اسلام ہی واحد ایسی قوت ہے جس نے ہمیں ایک قوم
بنایا تھا اور اسلام ہی ہمیں دوبارہ متحد کر سکتاہے،
قرآن کو تھام لینے اور اقامت ِدین کی جدوجہد سے
ہی فرقہ واریت کا خاتمہ ممکن ہے،
شیعہ سنی اتحادتب ہی ممکن ہو سکے گاجب دونوں
مسالک کے لوگ مشترکا ت پر اکٹھے ہوں گے،
متفقہ ترجمہ قرآن بین المسالک ہم آہنگی کے لیے
کسی سنگ میل سے کم نہیں،
پہلے ہی ہم نے امریکہ کا ساتھ دے کر اپنا ناقابل تلافی نقصان
کر لیا ہے ، اگر مزید ساتھ دیا تو بالکل تباہ ہو جائیں گے۔
خصوصی پروگرام’’ امیر سے ملاقات‘‘ میں
امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ کے رفقائے تنظیم و احباب کے سوالوں کے جوابات
میزبان :آصف حمید
مرتب : محمد رفیق چودھری
سوال: تنظیم اسلامی کے تحت یکم تا 22 اگست جو مہم جاری ہے ، اس کا عنوان’’ اتحادِ اُمت اور پاکستان کی سالمیت‘‘ رکھا گیا ہے ۔کیا یہ دو الگ اہداف ہیں یا اِ ن میں کوئی لنک ہے ؟
امیر تنظیم اسلامی: تنظیم اسلامی کے زیر اہتمام سال بھر میں مختلف مہمات اور دعوتی پروگرامز ہوتے ہیں ۔جیسا کہ رمضان المبارک میں دورئہ ترجمہ قرآن کا اہتمام ہوتاہے ، ہفتہ وار بنیادوں پر دروس قرآن ہوتے ہیں ، سہ ماہی بنیادوں پر آگاہی منکرات مہم کا اہتمام ہوتاہے جس میں تنظیم کے رفقاء باہر نکل کر عوام کو کسی بڑے منکر کے خلاف آگاہی دیتے ہیں ، برائی کے خلا ف آواز بلند کرتے ہیں ، سوشل میڈیا، الیکٹرانک و پر نٹ میڈیا کے ذریعے سے دعوت کا عمل جاری رہتاہے۔ تاہم گزشتہ چند سالوں سے تنظیم اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ میں مشورے سے یہ طے کیا گیا کہ سال بھر میں ہمیں ایک ملک گیر مہم کا بھی اہتمام کرنا چاہیے جس میں چند بڑے مقاصد کو ہدف بنایا جائے، رفقائے تنظیم کو بھی باہر نکل کر مشق کرنے کا موقع ملے، عوام میں بھی کسی بڑے مقصد سے آگاہی حاصل ہو اور حکمرانوں اور مقتدر لوگوں تک بھی آواز پہنچے ۔ حالیہ مہم کا عنوان’’ اتحادِ اُمت اور پاکستان کی سالمیت‘‘ رکھا گیا ہے ۔ بظاہر یہ دو الگ الگ عنوانات ہیں لیکن حقیقت میں ان کا آپس میں گہرا تعلق ہے ۔ مثال کے طور پر جب ہم اُمت کی بات کرتے ہیں تو اُمت میں پاکستان شامل ہے اور عالم کفر الکفر ملۃ الواحدہ کی مانند متحد ہو کرجس طرح ہر مسلم ملک کے خلاف منصوبے بنا رہاہے ، اسی طرح وہ پاکستان کو بھی تباہ کر نا چاہتاہے۔ فلسطین ، کشمیر ، میانمار ، لبنان ، شام ، عراق ، ایران ہر جگہ مسلمانوں پر حملے ہورہے ہیں ، ظلم ہو رہا ہے ۔ اِس صورتحا ل میں جہاں اُمت کو متحد ہونے کی ضرورت ہے ، مظلوم مسلمانوں کا درد محسوس کرنے کی ضرورت ہے، اللہ کے نبی ﷺ کے مشن اور قرآن کو اپنانے کی ضرورت ہے ، وہاں پاکستان کی سالمیت بھی اتنی ہی ضروری ہے کیونکہ امریکہ ، اسرائیل اور بھارت کا شیطانی اتحاد پاکستان کو چاروں طرف سے گھیرنا چاہتا ہے۔
پاکستان واحد مسلم ملک ہے جو اسلام کے نام پر بنا ہے ، اس کی بنیاد ایک نظریہ پر رکھی گئی ، ایٹمی صلاحیت اور بہترین میزائل ٹیکنالوجی کا حامل ملک ہے ۔ لہٰذا اُمت کے دشمن یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان ان کے گریٹر اسرائیل جیسے عالمی منصوبوں میں بڑی رکاوٹ ہے اور اس سے آگے بڑھ کرمستقبل میں اُمت مسلمہ کے لیے لیڈنگ رول ادا کر سکتا ہے ۔ اس وجہ سے پاکستان کو بیرونی خطرات بھی ہیں اور ان بیرونی سازشوں کےساتھ ساتھ پاکستان کو اندر سے بھی کھوکھلا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ اس مقصد کے لیے پاکستان میں دہشت گردی ، انتشار اور نسلی ، لسانی اور علاقائی تعصبات کوپھیلایا جارہا ہے ۔ اگر اپنے گھر کو آگ لگی ہوتو باہر کی آگ کو بجھانے کی فکر کہاں سے آئے گی ؟ اس لیے ضروری ہے کہ پاکستان اندر سے مضبوط اور مستحکم ہو گا تو اُمت کے لیے بھی قائدانہ کردار ادا کر سکے گا ۔ اگرچہ ہونا تو یہ چاہیے کہ ہم 27 رمضان کو یوم آزادی منائیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ ملک 27 رمضان کی بابرکت ساعتوں میں عطا کیا تھا ۔ ہم 27 رمضان کو بھی اکثر اس موضوع پر کلام کرتے ہیں ۔ تاہم 14 اگست کو پاکستانی قوم میں یوم آزادی منانے کا رواج ہے لہٰذا اسی ماہ میں تنظیم اسلامی ’’اتحاد اُمت اور پاکستان کی سالمیت‘‘ کے عنوان سے مہم چلا کر پاکستانی قوم کو ایک جامع پیغام دینے کی کوشش کر رہی ہے کہ جس عظیم نظریہ اور مقصد کی خاطر یہ ملک حاصل کیا گیا ہے اس مقصد کو مدنظر رکھا جائے اور اس نظریہ کو نافذ کیا جائے تاکہ ملک کی سالمیت برقرار رہے کیونکہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ملک بنا بھی اسلام کے نام پرتھا اور اس کی بقاء اور استحکام بھی نفاذ اسلام پر منحصر ہے ۔
سوال: خلافت راشدہ کے دور سے ہی اُمت میں تقسیم کا عمل شروع ہوا اور وہ تقسیم آج تک جا ری ہے۔ اس میں اغیار نے کتنا کردار ادا کیااور اپنوں کا کتنا کردار رہا ؟ اگر یہ تقسیم نہ ہوتی تو آج اُمت مسلمہ کے مقابلے میں کوئی کھڑا نہیں ہو سکتا تھا۔ آج اتحاد اور اتفاق کے درس تو بہت ہوتے ہیں لیکن لوگ سنجیدگی سے اتحاد کے لیے کوشش نہیں کر رہے ۔ کیا وجہ ہے ؟
امیر تنظیم اسلامی:آپ نے درست فرمایا ۔ حضرت عثمان کے دور سے یہ تقسیم شروع ہوئی اور اس کے نتیجہ میں بہت بڑی تعداد میں شہادتیں بھی ہوئیں اور اُمت کو بہت نقصان پہنچا ۔ اس میں بیرونی سازش بھی شامل تھی جیسا کہ سبائی فتنہ بھی ایک یہودی سازش تھی لیکن کچھ اندر کے آستین کے سانپ بھی اس سازش میں شامل تھے۔ تاہم اب ضرورت اِس بات کی ہے کہ ہم ماضی کا مرثیہ کہنے کی بجائے ماضی سے سبق سیکھیں ۔تنظیم اسلامی کے زیر اہتمام اس مہم کے دوران ہم اس بات کو بھی باور کرانے کی کوشش کررہے ہیں کہ جب تک خلافت کا نظام قائم تھا تو اُمت کے اندر ایک مرکزیت موجود تھی اور اس کے ہوتے ہوئے اُمت کے اندر اتحاد کی ایک اُمید بھی باقی تھی جس سے دشمن خوفزدہ تھے ۔ لہٰذا دشمنوں کی سازش اور اپنوں کی نادانیوں کی وجہ سے وہ خلافت اور مرکزیت ختم ہوگئی اور اس اُمت کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے ہر ٹکڑے کو نیشن سٹیٹ کا تصور دیا گیا ۔اسی دور میں جب مسلم دنیا میں نیشنل کے نعرے لگ رہے تھے ، سیکولر ازم کا ڈنکا بج رہا تھا اورکچھ مسلم ممالک تعصبات کا بھی شکار تھے تو ان اندھیروں میں روشنی کی ایک کرن بھی تھی ۔ یعنی ایک ملک ایسا بھی تھا جو اسلام کی بنیاد پر وجود میں آیا اور وہ پاکستان تھا ۔ اسلام ہی واحد ایسی طاقت ہے جس نے اس خطے کے لوگوں کو نسلی ، لسانی ، جغرافیائی تفاوت کے باوجود متحد کرکے ایک قوم بنادیاتھا ۔ اب بھی اسلام ہی دوبارہ ہمیں متحد کر سکتاہے ۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے :
{وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْاص} (آل عمران:103)’’اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھام لو مل جل کر اور تفرقے میں نہ پڑو۔‘‘
اگر واقعتاً قرآن کو تھاما جائے تو یہ تفرقہ ختم کرتا ہےلیکن مسئلہ یہ ہے کہ آج ہم نے قرآن کو چھوڑ دیا ہے ۔ صرف پانچ فیصد آبادی پنج وقتہ نماز ادا کرتی ہے ۔ ان پانچ فیصد میں سے بھی اکثریت کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ نماز میں جو قرآن پڑھا جارہا ہے اس کا مفہوم اور تقاضا کیا ہے ۔ گویا دین ہماری ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے ۔ ہماری عظیم اکثریت کو معلوم ہی نہیں کہ قرآن پاک میں کیا لکھا ہے۔ ہماری ایک فیصد آبادی بھی نہیں ہےجس نے آج تک قرآن کو اپنی زبان میں ایک مرتبہ ترجمے کے ساتھ پڑھا ہو۔ لہٰذا جب قرآن کو ہم نے تھاما ہی نہیںہے تو تفرقہ اسی وجہ سے پیدا ہورہا ہے ۔ قرآن فرقے اور مسلک سے بالاتر ہو کر اسلام کی ا نقلابی فکر کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے اور عالمی سطح کے منظر کو انسان کے سامنے رکھتا ہے ۔ پھر بندے کو حق کے راستے پر کھڑا کرتاہے ۔ سورۃ الشوریٰ میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے :
تمہارے لیے وہی دین مقرر کیا جس کا نوح کو حکم دیا تھا اور اسی راستہ کی ہم نے آپ کی طرف وحی کی ہے اور اسی کا ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ fکو حکم دیا تھا، کہ اسی دین پر قائم رہو اور اس میں پھوٹ نہ ڈالنا، جس چیز کی طرف آپ مشرکوں کو بلاتے ہیں وہ اُن پر گراں گزرتی ہے، اللہ جسے چاہے اپنی طرف کھینچ لیتا ہے اور جو اس کی طرف رجوع کرتا ہے اسے راہ دکھاتا ہے۔(الشوریٰ :13)
معلوم ہوا کہ دین کے قیام کے لیے محنت ہوگی تو تفرقہ بھی ختم ہوگا کیونکہ بڑے مقصد کے لیے چھوٹے مفادات کو پس پشت ڈالنا پڑتاہے ۔ انہی بنیادی باتوں کی دعوت تنظیم اسلامی دیتی ہے ۔ اسی وجہ سے ڈاکٹر اسراراحمدؒ نے ایک طرف لوگوں کو قرآن کے ساتھ جوڑنے کی تحریک شروع کی اورقرآن اکیڈمیز اورانجمن خدام القرآن کے نام سے ادارے قائم کیے اور عوامی سطح پر دروسِ قرآن کا سلسلہ شروع کیا اور دوسری جانب تنظیم اسلامی قائم کی تاکہ ایک مشترکہ پلیٹ فارم سے دین کے قیام کی جدوجہد شروع کی جا سکے ۔ اس مہم کےد وران ہم ان باتوں کو بھی اُجاگر کرنے کی کوشش کریں گے ۔ تنظیم اسلامی کا تعارف بھی پیش کرنے کی کوشش کریں گےکہ یہ کوئی مسلک کی بنیاد پر جماعت نہیں ہےبلکہ اس سے بالا ترہو کر دین کے نفاذ کی جدوجہد کرنا اس کا ہدف ہے ۔ اس ہدف کو حاصل کرنے کی صورت میں ہی مملکت خدادادپاکستان کی سالمیت بھی ہے اور اسی راستے سے اللہ کی مدد بھی آئے گی ۔
{اِنْ تَنْصُرُوا اللہَ یَنْصُرْکُمْ }(سورۃ محمد:7) ’’ اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا۔‘‘
لہٰذا اتحادِ اُمت اور پاکستان کی سالمیت، یہ دونوں موضوعات جڑے ہوئے ہیں اور تنظیم اسلامی اسی پہلو سے مستقل اپنی دعوت پیش کررہی ہے ۔
سوال: آپ نے تمام مسالک کے متفقہ ترجمہ قرآن کی بات کی ۔ اب تک تقریباً ڈیڑھ کروڑ طلبہ و طالبات اس ترجمہ کو تعلیمی اداروں میں پڑھ رہے ہیںجو کہ اُمت کے اتحاد کی جانب ایک اہم پیش رفت ہے ۔ لیکن اس کے باوجود بعض لوگ اس کی مخالفت کیوں کر رہے ہیں ؟
امیر تنظیم اسلامی:یہ متفقہ ترجمہ قرآن علم فاؤنڈیشن کے تحت 2010ء سے شروع کیا گیا ، 2017ء میں وفاقی حکومت نے تمام مسالک کےعلماء کی ایک مشترکہ کمیٹی بنائی جس نے 2020ء میں اس ترجمہ کو متفقہ قرار دیا اور اس کے بعد تعلیمی اداروں میں پڑھانا شروع کیا گیا ۔قیام پاکستان کے بعد تمام مسالک کے 31 علماء کے 22 نکات کے بعد یہ بہت بڑی کامیابی ہےکیونکہ تمام مسالک اس پر متفق ہو گئے تھے۔ ظاہر ہے کہ ترجمہ تعلیمی اداروں میں پڑھایا جائے تو اُمت میں اتحاد و اتفاق پیدا ہوگا ۔ اس اہم کامیابی کو بھی ہم تنظیم اسلامی کی حالیہ مہم میں اُجاگر کریں گے ۔ جہاں تک مخالفت کی بات ہے تو وہ اللہ کے رسولوںؑ کی بھی کی گئی ،ہم کس شمار میں آتے ہیں ۔ جب مسلمان حق کی راہ میں آگے بڑھیں گے تو ایسا ہو نہیں سکتا کہ کچھ مخالفتیں سامنے نہ آئیں ۔
سوال: شیعہ سنی تقسیم نے اُمت کو جتنا نقصان پہنچایا ہے اتنا کسی اور چیز نے نہیں پہنچایا ۔ اسی وجہ سے بعض عرب ممالک امریکہ کی غلامی میں چلے گئے ہیں اور اُمت کمزور ہو کر اپنی طاقت کھو چکی ہے ۔ لیکن اس کے باوجود دونوں طرف کے بعض لوگ نہیں چاہتے کہ شیعہ سنی اتحاد ہو ، اگر شیعہ اور سنی علماء اتحاد کی کوشش کریں تو دونوں طرف کے بعض لوگ اُن پر الزامات کی بارش شروع کردیتے ہیں ۔ آپ کے خیال میں ایسے لوگ کیوں نہیں سمجھ پارہے کہ اُمت کو اتحاد کی ضرورت ہے ؟
امیر تنظیم اسلامی: 100 فیصدلوگوں کا متفق ہو جانا ہر جگہ محال ہوتا ہے تاہم اُمت کے بڑے مقصد کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم فروعی مسائل کو اپنی علمی مجالس تک محدود رکھیں اور اُمت اور عوام کی سطح پر مشترکات کی بات کریں تو اتحاد ممکن ہو سکتاہے ۔ مثال کےطور پر اہل تشیع اور اہل سنت کے مابین بعض اختلافات 14 صدیوں سے چلے آئے ہیں ، وہ اپنی جگہ پر رہیں لیکن جہاں کفار کے ساتھ مقابلہ ہوتو تووہاں ہم اپنے مسلکی اور فروعی اختلافات کو ایک طرف رکھتے ہوئے متحد ہو جائیں کیونکہ اسلام پر سمجھوتہ کرنا توہر مسلک کے لیے ناقابل قبول ہے ۔ جب اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا تو اس وقت بھی ہم نے یہی بات کی تھی کہ اگرچہ ایران نے بعض کام ایسے کیے ہیں جن سے اُمت کو بہت نقصان پہنچا ہے لیکن چونکہ اس وقت ایران کا مقابلہ اسرائیل کے ساتھ ہے لہٰذا تمام مسلم ممالک کو ایران کی مدد کرنی چاہیے ۔ اگر ایسا نہیں کریں گے تو ایک ایک کرکے تمام مسلم ممالک کفار کے حملوں کا نشانہ بنتے چلے جائیں گے اور نقصان پوری اُمت کا ہوگا ۔ اس کے ساتھ ہم نے یہ بھی کہا تھا کہ ایران نے ماضی میں جو غلطیاں کی ہیں اسے اُن کا ازالہ کرنا چاہیے۔اسلامی نظریاتی کونسل میں دونوں مسالک کے علماء اسلام کے دفاع میں متحد ہو جائیں۔جیسے مبارک ثانی کیس میں عدالت نےاہل سنت کے اداروں سے بھی آراء مانگی تھیں ، شیعہ اداروں سے بھی مانگی تھی ۔ چونکہ مسئلہ ختم نبوت کا تھا لہٰذا دونوں نے اتفاق کیا ۔ اب اس اتفاق کا قطعاً یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم نے اہل تشیع کے تمام نظریات اور تصورات سے اتفاق کرلیا ۔ مثال کے طور پرائمہ کے معصوم ہونے کے حوالے سے اہل تشیع کے موقف کو اہل سنت تسلیم نہیں کرتے ۔ تاہم جہاں مشترکات کی بات آئے گی تو وہاں ہمیں متحد ہو جانا چاہیے ۔ اسی میں پوری اُمت کا فائدہ ہے ۔دہشت گردی کے عروج کے دور میں جب پاکستان میں پروکسیز وار چل رہی تھی اور فسادات میں بے گناہ لوگوں کا خون بہایا جارہا تھا تو اس وقت پاکستان کے علماء نے مل کر ملی یکجہتی کونسل بنائی تاکہ اس پراکسی وار کو روکنے کے لیے دونوں طرف کے علماء اپنا کردار ادا کریں ، ملک میں امن قائم ہو اور ملک کے مشترکہ دشمنوں کو شکست ہو ۔ ڈاکٹر اسراراحمدؒ یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ جب پاکستان میں نفاذ اسلام کا مرحلہ آئے گا تو تمام مسالک کے 31جید علماء کےمتفقہ 22 نکات کو مدنظر رکھتے ہوئے شریعت کا نفاذ ممکن ہو گا ۔ البتہ لاء آف دی لینڈ کے متعلق دونوں مسالک اتفاق کرلیں کہ جس طرح ایران میں اکثریت اہل تشیع کی ہے اور وہاں قانون سازی فقہ جعفریہ کے مطابق ہورہی ہے، اسی طرح پاکستان میں اکثریت اہل سنت کی ہے اوریہاں لاء آف دی لینڈ اہل سنت کے فقہ کے مطابق ہو گا۔ تاہم انفرادی مسائل اہل تشیع اپنے فقہ کے مطابق حل کریں ۔ لیکن ملک اور ملت کے مفاد کے لیے مشترکات پر جمع ہو جائیں ۔ قرآن میں نصاریٰ سے کلام ہو رہا ہےکہ:
{قُلْ یٰٓــاَہْلَ الْکِتٰبِ تَـعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآئٍ م بَیْنَنَا وَبَیْنَـکُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللہَ}(آل عمران:64) ’’(اے نبیﷺ) کہہ دیجیے: اے اہل کتاب! آئو ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان بالکل برابر ہے‘کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں۔‘‘
نصاریٰ اللہ کے رسول ﷺ کو نہیں مانتے ، قرآن کو نہیں مانتے ، اسلام کو نہیں مانتے لیکن اس کے باوجود ان سے مشترکات پر اتفاق کرنے کا تقاضاہے ۔ ہمارا رسول ایک ، قرآن ایک ، دین ایک ، پھر ہم کیوں مشترکات پر جمع نہیں ہو سکتے ؟
سوال:موجودہ امریکی حکومت پاکستان کی بہت تعریف کر رہی ہے۔ خصوصا ًپاک بھارت معرکہ کے بعد ٹرمپ کے پاکستان کے حق میں بیانات اور محبت کے دعوے کیا معنی رکھتے ہیں ، کیا امریکہ چین یا افغانستان کے خلاف پاکستان کو استعمال کرنا چاہتا ہے ؟(محمد احمد، اوکاڑہ)
امیر تنظیم اسلامی:ہنری کسنجر کے تاریخی الفاظ ڈاکٹر اسراراحمدؒ بھی quote کرتے تھے کہ امریکہ کادشمن تو امریکہ کےوار سے بچ سکتا ہے مگر دوست کبھی نہیں بچ سکتا۔ امریکہ کے ساتھ ہماری اب تک کی دوستی کی تاریخ نے یہ بات بار بار ثابت کی ہے ۔ نائن الیون کے بعد جب ہم نے کھل کر امریکہ کا ساتھ دیا ، اس کو اڈے ، زمینی اور فضائی راستے دئیے اور اس کے do moreکے مطالبات کو مانتے چلے گئے تو کیا اس کے بعد ہمارے ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ گئیں ؟کیا ہمارے بچوں کے منہ میں سونے کا نوالہ آگیا ؟اس کے بعد بھی اگر ہماری آنکھیں نہیں کھلیں تو آخر کب کھلیں گی ؟اللہ کا کلام تو واضح طور پر ہمیں خبردار کر رہا ہے :
{وَلَنْ تَرْضٰی عَنْکَ الْیَہُوْدُ وَلَا النَّصٰرٰی حَتّٰی تَــتَّبِعَ مِلَّـتَہُمْ ط}(البقرۃ:120) ’’اور(اے نبیﷺ! آپ کسی مغالطے میں نہ رہیے) ہرگز راضی نہ ہوں گے آپؐ سے یہودی اور نہ نصرانی جب تک کہ آپؐ پیروی نہ کریں ان کی ملت کی۔‘‘
پاکستان کی جغرافیائی پوزیشن اللہ تعالیٰ نے ایسی رکھی ہے کہ چین کو پاکستان کی بہت زیادہ ضرورت ہے ۔اسے گوادر تک راستہ چاہیے ۔ اسی طرح کبھی سوویت یونین کے خلاف امریکہ کو پاکستان کی ضرورت تھی ۔اب بھی اگر چین کو روکنے کی بات ہوگی تو امریکہ پاکستان کو استعمال کرنا چاہے گا ۔ لیکن ہمیں سمجھنا چاہیے کہ ہم نے پہلے بھی امریکہ کے ہاتھوں استعمال ہو کر اپنا کتنا نقصان کر وایا۔ افغان اور پشتون بھائیوں کو ہم نے ناراض کرلیا ہے ، لاکھوں مسلمانوں کو افغانستان میں شہید کروانے میں امریکہ کے دست و بازو بنے ۔ ملک کے اندر آپریشن کرکے اپنے لوگوں کو ناراض کیا ۔پہلے ہی ہم نے امریکہ کا ساتھ دے کر اپنا ناقابل تلافی نقصان کر لیا ہے ، اگر مزید ساتھ دیا تو بالکل تباہ ہو جائیں گے ۔
سوال: امریکہ تو کبھی نہیں چاہے گا کہ پاکستان میں دین یا استحکام آئے۔ پھر اس کی طرف سے پاکستان کی تعریفوں کا کیا مقصد ہے ؟
امیر تنظیم اسلامی: پاکستان کی جو جغرافیائی اہمیت ہے ، ہم سے زیادہ شاید ہمارے دشمن اس کو سمجھتے ہیں۔احادیث میں خراسان کا ذکر ہے کہ وہاں سے اسلامی لشکر حضرت عیسیٰ ؑ اور حضرت مہدی کی نصرت کے لیے جائیں گے اور دجال کے لشکر کے خلاف لڑیں گے ۔ خراسان میں پاکستان کا ایک حصہ بھی شامل ہے ۔ اس لیے دشمن چاہتے ہیں کہ پاکستان مستحکم نہ ہونے پائے ، یہاں انتشار اور خانہ جنگی کی کیفیت ہو تاکہ ہم لوگ آپس میں لڑتے رہیں اور مستقبل کے حوالے سے کوئی تیاری نہ کرسکیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں امریکہ کا ساتھ دے کر ، وکٹ کے دونوں جانب کھیل کر ہم نے خود کو عسکری لحاظ سے مضبوط کیا لیکن اگر اس کھیل میں اللہ اور اس کے رسولﷺ کےساتھ غداری اور بے وفائی شامل ہو ، دین سے بغاوت شامل ہو تو پھر ہماری ظاہری طاقت ہمیں بچا نہیں پائے گی ۔ یہ وہ پہلو ہے جس کوہمیں نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔
سوال:پاکستان کا استحکام دین کے نفاذ سے کیوں مشروط ہے ، کیا یہ باقی 56 مسلم ممالک کے ضروری نہیں ہے ؟
امیر تنظیم اسلامی: بحیثیت اُمت تمام مسلمانوں کے لیے دین کا نفاذ ضروری ہے لیکن جہاں تک مسلم ممالک کا تعلق ہے تو باقی تمام ممالک نسلی ، لسانی یا جغرافیائی بنیادوں پر وجود میں آئے ہیں ، پاکستان واحد ملک ہے جو اسلام کے نام پر بنا ہے ۔ ہم نے اللہ سے وعدہ کیا تھا کہ اگر اللہ ہمیں علیحدہ خطۂ زمین دے تو ہم اللہ کے دین کا نفاذ کریں گے ۔ 1967ء کی جنگ کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم بن گوریان اگر یہ کہتا ہے کہ ہمارا اصل نظریاتی دشمن پاکستان ہے ، اگرموجودہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو یہ خواہش رکھتا ہے کہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت ختم ہو جائے تو آخر کوئی وجہ ہے۔ اللہ نے پاکستان کو ایٹمی صلاحیت سے نوازا ، یہاں مدارس کا نظام ہے ، پوری دنیا میں پاکستان سے علماء اور حفاظ کرام جارہے ہیں ۔ بقول ڈاکٹر اسراراحمدؒ اسلام کی احیائی تحریکوں کا 4 صدیوں پر مشتمل اثاثہ پاکستان کے پاس موجود ہے ۔ پاکستان سے شکوہ اس لیے ہے کہ یہ اسلام کے نام پر بنا ہے ۔ اس کے باوجود اگر ہم یہاں اسلام کو نافذ نہیں کرتے تو اللہ کے فتوے موجود ہیں :
{وَمَنْ لَّــمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْکٰفِرُوْنَ(44)}’’اور جو اللہ کی اُتاری ہوئی شریعت کے مطابق فیصلے نہیں کرتے وہی تو کافر ہیں۔‘‘
{وَمَنْ لَّـمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ(45)}’’ اور جو فیصلے نہیں کرتے اللہ کی اُتاری ہوئی شریعت کے مطابق وہی تو ظالم ہیں۔‘‘
{وَمَنْ لَّـمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ(47)}(المائدہ)’’اور جو لوگ نہیں فیصلے کرتے اللہ کے اُتارے ہوئے احکامات و قوانین کے مطابق‘ وہی تو فاسق ہیں۔‘‘
سوال: CIAکےایک افسر نے کہا تھا کہ سات مسلم ممالک کی ایک ایک کر کے باری آئے گی جن میں عراق ، شام، لبنان، لیبیا، صومالیہ ، سوڈان اور ایران شامل ہیں ۔ پاکستان ان سات ناموں میں شامل نہیں ہے۔حالانکہ بن گوریان اور نیتن یاہو کے مطابق پاکستان اسرائیل کا سب سے بڑا دشمن ہے ، ISI کے سابق چیف جنرل حمید گل نے بھی کہا تھا کہ افغانستان بہانہ ہے ، پاکستان نشانہ ہے ۔ کیا وجہ ہے کہ سات ممالک میں پاکستان شامل نہیں ہے ؟ (محمد فاروق، حیدرآباد)
امیر تنظیم اسلامی: ایک امکان تو یہ ہو سکتا ہے کہ شاید اُن کے گمان میں ہو کہ وہ پاکستان کو رام کرلیں گے ۔ جن سات ممالک کا نام لیا گیا ، ان میں کہیں نہ کہیں یا تواسرائیل کو جغرافیائی لحاظ سے زیادہ خطرہ تھا یا پھر وہ ایٹمی صلاحیت کی جانب پیش قدمی کر رہے تھے اس لیے ان کو تباہ کیا گیا۔ پاکستان کے پاس تو ایٹمی صلاحیت بھی موجود ہے اور یہ مملکت بنی ہی اسلام کے نام پر تھی لہٰذا وہ ہمیں دشمن نمبر ون سمجھتے ہیں ۔ جیسا کہ سابق اسرائیلی وزیراعظم بن گوریان بھی پاکستان کو دشمن نمبر ون قراردے چکے ہیں لہٰذا کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان ان کی ہٹ لسٹ پر نہ ہو ۔
سوال:ہماری عورتوں کی تربیت کا نظام کیسے بہتر ہو سکتا ہے؟ نبی اکرمﷺ تو خواتین سے بھی بیعت لیتے تھے۔ ہمارے ہاں دورئہ ترجمہ قرآن میں توخواتین آتی ہیں لیکن باقی پورا سال ان کی ہفتہ وار میٹنگ کا انتظام میرے علم میں نہیں ہے ۔تنظیم اسلامی میں عورتوں کی تربیت کے لیے یا بیعت کے لیے کوئی نظام ہے؟ (حافظ فیصل حنیف )
امیر تنظیم اسلامی: جہاں جہاں ہماری قرآن اکیڈمیز، انجمن خدام القران یا تنظیم اسلامی کےزیر اہتمام مساجد ہیں اور جہاں ممکن ہے خواتین کے لیے شرکت کا باپردہ اہتمام ہوتاہے ۔ وہاں خواتیں نماز بھی ادا کرتی ہیں ، جمعہ کا خطاب بھی سن لیتی ہیں ۔ اسی طرح قرآن اکیڈمیز اور تنظیم اسلامی کے زیر اہتمام ملک بھر میں جہاں جہاں دروس قرآن یا اجتماعات ہوتے ہیں ، وہاں اکثر مقامات پر خواتین کی شرکت کا باپردہ اہتمام ہوتاہے ۔ اس کے علاوہ ہم اپنے رفقاء سے تقاضا کرتے ہیں کہ وہ اپنے گھروں میں ہفتہ وار اُسرہ کا اہتمام کریں ۔ اُسرہ کے لیے ہم نے باقاعدہ نصاب بھی تیار کر رکھا ہے ۔ اس میں قرآن کا تذکیری پہلو بھی شامل ہوتا ہے ، احادیث کا مطالعہ بھی شامل ہوتاہے ۔ ڈاکٹر صاحبؒ کے بیانات بھی ہوتے ہیں ۔ تنظیم اسلامی میں خواتین بیعت فارم کو پُر کرکے شامل ہوتی ہیں۔اگر کسی محلے میں ان کی تعداد دو یا چار ہو جائے تو وہاں اُن کا بھی ایک اُسرہ قائم کر دیا جاتاہے۔ لیکن ان تمام معاملات میں انتظامی امور کی نگرانی اور معاونت کی ذمہ داری محرم مرد شرعی تقاضوں کے مطابق ادا کرتے ہیں ۔
سوال:مخلوط نظام تعلیم ہماری نسلوں کو تباہ کر رہا ہے ، اس کا متبادل نظام کیا ہونا چاہیے ، خاص طور پر بچیوں کو تعلیم کیسے دلوائی جائے ۔ وضاحت فرمائیں؟ (محمد ظفر اقبال، لاہور)
امیر تنظیم اسلامی:سب سے پہلے تو ہمیں یہ طے کرنا چاہیے کہ لڑکیوں کا معاشرے میں رول کیا ہونا چاہیے اس کے بعد پھر یہ بھی طے ہو سکتاہے کہ بچیوں کو کونسی تعلیم دی جائے ۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ لڑکیاں مستقبل میں اچھی مائیں ،بہنیں ، بیٹیاں اور بیویاں اور ایک باوقار نسلوں کو پروان چڑھانے والی بنیں تو پھر ہمیں انہیں تعلیم بھی اسی لحاظ سے دینی چاہیے ۔کوئی خاتون چاہیے تو ڈاکٹر ، انجینئر ، پروفیسر بھی بن سکتی ہے، گائنالوجسٹ ، ڈینٹسٹ بن سکتی ہے ، کیونکہ خواتین کا علاج خواتین کو ہی کرنا چاہیے ۔ مگر نظام تعلیم ایسا ہو کہ اس کی شرم و حیااور عزت و وقار برقرار رہے ، تعلیم میںدینی پہلو اہم ترین ہے ، دینی فرائض کی ادائیگی کا بھی احساس ہو ۔مخلوط تعلیمی اداروں میں بچوں اور بچیوں کو بھیجنے سے ہر صورت میں گریز کریں ۔ ایک حل یہ ہے کہ گھر پر اور باپردہ تعلیم و تربیت کی طرف جائیں ۔ آج دنیا میں ہوم سکولنگ ، آن لائن سکولنگ کا رجحان بڑھ رہا ہے ، اوپن یونیورسٹیز موجود ہیں۔ آپ کالج اور یونیورسٹی لیول پر بھی پرائیویٹ ایجوکیشن میں جا سکتے ہیں ۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ تعلیمی اداروں میں لڑکیوں کا تناسب بڑھ رہا ہے ۔ بعض اوقات تو 100 میں سے 90 لڑکیاں ہوتی ہیں ۔اگلا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ لڑکی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے لیکن اس کے ہم پلہ رشتہ نہیں مل رہا کیونکہ اعلیٰ تعلیم میں لڑکوں کا تناسب کم ہورہا ہے ۔ اس لیے ہمیں اب اپنے نظام تعلیم پر نظر ثانی کرنی چاہیے لیکن اس سے پہلے خواتین کا معاشرے میں رول طے کرنا ہوگا ۔ اصل نکتہ یہ ہے کہ ان کی حیاء ،عصمت اور وقار بحال رہے تاکہ باوقار نسلیں پروان چڑھیں اور ہماری اقدار بھی بحال رہیں ۔
سوال:اگر ضرورت پڑے تو عورت شریعت کے دائرے میں رہ کر کام کر سکتی ہے؟
امیر تنظیم اسلامی:اسلامی معاشرےمیں عورت اور مرد کے حقوق و فرائض طے شدہ ہیں ۔ عورت کی کفالت کی ذمہ داری مرد پر عائد ہوتی ہے ۔ باپ ، بھائی ، شوہر ، بیٹے اس بات کے ذمہ دار ہوتے ہیں کہ وہ عورت کی کفالت کریں ۔اسلامی نظام حکومت میں یہ ذمہ داری ضرورت پڑنے پر ریاست پر عائد ہوتی ہے ۔ البتہ اگر باپ ، شوہر یا بھائی معذور ہو ، کمانے والا کوئی نہ ہو تو شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے ، باپردہ رہ کر کوئی جائز ذریعہ آمدن اختیار کر سکتی ہے۔