(English) The Reality - ادارہ

11 /

The Reality

By: Soumaya Ghannoshi (Writer and Researcher)

Many years ago, as a young student I was here, marching with tens of thousands when they bombed Afghanistan, they bombed Iraq, they bombed Lebanon, and today here we are again. The issues changed. The killers did not. The goal did not – Dominate, divide, destroy! In 2003, they filled the air with talk of Saddam's weapons of mass destruction. They flattened Baghdad, tore its people apart, and called it liberation. A million Iraqis dead. Then they shrugged and said, oh, it was a lie. And behind the lie, Netanyahu, already sharpening the blade for the next war. Then, it was chemical weapons. Today, it is nuclear weapons. Back then, Saddam was the demon. Today, it is the Iranian regime. For three decades, Netanyahu has talked and cried, Iran is months away from a nuclear bomb. 30 years of warmongering, all to distract from the real nuclear power in the region, the only one. Who's that? Israel! 80 nuclear warheads, maybe more. No inspections, no oversight. No consequences. And what does this nuclear power do? It commits genocide in Gaza. It starves people. It uses aid as a killing trap. Guns people down, starving, exhausted, and scrambling for some flour. It bombs Syria. It invades Lebanon. It bombs Yemen. It bombs Iran. Is this a stage or an attack zone? Is Israel a (illegal) country or a mad dog? It has no humanity, no shame. For it the Middle East has no history, we memories, no human beings. Only oil and money!  So today, we say to the warmongers, enough of your lies. Enough of your greed. Enough is enough. We, the people of the world, Muslims, Jews, Christians, beleaguered, we say we don't want your ugly, cruel world of endless wars, limitless destruction, rivers of blood, trampling on nations. We want a different world, a world of justice, a world of freedom, a world of human dignity.       (Source @ MIDDLE-EAST-EYE)

 

اصل حقیقت
سمیہ گھانوشی
 
کئی سال پہلے جب میں ایک طالبہ تھی، تو میں یہاں آئی تھی۔ پھر ہم ہزاروں کے ساتھ مارچ کر رہے تھے۔ جب انہوں نے افغانستان پر بمباری کی، جب انہوں نے عراق پر حملہ کیا، جب انہوں نے لبنان کو نشانہ بنایا۔
اور آج ہم پھر وہیں کھڑے ہیں۔ بہانے بدل گئے۔ قاتل نہیں بدلے، مقصد نہیں بدلا: غلبہ، تقسیم، تباہی۔
2003ء میں انہوں نے صدام حسین کے کیمیائی ہتھیاروں کے دعوے فضاء میں پھیلا دئیے۔ بغداد کو زمین بوس کیا، اس کے لوگوں کو چیر پھاڑ دیا۔ اور کہا:’’ہم نے اسے آزاد کر دیا۔‘‘ 10 لاکھ عراقی شہید کر دیئے۔ پھر کہنے لگے’’اوہ! وہ تو جھوٹ تھا۔‘‘
اور اب نیتن یاہو اگلی جنگ کے لیے ہتھیار تیز کر رہا ہے۔ 
اس بار ہدف ایران ہے۔ وہی سکرپٹ ، وہی نعرے، وہی جعلی خوف، فرق صرف ایک حرف کا ہے: اس وقتIraqتھا، ابIranہے۔ ورنہ سب کچھ وہی ہے۔ وہی چالا کیاں، وہی غنڈے۔ اس وقت کیمیائی ہتھیاروں کا بہانہ تھا۔ آج نیو کلیئر ہتھیاروں کا اس وقت صدام شیطان تھا، آج ایرانی حکومت۔
تین دہائیوں سے نیتن یاہو کہتا آ رہا ہے کہ ایران چند ماہ میں ایٹم بم بنالے گا۔ 30 سال ہو گئے۔
سب صرف جنگ کے شعلے بھڑکانے کے لیے۔ 
یہ سب کچھ صرف ایک بات سے توجہ ہٹانے کے لیے ہے کہ اصل نیو کلیئر طاقت کون ہے؟ صرف ایک:’’اسرائیل‘‘
80 سے زیادہ ایٹمی ہتھیار رکھتا ہے ، شاید اس سے بھی زیادہ، 
نہ کوئی جانچ ، نہ کوئی نگرانی اور یہ طاقت کیا کرتی ہے؟
غزہ میں نسل کشی، لوگوں کو بھوکا مارتی ہے۔
انسانیت کے نام پر دنیا سے آنے والی امداد کوقتل گاہ کا جال بناتی ہے،آٹے کے لیے ترستے ہوئے لوگوں کو گولیوں سے بھون دیتی ہے۔ یہ شام پر بمباری کرتا ہے، لبنان پر چڑھائی، یمن پر حملے اور ایران پر بم برساتا ہے۔ 
یہ کوئی ملک ہے یا پاگل کتا؟
نہ کوئی حد، نہ کوئی شرم۔ کیونکہ ان کے لیے مشرق وسطیٰ نہ لوگ ہیں، نہ تاریخ ، نہ یادیں، بس تیل اور پیسہ۔
لہٰذا آج ہم جنگ مسلط کرنے والوں کو کہتے ہیں کہ بہت ہو گیا۔ تمہارے جھوٹ، لالچ بہت ہو گیا۔ دنیا کے تمام عوام، مسلمان، عیسائی، یہودی جو تمہارے رویوں اور اعمال سے زخم خوردہ ہیں۔ ہمیں تمہاری درندگی اور مسلسل جنگوںپر مبنی دنیا نہیں چاہیے جس میں نہ ختم ہونی والی تباہی ہو۔ خون کے دریا بہا دیے گئے ہوں اور قوموں کو مسل کر رکھ دیاگیا ہو۔ ہمیں ایک مختلف دنیا چاہیے جہاں عدل ہو۔ انصاف ہو، آزادی ہو اور انسانیت کی عزت ہو۔(ترجمہ)