الہدیٰ
دنیا کی زندگی کی حقیقت
آیت 63 {وَلَئِنْ سَاَلْتَہُمْ مَّنْ نَّزَّلَ مِنَ السَّمَآئِ مَآئً فَاَحْیَا بِہِ الْاَرْضَ مِنْ م بَعْدِ مَوْتِہَا لَیَقُوْلُنَّ اللہُ ط} ’’اور اگر آپؐ اُن سے پوچھیں کہ کس نے برسایا آسمان سے پانی ‘پھر اُس سے زندہ کر دیا زمین کو اُس کے مُردہ ہو جانے کے بعد؟ تو وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے!‘‘
{قُلِ الْحَمْدُ لِلہِ ط بَلْ اَکْثَرُہُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ(63)} ’’آپ ؐکہہ دیں کہ کل شکر اور کل حمد اللہ ہی کے لیے ہے۔لیکن ان میں سے اکثر لوگ عقل سے کام نہیں لیتے۔‘‘
آیت 64 {وَمَا ہٰذِہِ الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَآ اِلَّا لَہْوٌ وَّلَعِبٌ ط} ’’اور یہ دنیا کی زندگی تو کھیل اور تماشے کے سواکچھ نہیں۔‘‘
{وَاِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَۃَ لَہِیَ الْحَیَوَانُ م لَوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ(64)} ’’اور آخرت کا گھر ہی یقیناً اصل زندگی ہے۔ کاش کہ انہیں معلوم ہوتا!‘‘
اِس آیت میں اہل ایمان کے لیے ایک اور(آٹھویں) ہدایت آ رہی ہےکہ دیکھو مسلمانو! یہ دنیا کی زندگی تو ایک کھیل جیسی ہے۔ اس کی حیثیت تمہارے ایک سٹیج ڈرامے سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ جس طرح ڈرامے کا بادشاہ حقیقی بادشاہ نہیں اور سٹیج پر فقیر کا کردار ادا کرنے والا شخص سچ مچ کا فقیر نہیں اِسی طرح تمہاری اس زندگی کے تمام کردار بھی حقیقی نہیں۔ حقیقی کردار تو اس سٹیج سے باہر جا کر (موت کے بعد) سامنے آئیں گے۔ عین ممکن ہے یہاں کے شہنشاہ کو وہاں مجرم کی حیثیت میں اُٹھایا جائے اور جو شخص یہاں زندگی بھر لوگوں کا معتوب و مغضوب رہا ،وہاں اُسے خلعت ِفاخرہ سے نوازا جائے۔
درس حدیث
اپنے اسلام کو بچائیے!
عَنْ أَوْسِ بْنِ شُرَحْبِيلَ ؓ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللّٰهِ ﷺ يَقُولُ:((مَنْ مَشَى مَعَ ظَالِمٍ لِيُقَوِّيَهُ وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّهُ ظَالِمٌ فَقَدْ خَرَجَ مِنَ الْإِسْلَامِ)) (رواہ ا لبیہقی فی شعب الایمان )
حضرت اوس بن شرحبیل ؓ سے روایت ہے کہ اُنہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپؐ نے فرمایا:’’جو شخص کسی ظالم کی مدد کے لیے اور اس کا ساتھ دینے کے لیے چلا اور اُس کو اس بات کا علم تھا کہ یہ ظالم ہے تو وہ اسلام سے نکل گیا۔‘‘
تشریح: جب ظلم کا ساتھ دینا، اور ظالم کو ظالم جانتے ہوئے اُس کی کسی قسم کی مدد کرنا اتنا بڑا گناہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایسے شخص کو اسلام سے نکل جانے والا قرار دیا ہے، تو سمجھا جا سکتا ہے کہ خود ظلم ایمان و اسلام کے کس قدر منافی ہے، اور اللہ و رسولؐ کے نزدیک ظالموں کا کیا درجہ ہے۔گویا ظلم اسلام کی ضدہے۔