اداریہ
رضاء الحق
رُوحِ محمدﷺ اس کے بدن سے نکال دو
گزشتہ ہفتے ملی یکجہتی کونسل کے تحت قومی ایکشن کمیٹی کے ایک اجلاس میں شرکت کا موقع ملا جس کا بنیادی ایجنڈا سوشل میڈیا پر پورنوگرافک بلاسفیمی (فحاش مواد اور توہین رسالتﷺ و مقدسات کا ملاپ) کے اسلام آباد ہائی کورٹ کے یک رکنی بینچ کا معاملے پرحکومت کو کمیشن بنانے کی ہدایت کا جائزہ لینا تھا ۔ اِس فیصلہ میں موجود قانونی سقموں نے کم اور پاکستان کے دینی طبقات، علماء کرام، وکلاء برادری اور عوام الناس میں اِس متنازعہ فیصلہ کے خلاف پائے جانے والےغم و غصّہ کے احساس نے زیادہ اثر کیاجس کی حدت کو محسوس کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک دو رکنی بینچ نےکمیشن بنانے کے یک رکنی بینچ کے فیصلے پر عمل درآمد کو فی الوقت روکنے کا حکم دیا ہے۔پاکستان کی تاریخ میں کمیشنوں کی کارکردگی سے کون واقف نہیں۔ پھر یہ کہ کمیشن بن جانے سے سینکڑوں کی تعداد میں گرفتار مجرموں کی ضمانت ہو جائے گی اور کچھ عرصہ بعد وہ بھی امریکہ یا کسی مغربی ملک میں پناہ حاصل کر لیں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ توہینِ قرآن، توہینِ صاحبِ قرآنﷺ، صحابہ کرامؓ و اہلِ بیت اور دیگر مقدساتِ اسلام کی اہانت کے واقعات پہلے بھی ہوتے رہے ہیں اور جب بھی کبھی ایسا معاملہ سامنے آتا ہے تو دل گویا ڈوب کررہ جاتاہے۔ عمومی طور پر ماضی میں ایسے قبیح واقعات انفرادی سطح پر ہوتے تھے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ توہینِ رسالتؐ و مقدسات کےحوالے سے قوانین موجود ہونے اور کئی ملزمان کے خلاف جرم ثابت ہونےکے باوجود آج تک عدالت کی طرف سے دی گئی کسی ایک سزا پر بھی عمل درآمد نہیں کیا گیا۔
عموماً ہوتا یہی رہا ہےکہ تفتیشی ادارے جاں فشانی سے ملزم اور اُس کے سہولت کاروں کے خلاف شواہد اکٹھے کرتے۔ ماتحت عدلیہ سے لے کر ہائی کورٹ تک تو انتہائی عرق ریزی سے ایک ایک ثبوت کو جانچا اور پرکھا جاتا۔ملزم کو اپنے وکیل کے ذریعے صفائی کا بھرپور موقع دیا جاتا۔ پھر مدعی اور مدعا علیہ کی جانب سے پیش کردہ ثبوتوں اور عدالت میں کی گئی جرح کی روشنی میں یا تو ملزم کو سزا سنا دی جاتی وگرنہ اُسےباعزت بری کر دیا جاتا۔ گویافیصلے عدل کے معیار کے مطابق کیے جاتے۔
گزرے ادوار میں جب کبھی بھی اِس نوعیت کے کسی ملزم کوعدالت مجرم قرار دیتی اور سزا کا فیصلہ ہو جاتا تو یکایک ا نگریزی پرنٹ میڈیا اور این جی اوز (جن میں اکثر یت کی فنڈنگ مغربی ممالک کرتے ہیں) کو یک دم ’’انسانیت‘‘ یاد آ جاتی اور ایسے بھاشن دئیے جاتے جن سےگمان ہونے لگتا کہ کسی سزا کا نفاذ کرنا ہی فساد کی اصل جڑ ہے۔ خاص طور پر ایک سابق ڈکٹیٹر کے دور میں بنائے گئے توہین رسالتؐ و مقدسات سے متعلق قوانین کو تختہ مشق بنایاگیا۔ سوشل میڈیا کے اِس دورمیں نامعلوم اکاؤنٹس سےیہ تخریب آسان تر ہو گئی ہے۔قادیانی بھی سوشل میڈیا اور عدالت میں توہین کے مرتکب مجرموں کا بھرپور ساتھ دیتے رہے ہیں اور آج تک دے رہے ہیں۔ ایسے میں ملک کی سب سے بڑی عدالت بھی درمیان میں کود پڑتی اوردرج بالا تمام کارروائی جس کے نتیجے میں ملزم کو سزا دی گئی تھی، اُسے قانونی موشگافیوں کا سہارا لیتے
ہوئے چٹکیوں میں اڑا دیتی۔ بلکہ توہین کے مرتکب فرد کو مظلوم ثابت کر کے اسے ضمانت دے دی جاتی اور چند دنوں بعد معلوم ہوتا کہ اسے امریکہ یا کسی یورپی ملک میں پناہ مل چکی ہے۔ اصل نشانہ 295-C تھا اور آج بھی ہے۔
تعزیراتِ پاکستان(پاکستان پینل کوڈیاPPC) میں دفعہ295 اورا س کی ذیلی دفعات 295A، 295B اور 295C درحقیقت توہینِ رسالتؐ، توہین قرآن اور دیگر مقدسات کی اہانت سے متعلق ہیں۔اِن دفعات کا متن درج ذیل ہے:
دفعہ 295: کسی جماعت کے مذہب کی تذلیل کی نیت سے عبادت گاہ کو نقصان پہنچانا نجس کرنا:
جوشخص کسی عبادت گاہ کویاکسی ایسی چیز کوجواشخاس کی کسی جماعت کی طرف سےمقدس سمجھی جاتی ہواس نیت سےتباہ کرے، نقصان پہنچائے یاناپاک کرے کہ اس طرح وہ اشخاص کی کسی جماعت کےمذہب کی تذلیل کرسکے یااس علم کےساتھ کہ اشخاص کی کسی جماعت کی مذکورہ تباہی نقصان یاناپاک کرنے سے ان کےمذہب کی تذلیل کااحتمال ہےتواسےکسی ایک جرم کی سزائے قید اتنی مدت کےلیے دی جائے گی جودوسال تک ہوسکتی ہےیا جرمانے کی سزا یادونوں سزائیں ہوسکتی ہیں۔
دفعہ 295 (اے)؛ مذہب یا مذہبی اعتقادات کی تذلیل/مذہبی جذبات کی بےحرمتی کرنا:
جوکوئی شخص (پاکستان کے شہریوں کی) کسی جماعت کےمذہبی جذبات کی بے حرمتی کرنےکےارادی اورکینہ وارانہ مقصد سےالفاظ کےذریعہ خواہ زبانی ہوں یا تحریری یادکھائی دینے والے خاکوں کےذریعے مذکورہ جماعت کےمذہب یامذہبی اعتقادات کی تذلیل کرے یا تذلیل کرنے کی کوشش کرے تو اسے کسی ایک قسم کی سزا اتنی مدت کے لیے دی جائے گی جو 2 سال تک ہوسکتی ہے یا جرمانے کی سزا یا دونوں سزائیں دی جائیں گی۔
دفعہ 295 (بی): قرآن پاک کےنسخے کی بےحرمتی وغیرہ کرنا
جوکوئی قرآن پاک کےنسخے یااس کےکسی اقتباس کی عمداً بےحرمتی کرے، اس کانقصان یابے ادبی کرے یا اسے توہین آمیز طریقے سےیاکسی غیرقانونی مقصد کےلیے استعمال کرے تووہ عمرقید کی سزا کامستوجب ہوگا۔
دفعہ 295 (سی): پیغمبر اسلام ﷺ کے بارےمیں توہین آمیزالفاظ وغیرہ استعمال کرنا
جوکوئی الفاظ کےذریعے خواہ زبانی ہوں یاتحریری یانقوش کےذریعے،یاکسی تہمت ، کنایہ یادرپردہ تعریض کےذریعے بلاواسطہ یابالوالوسطہ رسول پاک حضرت محمدﷺکےپا ک نام کی توہین کرے گا تواسے موت یاعمر قید کی سزا دی جائے گی اوروہ جرمانے کی سزا کا بھی مستوجب ہوگا۔
پورنوگرافک بلاسفیمی کے حالیہ قبیح ترین واقعات میں سینکڑوں ملزم اور ان کے سہولت کار ملوث پائے گئے ہیں۔ 100 سے زائد گرفتارشدگان میں تقریباً تمام مسلمان ہیں، چند کا تعلق مدارس اور مساجد سے بھی ہے۔ انا لله و انا الیه راجعون!
توہین کے مرتکب افراد کے خلاف ثبوتوں کے انبار سے بھری فائلیں اس بات کی گواہ ہیں کہ تفتیشی اداروں جن میں ایف آئی اے، پی ٹی اے اور قرآن بورڈ بھی شامل ہیں نے حقائق کی تہہ تک پہنچنے میں انتہائی محنت سے اپنی ذمہ داری ادا کی۔ہر ہر ملزم کے خلاف ثبوت بہت زیادہ اور واضح ہیں۔ اور بے شرمی کی آخری حد کو بھی پار کرنے والے ہیں۔ پھر یہ کہ ریکارڈ کے مطابق اس گھناؤنے فعل کا مرتکب ایک مجرم بھی ایسا نہیں جو محض ایک مرتبہ غلطی کر کےتائب ہو گیا ہو۔کم سے کم خطاکار مجرم بھی کم سے کم پانچ ماہ تک ایسی ابلیسی حرکتوں میں ملوث رہا ہے اور بعض کا ریکارڈ تو پانچ برس تک اس غلاظت کا حصّہ بنے رہنے پر مشتمل ہے۔
جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا کہ اصل نشانہ 295 سی ہے۔ ایسے میں این جی اوز اور سوشل میڈیا پر نامعلوم اکاؤنٹس کے حامل افراد کو اور تو کچھ نہ سوجھی، یہ کہانی گھڑ ڈالی کہ اصل مجرم تو تحقیقاتی ادارہ FIA ہے، جس کے چند افراد نے ایک وکیل کے ساتھ مل کر’’کاروبار‘‘ شروع کیا ہے کہ عام لوگوں کو بلیک میل کرنے کے لیے انہیں فحش مواد بھیجو اور جب وہ شخص یہی فحش مواد واپس بھیج کر پوچھے کہ یہ کیا ہے اور مجھے کیوں بھیجا ہے تو اسے توہین کے مقدمہ میں پھنسا لو۔ پھر جس سے تاوان موصول ہو جائے وہ تو بچ جائے گا لیکن جو تاوان ادا نہ کرے، اس کے خلاف توہین کی کوئی دفعہ لگا دو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا بھر میں مجرموں کو گرفتار کرنے کے لیے ایسے ذرائع بھی استعمال کیے جاتے ہیں جسے ہنی ٹریپنگ کہا جاتا ہے۔ لیکن یہاں ایک سرکاری تحقیقاتی ادارے، ایک وکیل اور چند دیگر افراد پر یہ الزام لگایا جا رہا ہے کہ وہ فحش توہینِ رسالت و مقدسات کے لیے’’ہنی ٹریپنگ‘‘ کا استعمال کر رہے ہیں، ایسے ملزموں کی گرفتاری کے لیے نہیں۔ اگر ملزموں یا مجرموں میں سے کسی ایک نے بھی یہ الزام لگایا ہوتا تو ہم برملا ایسے کسی گروپ کو بدترین توہینِ رسالت و مقدسات کا مرتکب ٹھہراتے اور اُنہیں سخت سے سخت سزا دینے کا مطالبہ کرتے۔ لیکن یہ سب قصّے کہانیاں ان گستاخوں کو بچانے کے لیے گھڑی جا رہی ہیں جو خود ان قبیح اعمال میں شرکت کا اقرار کر چکے ہیں۔ پھر یہ کہ ہماری معلومات کی حد تک ایسا ایک شخص بھی سامنے نہیں آیا جس نے ایف آئی اے یا کسی وکیل پر بلیک میل کرنے کا الزام لگایا ہو۔قوم نے دھوم دھام سے 14 اگست بھی منا لی مگر یہ کیسی آزادی ہے کہ بیرونی اور اندرونی اسلام دشمن قوتوں کا اصل ہدف 295 سی کا خاتمہ ہے۔
ہماری رائے میں پورنوگرافک بلاسفیمی کے حوالے سے جو حقائق سامنے آئے ہیں اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس قدر بڑے پیمانے پر ایسے انسانیت سوز افعال کا ہونا محض ایک اتفاق نہیں۔ جرم میں ملوث افراد معاشرے کے تمام گوشوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہمیں تو حیرت اُن این جی اوز، مدعین کے وکلاء اور یک رکنی عدالتی بینچ پر ہے جو واضح شواہد کی موجودگی میں بھی مجرموںکو بچانے کی ہر ممکن کوشش کر تے رہے ۔ کیا وہ حضورﷺ کی شفاعت کے طلب گار اور آپﷺ کے مبارک ہاتھوں سے حوض کوثر سے سیراب ہونے کے خواہش مند بلکہ حاجت مند نہیں۔ ہماری اُن سے دردمندانہ اپیل ہے کہ اپنے حقیقی دشمن کو پہچانیے۔ وہ فنڈنگ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کرتا ہے اور اس کاایجنڈا واضح ہے۔
رُوحِ محمدﷺ اس کے بدن سے نکال دو
tanzeemdigitallibrary.com © 2025