الہدیٰ
ایمان پر ثابت قدم رہنے والوں کا اجر
آیت 58 {وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَنُبَوِّئَنَّہُمْ مِّنَ الْجَنَّۃِ غُرَفًا} ’’اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اچھے اعمال کیے ہم انہیں ضرور جگہ دیں گے جنّت کے بالا خانوں میں‘‘
{تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَاط نِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِیْنَ(58)} ’’جس کے نیچے ندیاں بہتی ہوں گی‘ اس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ کیا ہی اچھا اجر ہو گا عمل کرنے والوں کا !‘‘
اے میرے بندو! اگر تم نے میرے لیے اپنی جان جوکھم میں ڈالی ہے تو میرے اس وعدے پر بھی پختہ یقین رکھو کہ میں نے تمہارے لیے جنّت اور اس کی بے شمار نعمتیں تیار کر رکھی ہیں۔ اس کے بعد چھٹی ہدایت:
آیت 59 {الَّذِیْنَ صَبَرُوْا وَعَلٰی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ(59)} ’’وہ لوگ جنہوں نے صبر کیا اور وہ اپنے رب پر توکّل کرتے ہیں۔‘‘
اگر تم لوگوں نے اپنے لیے حق کے راستے کا انتخاب کیا ہے تو اس پر چلتے ہوئے باطل سے پنجہ آزمائی کرنے کا مرحلہ بھی آئے گا اور قدم قدم پر مصائب و مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔ اس سب کچھ کے مقابلے میں تمہارے پاس دو انتہائی مؤثر ہتھیار ہمہ وقت موجود و دستیاب رہنے چاہئیں‘ یعنی صبر اور توکّل علی اللہ! اس راستے میں جو مشکل اور جو مصیبت بھی آئے اسے جھیلنے اور برداشت کرنے کا عزم اپنے اندر ہر دم تازہ اور بلند رکھو اور بھروسہ رکھو تو صرف اللہ کی ذات پر! اس کٹھن سفر میں نہ تو تم مادی اسباب وو سائل پر نظر رکھو اور نہ ہی اپنی ذہانت و فطانت اور قوت و شجاعت کو لائق ِاعتناء سمجھو!----
درس حدیث
حقوق کی پاسبانی اور امن عالم
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ؓ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: ((لَا تَحَاسَدُوا وَلَا تَنَاجَشُوا وَلَا تَبَاغَضُوا وَلَا تَدَابَرُوا، وَكُونُوا عِبَادَ اللهِ إِخْوَانًا)) (صحیح مسلم)
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’آپس میں ایک دوسرے پر حسد نہ کرو، ایک دوسرے سےجھگڑا نہ کرو، ایک دوسرے سے کینہ نہ رکھو اور نہ ایک دوسرے سے منہ پھیرو(حقیر جانتے ہوئے) اور سب مل کر اللہ کے بندے بھائی بھائی بن جائو۔‘‘
تشریح:کوئی جھگڑا اور فساد دو آدمیوں کے درمیان ہو یا دو قوموں کے مابین اس کا محرک آپس کا حسد و بغض، اپنی شوکت و سطوت کا لوہا منوانا، دوسروں کو نیچا دکھانا، ایک دوسرے کے حقوق تلف اور غصب کرنا ہوتا ہے۔ اس سے فریقین کے درمیان رنجش اور نفرت کے جذبات ابھرتے ہیں اور جب ان میں تیزی آتی ہے تو پھر ہاتھا پائی اور دنگا فساد کی آگ بھڑک اٹھتی ہے۔ لڑائی کے ان شعلوں میں افراد اورقومیں عقل و فکر اور دانش و بینش سے عاری ہو جاتی ہیں۔ انہیں نہ تو انجام کی فکر رہتی ہے اور نہ اپنے نقصانات ہی کی پروا۔ جب یہ جنگ قوموں اور ملکوں کے درمیان چھڑتی ہے تو بے شمار قیمتی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں۔