میں رب کی رضا پر راضی
ام عبداللہ
اسلام کا سورج عورت کے لیے رحمت بن کر طلوع ہوا۔جس قدر پستی اور ذلت کا شکار دور جاہلیت میں عورت کا مقدر تھا، اسلام نے اُسی قدر عورت کے مقام کو عزت اور احترام بخشا۔ اسلام کی تاریخ اُن مقدس امہات المومنینؓ اور صحابیاتؓ کے ناموں سے روشن ہے جن کے ذکر پر آج کی ایک لبرل خاتون کو بھی نہ چاہتے ہوئے احترام کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔میرا کالم انہی لبرل اور so-called روشن خیال خواتین کے لیے ہے جنہیں اپنی بے حیائی کا کھلے عام مظاہرہ کرنے کے لیے’’میرا جسم، میری مرضی ‘‘ جیسے غليظ نعروں کا سہارا لینا پڑ رہا ہے۔ یہ وہ چند Human Rights Activists یا لبرل سوچ رکھنےوالی خواتین کا مختصر سا ٹولہ ہے جو اپنی سوچ کو پورے ملک کی خواتین کی سوچ بنا کر پیش کرنے میں جُتا ہوا ہے۔ ایسی ہی سوچ رکھنے والےلوگوں کے متعلق اللہ سبحانہ ٗو تعالیٰ قرآن میں فرماتے ہیں:
{اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَۃُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ لا فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ ط وَاللہُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(19)} (النور)’’بے شک جو لوگ چاہتے ہیں کہ اہلِ ایمان میں بے حیائی کا چرچا ہو ‘اُن کے لیے دنیا اور آخرت میں درد ناک عذاب ہے۔اور اللہ خوب جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔‘‘
سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا انسان یوں ہی پیدا ہو گیا تھا ؟ نہیں۔ کیا میں اپنی مرضی سے عورت پیدا ہو گئی تھی؟ نہیں۔ تو ظاہر ہے جب مجھے پیدا کرنے والا میرا رب ہے اور اُسی نے مجھے عورت پیدا کیا تھا تو وہی جانتا بھی ہے کہ بحیثیت عورت میرے کیا فرائض ہیں، میرے رب کو مجھ سے کیا مطلوب ہے، اُس ذات سے بہتر کون بتا سکتا ہے۔ اللہ سبحانہ ٗ و تعالیٰ فرماتے ہیں:
{وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللہُ وَرَسُوْلُہٗٓ اَمْرًا اَنْ یَّکُوْنَ لَہُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ اَمْرِہِمْ ط وَمَنْ یَّعْصِ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیْنًا(36)}(الاحزاب) ’’اور کسی مؤمن مرد اور مؤمن عورت کے لیے روا نہیں کہ جب اللہ اور اُس کا رسول (ﷺ) کسی معاملے کا فیصلہ کر دیں تو (پھر بھی انہیں یہ خیال ہو کہ) ان کے لیے اپنے اس معاملے میں کوئی اختیار باقی ہے۔اور جو کوئی اللہ اور اُس کے رسولؐ کی نافرمانی کرے تو وہ صریح گمراہی میں پڑ گیا۔‘‘
مرد سے برابری کا نعرہ بلند کرنے والیوں سےآج میرا یہ سوال ہے کہ کیا مسلمان عورت گھر کا سکون اور راحت چھوڑ کر چوکیدار، مالی،مزدور، کسان،ٹرک ڈرائیور، مکینک بننے کو تیار ہے؟ انہیں تو سب سے پہلے Ladies First اور ہر جگہ عورتوں کی علیحدہ سیٹوں اور لائینوں کے خلاف آواز بلند کرنی چاہیے۔ہمارے رب نے ہمیں گھر کا دائرہ عطا فرمایا ہے جہاں ہم اپنی ذمہ داریاں بھی ادا کرتی ہیں، ہماری حکمرانی بھی چلتی ہے اور ہمارے شوہربھی ہم سے محبت کرتے ہیں۔ ہم تو الحمدللہ رب کی رضا پر راضی ہیں۔ اپنی انہی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے بدلے اُس نے ہم سے جنت کا وعدہ فرمایا ہے۔
ہمارے لیے حیا اور وفا کی سب سے خوبصورت امثال امہات المومنین اور صحابیات ؓ کی سیرت میں ہیں۔ وہ خدیجۃ الکبری کا اپنے محبوب شوہرکے لیے غارِ حرا پر کھانا لے جانا اور اسلام کے آغاز میں ساتھ دینا، شعب ابی طالب میں فاقے کرکےقربانی دینا ۔ وہ امی حضرت عائشہ کا اپنے شوہر کے مشن میں ساتھ دینا اور فاقوں کی بھی پروا نہ کرنا۔ وہ حضرت فاطمہ الزھراء کا حیا کا پیکر ہونا اور یہ بیان کرنا کہ عورت کی سب سے بہترین خوبی یہ ہے کہ نہ کوئی غیر مرد اسے دیکھے اور نہ وہ کسی غیر مرد کو دیکھے۔ ہمارے رب نے ہمارے لیے دین اسلام میں اتنی اعلیٰ سیرت و اخلاق کی پیکر خواتین کی سیرتیں عطا کی ہیں۔ لیکن آج میڈیا اور لبرل زدہ لوگوں کی سوچ نے ہمیں دین سے دور کر دیا ہے۔
حیا کا تعلق تو در حقیقت آخرت پر ایمان سے ہے۔ اگر ہمیں دنیا کے فانی ہونے اور آخرت میں اپنی ذمہ داریوں کی بازگشت کا یقین کامل نہیں تو ظاہر ہے کہ پھر ہم جو چاہیں کریں۔ اس لیے ہم مسلمان خواتین کو اپنا جائزہ لینا چاہیےکہ ہم بحیثیت بیٹی اپنے والدین اور ساس سسر (کیونکہ وہ بھی ہمارے والدین ہیں) ، بحیثیت بیوی اپنے شوہراور بحیثیت ماں اپنی اولادکے حقوق ادا کر رہی ہیں۔ میرا ماننا ہے کہ اگر ہم اپنے حقوق کی کم پرواہ کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں پر زیادہ توجہ دیں گے اور انہیں بخوبی انجام دیں گے تو یقیناً اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ بھی اسی قدر بلکہ اس سے بڑھ کر ہمیں اجر میں ہمارا حق دیں گے۔
لہٰذا میری اپنی بہنوں اور خصوصاً اپنی بچیوں سے درخواست ہے کہ خدارا اس میڈیا اور کالجز یونیورسٹیز میں Brain Washing Propagandasسے اپنے ذہنوں اور اپنے آپ کو دور رکھیں۔ اور اپنے رب کے عطا کردہ ہدایت نامہ یعنی قران کا فہم حاصل کریں اور اْن پاکباز، اعلیٰ صفات کی حامل نیک خواتین کی سیرت کا مطالعہ کیجیے جن کو اللہ نے اس جہاں کی تمام عورتوں کی تربیت کے لیے چنا اور فضیلت عطا کی۔ شاید! اسی طرح ہم کسی قدر اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کو دجال کے فتنوں کا مقابلہ کرنے کے قابل بنا سکیں۔