(اداریہ) وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ! - رضا ء الحق

11 /
 اداریہ
 
رضاء الحق
 
 
وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ!
 
ماہ ربیع الاوّل حضورﷺ کی ذاتِ اقدس سے منسوب ہے۔معتبر روایات کے مطابق آپﷺ اِسی مہینہ میں دنیا میں تشریف لائےاور اسی ماہ میں آپ ﷺ نے وصال فرمایا۔ گزشتہ   کم و بیش ساڑھےچودہ صدیوں میں دنیا نے کئی رنگ بدلے اور خود مسلمانوں کی تاریخ میں کئی نشیب و فراز آئے۔ اسی دوران اُمّت مسلمہ کا عزم و استقلال کبھی آسمانوں کوچھوتا دکھائی دیا اور کبھی پاتال میں نظر آیا۔ عملی سطح پر بھی مسلمانوں کا عمل و کردار کبھی قدسیوں کو چھوتا نظر آیا توکبھی اتنا شرمناک دکھائی دیا کہ دین اسلام کجا شرفِ انسانیت بھی داغدار ہو جاتی ہے۔ لیکن حضورﷺ کی ذاتِ گرامی سے جذباتی لگائو اور والہانہ عشق آج بھی مسلمان کا حقیقی روحانی اثاثہ ہے۔ آج بھی اگرکوئی بدبخت حضورﷺ کی توہین کرنے کی ناپاک جسارت کرے تو ہزاروں لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں مسلمان غازی علم الدین شہید اور ممتاز قادری شہید کی یاد تازہ کرنے کے لیے تڑپنے لگتے ہیں۔ جس ہستی پر اللہ رب العزت خود درود بھیجے‘ انسانوں کے قلم او راُن کی زبانیں اُس کی ثنا خوانی کا کیا حق ادا کر سکیں گی۔ 
ہمارے قارئین جب اِن سطور کا مطالعہ کر رہے ہوں گے تو 12 ربیع الاوّل کی آمد آمد ہو گی ۔ مسلمان حسبِ معمول اِس مبارک دن کو پوری شان و شوکت سے منائیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ  مالکِ کائنات نے آپﷺ کو اِس دنیا میں بھیج کر انسانیت پر بہت بڑا احسان فرمایا ہے‘ اسی لیے قرآن کریم میں رقم فرما دیا: ’’درحقیقت اللہ نے یہ بہت بڑا احسان کیا ہے، اہل ایمان پر جب ان میں اٹھایا ایک رسول ﷺ ان ہی میں سے جو تلاوت کر کے انہیں سناتا ہے اس کی آیات اور انہیں پاک کرتا ہے اور تعلیم دیتا ہے انہیں کتاب و حکمت کی اور یقیناً اس سے پہلے (یعنی رسول ﷺکی آمد سے قبل) تو وہ لازماً کھلی گمراہی کے اندر مبتلا تھے۔‘‘ (آل عمران: 164) اور ’’اور (اے نبی ﷺ ہم نے نہیں بھیجا ہے آپﷺ کو مگر تمام جہان والوں کے لیے رحمت بنا کر۔‘‘ (الانبیاء: 107)لیکن مسلمانوں کو لازماً یہ سوچنا ہو گا کہ حضورﷺسے جذباتی لگائو اور والہانہ عشق کے ایسے اظہارکے باوجودآپﷺ کی اُمّت آج ذلیل و رسوا کیوں ہے؟ ہم مسلمان اگر اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی تکلیف گوارا کریں تو یہ جاننے کے لیےسقراطی دانش کی ضرورت نہیں رہے گی کہ ہماری اِس ذِلت وخواری کی اصل وجہ کیا ہے۔ ہمارا حال یہ ہے کہ حضورﷺ کی غلامی کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں اور اپنے نفس کو الٰہ کا درجہ دے رکھاہے۔ قرآن‘حکیم میں اللہ تعالیٰ ہمیں حکم دیتا ہے کہ اللہ کے نبی ﷺجو دیں اُسے مضبوطی سے تھام لو اور جس سے روک دیں اُس سے رک جائو ‘لیکن بدقسمتی سے ہمارا عمل اِس کے بالکل برعکس ہے۔ (الا ماشا ءاللہ) 
نبی اکرمﷺ نے نجی اور اجتماعی زندگی کے ہر ہر گوشہ میں ہماری رہنمائی فرمائی ہے۔اگر آج مسلمان صرف’’عدل‘‘، جو اسلام کا کیچ ورڈ ہے، کے حوالہ سے خود احتسابی کریں تو ہمیں اپنے کردار‘ اپنے عمل اور رویہ سے گھن آنی چاہیے۔ حضورﷺ کی ذاتِ اقدس عدلِ انفرادی اور اجتماعی دونوں کا بے مثل نمونہ تھی۔ آج عالمِ اسلام میں عدل ناپید ہے۔ صرف اسلام دشمن قوتوں کا غزہ، کشمیر اور دیگر کئی علاقوں میں مسلمانوں پر ظلم اور اِس حوالے سے 57 مسلم ممالک اور تقریباً 2 ارب مسلمانوں کا طرزِ عمل دیکھ لیں،ہر غیرت و حمیت رکھنے والے کی آنکھیں شرم سے جھک جائیں گی۔ پھر عدل اور قسط کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ جس معاشرے میں عدل نہیں ہو گا وہاںاجتماعی عدل و قسط اور ناگزیر مساوات کا قیام بھی ناممکن ہو گا۔ لہٰذا مسلم معاشروں میںطبقاتی تقسیم آج اپنے عروج پر ہے۔ اشرافیہ اورعوام کی طرزِ زندگی میں دورِ جہالت کے آقا اور غلام کی نسبت زیادہ فرق نہیںہے، سرمایہ دار اور مزدور کے مابین فرق و تفاوت اِس سے بھی بڑھ کر ہے۔ مسجدوں میں قالین بچھانے والے اور نعت خوانوں پر نوٹ نچھاورکرنے والے اپنے ملازمین کو زندہ رہنے کا حق دینے سے بھی انکاری نظر آتے ہیں۔ بھٹہ کے مزدوروں اور ننھے منے ہاتھوں سے قالین بافی کرنے والوں سے سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کےپالتو جانور کہیں بہتر خوراک سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ تعلیم اور صحت کے شعبہ میں عدل و انصاف کا کوئی گزر نہیں اور ظلم اپنی تمام حدود سے تجاوز کر گیا ہے۔اشرافیہ کے لیے ایسے ایسے ہسپتال اور سکول ہیں جن کے سامنے فائیوسٹارہوٹل بھی مانند پڑ جائیں جبکہ سرکاری ہسپتالوں اور سکولوں کی حالت زار سے کون واقف نہیں۔ یعنی ہم مجسمِ عدل سے   اظہارِ عشق کرتے ہیں اور ظلم روا رکھنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ 
حیرت اس بات پرہے اور سوال یہ ہے کہ جس اُمت کے قائدِ حقیقی نے اپنے پیروکاروں کو نجی اور اجتماعی زندگی کے یہ تمام اَسرار و رموز سکھا‘ سمجھا اور پڑھا دئیے ہوں، اُن نبی ﷺکے اُمتی یعنی مسلمان آج ذلت و مسکنت سے لبریز زندگی گزارنے پر کیوں مجبور ہیں؟ ہم ذلیل و خوار کیوں ہیں؟ ہماری دعائیںکیوں نہیں قبول ہوتیں؟ دشمن کے دلوں سے ہماری ہیبت کیوں جاتی رہی ہے؟ دشمنانِ اسلام ہم پر حاوی کیوں ہیں؟ ہم پر خوف اور بھوک کا عذاب کیوں مسلط ہے؟ ہم اگر آپ ﷺ کی تعلیمات کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ اِس ذلت و رسوائی کی صرف اور صرف وجہ یہ ہے کہ ہم نبی مکرمﷺ کے بتائے ہوئے راستے کو ترک کر چکے ہیں۔ ہم یا توسیکولرازم کی راہ اختیار کر کے دین سے لا تعلق ہو گئے یا مذہب کی ایسی جزئیات میں اُلجھ کر رہ گئے جن کا انسان کی دنیا و آخرت کی فلاح و کامرانی سے کوئی تعلق نہیں۔ ہم نعت گوئی پر   بہت سر دھنتے ہیں‘ لیکن حضورﷺ کی دیانت‘ امانت اور راست گوئی سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔ ہم حضورﷺ کی غریب پروری پر بہت تقریریں کرتے ہیں‘ لیکن ہمارا معاشرہ ظلم و ستم کے حوالے سے بے مثل ہے۔ راہِ حق پر چلتے ہوئے جو مصائب حضورﷺ نے جھیلے، اُن کا ہم ذکر بھی کم کرتے ہیں۔
ہم اگرنبی آخرالزماں ﷺ کی مبارک زندگی پرانتہائی سنجیدگی سے غورکریں تو واضح ہو جاتا ہے کہ آپﷺ صرف آخری نبی اور رسول ہی نہ تھے‘ بلکہ اﷲ ربّ العزت نے آپﷺ پر اپنے پسندیدہ دینِ اسلام کی تکمیل بھی کردی‘ لہٰذا اب دین کا کسی نہ کسی خطۂ زمین پر نافذ اور قائم ہونا اس کا منطقی تقاضا تھا۔ حضرت آدم ؑ سے لے کر حضرت عیسیٰ ؑ تک تمام انبیاء و رُسل ؑ اسی دین کے تکمیلی مراحل کو کسی نہ کسی انداز میں آگے بڑھاتے رہے۔ اگرچہ انہیں شریعت یا لائحہ عمل مختلف دئیے گئے لیکن دین سب کا ایک تھا ‘ مشن سب کا ایک تھا‘ یعنی انسانوں پر انفرادی اور اجتماعی سطح پر اﷲ کے اُس دین کو بالفعل نافذ کیا جائے۔ حضورﷺ سے پہلے یہ کام بہت سی وجوہات کی بنا پر انجام تک پہنچایا نہ جاسکا‘ حالانکہ مختلف قوموں کو انبیاء و رُسل نے لاجواب کردینے والے معجزے دکھائے۔ جبکہ آپﷺ پر طائف میںسنگ باری ہوئی تو جسمِ اطہر لہولہان ہوگیا‘ غزوئہ احد میں دندانِ مبارک شہید ہوئے‘ یہاں تک کہ جادو کا اثر بھی ہوا۔ لیکن آپﷺ نے اﷲ کے دین کی دعوت کا کام دن رات جاری رکھا اور خالصتاً انسانی سطح پر کوشش اور جدوجہدسے دینِ حق کو جزیرہ نمائے عرب میں غالب اور نافذ کرنے کا محیر العقول کارنامہ سرانجام دیا۔ یعنی جس دین کی دعوت دی ‘ جس کی تبلیغ کی اُسے ایک حقیقت کا روپ دے کر دنیا کو دکھا بھی دیا۔
آخرت میں سرخرو ہونے کے لیے اور دنیا میں عزت و وقار کا مقام حاصل کرنے کے لیے ہمیں سیرتِ نبوی سے روشنی حاصل کرنا ہو گی اور صحابہً کے کردار کا جائزہ لینا ہو گا۔ صحابہ کرام ً آپ ﷺ کے یوم پیدائش پر دھوم دھام سے جشن تو نہ مناتے تھے ‘لیکن جہاں حضورﷺ کا پسینہ گرتا تھا وہاں صحابہؓ کا خون گرتا تھا۔ آپ ﷺ کے اشارہ ٔابرو پر جان کی بازی لگانے سے گریز نہیں کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ مکہ کی بے آب و گیاہ زمین کے یہ مکین قیصر وکسریٰ پر حاوی ہو گئے۔ ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے ہاتھ میں تلوار پکڑ کر وہ بحروبر کو روندتے چلے گئے۔ صحرا ‘جنگل اور پہاڑ کوئی اُن کے راستے میں حائل نہ ہو سکا‘حالانکہ ہماری طرح اُن کے بھی دو ہاتھ دو پائوں تھے ‘لیکن اُن کے قلوب قرآن کی دولت سے مزین تھے ‘اُن کے سامنے نبی مکرمﷺ کی سیرت تھی اور سنت و اسوہ ٔ رسول ﷺاُن کا ہتھیار تھا۔ آج بھی ہمارے مسائل کا واحد حل یہ ہے کہ ہم اپنے قول و فعل کا تضاد دور کریں۔ ہماری زبانیں اگر حضورﷺ کی نعت گوئی سے تر ہوں تو ہمارے افعال ارشادِ نبویﷺ کے مطابق ہوں۔ ہم سنت ِ رسولﷺ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیں اور صرف ماہ ربیع الاوّل ہی نہیں ہر دن ہر شب کی نسبت حضور ﷺسے جوڑ دیں۔ کسی صورت اللہ کے حکم کی خلاف ورزی نہ ہو اور کبھی سنت ِرسولﷺ کا دامن ہمارے ہاتھ سے نہ چھوٹے۔اللہ رب العزت ہمیں اپنی حفظ و امان میں رکھے اور نبی اکرمﷺ کا فکری، نظریاتی، اورعملی، ہر ہر سطح پر سچا عاشق اور پیروکار بلکہ مطیع بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین!