اُخوتِ اسلامی اور بھائی چارہ
مفتی محمد عارف
’’اور اہل ِایمان مرد اور اہلِ ایمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق و مددگار ہیں۔ وہ اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی اطاعت بجا لاتے ہیں، ان ہی لوگوں پر اللہ عنقریب رحم فرمائے گا، بیشک اللہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے۔‘‘(التوبہ:71)
اخوت اور بھائی چارہ نوع انسانی کے لیے اتنا اہم عمل ہے کہ اِس کے بغیر گھر، معاشرہ، اقوام وعالم سب کا چین وسکون ناممکن ہے، اگر آپس میں اخوت وبھائی چارگی نہ ہو تو سب کے سب اختلاف وانتشار کے شکار ہوجائیں گے، دنیا میں امن وامان ختم ہو جائے گا اور اس طرح گھر گھر فتنہ وفساد برپا ہونے لگے گا۔ دنیا میں امن وسلامتی کے قیام کی خاطر ہی اسلام نے اخوت وبھائی چارگی کی تعلیم پر بہت زیادہ زور دیا ہے۔
مذکورہ بالا آیت کریمہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے سب سے پہلے{بَعْضُہُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍ م} فرما کر یہ تعلیم دی کہ جب ہم آپس میں دوست بن کر رہیں گے تو کامیابی سے ہمکنار ہوں گے، جب ہم آپس میں ایک دوسرے کو بھائی سمجھیں گے تو اسی وقت برائی سے رک کر اچھائی کرسکیں گے، کیوں کہ یہی وہ لوگ ہیں جنہیں {یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ } کا خطاب ملا ہے ،
قرآن کریم نے ایمان والوں کو آپس میں ایک دُوسرے کے بھائی سے تعبیر فرمایا ہے چنانچہ ارشادِ ربانی ہے:
’’مسلمان آپس میں ایک دُوسرے کے بھائی ہیں۔‘‘
نبی اکرمﷺ نے اخوتِ اسلامیہ اور اُس کے حقوق کے بارے میں ارشاد فرمایا:
’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، اُس پر خود ظلم کرتا ہے اور نہ اُسے بے یار و مددگار چھوڑتا ہے اور نہ اُسے حقیر جانتا ہے۔ پھر آپؐ نے اپنے قلب مبارک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین بار یہ الفاظ فرمائے: تقویٰ کی جگہ یہ ہے۔ کسی شخص کے برا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانے۔ ہر مسلمان پر دُوسرے مسلمان کا خون، مال اور عزت حرام ہے۔‘‘(رواہ المسلم)
گویا اُخوت و محبت کی بنیاد ایمان اور اسلام ہیں، یعنی سب کا ایک رب، ایک رسول، ایک کتاب، ایک قبلہ اور ایک دین ہے جو کہ دینِ اسلام ہے۔
نبی کریمﷺ نے اِسے ایمان و تقویٰ کو فضیلت کی بنیاد بھی قرار دیا ہے اور یہ بتلادیا کہ انسان رنگ و نسل اور قوم و قبیلہ کے اعتبار سے نہیں، بلکہ تقویٰ جیسی اعلیٰ صفت سے دوسروں پر فوقیت حاصل کرتا ہے اور قوم و قبیلے صرف تعارف اور جان پہچان کے لیے ہیں، ارشادِ خداوندی ہے:
’’اے لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں مختلف شاخیں اور مختلف قبیلے بنایا، تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو، اُس کے نزدیک تو تم میں سب سے بڑا عزت والا وہ ہے، جو تم سب میں بڑا پرہیزگار ہے، بے شک اللہ سب کو جانتا ہے اور سب کے حال سے باخبر ہے۔‘‘(الحجرات:13)
مندرجہ بالا آیات مبارکہ و احادیث مبارکہ سے واضح ہے کہ اللہ اور اُس کے رسولﷺ نے اُخوت کی بنیاد اسلام اور ایمان کو قرار دیا، کیوں کہ ایمان کی بنیاد مضبوط اور دائمی ہے، لہٰذا اس بنیاد پر قائم ہونے والی اُخوت کی عمارت بھی مضبوط اور دائمی ہوگی۔
اسلام ایک عالمی دین ہے اور اُس کے ماننے والے عرب ہوں یا عجم، گورے ہوں یا کالے، کسی قوم یا قبیلے سے تعلق رکھتے ہوں، مختلف زبانیں بولنے والے ہوں، سب بھائی بھائی ہیں اور اُن کی اس اُخوت کی بنیاد ہی ایمانی رشتہ ہے اور اس کے بالمقابل دُوسری جتنی اُخوت کی بنیادیں ہیں، سب کمزور ہیں اور اُن کا دائرہ نہایت محدود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے ابتدائی اور سنہری دور میں جب بھی اِن بنیادوں کا آپس میں تقابل و تصادم ہوا تو اُخوتِ اسلامیہ کی بنیاد ہمیشہ غالب رہی۔
آج بھی مشرق و مغرب اور دُنیا کے گوشے گوشے سے آئے ہوئے مسلمان جب موسم حج میں سرزمین مقدس حرمین شریفین میں جمع ہوتے ہیں تو ایک دُوسرے سے اس گرم جوشی سے ملتے ہیں، جیسے برسوں سے ایک دُوسرے کو جانتے ہوں، بلکہ بعضوں کو اس مسرت سے روتے ہوئے دیکھا جاتا ہے کہ حیرانی ہوتی ہے،حالانکہ اُن کی زبانیں، اُن کے رنگ اور اُن کی عادات مختلف ہوتی ہیں، لیکن اس سب کے باوجود جو چیز اُن کے دلوں کو مضبوطی سے جوڑے ہوئے ہے، وہ ایمان اور اسلام کی مضبوط رسی ہے۔
اُمت میں اُخوتِ اسلامی پیدا کرنے کے لیے محبت، اخلاص، وحدت اور خیر خواہی جیسی صفات لازمی ہیں، جو اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت بڑی نعمت شمار ہوتی ہیں۔ قرآن کریم نے اس صفت کو بطور نعمت ذکر فرمایا ہے، ارشادِ خداوندی ہے:
’’اور اس کے اس احسان کو یاد کرو جو اُس نے تم پر کیا ہے جب کہ تم آپس میں ایک دُوسرے کے سخت دُشمن تھے، پھر اُس نے تمہارے دلوں میں اُلفت پیدا کردی، تم اُس کے فضل سے آپس میں بھائی بھائی ہوگئے۔‘‘(آل عمران:103)
نبی کریمﷺ نے ایمان والوں کے آپس کے تعلقات اور اُخوت و محبت کو ایک جسم کے مختلف اعضاء سے تشبیہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’ایمان والوں کی آپس کی محبت، رحم دلی اور شفقت کی مثال ایک انسانی جسم جیسی ہے کہ اگر جسم کا کوئی حصہ تکلیف میں مبتلا ہوجاتا ہے تو (وہ تکلیف صرف اُسی حصہ میں محدود نہیں رہتی، بلکہ اُس سے) پورا جسم متأثر ہوتا ہے، پورا جسم جاگتا ہے اور بخار و بے خوابی میں مبتلا ہوجاتا ہے۔(صحیح البخاری)
مسلمان دُنیا کے کسی خطۂ زمین میں آباد ہوں۔ وہ اُمتِ اسلامیہ کا ایک جزو ہیں۔ اگر وہ آرام و سکون کی زندگی بسر کررہے ہیں تو پوری اُمت پُرسکون ہوگی اور اگر وہ کسی مصیبت یا ظلم کا شکار ہیں تو اُن کی تکلیف سے پوری اُمت بے چین اور تکلیف میں ہوگی اور اس صورت میں لازماً وہ اس کے ازالہ کی فکر کرے گی اور اُس کے لیے ہر ممکن وسائل اختیار کرے گی۔
اُمت کا اتحاد اور اُخوت و بھائی چارے کا یہ رشتہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کو بہت عزیز ہے، اسی لیے قرآن کریم اور احادیث ِنبویہﷺ میں جا بجا اُس پر بہت زور دیا گیا ہے اور اختلافات اور تفریق سے روکاگیا ہے۔ اسلام نے اُخوت کو قائم رکھنے اور اسے مضبوط سے مضبوط تر بنانے کا حکم دیا ہے اور ایسے تمام اسباب اور تصرفات سے روکا ہے جو اُسے نقصان پہنچا سکتے ہیں، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’اور مضبوط پکڑو اللہ کی رسی کو سب مل کر اور پھوٹ نہ ڈالو۔‘‘(آل عمران:103)
اُمت کے اتحاد اور اُخوت کے رشتہ کو مضبوط رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اللہ کی رسی یعنی قرآن مجید اور اُس کی تعلیمات کو مضبوطی سے پکڑیں، وہ تعلیمات جنہیں نبی کریمﷺ نے اپنے قول و عمل مبارکہ سے اُمت کے سامنے پیش فرمایا ہے، اُس پر ایمان لائیں اور اُس کی ہدایات پر چلیں اور نبی کریمﷺ کی سنت اور سلف صالحین کے راستہ پر چلیں، یہی کامیابی کا راستہ ہے اور اسی سے اُمت میں اتحاد اور اُخوت کا رشتہ مضبوط ہوگا۔
یہ رسی ٹوٹ تو نہیں سکتی، ہاں! چھوٹ سکتی ہے، اگر سب مل کر اس کو پوری قوت سے پکڑے رہیں گے تو کوئی شیطان شر انگیزی میں کامیاب نہ ہوسکے گا اور انفرادی زندگی کی طرح مسلم قوم کی اجتماعی قوت بھی غیر متزلزل اور ناقابلِ اختلاف ہوجائے گی۔ قرآن کریم سے تمسک کرنا ہی وہ چیز ہے جس سے بکھری ہوئی قوتیں جمع ہوتی ہیں اور ایک مردہ قوم نئی زندگی حاصل کرتی ہے۔
اُمت ِاسلامیہ کا اتحاد اور اُخوت وہ عظیم قوت ہے جس سے اعداء اسلام ہمیشہ خائف رہتے ہیں اور اس قوت کو کمزور کرنے کے لیے سازشیں کرتے ہیں۔گویا اُخوتِ اسلامی کا تقاضا یہ ہے کہ ایک مسلمان دُوسرے مسلمان بھائی کے غم، دُکھ اور خوشی میں برابر کا شریک ہو، چاہے وہ مسلمان مشرق کا رہنے والا ہو یا مغرب کا۔
اُخوتِ اسلامی کا تقاضا یہ ہے کہ ایک مسلمان دُوسرے مسلمان بھائی کا خیر خواہ ہو، جو بھلائی وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے، وہی اپنے بھائی کے لیے بھی پسند کرے اور جو اپنے لیے ناپسند کرتا ہے، وہ اپنے بھائی کے لیے بھی ناپسند کرے۔ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’تم میں سے کوئی شخص اُس وقت تک کامل ایمان والا نہیں ہوسکتا، جب تک کہ اپنے بھائی کے لیے وہی چیز پسند نہ کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے۔‘‘(صحیح بخاری)
ایک دوسری روایت میں تو آپﷺ نے مسلمان بھائی کی ایذاء رسانی کو ایمان کے منافی قرار دیا ہے، آپﷺ نے تین بار قسم کھاکر فرمایا: بخدا وہ شخص مؤمن نہیں جس کے شر سے اُس کے پڑوسی محفوظ نہ ہوں۔
اُخوتِ اسلامی کو مضبوط کرنے کے لیے ایک اہم وسیلہ آپس میں محبت کے ساتھ ملنا ملانا اور ایک دُوسرے کو دُعاء و سلام دینا بھی ہے، جس سے دل صاف ہوتے ہیں اور محبت بڑھ کر اُخوتِ اسلامی میں قوت کا ذریعہ بنتی ہے، آپﷺ کا ارشاد ہے:
’’تم ہرگز جنت میں نہیں جاسکتے جب تک کہ ایمان نہ لے آؤ۔ اور اُس وقت تک تم ایمان والے نہیں بن سکتے، جب تک کہ ایک دوسرے سے محبت نہ کرو۔ کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں کہ اگر تم اُسے بجالاؤ تو آپس میں محبت کرنے لگو؟ (پھر آپﷺ نے ارشاد فرمایا:) آپس میں کثرت سے سلام کو پھیلاؤ۔‘‘(صحیح مسلم)
بہرحال قرآن کریم نے مسلمانوں کو بھائی بھائی قرار دیا ہے اور اُخوت اور محبت کو اللہ کی نعمت قرار دیا ہے اور محبت اور اتحاد پر اُن کی قوت اور طاقت کا مدار ہے۔ اُخوت کو قائم رکھنا ہر مسلمان کا فرض ہے اور اُن تمام صفات کو اپنانا جن سے اُخوت کا رشتہ مضبوط ہوتا ہے، جیسے: خیر خواہی، محبت، اخلاص، ایثار، ملنا ملانا، صلح جوئی اور ایک دُوسرے کو سلام اور دُعاء پیش کرنا وغیرہ۔
لہٰذا اُمت کے زُعماء اور قائدین، چاہے وہ سیاسی ہوں یا دینی، اُن کا فرض ہے کہ اُمت کے اس اتحاد اور اُخوت کو مضبوط کریں اور اُس کے اسباب کو ترقی دیں اور اختلاف و انتشار سے اُمت کو دور رکھیں اور اُن اسباب کا ازالہ کریں، جن سے اُمت کے قلوب میں بُعد اور نفرت اور اُس کی صفوں میں انتشار پیدا ہوتا ہے۔
اسی طرح اُمت کے قائدین کا یہ بھی فرض ہے کہ اُمت کے اس اتحاد اور اخوت میں اگر کوئی رسم و رواج رُکاوٹ بن رہے ہوں تو ایسے رُسوم و رواج پر پابندی لگائیں، چاہے اُسے کتنا ہی مذہبی اور تقدس کا رنگ دے دیا گیا ہو، اس لیے کہ ان رُسوم و رواج کے بالمقابل اُمت کی وحدت اور اُخوت ہم سب کو زیادہ عزیز ہونی چاہیے۔ نیز ہر مسلمان کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے اندر صفتِ ایمان پیدا کرے۔ نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے:
’’الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِّسَانِہٖ وَیَدِہٖ وَالْمُہَاجِرُ مَنْ ہَجَرَ الْخَطَایَا وَالذُّنُوْبَ۔‘‘(صحیح البخاری)
’’کامل مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ کے شر سے مسلمان محفوظ ہوں اور اصلی مہاجر وہ ہے جس نے برائیوں کو چھوڑ دیا ہو۔‘‘
دوسری روایت میں رسول کریمﷺ نے فرمایا: ’’ اور قسم ہے اُس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! وہ شخص جنت میں نہیں جائے گا، جس کا پڑوسی اُس کے شر سے محفوظ نہ ہو۔‘‘
اُخوتِ اسلامی کو نقصان پہنچانے والی چیزوں میں ایک دوسرے کو حقیر جاننا اور اس کا مذاق اُڑانا بھی ہے، اس لیے قرآن کریم نے اس سے بھی ایمان والوں کو روکا ہے، ارشادِ خداوندی ہے:
’’اے ایمان والو! نہ تو مردوں کی کوئی جماعت دُوسرے مردوں کی کسی جماعت کامذاق اُڑائے، کیا عجب ہے کہ جو لوگ مذاق اُڑارہے ہیں، اُن سے وہ لوگ بہتر ہوں جن کا مذاق اُڑایا جارہا ہے۔ اور نہ عورتوں کو عورتوں پر ہنسنا چاہیے، یہ ممکن ہے کہ جو عورتیں ہنسی اُڑانے والی ہیں، اُن سے وہ عورتیں بہتر ہوں جن کی ہنسی اُڑائی جارہی ہے اور نہ آپس میں ایک دُوسرے کو طعنہ دیا کرو اور نہ ایک دُوسرے کو برے لقب سے پکارا کرو۔ ایمان لانے کے بعد فسق کا کام بہت برا ہے اور جو توبہ نہ کریں گے تو وہی لوگ ظلم کرنے والے ہوں گے۔‘‘(الحجرات:11)
اگر دو مسلمان بھائیوں یا دو مسلمان جماعتوں میں اختلاف اور جھگڑے کی صورت پیدا ہوجائے تو مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ ان دونوں میں صلح کرانے کی کوشش کریں۔ ارشادِ خداوندی ہے:
’’ ایمان والے آپس میں بھائی بھائی ہیں، تم اپنے بھائیوں میں صلح کرادیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہا کرو، تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔‘‘(الحجرات:10)
یعنی جنگ کی ہر حالت میں یہ ملحوظ رہے کہ دو بھائیوں کی آپس کی لڑائی ختم ہوکر مصالحت میں بدل جائے، دُشمنوں اور کافروں کی طرح برتاؤ نہ کیا جائے۔ جب دو بھائی آپس میں لڑ پڑیں تو یوں ہی اُن کو اُن کے حال پر نہ چھوڑا جائے، بلکہ اصلاح ذات البین کی پوری کوشش کی جائے اور ایسی کوشش کرتے وقت خدا سے ڈرتے رہو کہ کسی کی بے جا طرف داری یا انتقامی جذبہ سے کام لینے کی نوبت نہ آجائے۔اللہ تعالیٰ اُمتِ اسلامیہ کو بھائی بھائی بننے اور اس اُخوت کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
جریر بن عبداللہ ؓ ُ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے نماز قائم کرنے، زکوٰۃ دینے اور ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کرنے پر بیعت کی۔‘‘ (بخاری)
نبی کریم ﷺ نے مسلمانوں کو ایک دوسرے کی بدگمانی کرنے ، اور اُن کی ٹوہ میں لگنے سے بھی سختی سے منع فرمایا ہے ۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کی کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’بدگمانی سے دور رہو کیونکہ بدگمانی سب سے زیادہ جھوٹی بات ہے، دوسروں کے ظاہری عیب تلاش کرو نہ دوسروں کے باطنی عیب ڈھونڈو، مال و دولت میں ایک دوسرے کے ساتھ مسابقت نہ کرو، ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، آپس میں بغض نہ رکھو، ایک دوسرے سے روگردانی نہ کرو، اور اللہ کے ایسے بندے بن کر رہو جو آپس میں بھائی بھائی ہیں۔‘‘
ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، خرید وفروخت میں دھوکہ نہ دو، ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، ایک دوسرے سے منہ مت پھیرو، کسی کی بیع پر بیع مت کرو اور اللہ کے بندے بھائی بھائی بن جاؤ۔مسلمان مسلمان کا بھائی ہوتا ہے، وہ اُس پر ظلم نہیں کرتا، نہ اُسے بے یار ومددگار چھوڑتا ہے، نہ اُس سے جھوٹ بولتا ہے اور نہ اُسے حقیر سمجھتا ہے۔ تقویٰ اور پرہیزگاری یہاں ہے اور آپ ﷺنے اپنے سینے (دل) کی طرف تین بار اشارہ کیا (یعنی ظاہر میں اچھے عمل کرنے سے آدمی متقی نہیں ہوتا جب تک کہ اس کا سینہ صاف نہ ہو) کسی آدمی کے برا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانے۔ ہر مسلمان کا خون، اُس کا مال اور اُس کی عزت دوسرے مسلمان کے لیے حرام ہے۔ (صحیح مسلم )
اِس حدیث میں نبی کریمﷺ ہماری ان باتوں کی طرف رہنمائی فرما رہے ہیں جو ہم مسلمانوں پر واجب ہے۔ یعنی یہ کہ ہم باہم محبت و الفت رکھیں، ایک دوسرے کے ساتھ اچھے انداز میں اور شرعی تقاضوں کے مطابق برتاؤ کریں جو ہمیں بہترین اخلاق تک لے جائے اور برے اخلاق سے ہمیں دور کر دے اور ہمارے دلوں سے باہمی بغض کا خاتمہ کر دے اور جس سے ہمارا باہمی طرز سلوک بلند ہو جائے اور حسد، ظلم اور دھوکہ اور ہر ایسے شائبہ سے پاک ہو جائے جو ایذا رسانی اور تفرقے کا باعث ہوتا ہے۔ کیونکہ اپنے مسلمان بھائی کو اذیت پہنچانا حرام ہے، چاہے مال کے ساتھ ہو یا برتاؤ کے ساتھ ہو یا پھر ہاتھ یا زبان کے ساتھ ہو۔ ہر مسلمان کا خون، اس کا مال اور اس کی عزت دوسرے مسلمان پر حرام ہے۔ عزت و شرف کی بنیاد صرف اور صرف تقویٰ ہے۔
اسلام ایک عالمی دین ہے اور اس کے ماننے والے عرب ہوں یا عجم، گورے ہوں یا کالے، کسی قوم یا قبیلے سے تعلق رکھتے ہوں، مختلف زبانیں بولنے والے ہوں، وہ سب بھائی بھائی ہیں اور ان کی اس اخوت کی بنیاد ہی ایمانی رشتہ ہے۔ مسلمان دنیا کے کسی خطہٴ زمین میں آباد ہوں، وہ امت اسلامی کا ایک جزوہیں۔ امت کا اتحاد اور اخوت کا یہ رشتہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کو بہت عزیز ہے، اسی لیے قرآن کریم اور احادیث نبویہ ﷺمیں جا بجا اِس پر بہت زور دیا گیا ہے، اُمّت کو اختلاف اور تفریق سے روکا گیا ہے۔ اسلام نے اخوت کو قائم رکھنے اور اسے مضبوط سے مضبوط تر بنانے کا حکم دیا ہے اور ایسے تمام اسباب اور تصرفات سے روکا ہے جو اُسے نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
اللہ پاک اُمتِ اسلامیہ میں مضبوطی سے اتحاد و اتفاق قائم فرمائے۔آمین یا رب العالمین !