ وہ کافروں پر بہت بھاری ہیں۔‘‘
مسلمان کا غصہ کفار کے لیے ہوتاہے اور محبت اپنے مسلمان بھائیوں کے لیے ہوتی ہے ۔ اللہ کے رسول ﷺ  نے فرمایا : ’’جس نے محبت کی تو اللہ کے لیے، کسی سے نفرت بھی کی تو اللہ کے لیے، کسی کو کچھ دیا تو اللہ کی خاطر، کسی سے کچھ روک لیا تو اللہ کی خاطر تو اس نے اپنے ایمان کی تکمیل کر لی۔‘‘  (رواہ ابودائود)
یہ ایمان کا تقاضا ہے کہ محبت بھی اللہ کی رضا کے لیے ہو اور دشمنی بھی اللہ کی رضا کے لیے ہو ۔ لیکن اللہ کی رضا اور اللہ کا دین مقصود نہیں ہوگا تو پھر دشمنیاں اور نفرتیں آپس میں پھیلیں گی۔ پھر مسلک اور فرقہ کی لڑائیاں لڑی جائیں گے ۔ نسلی اور لسانی بنیادوں پر خانہ جنگیاں ہوں گی ، علاقائی بنیادوں پر تعصبات جنم لیں گے ۔ ان نفرتوں ، خانہ جنگیوں اور تعصبات کو ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اُمت کو دوبارہ اُس بڑے مشن کے ساتھ جوڑا جائے جو اس کو متحد کر کے دوبارہ ایک اُمت بنا دے اور وہ مشن وہی ہے جو پاکستان کے قیام کا بھی مقصد ہے یعنی غلبۂ دین کی جدوجہد ۔     اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ 
باجوڑ اور تیراہ کا معاملہ 
خیبر پختونخوا کےعلاقے تیراہ میںمارٹرگولہ گرنے سے ایک بچی کی شہادت ہوگئی ۔ واقعہ کے خلاف     عوامِ علاقہ مظاہرے کے لیے نکلے اور ان پر سرعام فائرنگ کرکے کئی لوگوں کو مزید شہید کر دیا گیا ۔اس کے بعد نفرتیں مزید بڑھ چکی ہیں ۔ دین دشمن اور ملک دشمن طاقتیں تو یہی چاہتی ہیں کہ ملک میں انتشار پھیلے ، عوام اور ریاستی اداروں کے درمیان تصادم کی کیفیت پیدا اور ملک خانہ جنگی کا شکار ہو کر تباہ ہوجائے ۔ حکومت اور ریاستی اداروں کو اس کا شعور ہونا چاہیے ۔ اس سے پہلے بھی پرائی جنگ میں شامل ہو کر ہم نے اپنے ہی بھائیوں کومارا ،اُن پر ڈرون حملے کروائے ، شہید کیا، ان کو ناراض کیا ، یہ ناراضگی اور غصّہ کہیں نہ کہیںتو نکلے گا۔ بیرونی طاقتیں بھی اس کو استعمال کر سکتی ہیں ۔ ہم نے بار بار حکومت اور ریاستی اداروں کو توجہ دلائی کہ پرائی جنگ میں شامل ہو کر ہم نے جو غلط فیصلے کیے ہیں اُن کا ازالہ ہمیں کرنا ہوگا ، ناراض لوگوں کو سینے سے لگانا ہوگا اور ان کے جائز مطالبات پورے کرنے ہوں گے تب ہی ملک میں امن اور استحکام قائم ہو سکتاہے ۔ تنظیم اسلامی کی حالیہ مہم کے دوران بھی ہم ریاستی اداروں اور حکومت کو یہی بات سمجھانے کی کوشش کریں گے کہ اسلام دشمن قوتیں جو ظلم غزہ میں کر رہی ہیں ، وہی کچھ دشمنوں کا مہرا بن کر یہاں بھی کیا جائے گا تو یہ اپنے ملک کے ساتھ بہت بڑا ظلم ہو گا جس کی تلافی ممکن نہ ہوگی ۔ ظلم اور جبر کے ذریعے عوامی رائے کو کچلنے اور خوف اور دہشت کی فضا قائم کرنے سے صرف ملک کا ہی نقصان ہوگا ۔ لازم ہے کہ ہم اپنی غلطیوں کا اعتراف کریں اور اللہ کے ہاں سچی توبہ کریں ۔ توبہ ہمیں اجتماعی سطح پر بھی کرنی ہوگی کیونکہ ہم نے یہ ملک اسلام کے نام پر لیا تھا لیکن یہاں اسلام کو نافذ نہیں کیا ۔ اپنے اس جرم کا بھی اعتراف کرتے ہوئے ہمیں اجتماعی توبہ کرنا ہوگی اور اس کاطریقہ یہ ہے کہ ہم یہاں اسلام کے نظامِ عدلِ اجتماعی کا نفاذ کریں ۔ یہ ملک بنا بھی اسلام کے نام پر اور اس کی بقاء ، سلامتی اور اس کا استحکام بھی نفاذ اسلام پر منحصر ہے ۔ 
سب کو جواب اور حساب دینا ہے 
سورہ آل عمران میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : {کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِ ط}(آل عمران:185) ’’ہر ذی نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔‘‘
موت ایک ایسی اٹل حقیقت ہے جس کا انکار کوئی بھی نہیں کر سکتا ۔ روزانہ ہمارے سامنے جنازے اُٹھتے ہیں ، بڑوں کے ، بچوں ، جوانوں کے ، ہر عمر کے افراد کے اور ہم ان جنازوں میں شریک بھی ہوتے ہیں ، مرحومین کے لیے دعائے مغفرت بھی کرتے ہیں لیکن کیا خود ہم مرنے کے لیے تیار ہیں ؟ کیا ہمارے معاملات ٹھیک ہیں ، کیا ہم  حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کررہے ہیں اور اللہ کے سامنے پیش ہونے کے لیے تیار ہیں ؟
{کُلُّ مَنْ عَلَیْہَا فَانٍ (26) وَّیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُو الْجَلٰلِ وَالْاِکْرَامِ (27)}(الرحمٰن)’’جو کوئی بھی اس (زمین) پر ہے فنا ہونے والا ہے۔اور باقی رہے گا صرف تیرے رب کا چہرہ جو بہت بزرگی اور بہت عظمت والا ہے۔‘‘
 جو بندہ جس سطح پر ہے، چاہے امام مسجد ہو ، خطیب ہو ، ممبرآف پارلیمنٹ ہو ، جج ہو ، جرنیل ہو ، فیلڈ مارشل ہو، صدرمملکت ہو یا وزیر اعظم ہو ، باپ ہو ، استاد ہو ، شوہر ہو،  سب نے اس کے مطابق جواب دینا ہے ۔ 
{وَلْـتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍج} (الحشر:18)   ’’ اور ہر جان کو دیکھتے رہنا چاہیے کہ اُس نے کل کے لیے کیا آگے بھیجا ہے!‘‘
سیدنا عمر ؓ کا قول بھی ہے کہ(( حاسبوا من قبل ان تحاسب))اپنا محاسبہ خود کر لو اس سے پہلے کہ اللہ کے ہاں تم کھڑے ہو اور تمہارا محاسبہ وہاں پر کیا جا رہا ہو۔اس لیے مرحومین کے لیے دعائے مغفرت مانگنے کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنی تیاری بھی کرنی چاہیے ۔ جیسا کہ ہم جنازوں میں بھی دعا مانگتے ہیں :((اللہم من احیتہ منا فاحیہ علی الاسلام و من توفیتہ منا فتوفہ علی الایمان)) ’’اے اللہ جس کسی کو تو ہم میں سے زندہ رکھ اسلام پر زندہ رکھ اور جس کسی کو تو ہم میں سے وفات دے تو ایمان کی حالت پر اس کو وفات عطا فرما۔‘‘
جنازے میں بھی جب ہم کسی کے لیے دعا مانگتے ہیں تو سب سے پہلے اپنے لیے مانگتے ہیں :((اللہم اغفر لحینا ومَیِّتِنَا))اے اللہ! ہمارے زندوں کی مغفرت فرما، مردوں کی بھی مغفرت فرما ۔ 
اسی طرح قبرستان میں داخل ہوتے وقت ہم یہ دعا پڑھتے ہیں :(( السلام علیکم یٰاہل القبور یغفر اللہ لنا ولکم انتم سلفنا و نحن بالاثْرِ))’’اے قبر والو تم پر سلامتی ہو، اللہ ہماری مغفرت فرمائے اور اللہ تمہاری مغفرت فرمائے۔ تم ہم سے پہلے جا چکے ہم تمہارے پیچھے پیچھے آنے والے ہیں۔‘‘
اسی طرح انتقال کی خبر سنتے ہی ہم کہتے ہیں :
((انا للہ وانا الیہ راجعون))بے شک ہم بھی اللہ کے ہیں اور ہمیں بھی لوٹ کر اللہ کی طرف جانا ہے۔
معلوم ہوا کہ پہلے ہمیں اپنی آخرت کی فکر کرنی چاہیے اور اس کے لیے تیاری بھی کرنی چاہیے ۔ تیاری کے لیے ضروری ہے کہ ہم حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کو ادا کریں ، جن میں دین کے نفاذ کی جدوجہد بھی شامل ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین !