(زمانہ گواہ ہے) پاک امریکہ تعلقات کا نیا دور اور خدشات - وسیم احمد

13 /

مسلمانوں کے پاس باطل کے خلاف جنگ میں ایمان کے ساتھ طاقت

کے حصول کے سوا اور کوئی حل نہیں ہے: رضاء الحق

پاکستان نے غزہ کا معاملہ بین الاقوامی برادری کے حوالے

کردیا ہے : بریگیڈیئر (ر) جاوید احمد

امریکہ سے تجارتی معاہدے کرکے ہم ایک بار پھر جال میں

پھنس چکے ہیں جس کا مقصد غزہ میں ہونے والی نسلی کشی

پر خاموشی اختیار کرنا ہے : توصیف احمد خان

پاک امریکہ تعلقات کا نیا دور اور خدشات

پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف تجزیہ نگاروں اور دانشوروں کا اظہار خیال

میز بان : وسیم احمد باجوہ

مرتب : محمد رفیق چودھری

 

سوال: پاکستان پر حالیہ امریکی مہربانیوں کی آپ کے خیال میں کیا وجہ ہے اور پاکستان کسی ایک ملک کی کالونی یا اس کا بڑا اتحادی بننے کی بجائے دو عالمی طاقتوں کے درمیان ایک مرکزی کردار کی حیثیت کیوں کر حاصل کر رہا ہے؟ 
بریگیڈیئر جاوید احمد: وقت ایک سا نہیں رہتا۔
امریکہ کے ساتھ مل کر ہم نے دہشت گردی کی جنگ لڑی اور اس میں اپنے 80 ہزار افراد کھودیئے لیکن امریکہ نے پھر بھی پاکستان پر اعتماد نہیں کیا اور ٹرمپ نے اپنے پچھلے دور حکومت میں الزام لگایا کہ پاکستان نے ہمارے 5 بلین ڈالرز لے لیے ہیں ۔ اُس وقت ہم امریکہ کو سمجھا نہیں پائے تھے کہ اگر ہم اس کے فرنٹ لائن اتحادی نہ بنتے تو ہمارے 80 ہزار افراد کی جگہ امریکہ کے کئی گنا زیادہ فوجی مارے جانے تھے ۔ لیکن اس وقت سے پاکستان امریکہ کے دباؤ میں تھا ۔ اب بھارت کی مہربانی سے تھوڑا پانسہ پلٹا ہے ۔ بھارت نے پاکستان کو آپریشن ’’بنیان مرصوص‘‘ کا موقع دیا اور پاکستان نے دنیا کو دکھایا کہ وہ اتنا کمزور نہیں ہے جتنا اس کے خلاف بھارت پروپیگنڈا کرتا رہا ہے ۔ اس کے بعد امریکہ سمیت پوری دنیا کی نظر میں پاکستان کی عزت بڑھی ہے ۔ اس سے پہلے وہ بھارت کو ریجنل پاور کے طور پر دیکھ رہے تھے۔ جہاں تک چین کا تعلق ہے تو اس کی لانگ ٹرم پالیسی ہےکہ وہ اپنے اتحادی ممالک کو جکڑنے کی کوشش نہیں کرتا بلکہ ان کی مدد کرکے اپنے زیر اثر لاتا ہے۔ اس برعکس امریکہ بلاک کی صورت میں ممالک کو اپنے ساتھ باندھنا چاہتا ہے ۔ 
سوال:حال ہی میں پاکستان اور امریکہ کے مابین جو تجارتی معاہدہ ہوا ہے اس کے بعد امریکہ نے پاکستان کے ٹیرف میں بھی 10 پرسنٹ کمی کر دی ہے بلکہ ٹرمپ نے یہاں تک کہہ دیا کہ ممکن ہے آئندہ پاکستان بھارت کو تیل سپلائی کرے ۔ کیا پاکستان کے پاس تیل اور گیس کے اتنے ذخائر ہیں کہ وہ بھارت کو دے گا ؟
رضاء الحق :اس میں کوئی شک نہیں گزشتہ دو دہائیوں میں بھارت نے کچھ ترقی بھی کی لیکن اس سے زیادہ اس کے غبارے میں ہوا بھر دی گئی تھی اور ہوا بھرنے والا عالمی قوت کے طور پر امریکہ تھا ۔ وہ بھارت سے اس کی حیثیت سے بڑھ کر توقع کر رہا تھا ۔ حالانکہ بھارت ابھی اس مقام تک نہیں پہنچا تھا ، یہاں تک کہ G20وغیرہ اجلاسوں میں جب امریکی صدر بھارتی دورے پر ہوتا تھا تو بھارت کو اپنی غربت کو چھپانا پڑتا تھا ۔ امریکہ نے بھارت کو کواڈ میں شامل کیا ، پھرآکس میں شامل کیا ۔وہ انڈو پیسیفک ریجن میں بھارت کو اپنا پراکسی بنا کربنیاد ی طور پر چین اور کسی حد تک روس کے مقاطعہ کی پالیسی میں  استعمال کرنا چاہتا تھا۔ یہاں تک کہ اس نے افغانستان میں بھی بھارت کو ایک کردار دیا اور بھارت نے وہاں   18 قونصل خانے تو کھولے جوپاکستان کے خلاف  دہشت گردی کی تربیت دیتے رہے لیکن امریکی خواہش کے مطابق افغانستان میں زمینی حملے میں حصہ نہیں لیا ، بہرحال امریکہ کی ہزیمت ناک ناکامی ہوئی ۔ حالیہ پاک بھارت معرکہ میں بھارت کی کمزوریاںمزید کھل کر سامنے آگئیں ۔ اس کے بعد سے پاکستان پر امریکہ مہربان ہے اور جو ٹیرف میں کمی کی ہے اس کا فائدہ پاکستان کو اُس وقت پہنچے گا جب ہم اپنی اکانومی کوان لائنز کے اوپر استوار کر پائیں گےجن لائنز پر اکانومی ترقی کرتی ہے۔ اس کے لیے ایک تو آپ کو صنعت کاروں کو سہولیات دینی پڑیں گی، انڈسٹری کے لیے بجلی ، گیس اور تیل کی قیمتوں میں کمی کرنی پڑے گی ۔ آپ کے پاس خام مال بھی موجود ہونا چاہیے ۔ یہ نہ ہو کہ مافیاز کے ہاتھوں انڈسٹری کو بھی یرغمال بنا لیا جائے ۔ اپنی ایکسپورٹس بڑھانی ہوں گی اور نئی منڈیاں تلاش کرنی ہوں گی ۔ جس طرح بنگلہ دیش اپنی ایکسپورٹس کو بڑھارہا ہے ۔ پھر یہ کہ پاکستان میں تیل اور گیس کے ذخائر تو موجود ہیں ، بلوچستان معدنیات سے بھرا پڑا ہے ۔ چند سال پہلے ہماری وزارت دفاع نے تخمینہ لگاگیا تھا کہ 6 کھرب ڈالر کی معدنیات بلوچستان میں موجود ہیں ۔ غیر سرکاری تخمینہ تقریباً 50 ٹریلین ڈالرز سے زیادہ ہے ۔ تاہم ان معدنیات کو نکالنے کے لیے مطلوبہ ٹیکنالوجی بھی درکار ہوتی ہے جو کہ اس وقت چین کے پاس ہے ۔ ہماری معدنیات کا بہت بڑا حصہ اس وقت بلیک مارکیٹ میں بھی فروخت ہورہا ہے ۔ ان چیزوں کو کنٹرول کرکے اگر ملکی مفاد میں مخلصانہ فیصلے کیے جائیں تو پاکستانی اکانومی ترقی کر سکتی ہے لیکن امریکہ کی مہربانی درحقیقت پاکستان کے لیے ایک بڑا لمحۂ فکریہ ہونا چاہیے کہ آخر یکدم کیوں اتنا مہربان ہوگیا ۔
سوال: کچھ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ امریکی سائنسدان مخصوص ٹیکنالوجی کی بدولت اس نتیجہ پر پہنچ چکے ہیں کہ پاکستان کے پاس اتنےمعدنی ذخائر ہیں کہ بہت جلد وہ دنیا کا چوتھا بڑا تیل پیدا کرنے والا ملک بن جائے گا ۔ کیا آپ اس رائے سے اتفاق کرتے ہیں؟
توصیف احمد خان:میں بالکل نہیں کرتا۔اس وقت تک پاکستان اپنی ضروریات کا صرف 11 فیصد تیل پیدا کر رہا ہے باقی سارا درآمد کیا جاتاہے ۔ ٹوٹل کھپت 4 لاکھ بیرل تیل کی ہے ۔کہا جارہا ہے کہ 9 ارب بیرل تیل دریافت ہونے کی توقع ہے ۔ عمران خان کے دور میں بھی ایسی بشارتیں سنائی گئی تھیں لیکن یہ توقعات اس وقت تک یقین میں نہیں بدل سکتیں جب تک تیل دریافت نہ ہو جائے ۔ سندھ میں 337 کنویں کھودے گئے ۔ ایک جگہ پر بڑا ذخیرہ دریافت ہوا ہے ۔ بلوچستان میں نایاب زمین ہے مگر ہمارے پاس انفراسٹریکچر نہیں ہے ۔ریئر ارتھ منرلز کے حوالے سے چوتھے نمبر پر بھارت ہے مگر اس کے پاس بھی انفراسٹریکچر نہیں ہے ، یہی وجہ ہے کہ اس پر 50 فیصد ٹیرف لگایا گیا ہے ۔ چین ریئر ارتھ منرلز کا حامل واحد ملک ہے جس پر امریکہ کوئی ٹیرف نہیں لگا سکتا کیونکہ چین کے پاس اپنا انفراسٹریکچر ہے۔ دراصل معاملہ یہ ہے کہ چار روزہ پاک بھارت جنگ کے بعد امریکہ کو سمجھ میں آگیا کہ بھارت سپرپاور نہیں ہے ، یہ چین کا راستہ نہیں روک سکتا ۔ اس لیے اب امریکہ کی پاکستان سے محبت جاگی ہے ۔ مگر ایک بات سمجھ لیجئے کہ امریکہ نے جس کو بھی استعمال کیا اس کو تنہا چھوڑ دیا ۔ ویت نام ، افغانستان ، عراق ، جہاں بھی گیا اتحادیوں کو دھوکہ دیا ۔ پاکستان کو بھی استعمال کیا پھر چھوڑ دیا ، پھر استعمال کیا، پھر چھوڑ دیا ، اب پھر استعمال کر رہا ہے ۔ اس کے برعکس بھارت چالاک ہے وہ چین سے بھی تجارت کر رہا ہے، روس سے بھی کررہا ہے ، اور امریکہ سے بھی مفادات حاصل کر رہا ہے ۔ 
رضاء الحق : امریکہ کا ساتھ جس نے بھی دیا اس نے نقصان اُٹھایا ۔ صرف اسرائیل ایک ایسا ملک ہے جس کے ساتھ امریکہ مخلص ہے اور ایسا لگتا ہے کہ جیسے امریکہ اسرائیل کا ایک صوبہ ہو ۔ 
سوال:  نریندر مودی اور انڈیا کی منافقت اپنی جگہ ہے لیکن بہت عرصہ سے یہ سمجھا جا رہا تھا کہ انڈیا امریکہ کا پکا اتحادی ہے، مودی کو مرد معیشت قرار دیا جارہا تھا اور مودی شائننگ انڈیا کی بات کرتے تھکتا نہ تھا لیکن اب جو حالات سامنے آرہے ہیں اس سے یہ لگتا ہے کہ بھارت امریکہ کے زیر اعتاب آچکا ہے ، ٹرمپ نے بھارت کا ٹیرف 50 فیصد کردیاہے ۔ آپ کے خیال میں امریکہ اور بھارت کے درمیان گٹھ جوڑ میں دراڑ کیسے آئی ؟
بریگیڈیئر جاوید احمد: اصل میں تو امریکن اتحادی پہلے دن سے ہم ہیں جو شروع سے سیٹو اور سینٹو کے  ممبر ہیں اور امریکہ کے ابتدائی وعدے بھی ہمارے   ساتھ تھے، یہاں تک کہ پاکستان اور امریکہ کی افواج کی مشترکہ مشقیں ہوتی تھیں تو اس وقت انڈیا سابق  سوویت یونین کے ساتھ تھا ۔ لیکن پچھلے 20 سال سے امریکہ ہمیں نظر انداز کرکے بھارت کو نوازتا رہا ہے ۔ 
سوال:ہم شروع سے امریکہ کے اتحادی تھے جبکہ بھارت روس کا اتحادی تھا لیکن اس کے باوجود 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں امریکہ نے پاکستان کا اسلحہ روک دیا ؟
توصیف احمد خان:1965ء تک بھارت امریکہ سے اسلحہ نہیں لے رہا تھا اور نہ ہی امریکہ نے پاکستان کا اسلحہ روکا تھا ۔ اس وقت پاک بھارت معاہدوں میں روس کا کردار زیادہ تھا ۔ دراصل ٹرمپ کے امریکی صدر بننے کے بعد سے امریکن پالیسی میں ایک تبدیلی آئی ہے اور وہ تبدیلی دوسری ریاستوں میں بھی دیکھی جا سکتی ہے کہ ہر یورپی ملک انٹرنیشنل الائنس کی بجائے نیشنل ازم کو ترجیح دے رہا ہے ۔ اس کی ابتدا ٹرمپ کی امریکہ فرسٹ کی پالیسی سے ہی ہوا ہے ۔ اس وجہ سے اب انٹرنیشنل الائنس بکھرنا شروع ہو گئے ہیں۔ یہاں تک کہ نیٹو جیسے اتحاد میں شامل ممالک نے بھی اب فلسطین کے مسئلے پر اپنی اپنی پالیسی کا اعلان کرنا شروع کر دیا ہے۔بھارت نے بھی امریکہ کے ساتھ عسکری اور اقتصادی اتحاد بنا رکھا تھا اور اسی گھمنڈ میں اُس نے پاکستان پر وار کرکے اپنی برتری ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن معاملہ اُلٹا پڑ گیا ۔ انڈیا اُتنا ہی نیچے چلا گیا اور پاکستان اُتنا ہی اوپر آگیا ۔ دنیا چڑھتے سورج کی پوجا کرتی ہے اسی وجہ سے امریکن پالیسی میں تبدیلی آئی ہے ۔ 
رضاء الحق : اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتاہے :
{وَمَکَرُوْا وَمَکَرَ اللہُ طوَاللہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَ (54)} (آل عمران) ’’اب انہوں نے بھی چالیں چلیں اور اللہ نے بھی چال چلی۔اور اللہ تعالیٰ بہترین چال چلنے والا ہے۔‘‘ 
حالیہ پاک بھارت جنگ کے بعد شائننگ انڈیا کا تصور تو بالکل خاک میں مل چکا ہے ۔ اب چین کا راستہ روکنے کے لیے امریکہ کے پاس کوئی راستہ نہیں ہے سوائے اس کے کہ وہ پاکستان سے تعلقات بہتر کرے ۔ لیکن پاکستان کو  سمجھنا چاہیے کہ امریکہ قابل بھروسا نہیں ہے ۔ کارگل کی جنگ میں اگر امریکہ بھارت کو سیٹلائٹ کے ذریعے معلومات فراہم نہ کرتا تو بھارت جنگ ہار چکا ہوتا ، اسی طرح 65 19ءکی جنگ میں بھی امریکہ نے پاکستان کا ساتھ نہیں دیا ۔ 1971ء میں تو پاکستان کو امریکی بیڑے کا انتظار ہی رہا ۔ اب پاکستان کے پاس اللہ کی مدد سے چین جیسا اتحاد ی ہے جس کی بدولت پاکستان نے حالیہ جنگ جیتی ہے ۔ لہٰذا پاکستان کو ایسے اتحادی کو امریکہ کی خاطر نہیں کھونا چاہیے ۔ 
سوال: پاک چین دوستی آج کل واقعتاً ہمالیہ سے اونچی اور شہد سے میٹھی لگ رہی ہے ۔ آ پ بتائیے کہ حالیہ پاک امریکہ تجارتی معاہدہ کی وجہ سے پاک چین تعلقات پر کوئی منفی اثر تو نہیں پڑے گا ؟
رضاء الحق : کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ چینی اس بات کو بخوبی سمجھتے ہیں کہ یہ گلوبل سطح کے معاملات ہیں ۔  پچھلے کچھ عرصہ سے پاک چین تعلقات سرد تھے لیکن اس کے باوجود اس نے حالیہ پاک بھارت معرکہ میں پاکستان کی مدد کی اور اس کاچین کو بہت فائدہ بھی ہوا ۔ چین تو چاہتا ہی یہی ہے کہ اس خطے میں خوشگوار معاشی اور عسکری تعلقات قائم ہوں۔ اس میں انڈیا ، پاکستان ، افغانستان، وسط ایشیائی ریاستیں اور خود چین شامل ہو ۔ 
سوال:کیا چین یہ چاہتا ہے کہ اس کے اتحادی اس کے مرہون منت رہیں کسی اور کے پاس نہ جائیں ؟
رضاء الحق :  یہ پالیسی امریکہ کی ہوتی ہے لیکن چین ہرگز ایسا نہیں کرے گا ۔وہ خطے میں امن اور ترقی چاہتا ہے۔اس نے 500 سال میں خود کوئی جنگ شروع نہیں کی لیکن اس کے باوجود وہ آگے بڑھ رہا ہے ۔ اب مودی کا چین کا دورہ کرنے کا اعلان یہ ثابت کرتاہے کہ چین کی پالیسی امن کی پالیسی ہے ۔ اگرچہ احادیث میں اس خطہ میں جنگوں کا ذکر ہے لیکن وہ شاید بعد میں ہوں ۔ فی الحال ایسا کوئی امکان نظر نہیں آتا ۔ 
سوال:امریکہ نے پاکستان پر مہربان ہوتے ہوئے  10 فیصد ٹیرف کم کردیا ہے ۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ اس مہربانی سے پاکستان کی ایکسپورٹس میں کتنا اضافہ ممکن ہے، کیا پاکستان کی اکانومی اور مارکیٹ اس سےکوئی فائدہ حاصل کر پائے گی ؟
توصیف احمد خان:ایک تومیں اس کو مہربانی نہیں مانتا کیونکہ وہ ایک معاشی جن کے طور پراُبھر رہے ہیں جبکہ سپر پاور کے طور پر ڈاؤن ہو رہے ہیں۔تاہم اگر ہم کوشش کریں اقتصادی میدان میں بھارت کے مقابلے میں آسکتے ہیں ۔ خاص طور پر الیکٹرانکس ، ٹیکسٹائلز اور فارما سیوٹیکلز کے شعبوں میں زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس صورت میں ہم فائدہ اُٹھا سکتے ہیں ۔ چین بھی یہی چاہے گا کہ ہم امریکہ کو انگیج کریں ، چین خود بھی امریکہ کے ساتھ تجارت کر رہا ہے۔ امریکہ اور چین کی فطرت میں بہت فرق ہے ۔ امریکہ ، کینیڈا ، آسٹریلیا اور اسرائیل کالونیل ازم کی پیداوار ہیں جو ناجائز قبضہ کے بعد قائم ہوئے اور ان کی فطرت میں جنگ ہے جبکہ چین نے خود پچھلے 500 سال سے کوئی جنگ شروع نہیں کی ۔ چین اور روس نے اب ایک معاشی پالیسی بنائی ہے جس میں یہ شامل ہے کہ وہ کسی ملک پر جبر نہیں کریں گے بلکہ باہمی اقتصادی ترقی کے لیے ذریعے آگے بڑھیں گے اور اپنے اتحادیوں سے کہیں گے کہ اپنی سکیورٹی کے مسائل ہمارے کیمپ میں آکر حل کرلیں ۔ اس کے برعکس امریکی بلاک میںاپنی سکیورٹی کے لیے دوسروں کی سکیورٹی کو خطرے میں ڈالنا ضروری سمجھا جاتاہے ۔ 
رضاء الحق :نبی اکرم ﷺ نے ہجرت کے بعد مدینہ میں سب سے پہلے چار بنیادی کام کیے تھے ۔ جن میں ایک مسجد نبوی کی تعمیر تھی ، مواخات کا نظام تھا ، یہود کے مقابل اپنی آزاد مارکیٹ قائم کی۔ چوتھا کام میثاق مدینہ تھاجس کے تحت ایک جوائنٹ ڈیفنس پیکٹ قائم کیا گیا تھا، اس میں مدینہ کے گرد و نواح کے مشرک قبائل کے علاوہ یہودی قبائل بھی شامل تھے ۔اس کا مقصد یہ تھا کہ اگر کوئی قبیلہ جنگ میں آپ کا ساتھ نہیں دیتا تو وہ بے نقاب ہو جائے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اس وقت دنیا میں کچھ معاملات چل رہے ہیں ۔ دوسری چیز حدیث میں یہ ہےکہ جنگ کی خواہش نہ کرو لیکن اگر کوئی جنگ مسلط کرے تو پھر پیٹھ نہ دکھاؤ ۔ 
سوال:ایران سرائیل جنگ کے بعد ایرانی صدر کا حالیہ دورہ پاکستان کتنی اہمیت کا حامل ہے ؟ نیز دونوں ممالک کے درمیان جو تجارتی معاہدے ہوئے ہیں ان میں امریکی پابندیاں تو حائل نہیں ہوں گی ؟
بریگیڈیئر جاوید احمد:پاکستان کو کافی عرصہ تک یہ شکایت تھی کہ ایران کی کشمیر کے حوالے سے پالیسی واضح نہیں ہے ۔ لیکن حالیہ کچھ واقعات نے پاکستان اور ایران کو قریب کردیا ہے۔ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر دونوں  ممالک کو سفارتی اور تجارتی تعلقات بڑھانے چاہئیں ۔ فیلڈ مارشل کے حالیہ دورہ امریکہ اورٹرمپ سے ملاقات کے بعد امریکی حکومت کی جانب سے بڑے معنی خیز بیانات سامنے آرہے ہیں ۔ ایک یہ کہ امریکن لیڈرشپ کی نسبت پاکستانی لیڈرشپ ایران کی صورتحال کو بہتر سمجھتی ہے ۔اس سے ظاہر ہوتاہے کہ امریکہ پاکستان سے کچھ سیکھنا چاہتاہے یا وہ ایران کے بارے میں پاکستان سے کچھ فائدہ حاصل کرنا چاہتا ہے، شاید یہ ثالثی کا کردار بھی ہو سکتاہے ۔امریکہ کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان کو ایران اسرائیل تنازعہ میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ۔ اس لحاظ سے میں سمجھتا ہوں پاک ایران تجارتی معاہدات پر امریکن پابندیوں کا فی الحال کوئی اثر نہیں ہوگا ۔ شاید امریکی انتظامیہ دونوں ممالک کے ساتھ کچھ نرمی برت رہی ہے ۔ اس سے دونوں ممالک کو فائدہ اُٹھانا چاہیے ۔ 
سوال: موجودہ عالمی حالات ، بالخصوص غزہ کی صورتحال کے تناظر میںپاکستان کے امریکہ کے ساتھ تجارتی معاہدے اور متوقع سرمایہ کاری کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں ؟
رضاء الحق :بدقسمتی سے اس وقت دنیا میں اخلاقیات یا اصولوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے بلکہ طاقت ہی سب کچھ ہے اور جنگل کا قانون ہے ۔ اس وقت کوئی ایسا بین الاقوامی ادارہ نہیں ہے جس نے اسرائیلی مظالم کے خلاف رپورٹ شائع نہیں کی ۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل سے لے کر ہیومن رائٹس واچ، ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز ، انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس، انٹرنیشنل کریمینل کورٹ تک سب نے اسرائیلی مظالم کی نشاندہی کی مگر اسرائیل مظالم سے باز نہیں آیا اور نہ آئے گا۔ ہم اس وقت اہل غزہ کی براہ راست کوئی مدد نہیں کر سکتے کیونکہ وہ چاروں طرف سے محصور ہے ۔ ہم ان کے لیے دعا کرسکتے ہیں ، یا امداد بھیج سکتے ہیں وہ بھی اسرائیل جانے دے گا تو ان تک پہنچے گی۔ لہٰذا مسلمانوں کے پاس متحد ہو کرطاقت کے حصول کے سوا کوئی حل نہیں ۔ اسرائیل نواز کمپنیوں کا عوامی سطح اور سرکاری سطح پر مکمل بائیکاٹ کیا جائے ۔ 
سوال:اسرائیل اب بھوک اور پیاس کے ذریعے غزہ کے لوگوں کی نسل کشی کر رہا ہے ۔ جبکہ ہم امریکہ کے ساتھ معاہدے کر رہے ہیں جو کہ اسرائیل کا سب سے بڑا پشت پناہ ہے ۔  کیا امریکہ ہمیں اس طرح خوش کرکے تو خاموش نہیں کرنا چاہتا ؟
بریگیڈیئر جاوید احمد:پاکستان کی غزہ کے حوالے سے پالیسی ان پونے دو سالوں میں کھل کر سامنے آچکی ہے کہ پاکستان نے غزہ کے معاملے کو بین الاقومی برادری کے حوالے کر دیا ہے۔ غزہ کے حوالے سے پاکستان کا اب تک کا سب سے بڑا کردار یہ ہے کہ اس نے اقوام متحدہ میں آواز اُٹھائی اور بین الاقوامی برادری کو متوجہ کیا ہے ۔ اس سے آگے بڑھ کر پاکستان امریکہ کو چیلنج کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے ۔ ان حالات میں اگر ہم قرآن مجید سے رہنمائی لیں تو قرآن کہتا ہے : 
’’کیا اس قوم سے نہ لڑو گے جنہوں نے اپنی قسمیں توڑیں اور رسول کے نکالنے کا ارادہ کیا حالانکہ انہیں کی طرف سے پہل ہوئی ہے، کیا ان سے ڈرتے ہو تو اللہ اس کا زیادہ مستحق ہے کہ اس سے ڈرو اگر ایمان رکھتے ہو۔‘‘ (التوبہ :13)
 اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’اور تمہیں کیا ہوگیا کہ تم اللہ کے راستے میں نہ لڑواور کمزور مرد وں اور عورتوں اور بچوں کی خاطر (نہ لڑو جو) یہ دعا کررہے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہمیں اس شہرسے نکال دے جس کے باشندے ظالم ہیں اور ہمارے لیے اپنے پاس سے کوئی حمایتی بنادے اور ہمارے لیے اپنی بارگاہ سے کوئی مددگار بنا دے۔‘‘(النساء :75)
       کیا وجہ ہےکہ ہم اپنی عقل کے گھوڑے دوڑا رہے ہیں  لیکن قرآن مجید کی اس ہدایت سے بالکل استفادہ نہیں کرنا چاہتے ؟لہٰذا کیا عجب ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اس نافرمانی کی وجہ سے ہم پر کوئی آفت نازل ہو جائے ۔ اس پہلو پر بھی ہمیں غور کرنا چاہیے ۔ 
سوال :موجودہ عالمی حالات کےتناظر میں آپ    پاک امریکہ تجارتی معاہدہ کو کس نظر سے دیکھتے ہیں ؟
توصیف احمد خان:ہم اس پر خوشی کا اظہار نہ کریں کیونکہ بات کچھ اور بھی ہے۔ بات یہ ہے کہ پاکستان ، ترکی اور ایران ایسے ممالک ہیں کہ اگر اسرائیل کوحقیقی دھمکی دے دیں تو اسرائیل جنگ روک دے گا ۔ لہٰذا ان ممالک کو اس طرح خوش کرکے خاموش کرایا جارہا ہے۔ ترکی، سعودی عرب اور کویت کو ایف 35 دینے کی بات کی جارہی ہے جبکہ 1960ء کے معاہدے کے مطابق اسرائیل کو اس سے اعلیٰ اسلحہ دیا جائےگا ۔ لہٰذا اگر اسرائیل کو ایف 47 دیا جائے گا تو اس کے سامنے ایف 35 کی کیا حیثیت رہ جائے گی ۔ آج پوری دنیا میں اسرائیل کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں۔ نیویارک میں یہودیوں نے بھی  نسلی کشی کے خلاف مظاہرہ کیا ہے ، آسٹریلیا میں 30 لاکھ لوگ نکلے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف ہم امریکہ سے معاہدے کرکے خوش ہو رہے ہیں ۔ یہ جان لیجئے کہ ہم ایک بارپھر جال میں پھنس چکے ہیں ۔ اس کے برعکس اگر یہ تین ممالک دھمکی دے دیں تو غزہ کے مسلمانوں کا قتل عام رک سکتا ہے ۔ 
رضاء الحق :ان تمام باتوں کے ساتھ ساتھ ہمیں  پاکستان کو حقیقی معنوں میں ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانا ہے ۔ آج کے دور میں خلافت راشدہ کے نمونے پر ایک ماڈل اسلامی ریاست قائم ہوگی تو دشمن کو دندان شکن جواب دیا جائے گا ۔ ان شاء اللہ !