(فکر دین وطن) کیا ہم آزاد ہیں؟ - ادارہ

11 /
کیا ہم آزاد ہیں؟
 
اویس اشرف، سعودی عرب
 
اس بار ہم وطنوں نے78 واں یومِ آزادی منایااور ہمیشہ کی طرح اس سال بھی جشنِ آزادی ملک بھر میں جوش و خروش سے منایا گیا۔ ہر عمر کے افراد، بچوں، بوڑھوں اور جوانوں نے، اپنے اپنے طریقے سے وطن سے محبت کا اِظہار کیا۔ اس موقع پر ملک بھر کے اسکولوں، کالجوں اور دیگر اداروں میں خصوصی تقریبات منعقد ہوتی ہیں۔
لیکن موجودہ ملکی و عالمی حالات کے پیشِ نظر یہ سوال اُٹھتا ہے کہ کیا ہم واقعی آزاد ہیں؟ یہ سوال شاید کچھ لوگوں کے لیے حیرت کا باعث ہو،مگر حقیقت یہ ہے کہ آج کے نوجوانوں کے ذہنوں میں بار بار یہ سوال اُبھرتا ہے۔ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے ہمیں آزادی کے حقیقی معنی سمجھنے کی ضرورت ہے۔
آزادی ایک عظیم نعمت ہے، جس کا مطلب ہے کہ کوئی قوم یا ملک خودمختار ہو، اپنے فیصلے خود کرنے کا حق رکھتی ہو اور اپنے مستقبل کے تعین کی مجاز ہو(کسی مسلمان ملک میں اللہ اور رسولؐ کے احکامات کے تابع رہ کر)۔ آزادی وہ نعمت ہے جس کے ذریعے قومیں اپنی شناخت اور وقار کو برقرار رکھ سکتی ہیں۔ یہ قوموں کے لیے سب سے قیمتی سرمایہ ہے، جو انھیں اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے، اپنی ثقافت، روایات اور مذہب کی حفاظت کرنے اور اپنی سیاسی، معاشرتی اور معاشی پالیسیاں خودمختار طور پر ترتیب دینے کا موقع فراہم کرتی ہے۔
آزادی کے معنی اور مفہوم کو سمجھنے کے بعد یہ سوالات ذہن میں آتے ہیں کہ کیا ہم واقعی خودمختار ہیں؟ کیا ہم اپنے فیصلے خود لے سکتے ہیں؟ افسوس کی بات یہ ہے کہ آج کے دور میں ہمارے بہت سے فیصلے بیرونی مداخلت کی وَجہ سے متاثر ہوتے ہیں۔ آئی ایم ایف جیسے عالمی اداروں کے دباؤ پر بجٹ میں اشیا ءکی قیمتیں طے کی جاتی ہیں اور ہماری معیشت پر بیرونی اَثرات بری طرح سے اثر انداز ہو رہے ہیں۔
ہمیں اپنے اندر خودی پیدا کر کے اپنے اور اپنے وسائل پر انحصار کرنا چاہیے۔ جو خودی کو پالیتے ہیں ان کی نظروں میں دنیا اور سامانِ دنیا کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ بندوں کے سامنے کسی غرض کی خاطر جھکنے کو وہ خودی کی موت سمجھتے ہیں۔ 
مرا طریق امیر نہیں، فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
بے خودی لے گئی کہاں ہم کو
دیر سے انتظار ہے اپنا
کیا ہم اپنے مستقبل کا تعین کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ کسی بھی قوم کا مستقبل اس کے نوجوان ہوتے ہیں اور ان کی تعلیم اور روزگار کے مواقع قومی ترقی کا ضامن ہوتے ہیں،مگر پاکستان میں ہر سال ہزاروں نوجوان بہتر مواقع کی تلاش میں ملک سے باہر جانے پر مجبور ہیں۔ حکومت کی ترجیحات میں نوجوانوں کے لیے مناسب تعلیم اور روزگار کے مواقع پیدا کرنا کوئی مشکل کام نہیں ، لیکن ہماری مقتدرہ کی ترجیحات میں یہ چیز سرے سے شامل ہی نہیں ۔ بلکہ ہماری مقتدرہ کی ترجیحات میں ،قومی ضروریات اور مقاصد کی تکمیل کے لیے کام کرنا نہیں ہے۔ 
آزادی کا مطلب صرف بیرونی طاقتوں کی مخالفت نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب اپنے عوام کے ساتھ عدل و انصاف کا سلوک کرنا بھی ہے۔ اگر حکومت اپنے ہی ملک کے لوگوں کے حقوق پامال کرے، ان کے ساتھ ظلم و زیادتی کرے، تو یہ بھی آزادی کے اصولوں کے خلاف ہے۔ ایک آزاد قوم کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو بنیادی ضروریات جیسے کہ صحت، تعلیم، روزگار،  رہائش اور تحفظ کی سہولیات فراہم کرے۔
آزادی صرف ایک دن منالینے کا نام نہیں ہے، بلکہ اس کی حفاظت اور اس کے اصولوں پر عمل کرنے کا نام ہے۔ ہمیں اپنی خودمختاری برقرار رکھنے، بیرونی مداخلت سے بچنے، اپنے لوگوں کے ساتھ انصاف کرنے، اور انھیں بنیادی ضروریات فراہم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، تاکہ ہم ایک مضبوط، خوش حال اور واقعی آزاد قوم بن سکیں۔
آئیں! اور سوچیں کہ حقیقی آزادی کےحصول اور نظامِ ظلم کو ختم کرنے کے لیے ہمیں کیا کرنے کی ضرورت ہے۔ اور اس آزادی کو حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ تاکہ آئندہ اس دن کو حقیقی معنوں میں منایا جا سکے۔
خودی کی جلوتوں میں مصطفائی
خودی کی خلوتوں میں کبریائی
زمین و آسماں و کرسی و عرش
خودی کی زد میں ہے ساری خدائی