(زمانہ گواہ ہے) یوم آزادی سپیشل - آصف حمید

11 /

اسلام سے محبت اور دشمنان اسلام سے نفرت ہمارے DNA

میں شامل ہے ،اسلام سے ہمارا تعلق جتنا مضبوط ہوگا اُتنا ہی

اس خطے کے مسلمان مضبوط ہوں گے: خورشید انجم

14 اگست کا پیغام یہ ہے کہ نظریۂ پاکستان کو دوبارہ زندہ

کیا جائے ، تحریک پاکستان کے شہداء سے وفا کی جائے

اور ملک میں اسلامی نظام کو نافذ کیا جائے :سراج الحق

یوم آزادی سپیشل

پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف تجزیہ نگاروں اور دانشوروں کا اظہار خیال

میز بان :آصف حمید

مرتب : محمد رفیق چودھری

سوال:پاکستان78 سالوں میں جن حالات سے گزرا ہے ،اس وجہ سے ہماری بہت سی اُمیدیں دم توڑ چکی ہیں ، آج دنیا کے جو حالات ہیں اس تناظر میں آپ پاکستان کو مستقبل میں کہاں کھڑا ہوا دیکھتے ہیں ؟
سراج الحق: اگرچہ منفی پہلو بیان کرنے والوں کی بھی کمی نہیں ہے لیکن ماضی کی نسبت پاکستان اب تیزی سے ترقی کررہا ہے ۔ ہمیں مثبت پہلوؤں کو مدنظر رکھنا چاہیے ۔ پاکستان ، افغانستان اور ایران پر مشتمل اس خطہ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے خصوصی عنایت حاصل ہے ۔ ان تینوں ممالک نے دنیا کی بڑی طاقتوں کو شکست دی ہے۔ افغانستان میں وہ نظام قائم ہے جو بذات خود دنیا اور آخرت میں کامیابی کی علامت ہے ۔ اگر آپ کے پاس قرآن و سنت ہے تو آپ کو دنیا کے اندھیروں سے نہیں ڈرنا چاہیے کیونکہ مشعل آپ کے ہاتھ میںہے ۔ گزشتہ صدی کے آغاز تک برطانیہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت تھا جس کی حدود میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا ۔ 1919ء میں ان کی فوج جب افغانستان میں داخل ہوئی تو سوائے ایک سرجن ڈاکٹر کے کوئی زندہ واپس نہیں لوٹ سکا ۔ گزشتہ صدی کے آخر میں روس کو بھی افغانستان میں شکست ہوئی ، پھر موجودہ صدی کے آغاز میںامریکہ اپنے 46 اتحادیوں  کے ساتھ افغانستان پر حملہ آور ہوا لیکن20 برس بعد شکست کھا کر بھاگنا پڑا۔ اب اگر امریکہ ، برطانیہ اور روس سپر طاقتیں ہیں تو ان کو شکست دینے والاپھر ان سے بھی بڑی طاقت ہے ۔ اللہ تعالیٰ ایک مچھر سے ہاتھی مروا سکتاہے ۔ اسی طرح حالیہ پاک بھارت معرکہ میں مغربی دنیا بھارت کی پشت پر تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو فتح عطا فرمائی۔ پھر اسرائیل کو زعم تھا کہ وہ امریکہ کے بغیر بھی ایران کو شکست دے سکتاہے لیکن 5دن بنکر میں چھپے رہنے کے بعدچھٹے دن نتین یاہو امریکہ کے پاؤں پڑ گیا کہ جنگ رکواؤ ۔ لہٰذا ہم سمجھتے ہیں کہ اگر افغانستان ، پاکستان اور ایران مل کر ایک اتحاد بنائیں تو انہیں نہ امریکہ کی مدد کی ضرورت پڑے گی ، نہ چین کی اور نہ برطانیہ کی ۔ اس لیے ہم امید کر سکتے ہیں کہ اس پورے خطے کا مستقبل روشن ہے ۔ 
سوال:  آخر ایسی کیا وجہ ہے کہ پاکستان دنیا کی آنکھوں  میں کھٹکتا ہے؟
خورشید انجم: باقی تمام مسلم ممالک یا تو لسانی بنیادوں پر بنے ہیں یا جغرافیائی یا نسلی بنیادوں پرلیکن   پاکستان واحد مسلم ملک ہے جو اسلام کی بنیاد پر بنا ہے۔ لہٰذا پاکستان کی بنیادوں میں اسلام شامل ہے ۔ اسرائیل کے بارے میں کہا جاتاہے کہ وہ ایک نظریاتی ملک ہے لیکن حقیقت میں وہ بھی نسلی بنیادوں پر بنا ہے اور اب تو اسرائیل کے آئین میں بھی اُسے نسلی ریاست ڈکلیئر کر دیا گیا ہے ۔ صرف پاکستان ہی ایک نظریاتی ملک ہے ۔  تحریک پاکستان کا مقبول ترین نعرہ ’’پاکستان کا مطلب کیا : لاالٰہ الا اللہ ‘‘تھا ۔ بقول اقبال ؎
اپنی ملت پہ قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
 خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمیؐ
ہندو اور انگریز کی شدید مخالفت کے باوجود یہ ملک بن گیا ۔ 
ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کا قیام اللہ تعالیٰ کے منصوبوں  میں سے ایک منصوبہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ رمضان کی 27 ویں شب کو یہ معرض وجود میں آیا ۔1949ء میں قرارداد مقاصد بھی منظور ہوگئی، اس کے بعدقانونی لحاظ سے بھی پاکستان ایک اسلامی ملک بن گیا ۔قانون میں یہ شق شامل کر دی گئی کہ یہاں قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنے گا ۔ پھر تمام مکاتب فکر کے 31 جید علماء نے  22 نکات بھی پیش کردیئے جن کےمطابق تمام مکاتب فکر پاکستان میں نفاذ اسلام کے فارمولے پر متفق ہوگئے ۔ 1974ء میں قادیانیوں کوغیر مسلم قرار دے کر اسلام کے دفاع کا اعزاز بھی پاکستان کو حاصل ہوا ۔  پھر ہماری تمام تر کوتاہیوں اور کمزوریوں کے باوجود اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو ایٹمی قوت بھی بنا دیا ۔ اسی طرح پاکستان کے عوام میں اللہ کے دین اور اللہ کے رسول ﷺ سے محبت کا جذبہ بھی بھرا ہوا ہے ۔ یہ ساری وہ چیزیں ہیں جو یہ ظاہر کرتی ہیں کہ پاکستان اللہ تعالیٰ کا منصوبہ ہے اور اس سے اللہ نے کچھ کام لینا ہے ۔ واللہ اعلم !
سوال: آپ 10 سال تک جماعت اسلامی کے امیر رہے ،پورے پاکستان میں جلسے ، اجتماع اور تقاریر کیں،  آپ کیا سمجھتے ہیں پاکستانی عوام کا جذبہ اور دین سے تعلق کس لیول پر ہے ؟
سراج الحق:پاکستان کے عوام بہت مظلوم ہیں۔ اس لیے کہ مذہبی لیڈر، علمائے کرام، مشائخ عظام اس مظلوم قوم کوتقسیم در تقسیم کر رہے ہیں ۔ جب کوئی مسلمان مسجد میں جاتاہے تو اُس کو اُمتی نہیں بنایا جاتا بلکہ شیعہ ، اہل حدیث ، دیوبندی یا بریلوی بنانے کی کوشش کی جاتی ہے ، بلکہ مسجد کے ماتھے پرلکھا ہوتا ہے کہ کون داخل ہو سکتاہے ، کون نہیں۔ ایک طرف اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ:
{اِنَّ ہٰذِہٖٓ اُمَّتُکُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً ز} (الابنیاء:92) ’’یقیناً یہ تمہاری اُمّت ‘ ایک ہی اُمّت ہے‘‘
جبکہ دوسری طرف مذہبی لیڈر عوام کو اُمت بنانے کی بجائے فرقوں میں بانٹ رہے ہیں ، سیاسی لیڈرز عوام کویہ سبق پڑھاتے ہیں کہ آپ پاکستانی نہیں ہو بلکہ پنجابی ،  پشتون ، سندھی ، بلوچی ، سرائیکی وغیرہ ہو ۔ اب اگر سیاسی لیڈر اور مذہبی پیشوا ایک ہی پیج پر ہوں کہ امت کو تقسیم کرنا ہے، اسی طرح کوئی زبان کے نام پر ، کوئی نسل کے نام پر ، کوئی علاقہ کے نام پر عوام کو تقسیم کرے گا تو پھر ہم ایک اُمت اور ایک قوم کیسے بن پائیں گے ؟ یہی تو اسلام دشمن طاقتوں کا ایجنڈا تھا کہ مسلمانوںکو تقسیم در تقسیم کرتے چلے جاؤ اور اسی تقسیم نے خلافت سے اُمت کو محروم کردیا ۔ دوسری بنیادی چیز تعلیم ہے جو عوام کو ایک قوم بناتی ہے ۔ لیکن لارڈ میکالے کے نظام تعلیم نے ہمیں طبقات میں تقسیم کردیا ۔ غریب کا بچہ مختلف سکول میں جاتا ہےا ور مختلف نصاب پڑھتا ہے جبکہ امیروں کے بچوں کے لیے مختلف سکول اور نصاب ہیں ۔ اسی طرح دینی تعلیم کے لیے بھی ہر فرقے نے اپنے اپنے مدارس کھولے ہوئے ہیں ۔ سیاسی لحاظ سے بھی پاکستانی عوام مظلوم ہیں کیونکہ ان کی اکثریت اگر مزدور ہے تو اسمبلی میں اس کی نمائندگی کوئی’’سرمایہ دار‘‘ کر رہا ہے ، اگر اکثریت کسان اور کاشتکار  ہے تو اس کی نمائندگی ’’جاگیردار‘‘کر رہا ہے ، اکثریت اگر مظلوم ہے تو اس کی نمائندگی کوئی’’ظالم‘‘کر رہا ہے ۔ گویا فیصلے کی جگہ پر بھی عوام کی نمائندگی نہیں ہے ۔ صرف دو فیصد اشرافیہ جس کے بارے میں ورلڈ بینک کی رپورٹ ہے کہ یہ ہر سال غریب پاکستانیوں کے 18 بلین ڈالر ہضم کر جاتے ہیں، پورے نظام اور وسائل پر قابض ہے ۔ اس سارے ظلم کے باوجود بھی قوم پر بُرے دن آتے ہیں تو مظلوم عوام قربانی دیتے ہیں ، فلسطین یا کشمیر کے حوالے سے آواز اُٹھانی ہو،چندہ دینا ہو ، مظاہرے اور احتجاج کرنے ہوں تو یہی مظلوم طبقہ آگے آتاہے ۔ جبکہ اشرافیہ کا کام قوم کو صرف تقسیم کرنا ہے اور وسائل کا ناجائز استعمال کرنا ہے۔ پنجاب کا گورنر ہاؤس 700 کنال اراضی پر مشتمل ہے۔ آپ کا گورنر وائٹ ہاؤس سے بڑے گھر میں رہتاہے۔ یہاں تک کہ سرگودھا میں آپ کا کمشنر ہاؤس 104کنال اراضی پر مشتمل ہے ۔ مری میں گورنر ہاؤس 19ایکڑ، بلوچستان میں 22 ایکڑ ، سندھ میں 32 ایکڑ پر مشتمل ہے ۔ اتنے بڑے گورنر ہاؤس میں ہزاروں نوکر بھی رہتے ہیں اور گورنروں کی عیاشیوں سمیت تمام تر اخراجات غریب عوام اپنی جیب سے بھرتے ہیں ۔ اس کے باوجود بھی اللہ کا کوئی معجزہ ہے کہ پاکستانی عوام زندہ ہیں۔ میرے نزدیک پاکستان کا قیام بھی معجزہ ہے اور اس کا قائم رہنا بھی اللہ کا معجزہ ہے ۔ ورنہ ہمارے حکمرانوں ، اسٹیبلشمنٹ ، سیاستدانوں ، بیوروکریسی اور دیگر اشرافیہ کے اعمال تو ایسے ہیں کہ پاکستان زیادہ دیر قائم نہ رہ سکے۔ اگر جنگ لگ جائے تو  ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ 10 گھنٹے بھی مقابلہ کر سکیں لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ پاکستان کو دشمنوں پر فتح بھی دے رہا ہے ۔ ایئر چیف نے بھی یہی بات کہی کہ یہ سب کچھ اللہ کر کے دکھاتا ہے کہ میں تمہاری پشت پر ہوں ۔ اس لیے کہ اللہ نے کسی مقصد کے تحت پاکستان کو بنایا ہے ۔ 
سوال: پاکستانی اشرافیہ ، حکمرانوں اور مذہبی اور سیاسی لیڈروں نے عوام کو تقسیم کرنے کی پوری کوشش کی ہے مگر اس کے باوجود پاکستانی عوام خدمت خلق کے حوالے سے دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے ، اس کی کیا وجہ ہے ؟
خورشید انجم: پاکستان کے عوام میں فطری طور پر  اسلام اور وطن سے محبت پائی جاتی ہے۔اس کی وجہ یہی ہے کہ یہاں پر ہی مجدد الف ثانی  ؒ کی احیائی تحریک چلی، انگریزی نظام کے خلاف جنگ آزادی بھی لڑی گئی ، مزاحمتی تحریکیں بھی چلیں، چاندنی چوک سے لے کر پشاور تک کوئی ایسا مقام نہیں تھا جہاں ہمارے علماء کی لاشیں  درختوں سے نہیں لٹکائی گئی تھیں ،تحریک شہیدینؒ ، تحریک ریشمی رومال اور تحریک خلافت بھی یہاں چلی ہیں ،  علامہ اقبال جیسی شخصیات نے یہاں جنم لیا ہے جن کے افکار سے ایرانی انقلاب کا بھی بڑا تعلق ہے ۔ کسی بھی ملک کی آزادی کے لیے وہ نعرے نہیں لگے جو تحریک پاکستان کے نعرے تھے جیسے ’’پاکستان کا مطلب کیا : لاالٰہ الا اللہ ۔‘‘  پھر ہجرت کے دوران بھی عوام نے بے مثال قربانیاں دی ہیں ،پھر مولانا ابوالکلام آزادؒ ، مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒاور ڈاکٹر اسراراحمدؒ جیسی شخصیات یہاں پیدا ہوئیں ، یہ سب چیزیں ظاہر کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس خطے سے کچھ کام لینا چاہتا ہے۔احادیث میں غزوۂ ہند کا بھی ذکر ہے ، پھر یہ بھی ذکر ہے کہ خراسان سے اسلامی لشکر جائیں گے اور امام مہدی اور حضرت عیسیٰd کے ساتھ مل کر دجال کے لشکر کے خلاف لڑیں گے ۔ گویا اسلام سے محبت ہمارے ڈی این اے میں شامل ہے ۔ اسلام سے ہمارا تعلق جتنا مضبوط ہوگا اُتنا ہی اس خطہ کے مسلمان مضبوط ہوں گے۔ ان شاء اللہ 
سوال:  اسلام سے محبت اس خطہ کے مسلمانوں میں موجود ہے لیکن تقسیم در تقسیم کی وجہ سے یہ جذبہ ٹھیک جگہ پر استعمال نہیں ہورہا ، کس طرح اس تقسیم کو ختم کرکے اس جذبے کو صحیح راہ دکھائی جا سکتی ہے کہ ہم دوبارہ ایک اُمت اور بامقصد قوم بن جائیں ؟
سراج الحق: پاکستان فوجوں اور ٹینکوں کی لڑائی کے نتیجے میں وجود میں نہیں آیا بلکہ مسلمانوں کی منظم تحریک کے نتیجے میںقائم ہوا ہے ۔ آج بھی اس ملک کو آگے لے کر جانے کے لیے وہی جذبہ اور اتحاد درکار ہے اور وہ جذبہ لاالٰہ الا اللہ کی وجہ سے تھا ۔ صرف اسی خاطر ہم ہندوستان سے الگ ہوئے ، اپنے گھر بار اور کاروبار چھوڑے ۔   آج بھی اگر ہم ناقابل تسخیر بن سکتے ہیں تو سونا چاندی کی وجہ سے نہیں ، وہ تو عربوں کے پاس بھی ہے، ان کے باتھ روم بھی سونے اور چاندی کے ، جہاز بھی سونے اور چاندی کے ہیں ، لیکن کفار پر کوئی رعب نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ آج بھی مسلمانوں کے لیے دنیا میںآ گے بڑھنے کے لیے یہی راستہ ہے کہ وہ اسلام سے جُڑ جائیں۔ آج بھی اگر پاکستانی حکومت نفاذ اسلام کی طرف بڑھے تو پاکستانی عوام ایک وقت کاکھانا کھانے کو بھی تیار ہوں گے لیکن حکومت کا ساتھ دیں گے ۔ جس طرح 1947ء سے پہلے لاالٰہ الا اللہ کے نعرے نے شیعہ ، سنی ، وہابی ، بریلوی کی تقسیم ختم کرکے ہمیں ایک قوم بنایا تھا اسی طرح اس کلمہ کے نفاذ سے آج بھی ہم ایک متحد و منظم قوم بن سکتے ہیں ۔ 
سوال: اس حوالے سے عوام میں شعور کیسےپیدا کیا جائےکہ اسلام سے تعلق ہی ہمارے دوبارہ عروج کی وجہ بن سکتاہے ؟
خورشید انجم:عوام نے تو تحریک پاکستان کا ساتھ بھی اسی وجہ سے دیا تھا کہ پاکستان قائم ہوگا تو یہاں دین کا نفاذ ہوگا ، حریت ، اخوت اور مساوات کا نظام ہوگا ، قائداعظم اور علامہ اقبال کے بیانات میں بار بار یہی نظریہ اور ہدف دہرایا گیا ۔ قائداعظم سے پوچھا گیا کہ پاکستان کا آئین کیا ہوگا ؟ فرمایا ہمارا آئین آج سے 13 سو سال پہلے طے ہو چکا ہے ۔ اسی مقصد کے لیے عوام نے اتنی قربانیاں دیں لیکن بعد میں ہماری سول اور فوجی حکومتوں  نے عوام کوان کی اصل منزل سے دور کردیا جس کی وجہ سے عوام میں مایوسی اور اضطراب ہے ۔اگر حکمران اشرافیہ اصل مقصد کو بھول کر عیاشیوں اور وسائل پر قبضے میں مصروف ہوگی تو عوام بھی سوچیں گے کہ ہمارا کیا قصور ہے ۔ اسی طرح دینی جماعتیں بھی اپنے اپنے مسلک کی فکر میں ہیں ۔ ایک دوسرے کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے ۔اس تقسیم و تفریق اور مایوسی کو ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم دوبارہ اپنے اجتماعی اور مشترک مقصد کی طرف آئیں، آئین میں شامل غیر شرعی شقوں اور چور دروازوں کو ختم کریں ، سودی نظام کو ختم کیا جائے اور عوام کو ان کے حقوق دیے جائیں ۔ 
سوال: اس ملک میں دیانت دار ، اہل اور خوددار قیادت کو اوپر نہیں آنے دیا جاتا۔جو نظام چل رہا ہے ، صرف اسی کو دھکا دینے والے لوگ مطلوب ہوتے ہیں ، کیا آپ میری اس بات سے اتفاق کریں گے؟
سراج الحق:جنگ عظیم کے بعد برطانیہ ، فرانس ، اٹلی وغیرہ کی افواج اسلامی علاقوں سے نکل گئیں لیکن اپنے پیچھےاپنے نمائندے چھوڑ گئیں، کہیں شیوخ کی صورت میں، کہیں جرنیلوں کی صورت میں، کہیں سیاستدانوں کی صورت میں ۔ بنیادی تھیوری یہی ہے کہ ہم پر آج بھی وہی قوتیں بالواسطہ طور پر حکمران رہیں۔ یہ انگریز کا بہت کامیاب تجربہ تھا کہ ہر ملک میں اپنے لوگوں کو مسلط کرو، ان کے ذریعے اپنے ورلڈ آرڈر کو نافذ کرو۔ پاکستان کے حوالے سے بھی انگریز کی یہی کوشش ہے کہ یہاں کوئی ایسی قیادت نہ آجائے جومغربی نظام کی بجائے ، اسلامی نظام کی بات کرے یا تقسیم در تقسیم کی بجائے وحدت اُمت کی علمبردار ہو ۔ استعمار کی اس کوشش کے پیچھے ، ان کے منصوبے ہیں ، ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف ہے ، تھنک ٹینک اور عالمی میڈیا ہے ، ملٹی نیشنل کمپنیاں اور تعلیمی ادارے ہیں، اس وجہ سے وہ کامیاب ہیں ۔ آج بھی وہ ہماری اشرافیہ کے بچوں کو مغرب میں تعلیم دلوا رہے ہیں اور ان کو تیار کرکے دوبارہ ہم پر مسلط کر دیتے ہیں اور وہ مسلم ممالک میں آکر مغرب کا ہی ایجنڈا نافذ کرتے ہیں ، متحدہ عرب امارات میں مندر بنوائیں گے ، اس کا افتتاع مودی سے کروائیں گے ،  غیر شرعی قانون سازیاں کروائیں گے، سوداور کفر کا نظام لائیں گے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو حکم دیا تھا : 
{اِنَّ اللہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُــؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَہْلِہَالا}(النساء:58) ’’اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو۔‘‘ 
جب مغرب سے ذہن سازی کرکے لوگ ہم پر مسلط کیے جائیں گے تو وہ اُمت کی خواہشات اور توقعات پر کیوںکر پورا اُتریں گے اور کیوں اُمت کا بھلا چاہیں گے ۔ تبدیلی کے لیے ضروری ہے کہ عوام صحیح لوگوں کا انتخاب کریں ۔ 
سوال:عوام میں شعور کو بیدار کرنے کے لیے کونسے ذرائع استعمال کیے جا سکتے ہیں ، کیا دروس قرآن کے ذریعے یہ مقاصد حاصل کیے جا سکتے ہیں ؟
خورشید انجم:قرآن مجید کتابِ انقلاب ہے ، یہی وہ کتاب ہے جس نے عرب کے صحرا نشینوں کو وہ شعور دیا کہ وہ دنیا کے حکمران اور امام بن گئے ۔ قرآن سے شعور حاصل کرکے اس اُمت نے عروج حاصل کیا اور قرآن سے دوری کی وجہ سے ہی اُمت زوال کا شکار ہوئی ۔ شیخ الہندؒنے فرمایا : میں نے مالٹا میں اسیری کے دوران اُمت کے زوال پر جتنا غوروفکر کیا ، میرے سامنے دو بنیادی اسباب آئے ، ایک تفرقہ اور دوسرا قرآن سے دور ی ۔ میں نے فیصلہ کیا کہ اگر اللہ نے مجھے رہائی دلوائی تو میں عوامی دروس قرآن کا سلسلہ شروع کروں گا ۔ قرآن میں اللہ فرماتاہے :
{وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللہِ }(آل عمران:103)
’’اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھام لو ۔‘‘ 
قرآن اللہ کی رسی ہے ۔ جب مسلمان اس رسی کو تھام لیں گے تو فرقہ پرستی بھی ختم ہو جائے گی ، قرآن کی تعلیم کے اثرات بھی ظاہر ہوں گے اور اُمت اپنے اصل ہدف اور مشن کی طرف واپس آئے گی اور دوبارہ عروج حاصل کرے گی ۔ 
سوال: آخری زمانے کے حوالے سے احادیث میں بشارت ہے کہ کل روئے ارضی پر اسلام غالب ہوگا ۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ حضور ﷺنے فرمایا کہ مجھے مشرق سے ٹھنڈی ہوا آتی ہوئی محسوس ہوتی ہے ۔ پھر خراسان کے حوالے سے احادیث ہیں کہ اسلامی لشکر یہاں سے نکلیں گے اور دجال کے خلاف لڑیں گے ۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اس خطہ میں دینی اور تحریکی سرگرمیاں ہمیں نظر آتی ہیں ، جبکہ باقی پورا عالم اسلام خاموش ہے، مستقبل کے اس منظر نامے میں  پاکستان کا کیا کردار ہو سکتاہے ؟
سراج الحق:اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو پاکستان ایک نظریہ کا نام ہے ، جغرافیہ کا نہیں ۔ وہ نظریہ یہی ہے کہ اللہ کے دین کا غلبہ ہو ، خلافت کا نظام ہو ۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ مولانا ابوالکلام آزاد ؒ، مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ ، ڈاکٹر اسراراحمدؒ نے غلبہ دیں کی جدوجہد کی تحریکیں  یہاں سے شروع کیں ۔ اقبال نے فرمایا ؎ 
کھول آنکھ زمین دیکھ فلک دیکھ فضا دیکھ
مشرق سے اُبھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ
یہ نظام کا سورج ہے جو مشرق سے طلوع ہورہا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس خطے کو ان معدنی ذخائر سے نواز ہے جو مستقبل میں دنیا کی ضرورت ہیں ۔ افغان وزیر خارجہ سے گزشتہ دنوں اسلام آباد میں ملاقات ہوئی، انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس اتنے معدنی وسائل ہیں کہ اگر پوری دنیا بھی افغانستان کو تسلیم نہ کرے تو ہمیں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ حالیہ دنوں میں ٹرمپ نے پاکستان کے معدنی وسائل کا بھی ذکر کیا ہے ۔ سب سے اہم یہ کہ اس خطے میں     جذبۂ جہاد اور جذبۂ حریت بھی ہے ۔ عرب ممالک میں تو آپ کھل کر فلسطین کے لیے دعا بھی نہیں کر سکتے ۔ وہاں امریکی اڈے موجود ہیں اورحکمران ان کے تابع ہیں ۔ لہٰذا اس خطے پر اللہ تعالیٰ کی خصوصی نظر ہے ۔ یہیں سے وہ لشکر نکلے گا جو یروشلم میں جاکر جھنڈے گاڑے گا اور اللہ تعالیٰ اس کو فتح عطا کرے گا ۔ یہ اللہ کا منصوبہ ہے ، ہم نے یہ کرنا ہے کہ اس لشکر کا اہل بننے کے لیے خود کو اللہ کے دین سے جوڑنا ہے ۔ 
سوال:14 اگست کو پاکستانی قوم جشن آزادی مناتی ہے، اس موقع پر آپ قوم کو کیا پیغام دیں گے ؟
سراج الحق: 14 اگست کا پیغام یہ ہے کہ نظریۂ پاکستان کو دوبارہ زندہ کیا جائے ، تحریک پاکستان کے شہداء سے وفا کی جائے اور ملک میں اسلامی نظام کو نافذ کیا جائے ۔
خورشید انجم: اقبال نے جیسے کہا تھا کہ  ع
اپنی خودی پہچان او غافل افغان
اسی طرح ہم کہتے ہیں کہ اہل پاکستان اپنی خودی کو پہچانیں کہ اللہ نے ان کو یہ وطن کس مقصد کے لیے عطا کیا تھا ؟جس طرح اس اُمت کو اللہ نے چنا ہے :{ہُوَ اجْتَبٰـىکُمْ} (الحج:78) ’’اُس نے تمہیں چُن لیا ہے۔‘‘
اسی طرح اہل پاکستان کو بھی اللہ نے اس کام کے لیے چنا ہے کہ وہ یہاں اللہ کے دین کو غالب و نافذکریں ۔ لہٰذا پاکستان ایک چنیدہ ملک ہے ، اس کی قدر کریں اور جس مقصد کے لیے چنا گیا ہے اس مقصد کے ساتھ خود کو جوڑنے کی کوشش کریں ۔ ظاہر ہے کہ سب سے پہلے تو میری ذات ہی ہے، خود کو اسلام کے سانچے میں ڈھالیں اور اس کے بعد اجتماعی سطح پر اسلام کے غلبہ کی جدوجہد میں حصہ لیں ۔ اُسوئہ رسول ﷺ میں ہمارے لیے سب سے بڑا درس یہی ہے ۔ اس اُسوہ کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالیں گے تو دنیا و آخرت میں کامیاب ہوں گے ۔ ان شاء اللہ !